
وفا حنفی کی شاید اس وقت پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی، جب ۱۲؍فروری ۱۹۴۹ء کو ان کے دادا (اخوان المسلمون کے بانی) حسن البنا کو شہید کردیا گیا تھا۔ دوسرے بہت سے قدامت پسند مسلمانوں کی طرح وفا حنفی پر بھی حسن البنا کے اثرات نمایاں ہیں۔ وفا حنفی قاہرہ کی جامعہ الازہر میں انگریزی ادب میں لیکچرر ہیں۔
گزشتہ برس صدر محمد مرسی کو برطرف کرکے اخوان المسلمون کی حکومت ختم کردی گئی تھی اور پھر اس تنظیم کی پہلی دوسری اور تیسری سطح کی قیادت کو ختم کردیا گیا یا پھر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ تب سے اب تک اخوان المسلمون کا مدار خواتین پر زیادہ رہا ہے۔
حالات کی روش دیکھتے ہوئے یہ بہت عجیب لگتا ہے۔ اخوان میں خواتین قائدانہ کردار ادا کریں، یہ بات خاصی غیر روایتی سی ہے۔ وفا حنفی کہتی ہیں: ’’ہم میں غیر معمولی جوش و خروش ہے اور ہمیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ہمیں کیا کردار ادا کرنا ہے‘‘۔
مصر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ وہاں خواتین اگر پڑھی لکھی بھی ہوں تو گھر میں رہنا پسند کرتی ہیں۔ مگر اب یہ خواتین میدان میں نکل آئی ہیں، سکیورٹی فورسز کو للکار رہی ہیں، مظاہرے کر رہی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ عوام کا شعور بیدار کر رہی ہیں۔ جامعہ الازہر ہر دور میں ان طلبہ کے لیے قوت کا مرکز رہا ہے جو اقتدار پر قابض فوج کو للکارنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ جامعہ الازہر کے طلبہ منتخب صدر اور ان کی حکومت کا تختہ الٹنے والے جنرل عبدالفتاح السیسی کو غدار کہنے سے نہیں چُوکتے۔ طالبات میں پایا جانے والا سیاسی شعور اب عام لڑکیوں میں بھی نفوذ کرگیا ہے۔
اخوان المسلمون کے سیاسی ونگ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی لیڈر ہُدٰی عبدالمنعم عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون کے خواتین ونگ کی ارکان کی تعداد تین ہزار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ جب سے مصر میں انقلاب برپا ہوا ہے، اخوان المسلمون میں خواتین کا کردار توانا ہوگیا ہے۔ وہ بیشتر امور میں زیادہ پرجوش ہوکر شریک ہو رہی ہیں۔
حسنی مبارک کے اقتدار کا بوریا بستر گول کرنے والے انقلاب کے برپا ہونے کے بعد اخوان المسلمون میں خواتین نے اپنا کردار بڑھادیا ہے۔ انہوں نے تحریر اسکوائر میں مظاہروں میں بھی بھرپور حصہ لیا تھا اور بعد میں عام انتخابات میں بھی وہ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے پلیٹ فارم سے شریک ہوئی تھیں۔
ہُدٰی عبدالمنعم عبدالعزیز کہتی ہیں: ’’پولیس جس قدر سخت کریک ڈاؤن کرے گی، خواتین میں مزاحمت کا جذبہ اُسی قدر عود کر آئے گا۔ ہمارا خون سڑکوں پر بہا ہے۔ ہمارے ارکان مارے گئے ہیں۔ جب تک ہم اپنے اصولوں پر ڈٹے ہوئے ہیں، تب تک پولیس کی کارروائی سے ہمارا کچھ بھی نہیں بگڑ سکتا‘‘۔
ناقدین کہتے ہیں کہ اخوان المسلمون میں خواتین جو کردار ادا کر رہی ہیں، اسے قائدانہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ انہیں اب بھی مرکزی فیصلے کرنے کا اختیار نہیں سونپا گیا ہے۔
ایک سینئر مصری سفارت کار کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون میں خواتین کا کردار وہ نہیں جو دکھائی دے رہا ہے یا دکھایا جارہا ہے۔ خواتین کو صرف اس لیے آگے لایا جارہا ہے کہ مردوں کو بچایا جاسکے۔ بات کچھ یوں ہے کہ پولیس خواتین کو گرفتار کرنے سے اجتناب برتتی ہے۔ مصری سفارت کار کا کہنا ہے کہ مظاہروں کے دوران خواتین کو آگے رکھ کر کارکنوں کو محفوظ رکھنے کی حکمتِ عملی اختیار کی جاتی ہے۔ فلسطینی مزاحمت کار بھی اسرائیلی فوج اور پولیس کے خلاف مظاہروں میں یہی طریقہ اختیار کیا کرتے تھے۔ مگر وفا حنفی یہ تسلیم نہیں کرتیں۔ ان کا استدلال ہے کہ اخوان المسلمون میں خواتین کا کردار تاریخی بھی ہے اور خاصا حوصلہ افزا بھی۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین اس وقت اخوان المسلمون میں جو کردار ادا کر رہی ہیں، اس کی اُنہیں تربیت دی گئی تھی اور وہ اپنا کردار بخوبی ادا کر رہی ہیں۔ یہ ایک مختلف نوعیت کا جہاد ہے۔ اس بار گھر کے اندر سے دشمن کا سامنا ہے۔ اگر دشمن لشکر کشی کرے تو میدان میں نکلنا ہی پڑتا ہے۔ بہت سی خواتین کو اس لیے میدان میں نکلنا پڑا کہ کئی خواتین خانہ کو ان کے گھروں میں قتل کردیا گیا یا پھر پولیس گرفتار کرکے لے گئی۔ وفا حنفی مزید کہتی ہیں کہ جب پولیس گھروں پر چھاپے مار کر خواتین کو گرفتار کرنے پر تُل جائے تو مرد ہمیں گھروں میں رہنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ خواتین کو باہر نکلنا ہی پڑے گا۔
دی مسلم سسٹر ہُڈ کوئی نئی تنظیم نہیں۔ اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا نے مرکزی تنظیم کے قیام کے چھ سال بعد اسماعیلیہ (مصر) میں اپریل ۱۹۳۳ء میں اِسے قائم کیا۔ حسن البنا بنیادی طور پر خواتین ونگ کو علیحدہ قیادت دینا چاہتے تھے۔
دی مسلم سسٹر ہُڈ کو اصلاً وہ کام کرنا تھا جس پر تنظیم کی بنیاد تھی یعنی معاشرے کی خدمت۔ وفا حنفی کہتی ہیں: ’’میرے دادا کا پیغام سادہ اور واضح تھا۔ وہ اس خیال کے حامل تھے کہ ہمیں روئے زمین پر اس لیے بھیجا گیا ہے کہ عدل قائم کریں اور عدل اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب اللہ کا پیغام گھر گھر پہنچایا جائے‘‘۔
حسن البنا نے بعد میں حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے خواتین ارکان کو بھی مردوں کے زیر قیادت کردیا۔ ان کا سیاسی کردار بہرحال کم یا ختم نہیں ہوا۔ وفا حنفی کہتی ہیں: ’’میرے دادا اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ معاشرے کو متوازن اور ترقی کی راہ پر رکھنے میں خواتین کا اہم کردار ہے‘‘۔
وفا حنفی کو اپنی والدہ کا وہ دور یاد ہے، جب انہوں نے اپنا سیاسی کردار عمدگی سے ادا کیا تھا۔ حسن البنا کی شہادت کے بعد جمال عبدالناصر نے بادشاہت کا خاتمہ کرکے اقتدار پر قبضہ کیا اور مصر پر ۱۹۵۶ء سے ۱۹۷۰ء تک حکومت کی۔ وفا حنفی بتاتی ہیں۔ ’’میری والدہ اور خالہ انتہائی قدامت پسند تھیں۔ وہ گھر سے باہر قدم رکھنا پسند نہیں کرتی تھیں مگر جب میرے دادا اور والد کو گرفتار کیا گیا تب میری والدہ اور خالہ کو گھر سے نکل کر سڑکوں پر احتجاج کرنا پڑا۔ میرے والد اور دادا کی تلاش میں میری والدہ اور خالہ سفارت خانوں تک گئیں۔ وہ بہت مضبوط اعصاب کی مالک تھیں۔
محمد مرسی کی برطرفی کے بعد اخوان المسلمون اور اس کے خواتین ونگ نے جو احتجاج کیا ہے، اسے کچلنے کے لیے ریاستی قوت استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا گیا۔ دھرنے دینے اور جلوس نکالنے والوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اب تک ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے۔ ہزاروں ارکان جیلوں میں ہیں۔ انسانی حقوق کے علم بردار گروپوں نے مصر کے سکیورٹی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ گزشتہ سال کے اواخر میں چند خواتین اور لڑکیوں کو عدالتوں میں سخت سزائے قید سنائی گئی۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے منتخب حکومت کا تختہ الٹے جانے پر شدید احتجاج کیا تھا۔ عالمی برادری کی طرف سے شدید تنقید کے بعد ان خواتین کی سزاؤں میں تخفیف کی گئی ہے اور بہتوں کو رہا بھی کردیا گیا ہے۔
وفا حنفی اور دوسری بہت سی خواتین آج بھی اپنی سرگرمیاں پورے جوش و خروش سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام کے بارے میں یہ تصور انتہائی بے بنیاد ہے کہ اِس میں مردوں کا خواتین پر واضح غلبہ ہے۔ جب اخوان المسلمون قائم کی گئی، تب ساتھ ہی ساتھ خواتین وِنگ بھی قائم کیا گیا۔
مصر میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق اس وقت ملا جب ۱۹۵۱ء میں دوریا شفیق (Doria Shafiq) نے پارلیمنٹ پر دھاوا بولا اور خواتین کی مشکلات کی طرف پوری قوم اور عالمی برادری کی توجہ دلائی۔ اب ان کی کہانی کو دہرایا جارہا ہے تاکہ خواتین کو اپنے حقوق کے لیے متحرک ہونے کی تحریک ملے۔ دوریا شفیق کی کوششوں سے ۱۹۵۶ء میں مصری خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا، مگر جمال عبدالناصر کی حکومت نے ان پر بہت مظالم ڈھائے۔ انہیں کم و بیش اٹھارہ سال تک گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ اِس دوران اُن کے لکھنے پر پابندی تھی اور پریس میں ان کا ذکر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ دوریا شفیق نے ۱۹۷۵ء میں ایک مکان کی بالکنی سے کود کر خودکشی کرلی۔
مصر کی سیاست میں وفا حنفی اور دوریا شفیق جیسی دیگر مضبوط خواتین کی کمی نہیں مگر اس کے باوجود خواتین کے سیاسی کردار کو دبانے اور گھٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا اخوان المسلمون کی کاوشوں سے خواتین کو سیاست میں ان کا حقیقی کردار مل سکے گا؟
بروکنگز دوہا سینٹر کے ڈائریکٹر آف ریسرچ شاذی حامد کا کہنا ہے کہ خواتین کے حقوق یقینی بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کا سرگرم ہونا نئی یا انوکھی بات نہیں۔ اخوان المسلمون نے ۱۹۹۴ء میں بھی اس حوالے سے آواز اٹھائی تھی۔ آج مصر کی خواتین صدر کے سوا کوئی بھی عہدہ لے سکتی ہیں۔ شاذی حامد کا کہنا ہے کہ خواتین کا کردار مقامی سطح پر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اخوان المسلمون کی قیادت کے پابندِ سلاسل کیے جانے کے بعد ناگزیر ہوگیا تھا کہ خواتین میدان میں نکلیں اور اپنا سیاسی کردار ادا کریں۔
اخوان المسلمون میں خواتین اب بھی مکمل رکن نہیں ہیں۔ بنیادی طور پر یہ بھائیوں کی جماعت ہے، بہنوں کی نہیں۔ خواتین کو رائے شماری کے مکمل حقوق حاصل نہیں۔ مگر شاذی حامد کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود خواتین اپنی بات منوا سکتی ہیں۔ برطرف کیے جانے والے صدر محمد مرسی کی ایک معاون پاکینام شرقاوی بھی تھیں۔ وہ ایران سے تعلق رکھتی تھیں اور قاہرہ یونیورسٹی میں پڑھاتی تھیں۔ شرقاوی اخوان کی رکن نہیں تھیں مگر وہ غیر معمولی حد تک اسلام نواز تھیں اور محمد مرسی کے انتہائی قابل اعتبار ساتھیوں میں سے تھیں۔ شاذی حامد کہتے ہیں کہ اخوان المسلمون میں اگر کوئی خاتون بلند منصب تک پہنچنا چاہیں تو ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اب خواتین ارکان عالمی حقائق کے تناظر میں سوچنے لگی ہیں۔
وفا حنفی کہتی ہیں کہ مصر کے مردوں اور عورتوں کو اپنے حقوق کے لیے بھرپور جدوجہد کرنی ہے۔ وہ خواتین کو اخوان المسلمون کا ضمیر قرار دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم مردوں کے شانہ بہ شانہ بھرپور جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔ جن اب بوتل سے باہر آچکا ہے۔ یہ دوبارہ بوتل میں اسی وقت جائے گا جب ہم مصر کو نا اہل سیاست دانوں، غاصبوں اور کرپشن سے پاک کرچکے ہوں گے۔
(“Enter the Muslim Sisterhood”… “Newsweek”. Dec. 19, 2013)
Leave a Reply