ریڈیو، سنیما اور ڈرامے کے مقابلہ میں ٹی وی اور انٹرنیٹ نے مشاہدین کو اپنی طرف پوری طرح جذب کر لیا ہے۔ ٹیلی ویژن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ انانیت پسند ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے آدمی کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ ٹی وی پروگرام کو تنہا دیکھنے والے کے جذبات اجتماعی جذبات سے الگ ہوتے ہیں، مشاہد جب تنہا ٹی وی پروگراموں کو دیکھتا ہے تو کلی طور پر اس کے اندر مستغرق ہو جاتا ہے، اسے اپنی رائے کے اظہار یا تنقید کا موقع نہیں ملتا۔
چوبیس گھنٹے چلنے والے ملکی و غیرملکی ٹی وی چینلز کے ذریعہ مغربی تہذیب و ثقافت کی تشہیر سے ہماری نوجوان نسل کے کردار و سیرت پر جو منفی اثرات پڑ رہے ہیں اور مزید آئندہ اس سے متعلق اثرات ظاہر ہوں گے، وہ اظہر من الشمس ہیں۔ نئی نسل پر ٹی وی دیکھنے کے جو منفی اثرات پڑ رہے ہیں، اس سلسلہ میں مغربی ممالک خصوصاً امریکی معاشرہ میں بچوں پر ٹی وی سے رونما ہونے والے اثرت کے متعلق خاصی تحقیقات ہو چکی ہیں، ان کا سلسلہ ہمارے ملک میں بھی جاری ہے۔ ہم یہاں فقہ و فتاویٰ کی زبان استعمال کرنے کے بجائے خود مغربی ملکوں کے ماہرینِ تعلیم و نفسیات اور سماجی کارکنوں کے میدانی سروے اور جائزوں کے نتائج کے کچھ اقتباسات پیش کر رہے ہیں:
ڈاکٹر جان کونڈری (کارنیل یونیورسٹی، امریکا۔ انسانی اور خاندانی نشوونما کے پروفیسر) اپنے ایک تحقیقی مقالہ میں لکھتے ہیں: کم سن بچے ٹی وی کو مستند سمجھتے ہیں، وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اس پر یقین کر لیتے ہیں اور اکثر و بیشتر یہ سمجھتے ہیں کہ ٹی وی کے کردار بھی ان کو دیکھ رہے ہیں۔
ڈاکٹر جان۔ ایم۔ہیلے (ماہرِ نفسیات) اپنی مشہور زمانہ کتاب میں بچوں پر پڑنے والے ٹی وی اثرات کا تجزیہ ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’اوسطاً اٹھائیس گھنٹے فی ہفتہ عادتاً ٹی وی دیکھنے والے کمسن بچوں کے دماغ کی نشوونما میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے اور یہ تبدیلی بہتری کی سمت میں نہیں ہوتی‘‘۔ (رسالہ پریوی ٹیشن۔ مارچ ۱۹۹۱ء)
بچوں کے پڑھنے کی استعداد اور تعلیمی قابلیت پر ٹی وی کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹی جیروی سنگر (ماہرِ نفسیات کارنیل یونیورسٹی) تحریر کرتے ہیں: ’’ٹی وی کی وجہ سے امریکی بچوں کی تعلیمی قابلیت اور پڑھنے کی مہارت میں انحطاط کی پوری ذمہ داری امریکی ٹی وی پر ہے۔ جو بچے زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں وہ کم علم، زیادہ بے چین اور پڑھائی میں کمزور پائے جاتے ہیں‘‘۔ (ٹائم۔ اکتوبر ۱۹۹۱ء)
اسی قسم کے نتائج کا اظہار نیلسن میڈیا ریسرچ کے شعبۂ تعلیم نے کیا ہے۔
’’جتنا زیادہ بچے ٹی وی دیکھتے ہیں، اتنا ہی ان کے لکھنے کی قدرت کمزور ہوتی ہے۔ ایک تحقیقاتی جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو نوجوان چھ یا دس سے زائد گھنٹے ہر ہفتہ ٹی وی دیکھتے ہیں، انھوں نے دس فیصد کم نمبر حاصل کیے۔ یہ نسبت اپنے ان ہم جماعت کے جو صرف دو گھنٹے فی ہفتہ ٹی وی دیکھتے ہیں‘‘۔
