مالاکنڈ سے عسکریت پسندوں کے خاتمہ کے لیے حکومت کی طرف سے فوج بھیجنے کا فیصلہ ایک ایسے عمل کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے جو ملک کو واپس مذہبی اعتدال پسندی اور سیاسی جدیدیت کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔ یہ اقدام فوج کے لیے ایک بڑی تبدیلی کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔
ایک تجزیہ کے مطابق ’’آنے والے ہفتے پاکستان آرمی کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں… ایک ایسی فورس جس کی تربیت کا محور ایک طویل عرصے تک اپنے علاقائی حریف بھارت کے خلاف جنگ ہی رہا ہے اس وقت ایک اندرونی دشمن کے خلاف برسرپیکار ہے‘‘۔
آرمی کے پبلک افیئرز ڈویژن کے سربراہ میجر جنرل اطہر عباس نے فنانشل ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں فوج کی سوچ کے محور میں تبدیلی کا عندیہ دیا۔ اگر وہ اسی پر قائم رہتی ہے اور اس پر یقین کرنے کی خاصی معقول وجوہات ہیں تو اس کے بھارت کے ساتھ تعلقات اور نتیجتاً جنوبی ایشیا کے مستقبل پر خاطر خواہ اثرات مرتب ہوں گے۔
میجر جنرل اطہر عباس نے برطانوی اخبار کے نمائندے کو بتایا کہ ’’داخلی سلامتی کے اعتبار سے ہمارے وجود کو درپیش ایک خطرہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا ہے۔ یہ ہماری توجہ اور فوری جواب کا متقاضی ہے‘‘۔
سوچ تبدیل تو ہو رہی ہے لیکن فوج بھی جانتی ے کہ اس میں کیا کیا خطرات درپیش آ سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’لیکن ہمیں انتہائی احتیاط سے کام لینا ہو گا کیونکہ ہم اپنی علاقائی حدود میں موجود اپنے ہی لوگوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ ہمیں عسکریت پسندوں کو قبائل سے الگ کرنا ہو گا۔ ہم عسکریت پسندوں سے لڑنے کے متحمل ہو سکتے ہیں لیکن ہم قبائل کے خلاف لڑنے کے متحمل نہیں ہو سکتے‘‘۔
آپریشن اس وقت جاری و ساری ہے اور اس کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان بھی ہو رہا ہے۔ اندرون ملک نقل مکانی کرنے والے افراد کی نگہداشت کے ذمہ دار اقوام متحدہ کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ وادی سوات اور ارد گرد کے اضلاع میں فوج کی کارروائی سے جتنے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں اس قدر تعداد اس سے پہلے ۱۹۹۴ء میں روانڈا میں دیکھنے کو ملی تھی۔ امدادی ادارے خبردار کر رہے تھے کہ لڑائی جس طرح جاری ہے پناہ گزینوں کی تعداد کسی ایک حد تک رکنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ سوات سے جس وقت لوگ بڑی تعداد میں نقل مکانی کر کے آنا شروع ہوئے تو اقوام متحدہ نے تخمینہ لگایا کہ ان بے گھر افراد کو امداد کی فراہمی کے لیے پاکستان کو نصف ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ ڈونرز کانفرنس میں اس کی نصف رقم کا وعدہ کیا گیا۔ گزشتہ ماہ امریکا نے ۱۱۰ ملین ڈالر کے ہنگامی امدادی پیکیج کا اعلان کیا۔
امدادی پیکیج کے اعلان کے ساتھ ہی سیکرٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’’صدر اوباما نے اپنے قول کے مطابق عمل کر دکھانے کا تہیہ کر رکھا ہے کیونکہ پاکستانی حکومت ان انتہا پسندوں کے خلاف جنگ میں پیش پیش ہے جو ان کے ملک اور ہماری اجتماعی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں‘‘۔
امریکا اور اس کے ساتھ دوسرے ملکوں اور اداروں کی طرف سے فراہم کی جانے والی امداد یقینا پاکستان کو اس غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے میں مدد دے گی۔ اس تناظر میں تین اہم باتوں کی نشاندہی کرنا ضروری لگتا ہے۔ اول، پاکستان ماضی میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی نقل مکانی کا نظارہ کر چکا ہے۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد تقریباً اسی لاکھ افراد بھارت سے یہاں آئے۔ پاکستان نے ان تیس سے چالیس لاکھ افراد کی میزبانی بھی کی جو افغانستان کو چھوڑ کر یہاں آئے اور پاکستانی علاقوں میں پناہ حاصل کی۔
اکتوبر ۲۰۰۵ء میں شمالی پاکستان میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں پچیس لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ یہ سارے واقعات کسی بڑے سانحہ سے کم نہ تھے لیکن حکومت ان سب سے نمٹنے میں کامیاب رہی اور ان سب نے اپنے سماجی، سیاسی اور معاشی اثرات مرتب کیے جن کا اس وقت اندازہ نہ تھا جس وقت یہ نقل مکانی ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوات کی نقل مکانی بھی ایسے ہی اثرات مرتب کرے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ پورے ملک میں اس وقت یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اسلامی انتہا پسندی جس طرح ملک کے وجود کے لیے خطرہ بن چکی تھی تو اس کے مقابلے میں یہ قیمت ادا کرنے کا جواز بنتا ہے۔
دوسرا باعث تشویش پہلو اس علاقے میں امریکا کے گہرے کردار کی نوعیت ہے جسے موجودہ امریکی پالیسی سازوں نے ’’افپاک ایریا‘‘ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا ہے۔ عراق میں چھ سال پر محیط طویل کردار کے باعث امریکی دنیا کے اس حصے میں بغاوت کے خاتمہ کے لیے ایک نئی اپروچ تشکیل دے رہے ہیں۔ اس میں ان لوگوں کے ذہن و قلب جیتنے پر خاص توجہ مرکوز کی جا رہی ہے جو معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ ہیں۔ انہیں دراصل انسانی اور طبعی ترقی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور یہ وہ کام ہے جس میں صرف فنڈز فراہم کرنا ہی نہیں بلکہ تکنیکی علوم کی ترویج اور اداروں کی تعمیر بھی شامل ہے۔
اوباما انتظامیہ اس سمت میں بڑھنے پر پوری طرح آمادہ تو ہے لیکن مشتبہ عسکریت پسندوں کی تلاش اور خاتمہ کے لیے ڈرون حملے کر کے وہ متوازی نقصان کا سامان بھی کر رہی ہے۔ ڈیوڈ کلسیولین جو آسٹریلوی فوج کے لیے کام کرتے ہوئے جنوب مشرقی ایشیا میں انسداد بغاوت کا براہ راست تجربہ کر چکے ہیں اس موضوع پر لکھتے ہوئے ڈرون حملوں کے استعمال کو سنگین مسائل کا باعث قرار دیتے ہیں۔ اپنے ایک حالیہ دورہ پاکستان کے دوران انہیں بتایا گیا کہ ڈرون حملوں میں ۱۷ عسکریت پسند مارے گئے جبکہ ۷۰۰ سویلین اس کا نشانہ بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ دو فیصد کا یہ تناسب کوئی اخلاقی بات نہیں۔
پھر فضائی طاقت کا استعمال اس علاقے کے لوگوں کے ذہنوں میں استعماری دور میں ڈھائے گئے مظالم کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ مؤرخ پر یاستیا کے مطابق ’’اس اسٹریٹجی کا مکمل خاتمہ کر کے ہی پاکستانیوں کے ذہن و قلب جیتے جا سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی حکومت اور اس کے اتحادی امریکا کی حمایت کریں‘‘۔ تیسرا باعث تشویش پہلو اول الذکر سے بھی زیادہ ٹیڑھا ہے۔ میرا یقین ہے کہ اسلامی انتہا پسندی اور عسکریت پسندی ان شعبوں میں سے ایک ہیں جو علاقائی حل کا تقاضا کرتے ہیں۔ لیکن اس علاقے کو افپاک کہنا مسئلے کے علاقائی پہلو کے ساتھ انصاف ہر گز نہیں۔ اوباما انتظامیہ کے کان اسی وقت کھڑے ہو گئے تھے جب خطے کے لیے خصوصی نمائندے کے طورپر رچرڈ ہالبروک کی تقرری کے لیے جاری کیے گئے ’ٹرمز آف ریفرنس‘ میں دبے لفظوں میں بھارت کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
اس پر نئی دہلی میں بھرپور احتجاج کیا گیا اور جب بھارت کا ذکر ختم کر دیا گیا تو بھارتی حکام اور تھنک ٹینک برادری کی طرف سے اس پر خاطر خواہ اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ لیکن اس معاملے سے نمٹنے کے لیے بھارت کو بھی ساتھ شامل کرنا محض اس لیے ضروری نہیں کہ وہ بھی دہشت گردی کے متعدد واقعات کا سامنا کر چکا ہے جس میں تازہ ترین نومبر ۲۰۰۸ء میں ممبئی کا سانحہ تھا جس کی کڑیاں پاکستانی سرزمین پر بیٹھ کر کام کرنے والے بعض دہشت گرد گروپوں سے ملائی جا سکتی ہیں۔ بلکہ بھارت کے لیے اس امر کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ اس کے ارد گرد کے ممالک معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر مستحکم ہوں۔ تبھی علاقے میں انتہا پسندی کی اس اٹھتی ہوئی لہر کو روکا جا سکتا ہے۔
سوات آپریشن شروع کر کے اسلام آباد نے شاید اپنے عالمی نقطہ نظر میں نمایاں تبدیلی کا آغاز تو کر دیا ہے۔ لیکن اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے دوسرے دارالحکومتوں خاص طور پر واشنگٹن اور نئی دہلی کی سوچ میں بھی اسی طرح کی تبدیلی آنا لازم ہے۔
(بشکریہ: ’’ڈیلی ڈان‘‘۔ ترجمہ: شاہد سجاد)
Leave a Reply