ایک تازہ اطلاع کے مطابق یوروپی یونین کی طرف سے بھیجا گیا خلائی جہاز سیارہ مریخ کے مدار میں داخل ہو گیا ہے اس کے لیے گزشتہ ۱۰ سال سے کوششیں کی جا رہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی وسعتوں اور اس میں موجود مظاہر قدرت سے آگہی حاصل کرنے اور ابر، ہوا، چاند اور سورج سے استفا دے کا حکم بھی دیا ہے ۔
نصف صدی پہلے کی بات ہے کہ جب زمین کے حفاظتی غلاف اوزون (Ozone) کے سوراخ دار ہوجانے کی اطلاع ملنے پر اس کا حل یہ تجویز کیا گیا کہ کلوروکاربن (Choloro Carbon) گیس کا استعمال روک دیا جائے تو یہ سوراخ بند ہو جائے گا۔ تیزابی بارشوں اور جھیلوں کے بارے میں یقین دلایا گیا کہ فضا میں گندھک کے گھلائو اور پھیلائو کے روکنے سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ دنیا کے بارانی جنگلات کی تباہی کی آواز اٹھائی تو ان کے اطراف حفاظتی علاقے قائم کرنے کا مشورہ دیا گیا ، لیکن ہوا کیا؟ خلا میں بے حد و حساب مضرب رساں گیسیں پھیلانے کا الزام ایک دوسرے کے سر تھوپنے کا سلسہ چل پڑا۔ سب سے بڑے صنعتی ملک امریکہ نے خود کو اس الزام سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے اس تباہ کن کارروائی کا کرتا دھرتا ترقی پذیر ملکوں کو قرار دے دیا اور وہ آج بھی اپنی اس ضد پر اڑا ہوا ہے ۔ نئی صدی کو شروع ہوئے ۷ سال ہو گئے ہیں اور ماحولیاتی خطرات میں کمی کے بہ ظاہر آثار نظر نہیں آتے ۔ زمین ہو کہ سمندر ساری فضا اور ماحول سب تیزی سے زہر آلو د ہو کر کرہ ارض کی تباہی اور بر بادی کا سامان کرتے نظر آرہے ہیں۔ یہ آلودہ ہوا اور سمندر ہمارے اپنے پیدا کردہ کیمیائی سیلاب بلا میں گھس گئے ہیں اب جب کہ صورت حال ہاتھ سے نکلتی نظر آرہی ہے انسان کو اس سے بچنے کی کوششیں کرنی چاہییں۔ اس کرہ ارض کی تباہی اور بربادی خود انسان کی اپنی تباہی کا پیش خیمہ بن جائے گی ۔ اب معاملہ محض مقامی حفاظتی اقدامات تک محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس کے لیے عالمی سطح پر ہر ملک کو پوری سنجیدگی کے ساتھ موثر تدابیر اختیار کرنی ہوں گی ۔
خود ہمارے ملک میں بھی ماحولیاتی تباہ کاری کی رفتار کچھ کم نہیں ہے ۔ ہمارے دریا زہر آلود، جنگل تباہ ،سمندر گندے اور اس کے ساحل جنگلات سے محروم ہو رہے ہیں۔ یہ صورت حال روز افزوں دگر گوں ہوتی جا رہی ہے ۔ دریائے گنگا میں حیات بخش پانی کی روانی سال میں صرف تین ماہ تک محدود رہ جانے کے نتیجے میں دریا سے سیراب ہونے والا چھ لاکھ ہیکٹر پر مشتمل علاقہ اب صرف ۱۰ فیصد سمندوں کی پیش قدمی سے محفوظ رہ گیا ہے اور تازہ پانی کی کمیابی سے تیمر کے جنگلات کے مکمل خامتے کا خطرہ بڑھ رہا ہے ۔ اس میں زہریلے صنعتی فضلات کی شمولیت الگ غضب ڈھارہی ہے ۔ عالمی سطح پر قطب شمالی اور جنوبی کے جانوروں کے خلیات میں زہریلے مرکبات کی سطح بڑھ رہی ہے۔ بارانی جنگلات کی تباہی کے علاوہ ان میں موجود جانوروں کی تعداد بھی گھٹ رہی ہے ۔ یہ جانور اب پھپوندی (فنگس) کے امراض کے شکار ہو رہے ہیں۔ جنگلات کے ندی نالوں سے مینڈکوں کے غائب ہو جانے کی وجہ سے ان میں کائی تیزی سے پھیلی رہی ہے ۔ اس سے چھوٹے آبی حیوان گھٹ کر ختم ہو جائیں گے ۔کاربن اور نائٹروجن گیسوں کے توازن میں بگاڑ سے دیگر پیچدگیوں کے علاوہ موسمی تغیرات رونما ہو رہے ہیں اور سمندروں میں تیزابیت کی سطح بڑھ رہی ہے جو ساحلی پودوں ، درختوں اور آب ِ حیات کے لیے مہلک ثابت ہو رہی ہے ۔ درجہ حرارت میں اضافے سے سمندر کی مرجانی چٹانیں بھی زد میں آرہی ہیں۔ جس طرح مرض سے پہلے اس کی تشخیص اور پھر علاج ضروری ہوتا ہے اسی طرح ماحولیاتی امراض کی شناخت کے بعد ان کے علاج اور تدارک کی کاوشیں بھی ضروری ہوتی ہیں اور ماہرین ماحولیات ان کی نشان دہی بھی کر چکے ہیں جس کے ذریعے ماحولیاتی تباہی سے بچنے کے علاوہ دنیا کی معاشی تباہی سے تحفظ بھی ممکن ہے۔ حکومتوں کے علاوہ نجی شعبے بھی اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ صنعتوں اور گاڑیوں میں غیر مضر گیسوں کے استعمال جیسے اقدامات یقیناً خوش آئند ہیں۔ ماحولیاتی تباہی سے بچنا عین ممکن ہے اس کے لیے سیاراتی سطح پر ایسے ہی حفاظتی اقدامات اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔
(بحوالہ: ماہنامہ افکار ملی ، نئی دہلی شمارہ دسمبر۲۰۰۷ء)
Leave a Reply