منتخب صدر محمد مرسی کی ۳ جولائی ۲۰۱۳ء کو برطرفی سے اِخوان المسلمون اور مصر کی نئی فوجی حکومت کے مابین بڑے پیمانے پر ایک سیاسی جنگ چِھڑ گئی۔ اس وسیع البنیاد جنگ کے سلسلے میں فوجی حکومت چپکے چپکے ان کوششوں میں بھی مصروف ہے کہ اِخوان کی ملک گیر سماجی خدمات کا مقبول و معروف نیٹ ورک کمزور کیا جائے اور بالآخر یہ نیٹ ورک اکھاڑ پھینکا جائے۔ اس باب میں فوجی حکومت کی اِس مہم کا احوال تحریر کیا جائے گا، جو اِخوان المسلمون کی سماجی خدمات، خصوصاً اسکولوں اور طبّی سہولیات کے خلاف جاری ہے۔ مصر کے عربی اخبارات میں شائع مضامین کے ایک جامع تجزیے اور اخوان کی سماجی خدمات کے تفصیلی تعارف کے ساتھ، اس باب کو اہم بنانے والی چیز، وہ ٹھوس مثالیں ہیں جنہیں اس سے قبل محض قیاس آرائی سمجھا جاتا تھا۔
اِخوان کی سماجی سرگرمیوں کا جو بھی مستقبل ہو، اسلامی تحریک کا مطالعہ کرنے والے محسوس کریں گے کہ یہ سرگرمیاں بھی اسلامی تحریک کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر مصری حکومت اخوان کو ان فلاحی سرگرمیوں سے بے دخل کر دیتی ہے تو تشدد کے لیے ایک اور دروازہ کھل سکتا ہے۔ مصر میں اسلام پسند طبقہ کو (اور بہت سے دیگر کو بھی) انتخابی سیاست، ذرائع ابلاغ میں رسائی اور مذہبی سرگرمیوں سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ اب جبکہ فوجی حکومت نے سیاسی اور سماجی سرگرمی بھی ممنوع قرار دے دی ہے تو لوگوں کے منظم ہونے کا واحد راستہ سڑکوں پر جمع ہونا ہی رہ گیا ہے۔ آج کے مصر میں سڑکوں پر احتجاج کرنا، نہ صرف خطرناک ہو گیا ہے، بلکہ سڑک ہی وہ جگہ ہے جہاں پُرامن احتجاج اور تشدد کے درمیان فرق بہت دھندلا ہے۔
اِخوان المسلمون کے سماجی اداروں کے خلاف حکومتی کارروائی سے ایسا لگتا ہے کہ اخوان کی قانون پسند اور اعتدال پسند رَوِش غلط تھی۔ ریاست کے فلاحی اداروں کا کام جہاں ختم ہوتا ہے، وہاں سے اِخوان کی سماجی خدمات کا آغاز ہوتا ہے۔ گویا اِخوان اپنے اداروں سے ریاستی فرائض کی تکمیل کا کام کرتے ہیں۔ تاہم ریاستی آپریشن سے خدشہ ہے کہ اخوان کے ادارے زیرِ زمین چلے جائیں گے، جس کے بعد ان کی مرکزی حیثیت ختم ہوجائے گی اور وہ انقلابی سَمت اختیار کر لیں گے۔ اُدھر سَلَفی جہادی گروپ بھی پورے خطّے میں اسی طرح کی فلاحی خدمات انجام دے کر ریاست کے جواز کو للکار رہے ہیں۔
حکومت کی حکمتِ عملی
ستمبر ۲۰۱۳ء میں قاہرہ کی ہنگامی امور کی عدالت نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے حکومت کو اخوان کے فلاحی اداروں پر کارروائی کا اختیار دے دیا (فیصلہ نمبر۲۳۱۵ برائے ۲۰۱۳ء)۔ اسی عدالت نے اخوان کے ادارے اور مالی اثاثے ضبط کرنے کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنا دی۔ دسمبر ۲۰۱۳ء تک اس کمیٹی نے ابتدائی تحقیقات مکمل کر لیں، اور اخوان سے وابستہ سماجی اداروں کی فہرست بھی جلد ہی مصری اخبارات کو پہنچ گئی۔ ابتدائی فہرست میں مصر کے ۲۷ صوبوں (Governorates) میں قائم ۱۱۴۲؍اداروں کے نام شامل تھے۔ ان میں کھلم کھلا اخوان سے منسلک اداروں کے ساتھ ساتھ وہ آزاد ادارے بھی شامل تھے جن میں، کمیٹی کے بقول، اخوان کا اثر و رسوخ تھا۔ ان میں قابلِ ذکر اسلامی تنظیموں الجمیعہ الشریعہ (Al-Gam’iyya Al-Shar’iyya) اور انصار السنہ (Ansar al-Sunna) کی مقامی شاخیں شامل تھیں۔ کمیونٹی انجمنوں کی یہ فہرست شائع ہوئی تو لگ بھگ ان ہی دنوں مصری اخبارات نے اخوان سے منسلک ۸۷؍اسکولوں کی ایک فہرست بھی شائع کر دی۔ انجمنوں اور اسکولوں، دونوں کے اثاثے فوراً منجمد کر دیے گئے، مزید تحقیقات کا اور ممکنہ ضبطی کا اعلان کر دیا گیا۔
