امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سات مسلم ممالک کے باشندوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یعنی انہیں کسی نہ کسی حیثیت میں سازشی تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا میں داخلے پر پابندی کا حکم نامہ جاری کرکے کوئی انوکھا کام نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی سیاست میں تمام مسلمانوں کو سازشی ذہن کا حامل سمجھنے کا نظریہ اب بہت حد تک پنپ چکا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے سیاست دانوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ امریکی معاشرے میں مسلمانوں کو مزید اجنبی بنادیا جائے۔ وہ نہیں چاہتے کہ امریکی سرزمین پر آباد مسلمان معاشرت اور سیاست کے مرکزی دھارے کا حصہ بنیں۔
امریکی سیاست میں یہ نظریہ تیزی سے پروان چڑھا ہے کہ تمام ہی مسلمان کسی نہ کسی مرحلے پر کوئی نہ کوئی ریاست مخالف یا سماج دشمن کام کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔ چند مسلمان زیادہ شدید خطرہ ہیں جبکہ عام مسلمان کسی بھی وقت ایسا کر تو سکتے ہیں مگر اُن سے کچھ زیادہ خطرات لاحق نہیں۔ یہ خیال تقویت پا رہا ہے کہ تمام ہی مسلمان ’’منچورین کینڈیڈیٹ‘‘ ہیں یعنی ان کے مزاج میں، تحت الشعور و لاشعور میں کہیں نہ کہیں کوئی سازش چھپی اور دبی ہوئی ہے جو مناسب موقع پاتے ہی ابھر کر سامنے آسکتی ہے۔ اور یہ کہ ان کا مذہبی رجحان کسی بھی وقت کسی ناخوشگوار واقعے کی تحریک دے سکتا ہے۔ یہ نئی سوچ امریکیوں کی نظر میں امریکا اور اس سے باہر تمام مسلمانوں کو انتہائی مشکوک بناتی ہے۔
دنیا بھر میں مسلمانوں کو سازشی اور شر پسند ذہنیت کا حامل قرار دینے کی خواہش انیسویں صدی کی نو آبادیاتی قوتوں کی پالیسیوں کے بطن سے برآمد ہوئی ہے۔ یہ رجحانات دراصل بڑھتے ہوئے حملوں اور خوف کا ضمنی نتیجہ تھے۔
جب اینگلو انڈین سویلین ولیم ہنٹر (۱۸۴۰ء تا ۱۹۰۰ء) نے ۱۸۷۱ء میں ’’دی انڈین مسلمانز : آر دے باؤنڈ اِن کنسائنس وہ ریبیل اگینسٹ دی کوئین؟‘‘ لکھی تھی تب برطانوی قیادت کے ذہن میں یہ خیال بہت توانا تھا کہ انڈیا کے مسلمان کسی بھی وقت بغاوت پر تُل سکتے ہیں۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی، شمال مغربی صوبۂ سرحد کے مختلف حصوں سے جہاد کی پکار اور ۱۸۶۰ء کے عشرے میں وہابیت کے علم برداروں کو پھانسیاں دینے کے تناظر میں ولیم ہنٹر نے جو کچھ لکھا وہ اس خوف کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بنا کہ انڈیا کے مسلمان اس نو آبادی میں برطانوی سلطنت کے لیے کسی بھی وقت بہت بڑا خطرہ بن کر ابھر سکتے ہیں۔
ولیم ہنٹر نے لکھا تھا کہ انڈیا کے بیشتر مسلمان اگرچہ پرامن ہیں مگر وہابیت کے علم بردار چند مسلمان ایسے ہیں، جو حق کی فتح کے لیے غیر مسلموں کا خون بہانے اور اپنی جان قربان کرنے سے کسی بھی صورت دریغ نہیں کریں گے۔ ولیم ہنٹر نے یہ بھی لکھا کہ انڈیا کے مسلمان مجموعی طور پر خطرہ نہیں بلکہ خدشہ ہے کہ باہر سے وہابیت داخل ہوکر انتہا پسندی کو ہوا دے گی اور اس کے نتیجے میں انڈیا کے چند مسلمان بھی برطانوی راج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
انڈیا سے دور مشرقِ بعید میں کئی زبانوں کا اسکالر اور ڈچ سول سرونٹ کرسٹیان اسنوک ہرگرونج (۱۸۵۷ء تا ۱۹۳۶ء) بھی غور و فکر کے بعد اسی نتیجے پر پہنچا تھا کہ جاوا کے مسلمان عرب دنیا کے مسلمانوں سے تحریک پاکر ایسٹ انڈیز میں نوآبادیاتی حکمرانی کے لیے خطرہ بن کر ابھر سکتے ہیں۔ ڈچ نوآبادی کے بیشتر مسلمان امن پسند تھے اور ان سے کسی بھی خرابی کی توقع سنگین حالات ہی میں وابستہ کی جاسکتی تھی مگر جو لوگ حج کے لیے جاتے تھے، ان میں بغاوت اور شورش کی ذہنیت کے ابھرنے کا امکان تھا کیونکہ حجاز جانے کا مطلب وہاں موجود وہابیت کے اثرات کسی نہ کسی حد تک قبول کرنا تھا۔
