
جب تیونس میں عوامی مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو کون سوچ سکتا تھا کہ زین العابدین بن علی کی حکمرانی اتنی جلدی زوال پذیر ہو جائے گی؟ کون یہ پیش گوئی کر سکتا تھا کہ مصر میں ایسا زبردست عوامی احتجاج ہوگا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں، ایک بہت بڑا بیریئر گر گیا جو آئندہ کبھی کھڑا نہیں ہوگا۔ توقع یہ ہے کہ دوسرے ملک بھی مصر کے نقش قدم پر چلیں گے اور اس کو مرکزی و علامتی اہمیت دیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آمریت کے خاتمے کے بعد اسلام پسندوں کا کردار کیا ہوگا؟
اسلام پسندی نے کئی دہائیوں سے عرب دنیا میں بدترین قسم کی آمریت کو مغرب کے لیے قابل قبول بنا رکھا تھا اور یہی حکمراں ہیں جنہوں نے اپنے اسلام پسند مخالفوں کو بدنام اور ذلیل و رسوا کر رکھا تھا، خاص طور سے مصر کی تنظیم الاخوان المسلمون کو، جو تاریخی طور پر اس ملک کی انتہائی منظم عوامی تحریک کی نمائندگی کرتی ہے اور جس کے زبردست سیاسی اثرات ہیں۔
ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ سے مصر کے حکمرانوں نے الاخوان المسلمون کو خلافِ قانون قرار دے رکھا ہے پھر بھی انہیں برداشت کیا جارہا ہے۔ اس نے لوگوں کو ہر ایک نسبتاً ڈیموکریٹک انتخابات میں چاہے وہ ٹریڈ یونین کا ہو یا پروفیشنل ایسوسی ایشنوں کا، میونسپلٹیوں کا ہو یا پارلیمنٹ وغیرہ کا، متحرک کرنے کی اپنی پرزور اہلیت و استطاعت کا مظاہرہ کیا ہے (جس میں بھی اس نے حصہ لیا ہے)۔ اس طرح مصر میں الاخوان المسلمون کی طاقت بڑھتی رہی ہے۔ اس طرح کی تنظیم کے بارے میں اور کیا پیش گوئی کی جاسکتی ہے؟
مغربی دنیا میں ہم سیاسی اسلام کے بارے میں بالعموم اور الاخوان المسلمون کے بارے میں بالخصوص سطحی تجزیوں کی توقع ہی کرتے ہیں، تاہم اسلام مختلف رجحانوں اور گروپوں کا ایک وسیع مرکب ہے جس کے مختلف رنگ، مختلف زمانوں میں سامنے آتے رہے ہیں۔
الاخوان المسلمون کا آغاز ۱۹۳۰ء کی دہائی میں ایک قانونی، نوآبادیاتی مخالف اور عدم تشدد پر مبنی تحریک کے طور پر ہوا تھا۔ جو جنگ عظیم ثانی سے پہلے صہیونی توسیع پسندی کے خلاف فلسطین میں مسلح مزاحمت کو جائز قرار دیتی تھی۔ الاخوان المسلمون کے بانی حسن البناء کی ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۵ء کے درمیان کی تحریریں ظاہر کرتی ہیں کہ انہوں نے نوآبادیات کی مخالفت کی اور جرمنی و اٹلی میں فسطائی حکومتوں پر تنقید کی۔ حسن البناء نے مصر میں تشدد کے استعمال کو مسترد کیا۔ پھر بھی انہوں نے فلسطین میں اس کو جائز قرار دیا تاکہ صہیونی اور ارگن دہشت گردی کا مقابلہ کیا جاسکے۔ وہ سمجھتے تھے کہ برطانوی پارلیمانی ماڈل اس قسم کی نمائندگی کرتا ہے جو اسلامی اصولوں سے قریب ہے۔ حسن البناء کا مقصد ایک ایسی ’’اسلامی ریاست‘‘ کا قیام تھا جو بتدریج اصلاح، عوامی تعلیم کے آغاز اور وسیع بنیادوں پر سماجی پروگراموں پر مبنی ہو۔ ان کو ۱۹۴۹ء میں حکومتِ مصر نے برطانوی قابضوں کے حکم پر شہید کر دیا تھا۔ ۱۹۵۲ء میں جمال عبدالناصر کے انقلاب کے بعد اس تحریک کو جبر و تشدد کا شکار بنایا گیا۔
کئی مختلف و ممتاز رجحانات ابھرے جو قید و بند اور ٹارچر کے تجربات کے نتیجے میں شدت پسند ہوتے گئے اخوان کے کچھ ممبروں نے (جنہوں نے بعد میں تنظیم سے قطع تعلق کر لیا) یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ حکومت کو ہر قیمت پر حتیٰ کہ تشدد کا سہارا لے کر بھی اکھاڑ پھینکنا ضروری ہے۔ جبکہ دوسرے لوگ اخوان المسلمون کے اصل موقف تدریجی اصلاح کے پابند رہے۔