مصری حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں فعالیت کے آزاد مراکز کو اُبھرنے سے روکا جائے اور اخوان کے خلاف پوری مہم اسی کوشش کا ایک حصہ ہے۔ مثال کے طور پر جولائی ۲۰۱۳ء میں حکومت نے اپنے اس منصوبے کا اعلان کیا کہ مصر میں کام کرنے والی تمام عوامی تنظیموں (این جی اوز) کو تحلیل کیا جائے گا اور وہ وزارتِ سماجی بہبود کے پاس ۴۵ دن کے اندر دوبارہ اندراج کرائیں گی، اگرچہ اس میعاد میں اضافہ کر دیا گیا اور اب اس اعلان پر عمل درآمد غیر واضح ہے۔ حکومت کا مقصد ہے کہ عوامی تنظیمیں سماجی خدمات ایک حد کے اندر رہ کر فراہم کریں، اس سے آگے نہ بڑھیں تاکہ اس کے مخالف، خواہ اسلام پسند ہوں یا غیر، اپنی سماجی خدمات کے بَل پر کوئی سیاسی چیلنج پیدا نہ کر سکیں۔
انور السادات نے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں آزاد معیشت کی اصلاحات کو قبول کیا، ۱۹۹۰ء کی دہائی میں اقتصادی اصلاحات اور ساختی مطابقت کی پالیسیاں شروع کی گئیں، جن سے مصر میں سماجی تحفظ کی سہولت بتدریج سکڑ گئی ہے۔ کئی عشروں کے دوران یہ مصر کے غیر ریاستی عناصر، بشمول اسلام پسند گروپ تھے، جنہوں نے کروڑوں مصریوں کو سماجی خدمات فراہم کیں۔ مثال کے طور پر ۲۰۱۳ء کی فوجی بغاوت سے قبل کے برسوں میں اخوان کی ’’اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن‘‘ (آئی ایم اے) سالانہ ۲۰ لاکھ مصریوں کو طِبی سہولت دے رہی تھی۔ آئی ایم اے کی اِملاک کی ضبطی کے بعد ایک مریض نے صورتحال کا شکوہ کیا، ’’حکومت ہمیں نہ تو ایسے اسپتال دیتی ہے جو انسانوں کے لائق ہوں، نہ وہ ایسے اسپتالوں کو کام کی اجازت دیتی ہے، جہاں ہمارا علاج عمدہ ہوسکے‘‘۔ چنانچہ ایسے طبی مراکز اچانک بند کرنے سے خطرہ ہے کہ وہ افراتفری شروع نہ ہو جائے جسے روکنے کے لیے حکومت کوشش کررہی ہے۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت سماجی خدمات کے نیٹ ورک کو اس کی موجودہ صورت میں جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہے تو اس کے لیے ناقابلِ قبول خطرات پیدا ہوتے رہیں گے۔ مصر کے شہروں اور دیہات میں اخوان کی سماجی خدمات کے گہرے اثرات عشروں سے پھیلے ہوئے ہیں اور ان اثرات کی بنا پر اخوان کے لیے کھلم کھلا حمایت نہیں، تو کم از کم بڑے پیمانے پر خیرسگالی کے جذبات ضرور پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ جب تک یہ نیٹ ورک موجود رہے گا، مصر کے نئے حکمرانوں کے خلاف جذبات کا مرکز بننے کا امکان بھی موجود رہے گا، جہاں اخوان کے کارکنان اپنے وسائل سے مصریوں کے روز مرہ مسائل حل کر کے ان میں اپنی حمایت بڑھا سکیں۔
مصر کے نئے حکمراں، اخوان کو کچلنے کی خواہش رکھتے ہیں، تاہم وہ سماجی استحکام بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ صورتحال کو متوازن بنانے کے لیے وہ ان سماجی اداروں کو چلانے کے لیے نئی انتظامی ٹیموں کا تقرر کر رہے ہیں۔ یہ ٹیمیں سرکاری بیورو کریٹس اور سماجی خدمات کی شخصیات پر مشتمل ہیں۔ ایسا کر کے حکومت یہ جُوا کھیل رہی ہے کہ سماجی خدمت کے مراکز سے اخوان کو دور کر کے اس کی حمایت میں کمی لائی جائے اور اس عمل کے دوران سماجی انتشار کم سے کم پیدا ہو۔ حکومتی انتظامی ٹیمیں ایک کے بعد ایک اسپتال اخوان سے لے رہی ہیں اور ساتھ اعلان کرتی جا رہی ہیں کہ سماجی ادارے بند نہیں کیے جائیں گے اور معیار بھی برقرار رہے گا۔
ایسا کرنا حکومت کے لیے ایسا ہی ہے جیسے چھوٹی مصیبت سے جان چھڑا کر بڑی مصیبت مول لینا۔ حکومت اسلام پسندوں کو کونے میں دھکیل کر دراصل پٰرتشدد ردِعمل کی طرف مائل کررہی ہے۔ وہ سماجی و فلاحی اداروں، سیاسی سرگرمیوں، مذہبی تعلیم جیسے شعبوں سے اِخوان المسلمون کے موجودہ اثرات مٹانے اور مستقبل میں ایسے اثرات کے امکانات بھی ختم کرنے پر کمربستہ ہے۔ گویا اخوان کوئی جنگلی پودا ہے جسے شہری آبادی میں پھلنا پھولنا نہیں چاہیے۔