ولیم ہنٹر اور کرسٹیان اسنوک ہرگرونج نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا وہ بیان کردیا۔ ان کی سوچ نے اس خیال کو تقویت بہم پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا کہ مکہ اور استنبول جانے والے مسلک اور سیاسی نظریے کے حوالے سے تبدیل ہوسکتے ہیں اور اپنے اپنے علاقوں میں واپسی پر یہ لوگ غیر معمولی حد تک انقلابی یا جہادی بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ حج کے لیے مکہ جانا دوسرے خطوں کے مسلمانوں میں انقلابی نظریات کے بیج بونے کا ایک ذریعہ سمجھا جانے لگا۔ اِسی طور جو لوگ ترکی جاتے تھے، اُن کے بارے میں بھی یہ تاثر پنپنے لگا کہ خلافت اور پین اسلام ازم کا آئیڈیا اُن میں جڑ پکڑ سکتا ہے۔
نوآبادیاتی دور کی بڑی قوتوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کے زیر نگیں علاقوں میں آباد مسلمان کسی بھی وقت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں تو اُنہوں نے مسلمانوں پر بھروسا کرنا چھوڑ دیا۔ سوچ بدلی تو ہر معاملے میں بُو سُونگھنے کا رجحان پروان چڑھنے لگا۔ نوآبادیاتی حکمرانوں کو اپنی سلامتی خطرے میں پڑتی دکھائی دینے لگی تو انہوں نے ہر معاملے میں صرف مسلمانوں کو موردِ الزام یا مشکوک ٹھہرانا شروع کیا۔ جب ہر معاملے میں صرف مسلمانوں کو مشکوک سمجھنے کا عمل شروع ہوا تو دنیا بھر میں مسلمانوں کو سازشی سمجھنے کا رجحان بھی زور پکڑتا گیا۔
’’سازشی مسلمان‘‘ کی واپسی
آج کی دنیا میں بھی مسلمانوں کو سازشی سمجھنے کا رجحان تیزی سے پروان چڑھایا جارہا ہے۔ امریکا نے نائن الیون کے ردعمل کی آڑ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو ڈراما شروع کیا تھا، اس کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ اسلامی دنیا سے باقی دنیا کو متنفر کرنے کی کوشش تیز کردی جائے۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ جیسے جیسے طول پکڑتی جارہی ہے، مغربی ممالک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان واقعات کی روشنی میں مغربی ممالک کی قیادتیں مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں۔ انیسویں صدی کے دوران مغربی دنیا میں مسلمانوں کو مجموعی اعتبار سے دو درجوں میں تقسیم کرکے دیکھا گیا۔ ایک طرف ’’اچھے مسلمان‘‘ تھے اور دوسری طرف ’’بُرے مسلمان‘‘۔ اب یہ معاملہ آگے بڑھتا دکھائی نہیں دیتا۔ دنیا بھر میں کسی بھی مذہب کے لوگوں کو انہی دو درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے مگر مسلمانوں کے معاملے میں ’’استثناء‘‘ سامنے آیا ہے۔
نوآبادیاتی دور میں باہر سے آئے ہوئے مسلمانوں کی طرف سے حملوں کا خطرہ برقرار رہتا تھا۔ یہی تصور پھر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ مغربی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ مسلمان اُس کے طرزِ زندگی کے مخالف ہیں اور ہر حال میں اُسے ختم کرنے کے درپے ہیں۔ پیرس، برسلز، سینٹ برناڈینو اور آرلینڈو میں دہشت گردی کے واقعات کو ایسے تناظر میں دیکھا گیا ہے کہ اب تمام ہی مسلمان مشکوک سمجھے جانے لگے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ حملے جن لوگوں نے کیے، وہ نظریاتی یا مسلکی اعتبار سے انتہائی قلیل تعداد میں ہیں۔
ایک طرف تو یہ تیقن پروان چڑھایا گیا ہے کہ مغرب میں مسلمان تعداد کے لحاظ سے اندازے سے کہیں زیادہ ہیں اور دوسرے یہ کہ داعش اور دیگر انتہا پسند گروپ مسلم پناہ گزینوں کو ہتھیاروں سے لیس کرکے یورپی یونین کے رکن ممالک میں داخل کر رہے ہیں تاکہ وہ وہاں کھل کر دہشت گردی کریں اور مغربی طرزِ زندگی کو تہس نہس کردیں۔ یہی سبب ہے کہ اب مغربی دنیا میں عشروں سے آباد مسلمانوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ ہر مسلمان کو ممکنہ خطرے کے روپ میں دیکھنے کا رجحان اِتنی تیزی سے پروان چڑھا ہے کہ اب انہیں مغرب کی پوری سماجی ترتیب، طرزِ زندگی، ترقی اور جدت کے لیے خطرہ سمجھا جانے لگا ہے۔
مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھنے کی سوچ دراصل ایک اہم تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اُس کا اِدراک کم ہی لوگوں کو ہو پایا ہے۔ ہر مسلمان کو شک کی نظر سے دیکھنے اور انہیں سازشی سمجھنے کی سوچ دراصل یہ نظریہ پروان چڑھانے کے لیے ہے کہ مسلمانوں کا تعلق مغرب سے نہیں بلکہ کسی اور فطری ٹھکانے سے ہے یعنی وہ کہیں اور کے لیے بنے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اور مذہبی اور تہذیبی محور ہونا چاہیے جس سے اُن کا تعلق ثابت کیا جائے۔ یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان دنیا میں چاہے کہیں بھی آباد ہوں، اُن کے لیے راہ نمائی کا فریضہ کوئی محور ادا کرتا ہے، جس سے وہ جُڑے ہوئے ہیں۔
انیسویں صدی میں ولیم ہنٹر اور کرسٹیان اسنوک ہرگرونج جیسے لوگوں نے بھی ’’سازشی مسلمان‘‘ کا تصور پیش کیا تھا مگر ان کا مجموعی تاثر اور تخیل یہ تھا کہ باہر سے آئے ہوئے مسلمان بگاڑ پیدا کرسکتے ہیں یا نوآبادیوں سے گیا ہوا کوئی مسلمان کوئی انقلابی نظریہ قبول کرکے واپس آسکتا ہے۔ تب مکہ اور استنبول ہوکر آنے والوں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ کسی بھی علاقے کے اصل مسلم باشندوں کو لازمی طور پر بُرا سمجھنے کا رجحان ابتدائی منزل میں تھا۔ آج کے ’’سازشی مسلمان‘‘ کے حوالے سے تصور بہت مختلف ہے۔ اب اگر کوئی مسلمان مغربی سرزمین پر پیدا ہوا ہو اور وہیں پلا بڑھا ہو تب بھی وہ ممکنہ خطرے کے روپ ہی میں دیکھا جائے گا۔ یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ وہ انقلابی اور جہادی سوچ سے دور نہیں۔ ٹیلی مواصلات کے اِس ہوش ربا دور میں یہ تصور بھی پروان چڑھایا گیا ہے کہ اسلام کی ’’اصل تعلیمات‘‘ تو اب کسی بھی مسلمان تک آسانی سے پہنچ سکتی ہیں اور پہنچ رہی ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کے بارے میں جن آراء کا اظہار کیا ہے، اُن کی بنیاد پر شاید اُنہیں ’’سازشی مسلمان‘‘ کو پوری آب و تاب کے ساتھ سامنے لانے کا ذمہ دار قرار دیا جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ تو اس معاملے کو صرف آواز دینے کے ذمہ دار ہیں۔ امریکی پالیسیوں میں ایک طویل مدت سے یہ مقصد شامل رہا ہے کہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ مشکوک بنایا جائے تاکہ اُن پر بھروسا کرنے سے پہلے مغرب کے لوگ ایک نہیں، سو بار سوچیں۔ امریکا میں ان گنت تھنک ٹینک اور سیاسی و کاروباری اتحاد کے قائدین طویل مدت سے مسلمانوں کو ہر معاملے میں موردِ الزام ٹھہرانے کی پالیسی پر کاربند رہے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے ہر مسلمان کو سازشی سمجھ کر شک بھری نظر سے دیکھنے کی سوچ کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ امریکا اور یورپ میں اسلام فوبیا کئی عشروں کے دوران پنپنے والی حقیقت ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ حکومتوں نے اسلامو فوبیا کو خاصی محنت سے پروان چڑھایا ہے۔ کوشش یہ رہی ہے کہ امریکا اور یورپ کے اصل باشندے مسلمانوں کو ہر غلط معاملے اور بات کا ذمہ دار سمجھیں۔
اس وقت مغرب میں ایک پورا فکری نظام قائم اور کارفرما ہے، جو اس نکتے کی بنیاد پر استوار ہے کہ مسلمان سازشی ہوتے ہیں، یعنی کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ مغرب میں آباد مسلمانوں کی اکثریت شاید اِس سوچ کو محسوس نہ کرتی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس سوچ کا شدید منفی اثر ان پر بھی مرتب ہو رہا ہے۔ ولیم ہنٹر اور ہرگرونج کا زمانہ ہوا ہوگیا، جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ بیشتر مسلمان امن پسند ہیں اور محض چند ہیں جو خرابیاں پیدا کرتے ہیں۔ آج مغرب میں تقریباً تمام ہی مسلمانوں کو سازشی اور شر پسند سمجھا جاتا ہے۔
(کیون شوارٹز امریکا کی کانگریس لائبریری میں ریسرچ فیلو ہیں۔ وہ یونائٹیڈ اسٹیٹس نیول اکیڈمی کے وزیٹنگ پروفیسر بھی رہ چکے ہیں۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
The Muslim as a ‘Manchurian candidate’. (“Television Fanatic”. Jan.23, 2017)
Leave a Reply