تعلیمی قابلیت کے علاوہ بچوں کی صحت پر بھی مضر اثرات پڑتے ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹر کرٹ دی گولڈ (ماہر امراضِ اطفال، کیلیفورنیا یونیورسٹی) کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے، وہ اپنے مقالہ میں تحریر کرتے ہیں: ’’جو بچے دو سے چار گھنٹے روزانہ ٹی وی دیکھتے ہیں، ان کے خون میں کولیسٹرول کی مقدار دوگنی ہو جاتی ہے۔ بہ نسبت ان بچوں کے جو ٹی وی کم دیکھتے ہیں، بڑے ہو کر آدھے سے زیادہ بچوں کو کولیسٹرول کی زیادتی کے باعث وقت سے پہلے دل کی بیماریاں پیدا ہونے کے امکانات ہیں‘‘۔
جسمانی صحت کے علاوہ نفسیاتی صحت اور کردار سازی کے اعتبار سے بھی ٹی وی کے بہت مہلک اثرات ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ڈینیل۔اے،انڈرسن (میسا چوٹس یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر) اپنی سترہ سالہ تحقیق کے نتائج کا اس طرح اظہار کرتے ہیں:
ٹی وی کے تشدد سے بھرپور پروگرام بچوں کی حقیقی زندگی میں جنگجویانہ مزاج پیدا کرتے ہیں، وہ بچے جو ٹی وی پر زیادہ تشدد اور مار دھاڑ سے ملے جلے پروگرام دیکھتے ہیں، زیادہ جارحانہ مزاج کے پائے گئے ہیں۔ طویل مدت پر محیط تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ تشدد آمیز پروگرام دیکھنے سے آئندہ زندگی میں بھی ان کے مزاج میں تشدد اور لڑائی جھگڑے کا رجحان فروغ پاتا ہے۔ (ٹی وی گائیڈ۔ مارچ ۱۹۹۳ء)
ایسی تحقیقات کے نتائج اس سروے سے بھی معلوم ہوتے ہیں جو ٹی وی پر جنسی ہیجان پر مبنی پروگرام کے بارے میں کیا گیا تھا۔ امریکیوں کی اکثریت اب یہ محسوس کرنے لگی ہے کہ ایسے پروگراموں کی روک تھام کے لیے قانون بنانا ضروری ہے۔ امریکی ٹی وی پر ایسے پروگراموں پر تشویش اور پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے نیوٹن مینو (کینیڈی کے دورِ صدارت میں فیڈرل کمیونی کیشن کے چیئرمین اور کولمبیا براڈ کاسٹنگ سسٹم کے سابق ڈائریکٹر) ٹی وی اسٹیشن کو انتہائی بدکار ادارہ قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ:
’’میں ۱۹۶۱ء میں پریشان ہوا کرتا تھا کہ میرے بچے امریکی ٹی وی سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اب ۱۹۹۲ء میں مجھے یہ تشویش لاحق ہو گئی ہے کہ میرے بچوں کی اولاد اس ٹی وی سے کتنا نقصان اٹھا رہی ہے۔ امریکا میں جب بچہ اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو وہ ڈھائی ہزار مرتبہ قتل و غارت گری اور جنسی ہیجان سے بھرپور مناظر دیکھ چکا ہوتا ہے‘‘۔ (لندن آبزرور ۱۹۹۲ء)
ڈاکٹر والٹر پرنس (پروفیسر جارج یوینورسٹی واشنگٹن) نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ راک میوزک، ہالی ووڈ کی فلمیں اور دوسرے تفریحی پروگرام جو امریکا باہر کے ملکوں کو بھیجتا ہے، وہ نہ صرف وہاں کے معاشرہ پر مضر اثرات چھوڑتے ہیں بلکہ امریکی معاشرہ کے تصور کو بھی داغدار کرتے ہیں‘‘۔ (کرسچین سائنس مانیٹر۔ مارچ ۱۹۹۲ء)
واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز اور لاس اینجلس ٹائمز کے نامہ نگاروں کے قلم سے ایک تحقیقاتی مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا ’’ٹی وی اور فلمیں کس طرح امریکی سوسائٹی میں ظلم و ستم کا سبب بن رہی ہیں اور حکومت اس سلسلہ میں کیا کر سکتی ہے، ان نامہ نگاروں نے امریکی سینٹ کی کامرس کمیٹی کا ذکر کیا ہے جس کی ایک نشست میں امریکی میڈیا کے خطرناک اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے بڑے غصہ کے عالم میں کہا بلکہ دھمکی بھی دی کہ اگر ٹی وی نے سال کے آخر تک ہوش کے ناخن نہ لیے تو کلنٹن انتظامیہ کانگریس سے مل کر ٹی وی کے پرتشدد پروگراموں کو بذریعہ قانون محدود یا بند کر دے گی۔
ان امریکی صحافیوں نے ٹی وی کے مضر اثرات کے متعلق امریکی سماج کے مختلف طبقوں کے تاثرات معلوم کیے ہیں، ان کی بڑی تعداد نے ٹی وی کو فساد پھیلانے کی یونیورسٹی قرار دیا ہے۔ امریکی معاشرہ میں ایسے لوگوں کی تعداد خاصی ہو گئی ہے جو اپنے گھر میں ٹی وی نہیں رکھتے۔
امریکی اٹارنی جنرل جینیٹ رینو نے سینٹ میں یہ بھی کہا کہ اب امریکا تشدد کے سلسلہ میں اکثر بے حسی کا مظاہرہ کرتا ہے، اس لیے کہ وہ شب و روز تشدد ہی میں ڈوبا رہتا ہے۔ آگے چل کر اٹارنی جنرل اس کا اعتراف کرتا ہے کہ کسی ایک فلم کے مناظر حذف کر دینے سے کام نہیں چلے گا اور نہ ہی کسی ایک چینل پر پابندی لگانا ممکن ہے، اس لیے کہ مسئلہ پانچ سو چینلوں کا ہے۔ (نیوز ویک۔ یکم نومبر ۱۹۹۳ء)
شہرہ آفاق رسالہ ریڈرز ڈائجسٹ نے ۱۹۶۱ء میں ایک مضمون شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’ٹی وی، تشدد اور جرائم اور وہ جرائم جو آپ کے گھروں میں ہوتے ہیں‘‘۔ اس مضمون کے آغاز میں آرک بشپ کا بیان دیا گیا ہے کہ ٹی وی کے ذریعہ اس بات کا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ قتل و لوٹ مار معمول کے مطابق چیزیں ہیں۔ یہ بات ٹی وی عملاً لوگوں کے ذہن نشین کراتا ہے۔
ایک امریکن سرجن نے ٹی وی کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ ٹی وی پر تشدد کے مناظر دیکھ کر (خواہ متحرک کارٹون ہی کیوں نہ ہو) بچوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ جدید تحقیق سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ میڈیا میں تشدد سے سوسائٹی میں تشدد کی آبیاری ہوتی ہے۔ ایک صحافی فرانسس کا کہنا ہے کہ ٹی وی پر تشدد سوسائٹی کا پرتو ہے اور تشدد کی ہمت افزائی بھی۔
واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر کارل بٹس بچوں کے پروگراموں کے اثرات کا تحلیل و تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فلموں، ٹی وی سیریز اور فرضی و افسانوی کہانیوں اور متحرک کارٹونوں پر مشتمل پروگرام دیکھنے کا اثر بچوں پر بہت بھیانک ہوتا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ جو ادارے ویڈیو گیمز اور متحرک کارٹون پروگرام تیار کر رہے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ پہلے ان پروگراموں سے پیدا ہونے والے منفی اثرات اور مشکلات کا حل سوچیں اور یہ بتائیں کہ ان کے مضر اثرات کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر کی تحقیق یہ ہے کہ ویڈیو گیمز اور متحرک کارٹون جیسے پروگرام دیکھنے سے بچوں کے اندر مندرجہ ذیل امراض پیدا ہوتے ہیں۔ ہتھیلی پر پسینہ چھوٹتا ہے، دردِ سر، متلی، مرگی کے علاوہ بدہضمی اور اعصابی تنائو پیدا ہوتا ہے۔ افسانوی اور فرضی پروگرام دیر تک دیکھنے سے بچوں کو اس وقت نفسیاتی اور ذہنی صدمہ اٹھانا پڑتا ہے۔ جب یہ پروگرام ختم ہو جاتے ہیں اور وہ حقیقت کی دنیا میں واپس آجاتے ہیں۔
اسٹینفرڈ انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ نگرانی ہونے والے متعدد میدانی سروے اور جائزوں سے مندرجہ ذیل حقائق سامنے آتے ہیں۔ انسان اپنی پیدائش کے بعد سے ایک متعین طریقہ پر زندگی گزارنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ ٹھوس حقائق سے ہر دم اس کا واسطہ پڑتا ہے لیکن جب واقعات و حقائق اور اوہام و خیالات کے درمیان تصادم ہوتا ہے تو ذہنی اور نفسیاتی طور پر بچہ کو صدمہ ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کو چکر آتا ہے، حقائق سے گریز کرنے لگتا ہے، ایک بٹن دبا کر خود کو حسین اور رنگین خیالی دنیا میں پہنچا دیتا ہے، وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ یہ خیالی دنیا اس کے لیے حقیقت بن جائے جب عملاً ایسا نہیں ہوتا تو وہ ذہنی و اعصابی کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے، جن آنکھوں سے وہ ان خیالی مناظر کو دیکھتا ہے، انھیں بھی صدمہ ہوتا ہے، اسی لیے اس کو چکر اور مرگی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔
کنساس یونیورسٹی میں سماعت اور آواز کے ماہر استاد مائیکل نے ایک سروے میں یہ انکشاف کیا کہ چودہ مہینے کے کمسن بچے بھی اگر ٹی وی اسکرین دیکھتے ہیں تو ان مشاہدات کا اثر قبول کرتے ہیں۔ یہ بچے بڑے ہو کر سرکش، تشدد پسند اور قاتل ہوتے ہیں۔
امریکی ماہرِ نفسیات لیونارڈایری نے اپنی تحقیقات کا دائرہ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۹۶ء تک بڑھا دیا۔ اس نے اپنے سروے میں اس کا اہتمام کیا کہ جو بچے ۱۹۶۰ء میں پیدا ہوئے، ان کی زندگی ۱۹۹۶ء تک کیسے گزری۔ مشی گن یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر لیونارڈ نے نیویارک میں پیدا ہونے والے چھ سو پچاس بچوں کا جائزہ لیا تو یہ نتیجہ سامنے آیا کہ ان تمام نے اس کا کھل کر اعتراف کیا کہ انھوں نے تشدد، قتل، بداخلاقی اور چوری ڈکیتی میں ٹی وی پروگراموں سے اثر قبول کیا یا سنیما کے پردے سے۔ ایسے بچے تعلیمی میدان میں ناکام رہے۔ سولہ سترہ سال تک پہنچتے پہنچتے وہ قاتل اور ڈاکو بن گئے۔ اپنی بیویوں کو انھوں نے مارا پیٹا، بدکاری کا راستہ اختیار کیا اور نشہ آور اشیاء کے عادی بن گئے۔
برطانیہ کی ماہرِ نفسیات خاتون سوزان بیل نے برطانیہ کے قاتلوں سے جو انٹرویو لیے اور ان کی زندگی کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان قاتلوں میں سے ۴۵ فیصد تشدد سے بھری ہوئی فلمیں دیکھتے تھے۔
۱۳ اکتوبر ۱۹۹۴ء میں ایک امریکی نوجوان نے ٹی وی پر ایک فلم دیکھتے ہوئے اپنی ماں، باپ، بہن اور بیوی کو قتل کر دیا۔ ایک فرانسیسی فلم دیکھ کر ایک نوجوان نے اپنے خاندان کے پانچ افراد کو کھڑے کھڑے گولی مار دی، اس فلم میں یہ الفاظ بار بار دہرائے گئے تھے کہ اگر تمہارے پاس ریوالور ہے تو ہر چیز تمھاری ملکیت ہے۔
لندن کے ایک ماہرِ نفسیات نے اپنے سروے سے یہ نتائج اخذ کیے کہ پندرہ سو لڑکے لڑکیوں کے نفسیاتی تجزیہ سے معلوم ہوا ہے کہ وہ فلموں میں بے حیائی اور بداخلاقی کے مناظر کو فراموش کر جاتے ہیں لیکن تشدد کے مناظر ان کے ذہن میں کسی طرح محو نہیں ہوتے، خوفناک مناظر دیکھ کر ان کی نیند اڑ جاتی ہے، حالانکہ وہ انھیں بھلانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بچے تشدد سے بھرپور فلموں کو بڑی تعداد میں اور دیر تک دیکھنا پسند کرتے ہیں جن کے مضر اثرات ان کی سیرت و کردار پر پڑتے ہیں۔
برطانوی شعبہ میڈیکل کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والے رسالہ نے میڈیا پر الزام لگایا ہے کہ ویڈیو گیمز اور متحرک کارٹونز جیسے پروگرام دکھا کر نئی نسل کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ ٹی وی انجینئر، پروگرام ڈائریکٹر اور مشاہدین سب اس کے شاکی ہیں کہ وہ دماغی اور اعصابی طور پر پریشان ہو جاتے ہیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ اس وقت برطانیہ میں بچوں کے پروگراموں میں چالیس فیصد متحرک کارٹون دکھائے جاتے ہیں جن میں تشدد ہوتا ہے۔ تعلیمی پروگراموں کا تناسب اب گھٹ کر صرف سات فیصد رہ گیا ہے۔ ڈش انٹینا کے ذریعہ بچوں کے جو پروگرام پوری دنیا میں نشر کیے جاتے ہیں ان میں متحرک کارٹونوں کے پروگراموں کا تناسب ۷۰ فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
مندرجہ بالا سرووں سے الگ ایک نئے انداز کا سروے ایک امریکی شہری بل میکن نے ٹی وی پروگراموں کا کیا اور اس کو ’’قتل وقت‘‘ کا نام دیا۔
اس محقق نے ریاست ورجینیا کے ایک شہر کو اس کے لیے منتخب کیا جہاں ایک سو چینلز پر ہر طرح کے پروگرام پیش کیے گئے ہیں۔ بل نے طے کیا کہ ٹیلی کاسٹ ہونے والے تمام پروگرام چوبیس گھنٹے تک دیکھے گا، چنانچہ اس نے چوبیس گھنٹے سو چینلوں پر ٹیلی کاسٹ ہونے والے پروگراموں کو ویڈیو کیسٹ پر ٹیپ کر لیا۔ اس کے بعد ان تمام پروگراموں کو یکے بعد دیگرے دیکھنا شروع کیا جو دو ہزار گھنٹے پر مشتمل تھی۔ آخر میں وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ٹی وی سے صرف تفریح ہوتی ہے۔ جرم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اس سے علم یا معلومات میں ذرّہ برابر اضافہ نہیں ہوتا۔ اس محقق نے امریکی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر بلومر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ امریکی فلموں نے پوری دنیا میں عام طور پر جنسی خواہشات ابھارنے میں بڑا بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ان فلموں سے منشیات کے استعمال، چوری، ڈکیتی، قتل و غارت گری اور بداخلاقی کی تعلیم ملتی ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر اسٹیفن نے کہا ہے کہ جیلوں کو جرائم کی یونیورسٹی قرار دیا جاتا ہے لیکن فی الحال ٹی وی جرائم سکھانے کا ابتدائی اسکول ہے جہاں مجرموں کو بڑی فنکاری اور منصوبہ بندی سے تیار کیا جاتا ہے۔
آسٹریلیا کے محققین کے مطابق ٹی وی سے نکلنے والی تابکار شعاعیں دماغ کے نظامِ عمل کو متاثر کرتی ہیں۔ بچوں کا دماغ ٹی وی کی تابکار شعاعوں کو برداشت نہیں کر سکتا اور جب ایک بار دماغ مائوف ہو جاتا ہے تو پھر نگاہیں ٹی وی کے پردے پر لگ جاتی ہیں۔ اس طرح بچہ ٹی وی دیکھتے وقت گویا محصور ہو جاتا ہے اور ٹی وی دیکھتا رہتا ہے چاہے کوئی پروگرام آرہا ہو۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’شاہراہِ تعلیم‘‘ لاہور۔ شمارہ: اپریل ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply