ہم انسانیت کے بارے میں اپنے پیش نظر منصوبوں میں ہمیشہ طلباء اور طالبات کے ایک اہم کردار کے قائل ہیں۔ نیز امت اسلام کا فرض ہے کہ وہ ان کی حوصلہ افزائی کرے اور انہیں اپنے آپ کو منوانے کا موقع دے۔ کیونکہ ہم آج ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں جس کے تمام شعبوں پر علم و دانش کا غلبہ ہے۔ درست ہے کہ مدافعت (resistance) ایک اہم چیز ہے اور اس نے ہمیں دنیا کی قوموں میں سر بلند کیا ہے اور اس بات کو ثابت کیا ہے کہ یہ مردانِ مومن اپنی ثابت قدمی، شجاعت، ایمان، وقت اور ایثار کے ذریعے اپنی سرزمین کو آزاد کرا سکتے ہیں لیکن یہ بات ہمارے ذہن نشین رہنی چاہیے کہ وہ مدافعت جو ہمیشہ باقی رہتی ہے وہ علمی اور فکری مدافعت ہے کیونکہ عسکری مدافعت کا ایک خاص وقت ہوتا ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ملک حملے اور جارحیت کا نشانہ بنتا ہے۔ اس موقع پر ہمیں دفاعی یا احتیاطی مدافعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم دنیا کا سامنا کرنا چاہتے ہیںَ بالخصوص ایک مسلمان کی حیثیت سے تو ہمیں ایک ایسی جو ان طالب علم اور تخلیقی صلاحتیوں کی حامل نسل کے طور پر سامنے آنا چاہیے۔ جو فکر و نظر اور علم و صنعت کے میدانوں میں تخلیقی صلاحتیوں سے لیس ہوا ،اختر اعات اور ایجادات کے میدان میں اس کا حصہ ہو اور وہ دوسروں سے آگے ہوتا، کہ ہمارے تخلیقی شہ پارے ہمارے علم و دانش اور ہماری تہذیب کا اظہار کریں۔
دوسرے لوگ کسی برتر عقل کے مالک نہیں ہوتے اور نہ ہمارے پاس کم تر درجے کی عقل ہوتی ہے البتہ مغرب میں عقل کی نشو ونما کے لیے حالات فراہم ہیں جب کہ ہمارے ممالک میں اس سلسلے میں حکمرانوں کی کار کردگی صفر ہے اسی بنا پر ہمارے پڑھے لکھے اور ذہین و فطین لوگ مغرب کارخ کرتے ہیں اور وہاں اعلیٰ ترین علمی مقامات پر پہنچتے ہیں اور اختراعات، ایجادات اور علمی انکشافات کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر عرب اور مسلمان ڈاکٹروں کو امریکا میں ایک خاص مقام اور اعتبار حاصل ہے۔ مختلف ٹی وی چینلوں کے بہت سے ماہرین مسلمان اور عرب ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ اعلیٰ درجے کے علم و دانش اور فکر و نظر کے حامل ہیں۔ امریکا کا ماحول ایسا ہے کہ اس کی طرف باصلاحیت افراد کھنچے جاتے ہیں اور وہ انہیں اختراعات اور ایجادات کے لیے مواقع فراہم کرتا ہے۔
ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہمارا مستقبل جوانوں سے وابستہ ہے۔ ممکن ہے ہمارے اس زمانے کے ماں باپ کا میاب یا نا کام تجربات رکھتے ہوں، اس کی وجہ ان کے زمانے کے حالات تھے۔ کیونکہ ان میں سے بعض کو پڑھنے لکھنے کے مناسب مواقع حاصل نہ تھے لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم مستقبل کی تیاری کریں اور جہالت سے نجات حاصل کریں۔ ہمارے ذہن کا مختلف علمی نظریات سے بھر ہوا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ نظریات ہماری شخصیت کا حصہ بن جائیں کیونکہ علم کو صرف ذہن تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے ہمارے باطن میں جگہ بنانی چاہیے۔ یعنی علم کو ہمارے خون ،ہمارے احساس اور ہمارے جذبات میں داخل ہوجانا چاہے۔ اسی لیے ہم اپنے فلاحی اداروں کے ذمے دار برادران و خواہران سے کہا کرتے ہیں کہ ہم آپ سے صرف کامیابی کی توقع نہیں رکھتے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ دوسروں سے آگے رہیں اور نئی نئی چیزیں سامنے لائیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ثابت کریں کہ مومن بچے اور بچیاں اختراعات اور ایجادات کر سکتے ہیں۔ کیونکہ آج یہ خیال کیا جاتا ہے کہ غیر مذہبی خواتین علمی اور سماجی سر گرمیوں میں دوسروں سے آگے ہیںَ لہذا ہمیں اپنی بچیوں کو یہ باور کرانا چاہیے کہ حجاب نہ صرف ترقی میں رکاوٹ نہیں بنتا بلکہ انہیں چاہیے کہ وہ بے پردہ خواتین سے آگے ہوں۔ کیونکہ ہم اپنے ایمان اور دینداری کے سہارے غیر دینی لوگوں پر سبقت حاصل کر سکتے ہیں۔
لہذا ہم آپ سے کہنا چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں آپ کا کام عبادت ہے اور آپ جس قدر زیادہ کامیابیوں سے ہمکنار ہوں گے اتنی ہی رضائے الہیٰ آپ کو حاصل ہوگی۔ کیونکہ خداوند عالم مسلمانوں سے چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں سب سے آگے اور محترم بنیں۔
ہم کیوں خرافات، پسماندگی اور غلو کے مخالف ہیں؟
ہم کیوں یہ کہتے ہیں کہ تاریخ کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور اس کی تصحیح کی جانی چاہیے ؟
کیونکہ ہم اپنی گزشتہ پسماندگی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ دنیاصدر اسلام کے مسلمانوں کی طرح بسر کریں۔ اس زمانے کے مسلمان علماء اور دانشوروں نے حتیٰ کہ یورپ( جیسے اسپین اور دوسرے مقامات) میں ایک تہذیب کی بنیاد رکھی۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا پر ثابت کریں کہ ہم ایک ایسی امت ہیں جو جدت طرازیاں کر سکتی ہے، آزادی کے ساتھ سوچ سکتی ہے، مختلف مسائل کے بارے میں بحث و مباحثے کر سکتی ہے اور تمام شعبوں میں دوسروں کے ساتھ گفتگو کر سکتی ہے۔
جب آپ یونیورسٹی سے پہلے کے مراحل میں پڑھتے ہیں ،تو آپ دوسروں کے نظریات کا مطالعہ کرتے اور ان کا جائزہ لیتے ہیں لیکن یونیورسٹی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسان سے کہتی ہے کہ وہ خود ایک نظریہ پیش کرے اور اس کا دفاع کرے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یونیورسٹی کا فریضہ طالب علم کی فکری صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے یونیورسٹی سے طالب علم کو محقق نقاد اور نظریہ ساز بن کر نکلنا چاہیے۔ لہذا ہماری خواہش ہے کہ آپ اعلیٰ علمی مدارج طے کریں تاکہ دانشور اور نظریہ ساز بن سکیں۔ قرآن کریم میں علم و دانش کو ایک بڑی فضیلت قرار دیا گیا ہے:
’’کہہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہو جائیں گے جو نہیں جانتے ہیں‘‘۔ (سورہ زمر ۳۹ آیت۹)
ائمہ اہل بیت کا طرز عمل بھی اس بات کی تاکید کرتا ہے۔
حضرت علی ؓ نے بھی اس فکری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: قیمۃ کل امری ما یحسنہ ’’ہر شخص کی قیمت اس ہنر میں ہے جو اس میں پایا جاتا ہے‘‘ (نہج البلاغہ۔ کلمات قصار ۸۱)۔ قرآن کریم میں خداوند متعال اپنے پیغمبر سے اور ان کے توسط سے امت اسلامیہ سے کہتا ہے کہ : وَقُلْ رَّبِّ ذِدْنِیْ عِلْمًًا ’’اور یہ کہتے رہیے کہ پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما‘‘۔ (سورۃ طہ ۲۰ آیت :۱۱۴)
یہ آیت کریمہ اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ اگر انسان علم کے ایک درجے پر پہنچ جائے تو اسے اس اگلے درجے تک رسائی کی کوشش کرنی چاہیے۔ البتہ ہر شخص کے حالات و ظروف کو نگاہ میں رکھنا چاہیے۔
ہم چاہتے ہیں کہ انسان اپنے علمی درجات کو بلند کرے۔ حتیٰ اگر اسے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی مل جائے تب بھی اسے اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس سے بھی آگے نظریں گاڑے رکھنی چاہئیں۔ یعنی اسے ہمیشہ علم و دانش کے حصول کی تمنا کرنی چاہیے۔ اگر ہم اپنی اذان کودیکھیں تو اس میں بھی ہمیں آگے اور آگے بڑھنے کی تمنا کا اظہار نظر آتا ہے۔
انسان کو مسلسل بہتر سے بہتر عمل کی جستجو میں رہنا چاہیے۔ اسے علم و دانش افعال و اعمال اور سماجی سر گرمیوں میں ہمیشہ بہتری اور ترقی کا آرزو مندر رہنا چاہیے۔
ہم ایک مرتبہ پھر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں اور خداوند عالم سے زندگی کے تمام میدانوں میں آپ کی کامیابی اور ترقی کی دعا کرتے ہیں۔ انشاء اللہ
سوال: کیا جناب عالی کی رائے میں ہمیں جدید علوم کے ساتھ ساتھ علوم دینی بھی حاصل کرنے چاہئیں۔ یا نہیں انہیں ان کے ماہرین ہی کے سپر د رہنے دینا چاہیے؟
جواب: ہم نے ہمیشہ کہا کہ ہمیں علم و دانش کے حامل انسانوں کی ضرورت ہے۔ یعنی ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ایسے علوم سیکھیں جو ہمیں اس طرح تیار کریں کہ ہم ایک ایسی نسل بن سکیں جو زندگی کے تمام میدانوں میں کامیابی و کامرانی کے پر چم لہرائے۔ لیکن یہ بات ہمیں اسلامی علوم کے حصول سے نہیں روکتی۔ اسلامی علوم حوزات علمیہ (مدارس دینیہ) تک محدود نہیں ہیں۔ کیونکہ بعض حوزہ علمیہ میں اب بھی روایتی فضا پائی جاتی ہے اور وہ ابحاث اور مسائل کے اعتبار سے پانچ سو سال پیچھے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
لیکن آج انہی علوم اسلامی میں ایسی آگاہی بخش تحقیقات اور کتب اور ایسے ممتاز افراد پائے جاتے ہیں جیسے سید محمد باقر والصدرؒ اور شہید مرتضیٰ مطہریؒ جنہوں نے معارف ِاسلامی کے باب میں گرانقدر آثار پیش کیے ہیں جن سے ہر کوئی استفاد کر سکتا ہے۔ ہم کہتے ہیںکہ ہر انسان پر واجب ہے کہ وہ اسلامی علوم حاصل کرے، ہمیں سیاسی علوم بھی حاصل کرنے چاہئیں جس کے بعد ہم سیاسی حوادث کی درست تحلیل کر سکتے ہیں اور بتا سکتے ہیں کہ ان حوادث کی بنیاد کیا ہے اور یہ کیسے واقع ہوئے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اسلامی علوم کا حامل ہونا چاہیے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ہمارا مطالعہ ہونا چاہے اور ہمیں سید محمد باقر الصدرؒکی کتب مثلاً فلسفتنا اور اقتصادنا کو پڑھنا چاہے۔ انہوں نے اپنے علم و دانش کے ساتھ دوسروں کے افکارو نظریات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ اسی طرح شہید مرتضیٰ مطہریؒ نے بعض سماجی مسائل پر کام کیا ہے لہذا ہمیں علمی، سیاسی، اجتماعی اور اسلامی نکتہ نظر سے با شعور ہونا چاہیے۔ ہماری روایات میں ہے ’’کہ دو بھوکے کبھی سیر نہیں ہوتے ۔‘‘ایک طالب ِعلم اور دوسرا طالبِ مال۔ پس جس طرح انسان کو اپنی زندگی کی بقا کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اسے علمی، سماجی اور سیاسی خوراک بھی چاہیے ہوتی ہے۔
ہم اپنی اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے آپ کے شکر گزار ہیں۔ آپ میرے بچے ہیں کیونکہ میرا آپ کے ساتھ ایک روحانی باپ کا سا تعلق ہے۔ چالیس سال سے میں آپ کی طرح نسلوں کے درمیان رہ رہا ہوں۔ میں دل کی گہرائیوں کے ساتھ کہتا ہوں کہ مجھے آپ لوگوں سے محبت ہے اور میں اپنے اندر آپ کے بارے میں احساس ذمے داری رکھتا ہوں۔
(بشکریہ: ’’بیّنات‘‘ کراچی۔ شمارہ: جمادی الاول، جمادی الثانی ۱۴۲۸ھ)
Leave a Reply