اس کے کئی ممبروں کو جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا۔ ان میں سے بعض نے سعودی عربیہ کا رخ کیا جہاں وہ سعودی نظریات سے متاثر ہوئے۔ دوسرے ترکی اور انڈونیشیا جانے پر مجبور ہوئے جہاں مسلم اکثریتی معاشرے ہیں اور جہاں مختلف قسم کے طبقات ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اب بھی بہت سے مغرب میں آباد ہیں، ان کا وہاں جمہوری آزادی کی یورپی روایت سے براہ راست رابطہ ہوا۔
آج کی الاخوان المسلمون ان مختلف ویژنوں کو ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ لیکن تحریک کی قیادت، جن کا تعلق بانی نسل سے ہے اب بہت بوڑھی ہو چکی ہے۔ وہ نئی نسل کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتی۔ جو دنیا کو زیادہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اندرونی طور پر اصلاح کے لیے مضطرب ہیں اور جو ترکی کی مثال سے مسحور ہیں جن کی پشت پر باہم متضاد اثرات کام کر رہے ہیں، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تحریک کس رخ پر جائے گی۔
الاخوان المسلمون نے اس لہر کی سربراہی نہیں کی جو حسنی مبارک کے زوال کا سبب بنی۔ یہ سب کچھ ان نوجوانوں، خواتین اور مردوں کا کیا ہوا ہے۔ جنہوں نے آمریت کو مسترد کر دیا۔ الاخوان المسلمون اور بالعموم اسلام پسند اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ حسنی مبارک کے جانے کے بعد جمہوری منتقلی میں حصہ داری کی امید رکھتے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کون سا گروپ غالب آئے گا۔ اس صورتحال میں تحریک کے لیے ترجیحات کا تعین کرنا آسان نہیں۔ گزشتہ بیس برسوں میں اخوان المسلمون کی سیاسی سوچ بتدریج نمایاں ہوئی ہے۔
نہ ہی امریکا، نہ ہی یورپ اور اسرائیل مصر کے عوام کو اپنے جمہوریت اور آزادی کے خواب کو باآسانی شرمندہ تعبیر کرنے دیں گے۔ تزویراتی اور جغرافیائی و سیاسی تصورات ایسے ہیں کہ اصلاحی تحریک پر امریکی ایجنسیاں مصر کی فوج کی مدد سے بہت گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور آئندہ بھی رکھیں گی۔ جس نے ایک مدت تک ثالث کا کردار ادا کیا ہے اور یہ حیثیت اختیار کر لی ہے۔
محمد البرادعی کے پیچھے صف آراء ہو کر جو حسنی مبارک مخالف مظاہرین میں ایک نمایاں حیثیت کے ساتھ ابھرے ہیں۔ الاخوان المسلمون کی قیادت نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ سیاسی مطالبہ کر کے خود کو منظر عام پر لانے کا وقت ابھی نہیں آیا ہے، جو مغرب کو خوف زدہ کر دے۔ احتیاط کے ساتھ اصلاحات پر نظر رکھی جائے۔ جمہوری اصولوں کے احترام کا تقاضا ہے کہ تمام فورسز تشدد کو ترک کر دیں اور قانون کی حکمرانی کا احترام کریں۔ (الیکشن سے پہلے بھی اور بعد میں بھی) سیاسی عمل میں بھرپور طریقے سے حصہ لیں۔ الاخوان المسلمون کو تبدیلی کے عمل میں بھرپور طریقے سے شرکت کی ضرورت ہے اور اگر مصر میں کم سے کم جمہوری ریاست بھی قائم کی جاسکتی ہے تو وہ یہی کرے گی۔
الاخوان المسلمون کو نہ ظلم و زیادتی ختم کرسکی اور نہ ہی جبر و تشدد، یہ صرف جمہوری انداز کی بحث ہے اور مضبوط طریقے سے نظریات کی تبدیلی ہے جس کے سب سے زیادہ پریشان کن اثرات اسلامی حقائق پر پڑتے ہیں۔ جن میں شریعت کو سمجھنا اور آزادی و مساوات کا دفاع بھی شامل ہے۔ صرف تبادلۂ خیال کے ذریعے، آمریت اذیت رسانی کے ذریعے نہیں۔ ایسا حل تلاش کیا جاسکتا ہے جو لوگوں کی خواہش کا احترام کرے۔ ترکی کی مثال ہمارے لیے حوصلہ افزا ہونی چاہیے۔
مغربی دنیا آمریت کی بے جا حمایت کو جائز قرار دینے کے لیے ’’اسلامی خطرہ‘‘ کو استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ جب حسنی مبارک کے خلاف مزاحمت میں اضافہ ہوا تو اسرائیلی حکومت نے بار بار واشنگٹن سے کہا کہ مصر میں عوامی خواہش کے خلاف حکمرانوں کی پشت پناہی کی جائے، لیکن یورپ نے دیکھو اور انتظار کرو کا موقف اپنایا۔
بالآخر دونوں رویوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوری اصولوں کے حق میں زبانی جمع خرچ، سیاسی اور اقتصادی مفادات کے دفاع کے مقابلے میں کم ہی اہمیت رکھتا ہے۔ امریکا ان آمریتوں کو ترجیح دیتا ہے جو اس کو تیل تک رسائی کا اختیار دیں اور اسرائیلیوں کو اپنی سست رفتار کالونیاں بسانے دیں تاکہ عوام کے ان نمائندوں کے راستے روکے رکھے جو ان چیزوں کا سلسلہ جاری نہیں رکھنے دیں گے۔
’’خطرناک اسلام پسندوں‘‘ کی آوازوں کی نشاندہی جو اس غرض سے کی جاتی ہے کہ لوگوں کی آواز نہ سننے کو سند جواز عطا کی جائے غیرمنطقی و نامعقول حرکت ہے۔ بش اور اوباما دونوں ہی کی انتظامیہ میں امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنی امانت و دیانت کے سلسلے میں زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ یہی بات یورپ کے سلسلے میں بھی ہے۔ اگر امریکیوں اور یورپیوں نے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہیں کی تو ایشیا اور جنوبی امریکا کی دوسری طاقتیں جلد ہی اپنی تزویراتی قربت کے ذریعے مداخلت شروع کر دیں گی۔
حسنی مبارک کی معزولی کا علاقائی اثر بہت زبردست ہو گا۔ اگرچہ نتائج کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تیونس اور مصر کے انقلابات کے بعد سیاسی پیغام واضح ہے۔ عدم تشدد کے عوامی احتجاج کے ذریعے کچھ بھی ممکن ہے اور کوئی بھی آمر حکومت محفوظ نہیں ہے اور زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ صدور اور بادشاہ اس تاریخی موڑ کا دبائو محسوس کر رہے ہیں۔ بے چینی کی لہریں الجیریا، یمن اور ماریطانیہ تک پہنچ چکی ہیں۔ اردن، شام اور سعودی عربیہ میں بھی اس کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں۔ انسداد اصلاحات کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ کیونکہ ان سب مقامات پر بھی ڈر، خوف اور عدم تحفظ کے اس طرح کے احساسات پائے جارہے ہیں، ان تمام ملکوں کے حکمراں جانتے ہیں کہ جب مصر منہدم ہوچکا ہے تو اب انہیں بھی اس انجام کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
عدم تحفظ کی اس حالت نے انہیں پریشان کر دیا ہے جبکہ یہ صورتحال بہت امید افزا بھی ہے۔ عالم عرب عزت و وقار اور امید کے ساتھ بیدار ہو رہا ہے، تبدیلیاں انہیں سچی جمہوریت کی امیدیں دکھا رہی ہیں جو اپنی اقتصادی اور جغرافیائی حکمت عملی کے تخمینوں کے لیے جمہوری اصولوں کی قربانیاں دے رہے ہیں، مصر کی آزادی ایک نقطۂ آغاز معلوم ہو رہا ہے۔
دنیا بھر میں تمام مسلمانوں میں اس تحریک کو عوامی حمایت حاصل ہے، لازمی انقلاب سامنے ہے، آخر کار مشرق وسطیٰ میں صرف وہی جمہوریتیں امن قائم کر سکتی ہیں جو پوری طرح عدم تشدد کی سیاسی طاقتوں کو اپنائیں گی۔ وہ امن جو اہلِ فلسطین کو عزت و وقار دے گا۔
(بشکریہ: ’’نیویارک ٹائمز‘‘۔ ۸ فروری ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply