
حال ہی میں نگورنو کاراباخ تنازع پر آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ہونے والی جنگ میں ترکی کی حمایت آذربائیجان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل تھی اور اس سے خطے میں ترکی کے منصوبے بھی عیاں ہوئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی نخچیوان راہداری تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے، تا کہ سویت یونین کے ختم ہو جانے کے بعد اُن ممالک پر اپنا اثر بڑھا سکے جہاں ترکی زبان سے ملتی جلتی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ترکی اور آذربائیجان نے طے کیا ہے کہ وہ آذربائیجان کے خود مختار نخچیوان خطے میں ایک راہداری قائم کریں، جس کی سرحد ترکی کے ساتھ ملتی ہے۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے ۳۱ دسمبر کو اپنے ایک بیان میں کہا ’’مجھے پورا یقین ہے کہ ہم آذربائیجان سے سامان آرمینیا اور نخچیوان کے راستے ترکی بھیجیں اور اسی راستے سے سامان منگوائیں‘‘۔ دوسری جانب ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش اولو نے باکو میں ۱۲ نومبر کو ایک خطاب میں کہا تھا کہ ’’نخچیوان راہداری کے کھلنے سے سب کو فائدہ ہو گا۔ اگر یہاں پر امن ہوا، اور راہداری کھل گئی تو سب کے لیے اچھا ہے‘‘۔ لیکن ترکی کو اب نئے چیلنج کا سامنا ہے اور وہ ہے اس خطے میں اپنے ساتھی روس کو ناراض کیے بغیر اپنے مقاصد کو پورا کرے، جو کہ عمومی طور پر اس کاکیشیائی خطے کو اپنے زیر اثر سمجھتا ہے۔
پس منظر کیا ہے؟
حال ہی میں جب روس کی مدد سے آذربائیجان اور آرمینیا چھ ہفتے کی لڑائی کے بعد جنگ بندی پر آمادہ ہوئے آذربائیجان نے نگورنو کاراباخ سمیت وہاں کے سات ضلعوں پر اپنا قبضہ قائم کر لیا تھا جو کہ نوے کی دہائی سے آرمینیا کے قبضے میں تھا۔ نخچیوان کی آبادی چار لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور یہ ایران، ترکی اور آرمینیا کے درمیان واقع ہے، نوے کی دہائی میں آرمینیا نے اس خطے پر قبضہ کر لیا تھا۔ روس نے کہا ہے کہ حالیہ جنگ بندی کے معاہدے کے تحت آذربائیجان کو اجازت ہوگی کہ وہ اس خطے سے اپنی آمدورفت جاری رکھ سکے اور وہاں پر تعمیر کی جانے والی راہداری کے تحفظ کے لیے روسی فوج تعینات ہو گی۔ نخچیوان کی یہ راہداری براہ راست ترکی اور آذربائیجان کو آپس میں ملا سکے گی اور اس کی مدد سے ترکی کے خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ ترکی نے اس علاقے میں ریلوے پراجیکٹ پر کام شروع کر دیا ہے اور اس کے علاوہ دونوں ممالک نے گذشتہ ماہ گیس کی پائپ لائن بچھانے کا بھی معاہدہ کر لیا ہے۔
’’وسطی ایشیا تک پہنچنے کا راستہ‘‘
ترک حکومت کے قریب سمجھے جانے والے مبصر کہتے ہیں کہ نخچیوان وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کا ذریعہ بن سکتا ہے، اور اس کی مدد سے ترکی کی ان ممالک تک پہنچ ہو سکتی ہے جس کے ساتھ وہ زبان کے علاوہ سماجی، ثقافتی اور نسلی روابط شیئر کرتا ہے۔ ایک مبصر نے نومبر میں کہا کہ ’’یہ راہداری خطے میں سیاسی اور معاشی توازن ترکی اور آذربائیجان کے حق میں کر سکتی ہے‘‘۔ اسی طرح حکومت کی حمایت کرنے والے ایک اخبار ’’صباح‘‘ نے ۲؍ دسمبر کو خبر لگائی کہ اس راہداری کے قیام سے ترکمانستان سے نکلنے والی گیس ’’براہ راست‘‘ ترکی تک پہنچائی جا سکے گی جو کہ ’’مہنگی ایرانی گیس‘‘ کا متبادل ہو سکتی ہے۔ ’’صباح‘‘ اخبار کے مطابق ترکمانستان اور آذربائیجان کے درمیان تجویز کردہ گیس کی پائپ لائن پر کام دوبارہ شروع ہو سکتا ہے اور اس کی مدد سے یورپی ممالک میں جارجیا اور ترکی کے ذریعے گیس پہنچائی جا سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۹۹۶ء میں کیے گئے ایک معاہدے کے تحت ترکی کو ایران سے گیس خریدنے کے لیے فی ہزار مکعب میٹر گیس کے لیے ۴۹۰ ڈالر دینے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر اس مجوزہ پائپ لائن سے آذربائیجان کے راستے گیس حاصل کی جائے تو وہ ۳۳۵ ڈالر فی مکعب میٹر کی ہوگی۔ ترک حکومت کے بہت قریب سمجھے جانے والے اخبار ’’ینی سفاک‘‘ میں تجزیہ کار حسن اوزترک نے نومبر میں ایک مضمون میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’نخچیوان راہداری اتنی ہی اہم ہے جتنا نگورنو کاراباخ کو آزاد کرنا تھا۔ نخچیوان راہداری ہی ہمارا خواب ہے‘‘۔
ترک قوم پرستی کا خواب
لیکن معاشی مواقع کے علاوہ بھی نگورنو کاراباخ کے اس حالیہ تنازع نے ترکی میں کاکیشیائی خطے اور وسطی ایشیا کے حوالے سے قوم پرست اور نظریاتی جذبات کو فروغ دیا ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان نے باکو میں ۱۰؍دسمبر کو کامیابی پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج کا دن ترک زبان بولنے والے تمام لوگوں کے لیے بہت فخر اور کامیابی کا دن ہے‘‘۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار استنبول کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے منسلک اتہم اتنور نے کیا، جنھوں نے کہا کہ ’’نخچیوان راہداری کے کھلنے سے ترک زبان بولنے والے علاقوں میں مثبت اثر پڑے گا، اور اگر یہ خواب پورا ہو گیا تو ترکی، کاکشیائی ممالک اور وسطی ایشیا میں کاروبار کرنے کے لیے بہت فائدہ مند ہو گا‘‘۔ جبکہ کچھ مبصرین کے لیے نخچیوان راہداری ترکی کی وسطی ایشیا تک اتحاد قائم کرنے میں مدد دے سکتی ہے اور چند نے تو یہ تک کہا ہے کہ یہ تمام ممالک ایک مشترکہ فوج تشکیل دیں۔ اکتوبر میں ایک ترک مبصر احمد گرسوئے نے لکھا کہ ’’ترک زبان بولنے والے ممالک کو اپنی فوج تشکیل دینی چاہیے اور اس کی باضابطہ قانونی اور عسکری حیثیت ہونی چاہیے‘‘۔ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے اخبار ’’ترکئیے‘‘ نے اکتوبر میں ترکی اور آذربائیجان کے مابین مشترکہ فوجی مشقوں کا ذکر کیا اور آذربائیجان کی جانب سے نگورنو کاراباخ تنازع میں ترکی کے بنائے ہوئے ڈرونز کا حوالہ دیتے ہوئے ’’ٹوران فوج‘‘ کے بارے میں بات کی۔
روس کے ساتھ مقابلہ؟
لیکن ان تمام باتوں سے ایک خدشہ یہ ہے کہ کہیں روس ناراض نہ ہو جائے، جو کہ سویت یونین کے ختم ہونے کے بعد سے وسطی ایشیا اور کاکیشیائی خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ترک میڈیا نے صدر ایردوان اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کو سراہا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے شام اور لیبیا میں ہونے والے تنازعات کے معاملے میں آپس کے اختلافات کو بیچ میں آنے نہیں دیا۔ لیکن نگورنو کاراباخ کے معاملے میں ترکی کے کردار پر روسی میڈیا نے مختلف رویہ رکھا ہے۔ روسی اخبار کے لیے مبصر اولیگ بونڈارینکو لکھتے ہیں، ’’جنگ بندی کے بعد اس خطے میں روس کا اثر کم ہوا ہے اور سویت یونین کے خاتمے کے بعد سے ترکی آہستہ آہستہ اپنی موجودگی بڑھا رہا ہے جو کہ نگورنو کاراباخ اور کرغیزستان میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ترکی روس کا اتحادی بنے گا، بلکہ وہ ان علاقوں میں اپنی موجودگی بڑھا رہا ہے جہاں وہ تاریخی طور پر ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا اور بطور حریف سامنے آ رہا ہے‘‘۔
اس کی ایک اور مثال آذربائیجان اور آرمینیا کے جنگ بندی معاہدے میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جس میں ترکی کی خواہش تھی کہ ان کے فوجیوں کی خطے میں موجودگی میں اضافہ ہو لیکن روس ایسا کرنے کی اجازت دینے میں آمادہ نہیں تھا۔
ترکی اور روس نے توانائی اور دفاع کے شعبے میں تعلقات قائم کیے ہیں لیکن نگورنو کاراباخ کے معاملے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے مفادات ایک جیسے نہیں ہیں اور مستقبل میں مزید اختلافات سامنے آ سکتے ہیں۔
اگر ترکی نے اس خطے میں اپنی موجودگی میں اضافہ کیا، تو ممکن ہے کہ یہاں پر روس اور ترکی کے مابین اختلافات اور بڑھ جائیں۔
(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۱۹؍جنوری ۲۰۲۱ء)
Leave a Reply