اب اخوان کے لیے کرنے کا یہی کام رہ گیا ہے کہ احتجاج کے جتنے طریقے ہوسکتے ہیں، انہیں اپنا لے۔ اخوان المسلمون نے دو کلیدی مطالبات پیش کیے ہیں: اول، محمد مرسی کی بحالی اور دوم، فوج کے لیڈروں کی سزایابی۔ بے نتیجہ احتجاج جتنا طول پکڑتا جائے گا، اُتنا ہی مایوس کارکنوں کے تشدد میں جا پڑنے کا خطرہ بڑھتا جائے گا۔ نیز، احتجاج میں آگے آگے رہنے والے لوگ پولیس اور سیکورٹی فورسز کے غضب میں آئیں گے، جس کا ردعمل تشدد کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
اخوان المسلمون کا طبّی نیٹ ورک
اخوان کے معروف رہنما احمد المالت نے ۱۹۷۷ء میں اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن قائم کی، جس کا مقصد کم خرچ پر اعلیٰ معیار کا علاج معالجہ فراہم کرنا تھا۔ یہ تنظیم اخوان المسلمون کی منظم سماجی خدمات میں سب سے بڑی اور سب سے قدیم ہے۔ حالیہ فوجی بغاوت تک آئی ایم اے ۲۲؍اسپتال اور سات تخصیصی طبی مراکز (چار ڈائیلیسس سینٹر، ایک امراض چشم، ایک بانجھ پن اور ایک معذوروں کا طبی مرکز) چلا رہی تھی۔ ’’موبائل طبی کارواں‘‘ ان کے علاوہ تھے۔
۳ جولائی ۲۰۱۳ء کی فوجی بغاوت کے بعد سیکورٹی سروسز نے آئی ایم اے کے ہر ہر اسپتال جا کر چیک کیا کہ وہ رجسٹرڈ ہیں اور ان کی دستاویزات مکمل ہیں۔ آئی ایم اے کو مجبور کیا گیا کہ وہ اخوان المسلمون کے نمایاں رہنماؤں کو اپنے انتظامی بورڈ سے الگ کر دے، جن میں فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے ارکان پارلیمان حلمی الجزر اور جمال حشمت کے نام بھی شامل ہیں۔ آئی ایم اے کے ساتھ وابستہ اخوان کے بعض فعال رہنما مثلاً محی الزیت (نصر شہر میں سینٹرل چیریٹی اسپتال کے ڈائریکٹر) بیرون ملک چلے گئے۔ بعض کو مثلاً وائل طالب (حلوان میں آئی ایم اے کے اداروں کے قیام میں پیش پیش) کو گرفتار کر لیا گیا۔
دسمبر ۲۰۱۳ء میں آئی ایم اے کو اخوان سے منسلک سماجی تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا، جن کے اثاثے منجمد ہونے تھے۔ آئی ایم اے نے فوراً ہی سرکاری روزنامہ ’الاہرام‘ کے صفحہ اوّل پر اشتہار کے ذریعے حکومت سے درخواست کی کہ اسے ’’دو ملین بیماروں اور ان لاکھوں مریضوں کے پیشِ نظر کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے جو متواتر ڈائیلیسس کے ضرورت مند ہیں، قبل از وقت ولادت پاچکے ہیں، یا وہ جو اپنے علاج کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے، نیز جنہیں معائنے کے لیے اسپتال آنا ہوتا ہے‘‘۔ ڈائیلیسس سینٹروں کے باہر کی صورتحال سے واضح نہیں ہوتا کہ اثاثے منجمد کیے جانے سے آئی ایم اے کی کارکردگی اور اہلیت پر کیا اثر پڑا۔ آئی ایم اے کے ایک منیجر نے ایک انٹرویو میں امید ظاہر کی تھی کہ اثاثے چند دنوں میں بحال کر دیے جائیں گے۔ چند ماہ بعد کیے گئے انٹرویو میں آئی ایم اے کے ڈائریکٹر اسپتال انتظامیہ نے بتایا کہ تین نئے اسپتال عنقریب قائم ہونے والے ہیں۔
تاہم ۲۰۱۵ء کے اوائل میں حکومت نے اچانک آئی ایم اے کا باضابطہ کنٹرول سنبھال لیا اور اثاثے ضبط کر لیے۔ اثاثوں کی مالیت ۳۰۰ ملین مصری پونڈ (تقریباً ۳۹ ملین ڈالر) تھی۔ اسپتالوں کی مجلس انتظامیہ تحلیل کر کے حکومت نواز شخصیات کو شامل کرایا گیا۔ آئی ایم اے کے مالی منتظمین کی خاص طور پر چھان پھٹک کی گئی، کیونکہ حکومت کے بقول آئی ایم اے کی بعض رقوم ’’دہشت گردی کی مالی معاونت‘‘ میں استعمال ہوئیں۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اخوان کے اثاثوں کی نگرانی کرنے والی (سرکاری) کمیٹی نے آئی ایم اے کا بورڈ آف ڈائریکٹر تحلیل کر کے ایسی شخصیات شامل کیں جو حکومت نواز اور وزارت صحت سے تھیں۔ اب آئی ایم اے کے نئے چیئرمین حکومت کے کٹّر حامی علی جمعہ ہیں، جو مصر کے سابق مفتیٔ اعظم بھی ہیں۔ وہ اخوان کے سخت ترین ناقدین میں سے ہیں۔ ان کی ایک وجہ شہرت بغاوت کے بعد دیا جانے والا خطبہ ہے، جس میں انہوں نے مرسی کے حامی مظاہرین کو ’’گھٹیا لوگ‘‘ قرار دیتے ہوئے فوجی اور پولیس اہلکاروں کو شہ دی کہ ’’ان کے سینے پر گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے‘‘۔ علی جمعہ کے نئے عہدے پر تقرر کے بعد آئی ایم اے کے ایک اسپتال میں ایک مریض کا ردعمل یہ تھا، ’’اب بھیڑیا بھیڑوں کی نگرانی کرے گا‘‘۔
اِخوان کے اسکول
اِخوان کے سماجی خدمات کے نیٹ ورک میں دوسرا اہم بازو نجی اسکولوں کا ہے۔ جس طرح آئی ایم اے کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے ستمبر ۲۰۱۳ء والے عدالتی فیصلے (جس میں اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا) کو بنیاد بنایا گیا تھا، اُسی طرح اخوان کے اسکولوں کو مذکورہ عدالتی فیصلے کی بنیاد پر ریاستی کنٹرول میں لے لیا گیا۔ ابتدا میں ان اسکولوں کو وزارتِ تعلیم کی ایک کمیٹی کے زیرِ انتظام کام جاری رکھنے کو کہا گیا۔ بعد میں ان اسکولوں کو ’’۳۰ جون کی اسکول کمیٹی‘‘ کے حوالے کر دیا گیا۔ ریاست کا الزام ہے کہ اخوان اِن اسکولوں کو فوج اور پولیس کے خلاف تشدد پر اُکسانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر ایک طالبعلم کے والدین نے عربی کے اسباق کی نشان دہی کی جن میں طلبا کو پڑھایا گیا کہ فوج اور پولیس مظاہرین کو ہلاک کر رہے تھے۔ اسی طرح ماضی کی کسی کہانی کے اچھے اور برے لوگوں کی تمثیل پیش کرتے ہوئے اساتذہ بچوں کو یہ بتاتے کہ برے لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے آج کل کے فوجی اور پولیس والے۔ اساتذہ ہر گفتگو میں سیاست داخل کر دیتے۔ اساتذہ کے نزدیک ۳۰ جون کا واقعہ بغاوت تھی، انقلاب نہیں۔
بعض واقعات میں سیکورٹی فورسز براہِ راست اسکول پہنچ گئیں اور وہاں سے لوگوں کو اس الزام پر گرفتار کیا کہ وہ ریاست پر حملے کرانے کے لیے طلبہ کو بھرتی کر رہے تھے۔ اسکولوں سے منسلک افراد نے نہ صرف یہ الزامات مسترد کیے بلکہ انہوں نے ان تحقیقات کو لایعنی بھی قرار دیا۔ اسیوط میں ’’حرا اسکول نیٹ ورک‘‘ کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ حکومت نے کلاس روم کے ایک کارٹون کو اسکول کی بنیاد پرست سوچ کا ثبوت قرار دیا، جس میں کارٹون چار انگلیوں سے رابعہ کا نشان بنا رہا تھا۔
حکومت نے آئی ایم اے کا کنٹرول بڑے پُرسکون انداز میں سنبھال لیا تاہم اسکولوں کے معاملے میں زیادہ پس و پیش سے کام لیا۔ بیوروکریسی کی ایک رکاوٹ یہ ہے کہ حکومت ان اسکولوں کے ساتھ براہِ راست رابطہ نہیں رکھ سکتی بلکہ جو کچھ بھی کہنا ہے، اسے ۳۰ جون کی مذکورہ کمیٹی کے توسط سے کہنا ہے۔ یہ کمیٹی اپنا سرکاری استحقاق بڑی شدومد سے منواتی ہے۔ بعض واقعات میں عدالت نے وزارتِ تعلیم کے اہلکاروں کو اس لیے موردِ الزام ٹھہرایا کہ انہوں نے اسکولوں سے براہ راست معاملہ کیا۔ دوسری صورتوں میں وزارتِ تعلیم کے پاس عمل درآمد کی صلاحیت ہی کم تھی۔ چنانچہ اسکولوں کے اصل بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بورڈ تحلیل کرنے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے بدستور کام جاری رکھا، گویا کچھ بدلا ہی نہیں۔
حکومت کے نقطۂ نظر سے ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ستمبر ۲۰۱۳ء کا عدالتی فیصلہ، جو اِخوان کی املاک ضبط کرنے کی قانونی اساس ہے، صرف کارپوریٹ ملکیت کے اداروں پر لاگو ہوتا ہے (مثلاً آئی ایم اے) جبکہ اسکولوں کا معاملہ یہ ہے کہ بہت سے اسکول انفرادی ملکیت میں ہیں، اور ان افراد میں اخوان کے نمایاں رہنما بھی شامل ہیں۔ مثلاً وفا مشہور [سابق مرشدِ عام محمد مشہور (متوفی ۲۰۰۲ء) کی صاحبزادی جو ۲۰۱۰ء کے پارلیمانی انتخابات میں اخوان کی امیدوار بھی تھیں]، پارلیمان کے قدیم رکن محسن رعدی، اور خدیجہ الشاطر (اخوان کے اہم رہنما خیرات الشاطر کی صاحبزادی)۔
اسکولوں کے بعض مالکان نے اخوان سے اپنی وابستگی کے باوجود حکومت کا یہ دعویٰ چیلنج کر دیا ہے کہ وہ ستمبر ۲۰۱۳ء کے فیصلے کی بنیاد پر ان کی نجی ملکیت ضبط کر سکتی ہے۔ بعض صورتوں میں مالکان کو کامیابی بھی ہوئی۔ بہت سے اسکولوں نے دسمبر ۲۰۱۳ء کی ان تحقیقات کو فوراً ہی چیلنج کردیا کہ وہ اخوان سے منسلک تھے، اور تین اسکول ان کے مالکان کو واپس دے دیے گئے۔ ۲۰۱۴ء کے اواخر میں ۹؍اسکولوں کے مالکان کی ہمدردانہ سماعت نچلی عدالتوں میں ہوئی۔ ججوں نے فیصلہ سنایا کہ ان اسکولوں کی ضبطی درست نہ تھی، کیونکہ مصر کا آئین نجی ملکیت کو ضبطی سے تحفظ دیتا ہے، اِلّا یہ کہ کوئی انتہائی صورت ہو۔
ان واقعات سے وزارت انصاف اور سیکورٹی سروسز نے یہ نتیجہ نکالا کہ وزارتِ تعلیم اسکولوں کو راہِ راست پر لانے میں بنیادی طور پر نااہل ہے۔ وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ فیصلے پر مکمل عملدرآمد کرانے کی اس کے پاس استعداد نہیں۔ اس صورتحال پر ایک اخبار ’’المصر الیوم‘‘ نے وزارت تعلیم پر تنقید کی اور کہا کہ وہ اپنی رسمی کارروائیاں کرتی رہی، اسکولوں کے محض مالی معاملات سے نمٹتی رہی اور ’طلبہ کے ذہنوں کو انتہا پسندی سے بچانے میں ناکام ہو گئی‘۔
حکومت نے اخوان کے اسکولوں کا کنٹرول لینے کی جنوری ۲۰۱۵ء میں نئی کوششیں شروع کر دیں، نیا خون داخل کرنے کے طور پر تمام اسکولوں میں نئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا تقرر کیا گیا۔ وزارت نے خاص طور پر اعلان کیا کہ یہ نئے منتظمین اپنے فرائض سنبھالنے سے پہلے سیکورٹی سروسز کی جانب سے کلیئر کیے جائیں گے۔ اسکولوں کے لیے نئی رہنما ہدایات میں واضح کیا گیا ہے کہ طالبات اور خاتون اساتذہ چہرے کا حجاب یا نقاب نہیں پہن سکیں گی۔ اسی طرح طالبات سے حجاب (اسکارف) کا تقاضا نہیں کیا جائے گا۔ فروری ۲۰۱۵ء میں وزارت نے دعویٰ کیا کہ اخوان کے ۸۵ فیصد اسکول اس کے کنٹرول میں آچکے ہیں۔ فروری کے اواخر میں مصری صدر نے متعدد اقدامات کو قانون کی شکل دے دی، اب مصری حکام کو اختیار حاصل ہو گیا کہ سرکاری نظم کے لیے خطرہ تصور کیے جانے والے گروپوں کے اثاثے ضبط کرلیں (یہ محض اتفاق نہیں کہ ستمبر ۲۰۱۳ء کے مقدمے میں اخوان کو سرکاری نظم کے لیے خطرہ قرار دیا گیا تھا)۔ چنانچہ اخوان کے اسکولوں کو ضبط کرنے کا قانونی جواز مل گیا تو مارچ میں اخوان کے صف اول کے رہنماؤں کے اثاثے ضبط کرنے کی باضابطہ اجازت دے دی گئی۔
مذکورہ بالا تحریر میں حکومت کے ان بتدریج اقدامات کا ذکر کیا گیا، جو وہ اخوان کے سماجی خدمات کے نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کر رہی ہے۔
ذیل میں جائزہ لیا جائے گا کہ سماجی خدمات کی فراہمی کو اسلام پسند حلقے اپنی وسیع تر فعالیت کے لیے کتنا اہم سمجھتے ہیں۔ اس سے دو پہلو سامنے آتے ہیں۔ اول، سماجی خدمات کی فراہمی میں اخوان کی قانون پسند (Legalist)، مطابقت پیدا کرنے والی سوچ بظاہر ناکام ہو گئی۔ دوم، مشرقِ وسطیٰ کے دیگر علاقوں میں سَلَفی جِہادیوں کی جانب سے سماجی خدمات کی فراہمی اس سلسلے میں ایک متبادل نمونہ بن سکتا ہے۔
قانون کی پابندی آپ کو بچا نہیں سکتی!
اسلامی گروپوں کی ایک اہم خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ ریاستوں کے قوانین کی پابندی کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے اپنے اندر گنجائش پیدا کرتے ہوئے سیاسی نظام میں شرکت کی، قومی مکالمہ اپنایا، اور اپنی سرگرمیوں کو بڑی حد تک حکومت کے قوانین کے ماتحت لائے۔ اخوان المسلمون کی جانب سے گنجائش پیدا کرنے کی ایک مثال یہ ہے کہ اس نے ابتدا ہی سے ریاست کے خلاف خفیہ باغیانہ سرگرمیاں کرنے کے بجائے عوام کو کھلم کھلا سماجی خدمات فراہم کیں۔
اخوان نے آغاز ہی سے اپنی فلاحی تنظیموں کو متعلقہ سرکاری اداروں میں رجسٹرڈ کرایا [بشمول وزارتِ سماجی بہبود، وزارت تعلیم، وزارتِ اوقاف (مساجد سے متعلق فلاحی اداروں کے لیے) اور وزارتِ صحت] حسن البنا نے اخوان المسلمون کو قیام کے فوراً بعد ہی ۱۹۲۸ء میں برطانیہ کے زیرِ سایہ چلنے والی حکومت کے پاس رجسٹرڈ کرایا۔ جب ۱۹۳۹ء میں وزارتِ سماجی بہبود قائم ہوئی تو مصر میں موجود تمام عوامی تنظیموں کو ہدایت کی گئی کہ تحلیل ہو جائیں اور نئی رہنما ہدایات کی پابندی کرتے ہوئے اپنی تنظیمِ نو کریں، اخوان نے بھی اس حکم پر عمل کیا۔ جمال ناصر کے دورِ حکومت کے بعد اخوان نے اپنے فلاحی اداروں کو حکومت کے پاس اندراج کرایا، حالانکہ ان رہنما ہدایات میں حکومت کو بے حد اختیارات دیے گئے تھے۔
اپنے سماجی و فلاحی اداروں پر حکومت کے کریک ڈاؤن سے خود اخوان بھی حیران تھے۔ جب آئی ایم اے کو اخوان سے منسلک فلاحی تنظیموں میں شامل کیا گیا تو اس کے فوراً بعد جنوری ۲۰۱۴ء میں آئی ایم اے کے ایک منیجر نے یاد دلایا کہ ان کی تنظیم وزارت سماجی بہبود کے ساتھ تعاون کرتی آئی ہے، اور امید ظاہر کی کہ حکومت کے ساتھ معاملات جلد ہی طے ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا تھا ’’ہم ریاست کے دشمن نہیں ہیں، ہم اس کا حصہ ہیں، اگرچہ کہ ہمیں ریاست کی پالیسیوں سے اختلاف ہے‘‘۔ حتیٰ کہ حکومت کی طرف سے تختہ الٹے جانے کے ایک سال بعد بھی آئی ایم اے نے وزارت کے ساتھ ماضی کے اچھے تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ آئی ایم اے کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ کا کہنا تھا ’’وزارتِ سماجی بہبود نے گزشتہ ایک سال کے دوران نہ صرف یہ کہ کسی خلاف ورزی کا اندراج نہیں کیا، بلکہ آئی ایم اے کو سراہا ہے‘‘۔ اسی طرح اخوان کی دلیل تھی کہ ان کے اسکولوں نے وزارتِ تعلیم کے نصاب کی رہنما ہدایات کی سختی سے پابندی کی ہے۔
یہ بدقسمتی ہے کہ اخوان کی قانون پسندانہ سوچ ان کے سماجی اداروں کو حکومت سے بچانے میں ناکام رہی بلکہ ان اداروں کی توڑ پھوڑ میں معاون رہی۔ جیسا کہ Wiktorowicz کہتا ہے، استبدادی حکومتیں سوسائٹی میں قوانین اور رہنما ہدایات تشکیل دیتی ہیں تاکہ ان کی سلطنت میں ’’فعالیت‘‘ دکھائی دے، اور پھر اس ’’فعالیت‘‘ کو کنٹرول کیا جاسکے۔ جب حکومت نے کریک ڈاؤن کا، یا محض ضبطیوں کا فیصلہ کیا تو قانون پسند طریقوں کی بنا پر اخوان کے سماجی اداروں، اثاثوں، اور کارکنوں کی مکمل فہرست حکومت کے پاس پہلے سے موجود تھی۔
اس کے علاوہ مصر کی سول سوسائٹی کے قوانین کی بعض خصوصیات اخوان کے آڑے آتی ہیں، جن کی بنا پر وہ حکومت کے فیصلوں کو عدالت کی مدد سے بدلوا نہیں سکتے۔ مصر کی فلاحی تنظیموں کی بابت قوانین (قانون ۸۴/۲۰۰۲) میں ایک شِق مصری عدالتوں کے مقابلے میں وزارتِ سماجی بہبود کو غیر معمولی اختیار دیتی ہے، اس اختیار کے تحت کسی تنظیم اور وزارت کے درمیان نزاع کی صورت میں وزارت خود قانونی حکم صادر کر سکتی ہے۔ وزارت کسی بھی تنظیم کو تحلیل کر سکتی ہے اور اس تنظیم کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ وزارت ہی سے اپیل کرے۔ عملاً اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ تیسرے فریق (جیسے مصر کا عدالتی نظام) کو تحلیل کے فیصلوں میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہوتا، اِلّا یہ کہ خود وزارت ہی ایسا کرنے کی اجازت دے۔ یہی وجہ ہے کہ اخوان کے سماجی اداروں کے خلاف مہم اتنی تیزی سے آگے بڑھی: فروری کے اواخر میں ۱۶۹، یکم مارچ کو ۱۱۲؍اور مارچ کے وسط میں مزید ۹۹؍اداروں کو تحلیل کر دیا گیا۔ اگر اخوان المسلمون ان سماجی اداروں کو بطور کاروباری ادارے (جیسے بہت سے اسکول تھے) رجسٹرڈ کراتی تو وہ کم از کم عدالتی نظام کے ذریعے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتی۔
سماجی و فلاحی سرگرمیاں اخوان کو عوام میں بھرپور سیاسی حمایت دلاتی رہی ہیں۔ اخوان بلاامتیاز فلاحی کام کرتے ہیں، عوام کو ان کی خدمات کے حصول کے لیے کوئی رکاوٹ عبور نہیں کرنی پڑتی، نہ ہی کوئی وابستگی ظاہر کرنی ہوتی ہے۔ اخوان کھل کر کہتے رہے ہیں کہ ان کی فلاحی سرگرمیاں سب کے لیے عام ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ ان سرگرمیوں کو ایک سیاسی پارٹی کی مانند سمجھتے ہیں، جو ووٹروں تک جاتی ہے اور انہیں متحرک کرتی ہے۔ اخوان/فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی عوامی سماجی سوچ کی ایک مثال ۲۰۱۳ء کے موسم گرما میں ہونے والے رن اَپ پارلیمانی انتخاب کے دوران سامنے آئی جب انہوں نے “Together we Build Egypt” (آؤ! سب مل کر مصر کی تعمیر کرو) کا نعرہ دیا (بدقسمتی سے بغاوت نے انتخابات کی تیاریوں پر پانی پھیر دیا)۔
ایک قانونی اور باضابطہ اسلامی فلاحی نیٹ ورک کو برداشت نہ کرنے کی حکومتی سوچ دراصل اس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ ان سماجی اداروں کو اخوان کی طاقت سمجھتی ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ یہیں سے اخوان کو سیاسی حمایت اور کارکن ملتے رہیں گے اور یہ ادارے اس کے لیے مستقل خطرہ بنے رہیں گے۔ اس سوچ کا ایک اثر تو یہ ہو سکتا ہے کہ اخوان کی فعالیت زیرِ زمین چلی جائے۔ بہت سے مصنفین نے تنظیمی اقتصادیات کے نقطۂ نظر سے فلاحی سرگرمیوں کے موضوع کا مطالعہ کیا ہے، تاکہ یہ جانا جاسکے کہ تحریکیں اپنے کارکنوں کو مظاہروں اور تشدد جیسی پُرخطر سرگرمیوں میں شرکت پر کس طرح راغب کرتی ہیں۔ اگر ان پُرخطر سرگرمیوں میں شرکت یا تنظیم کی رکنیت حاصل کرنے کو فلاحی سرگرمیوں سے فائدہ اٹھانے کی شرط بنا دیا جائے تو مفت خوروں (Free-riders) کی روک تھام ممکن ہے۔ جب تک اخوان سڑکوں پر احتجاج جیسی پُرخطر سرگرمیوں پر زور دیتی رہے، اور خاص طور پر اگر مختلف راستہ اپناتے ہوئے حکومت کے خلاف تشدد اختیار کرے، تو فلاحی سرگرمیاں محض تنظیم کے لیے مخصوص کرنے کی سوچ زیادہ پُرکشش معلوم ہوگی۔
فلاحی خدمات کے متبادل نمونے
اخوان نے مصر میں قانون پسندی کا جو راستہ اپنایا، وہ اس کے لیے کمزوری بن گئی، تاہم مصر سے باہر سَلَفی جہادی گروپوں کی متبادل سوچ کو فروغ ملا ہے، جس میں وہ فلاحی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے ریاست کے مقابل نظر آتے ہیں۔
یہ کم از کم ایک جزوی حقیقت ہے کہ سلفی جہاد کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ (سیاست یا تبلیغ جیسی) پُرامن سرگرمیاں سماجی و سیاسی تبدیلی کے لیے ناکافی ہیں۔ تاہم حال ہی میں ان سلفی جہادیوں نے فلاحی کاموں پر زیادہ توجہ دینا شروع کر دی ہے تاکہ اپنے پُرتشدد رویے کو سہارا دے سکیں۔ مثال کے طور پر مالی میں القاعدہ کے ایک ٹھکانے سے جو دستاویزات ملی ہیں، ان میں جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کے لیڈر ناصر الوحیشی کا ایک خط بھی ہے جو انہوں نے مالی میں اپنے ہم منصب کو لکھا اور اس خط میں فلاحی سرگرمیوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی:
’’زندگی کی سہولتیں اور روزمرہ کی ضروریات جیسے خوراک، بجلی اور پانی فراہم کر کے (لوگوں کی) حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ان چیزوں کی فراہمی لوگوں پر بڑا اثر ڈالے گی، وہ ہمارے ہمدرد ہو جائیں گے اور محسوس کریں گے کہ ان کی قسمت ہمارے ساتھ رہنے میں ہے۔ اس کا مشاہدہ ہمیں (یمن میں) مختصر تجربے کے دوران ہوا۔‘‘
اسلامک اسٹیٹ نے شام اور عراق میں سماجی خدمات کی فراہمی، یا وسیع تر معنوں میں نظم و نسق، اور تشدد کا ملغوبہ نافذ کیا ہے۔ اس کی فراہم کردہ خدمات نہ صرف ریاست کا متبادل بنتی ہیں بلکہ بعض صورتوں میں یہ سابق سرکاری بیورو کریسی ہی ہے جس میں اسلامک اسٹیٹ نے اپنے کارکن داخل کر دیے ہیں۔
اس اندازِ فکر اور اخوان کے طریقۂ کار میں ایک نمایاں فرق ہے۔ سلفی جہادی گروپ قومی ریاست کو نکال باہر کر کے اپنی فلاحی خدمات پیش کرتے ہیں (مثلاً القاعدہ کا یمن میں تجربہ) یا پھر فلاحی سرگرمیاں وہاں قائم کرتے ہیں، جہاں ریاست ختم ہو چکی ہو (مثلاً آج شام اور عراق کے چند علاقے)۔ اخوان جیسے اسلامی گروپوں کے نزدیک فلاحی سرگرمیاں موجودہ نظام ہی کے اندر رہ کر کامیاب ہونے کا ایک طریقہ ہیں، اس کے برعکس سلفی جہادی اپنی فلاحی خدمات کی فراہمی کو ریاست کے جواز کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس کے خلاف اُکساتے ہیں اور بالآخر اسے الٹ دیتے ہیں۔
خود مصر میں بھی سلفی جہادیوں کی ایسی مثال موجود ہے، ۱۹۹۰ء کی دہائی کے اوائل میں الجماعۃ الاسلامیہ نے Imbaba کے علاقے Giza میں ’’اسلامی امارت‘‘ قائم کی تھی۔ یہ دریائے نیل کے پرے واقع تھی۔ اس گروپ نے اپنی سماجی خدمات کا نیٹ ورک علاقے کے لوگوں کے لیے قائم کیا تھا۔ اگرچہ مصری ریاست نے اپنے قانونی جواز کو درپیش یہ چیلنج کامیابی سے کچل دیا تھا، تاہم ملک میں موجودہ شورش نے سلفی جہادیوں کی فلاحی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے راستہ کھول دیا ہے۔ عسکریت پسندوں نے نہ صرف سینائی میں اسلامک اسٹیٹ کی فرنچائز بنالی ہے، بلکہ شواہد ہیں کہ وہ بنیادی سماجی سہولیات فراہم کر رہے ہیں، مثلاً مصری فوج کی انسداد دہشت گردی مہم کے دوران جن لوگوں کے گھر تباہ ہوئے، ان کی مالی مدد کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں اس گروپ کی ایمبولینس سروس کا علم ہوا ہے۔ اب جبکہ سماجی و اقتصادی بحران پے در پے آرہے ہیں، متبادل فراہم کرنے والوں کو مسترد کیا جارہا ہے، تو تاریخی حوالے اور نئے جہادی گروپوں کی محنت یہ واضح کر رہی ہے کہ مستقبل میں یہ مظہر برقرار رہے گا۔
خلاصہ
مصر کی نئی حکومت نے ۳ جولائی ۲۰۱۳ء کی فوجی بغاوت کے بعد ہی سے، تاہم اس سال زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ اخوان المسلمون کی ملک گیر سماجی و فلاحی خدمات کی اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دی۔ حکومت کے اس اقدام سے نہ صرف ان لاکھوں لوگوں کی گزر اوقات کو خطرہ ہے، جو اپنی روزمرہ ضروریات کے لیے ان خدمات پر انحصار کرتے ہیں، بلکہ اخوان کے لیے بھی دھچکا ہے، جس نے عشروں پر پھیلی اپنی جدوجہد میں سماجی خدمات کی فراہمی پر زور دیا ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران فلاحی سرگرمیوں کے حوالے سے اخوان کے لیے قانونی راستے بند ہو چکے ہیں۔ اس سرکاری مہم کا ایک عملی نتیجہ یہ ممکن ہے کہ فعالیت اختیار کرنے کے لیے تشدد کو بطور آلہ استعمال کیا جانے لگے۔
اخوان کی قانون پسند روش کی ناکامی کے برخلاف سلفی جہادی گروپوں کا طریقہ کار فروغ پا رہا ہے، جس میں وہ ریاست کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی فلاحی سماجی خدمات پیش کرتے ہیں اور تشدد بھی روا رکھتے ہیں۔ عراق اور شام میں اسلامک اسٹیٹ کی جاری کامیابیوں اور خطے میں اسی نوعیت کی دوسری تحریکوں کی نمو کے پیش نظر خود ماضی قریب کے مصر میں بھی اس طرح کی مثالیں موجود ہیں۔ یہ گروپ باہر سے مصر میں آئیں، یا اندر ہی سے ابھریں، مصر کی مسلسل اقتصادی و سماجی دشواریوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی تحریکوں کے پنپنے کے لیے مواقع سازگار ہیں۔
آخر میں، مصری حکومت فلاحی کام کرنے والوں کو کچل رہی ہے لیکن شہریوں کے ان بنیادی مطالبات پر کان نہیں دھر رہی کہ انہیں معقول اور سستی سہولتیں دی جائیں، چنانچہ اسلامی سماجی خدمات کے مستقبل پر بحث و مباحثہ ہوتا رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں اگر مصر اپنی اسی روش پر چلتا رہا تو استبدادی حکومت کا تختہ الٹنے میں محض اخوان کا کوئی چھوٹا سا انتہا پسند گروپ یا جہادی گروپ ہی کام نہیں آئے گا بلکہ یہ ان مصری شہریوں کی ایک وسیع البنیاد شورش ہو گی، جو کئی عشروں سے ایسے لیڈروں کو برداشت کرتے آئے ہیں جو شہریوں سے زیادہ سے زیادہ طلب کرتے ہیں اور کم سے کم پر قناعت کرنے کو کہتے ہیں۔
(ترجمہ: منصور احمد)
“The Muslim Brotherhood’s social outreach after the Egyptian coup”. (“brookings.edu”)
Leave a Reply