
محاذ بھی وہی ہے اور مقاصد بھی وہی ہیں۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ نئے دُشمن اور ان کے اتحادی سامنے آئے ہیں۔
تاریخ کی حِسِ مزاح خاصی تاریک ہے۔ نائن الیون کے تیرہ سال بعد امریکی صدر ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوا اور قوم کو بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی کی جنگ میں نئے دُشمن کے خلاف نیا محاذ کھولا جارہا ہے۔ یہ کوئی ایسا اعلان نہیں تھا جس کی براک اوباما نے توقع کی ہو۔ اُنہوں نے قوم کو بتایا کہ نئی جنگ چھیڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ قوم سے خطاب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’میں یقین دلاتا ہوں کہ یہ نئی جنگ (جو ’’داعش‘‘ کے خلاف چھیڑی جارہی ہے) عراق اور افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ سے بہت مختلف ہوگی کیونکہ بیرونی سرزمین پر امریکی فوجیوں کو تعینات نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘
انتہا پسند تنظیم ’’داعش‘‘ کے خلاف لڑائی چھیڑی جاچکی ہے۔ اب تک کے تمام اندازوں کے مطابق ’’داعش‘‘ کے ارکان کی تعداد زیادہ سے زیادہ دس ہزار ہے مگر امریکی ڈرون اور لڑاکا جہازوں نے اُن کے ٹھکانوں پر کم و بیش ۱۵۰؍حملے کیے ہیں۔ صومالیہ میں ایک عسکریت پسند گروپ کے سربراہ احمد عبدی گودین کو فضائی حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ ان کے گروپ پر گزشتہ برس کینیا میں غیرملکی سیاحوں کے ایک گروپ کو ہلاک کرنے کا الزام تھا۔ افغانستان، پاکستان اور یمن میں بھی امریکی ڈرون حملے جاری ہیں۔ امریکی فوج اب نیجر میں بھی کارروائیوں کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ تیاری انتہا پسند اسلامی گروپ بوکو حرام کے خلاف کارروائی کے لیے ہے۔
صدر براک اوباما نے جب دوسری بار صدر منتخب ہونے پر افتتاحی تقریر کی تھی، تب واضح کر دیا تھا کہ جنگوں کا عشرہ ختم ہو رہا ہے یعنی اب امریکی فوج کو دور اُفتادہ خطوں میں زیادہ متحرک نہیں رہنا پڑے گا۔ مگر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اُن کی تقریر میں پیش کردہ عزائم کے برعکس ہے۔ امریکا ایک بار پھر کئی محاذوں پر سرگرم دکھائی دے رہا ہے۔ اسلامی انتہا پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کے نام پر نئے محاذ کھولے جارہے ہیں۔ مئی ۲۰۱۳ء میں براک اوباما نے قوم سے کہا تھا کہ مخصوص حالات کے تحت جارج واکر بش نے امریکی فوج کے لیے جو اختیارات طلب کیے تھے، اب ان سے دست بردار ہونے کا وقت آگیا ہے۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تاریخ ہمیں ایسا ہی کرنے کا مشورہ دیتی ہے۔ دوسری بہت سی یا تمام ہی جنگوں کی طرح اس جنگ کو بھی ختم ہونا ہے۔ یہی امریکی جمہوریت کا بھی تقاضا ہے۔
مگر خیر، دہشت گردوں کو اس بات کی کچھ پروا نہیں کہ تاریخ کیا مشورہ دیتی ہے یا جمہوریت کا تقاضا کیا ہے۔ مالی سے بن غازی تک اور موصل سے کراچی تک وہ بہت بڑی تعداد میں پنپ چکے ہیں۔ چار برس کے دوران انقلابی اسلامی گروپوں کی تعداد میں ۶۰ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات ماہِ جون میں رینڈ کارپوریشن نے بتائی۔ القاعدہ اور اس سے جُڑے ہوئے گروپوں (جن میں ’’داعش‘‘ شامل نہیں) کے حملوں میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ القاعدہ اب بھارت کے مسلمانوں میں بھی انقلابی عناصر پیدا کرنا چاہتی ہے۔ کرنل معمر قذافی کے بعد کے لیبیا میں بھی انقلابی عناصر کی تعداد میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
عرب دنیا میں بیداری کی لہر کے بعد پیدا ہونے والی انقلابی لہر کو پروان چڑھانے میں سوشل میڈیا، عطیات، اغوا برائے تاوان اور بھتوں نے غیر معمولی بڑھاوا دیا ہے۔ اِس میں یقیناً براک اوباما کا کوئی قصور نہیں۔ اوباما کا دوسرا دور بھی قضیوں کی نذر ہو رہا ہے۔ وہ ملک میں بہت کچھ کرنے کے خواہش مند ہیں مگر بیرونی محاذ اُن کی جان نہیں چھوڑ رہے۔ جس صدر نے دہشت گردی کا گراف نیچے لانے کے عزم کا اظہار کیا تھا، اس کا نائب ’’داعش‘‘ کا جہنم کے دروازے تک تعاقب کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔
جارج واکر بش کے دور میں ہوم لینڈ سیکورٹی کے مرکزی مشیر جوآن زراٹے کا کہنا ہے کہ براک اوباما نے امریکا کو ہر اعتبار سے قضیوں سے دور رکھنے اور دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کا خواب دیکھا تھا، مگر اب تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسا خطرہ ان کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہو گیا ہے، جو ہر اعتبار سے عالمگیر ہے۔ ذرائع کے مطابق براک اوباما نے سرکاری دستاویزات میں ’’وار آن ٹیرر‘‘ کی اصطلاح کا استعمال بے حد کم کر دیا تھا۔ مگر پھر بھی یہ جنگ ان کا تعاقب ہی کرتی آئی ہے اور آج کل یہ زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔
حکمتِ عملی
صدر اوباما نے جو تقریر کی، اُس سے ایک دن ہی قبل امریکی وزیر خارجہ جان کیری ایئر فورس کے ایک مال بردار طیارے کے ذریعے بغداد پہنچے۔ وہ نئے عراقی وزیراعظم حیدر العبادی سے ملنے آئے تھے۔ ملاقات سابق صدر صدام حسین کے محل میں طے تھی جو برسوں قابض امریکی افواج کے لیے ہیڈ کوارٹر کا کردار ادا کرتا آیا تھا۔ حالات کی سنگین نوعیت دیکھتے ہوئے اور عراق کے بہت سے علاقوں کو ’’داعش‘‘ کے زیرِ تصرف پاتے ہوئے بھی جان کیری نے حیدر العبادی نے اس بات پر مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا کہ عراق میں نئی حکومت تشکیل پاچکی ہے۔ جان کیری نے امید ظاہر کی کہ عراق اور امریکا مل کر ’’داعش‘‘ کے خلاف نئی اور بھرپور کارروائی کریں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے امید بھی ظاہر کی کہ بغداد میں قائم ہونے والی حکومت اور شمالی بغداد کے سُنّی قبائل میں جلد مصالحت ہوجائے گی۔
امریکا نے ’’داعش‘‘ کو شکست دینے اور زیرِ دام لانے کا جو منصوبہ بنایا ہے، اُس پر عمل کرنا انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے۔ امریکی فضائیہ کو حرکت میں لانا، خصوصی دستوں سے کام لینا اور علاقائی قوتوں کو زمینی فوج فراہم کرنے کی طرف مائل کرنا آسان نہیں۔ علاقائی قوتوں کو ایک نکتے پر جمع کرنا اور آپس کے اختلافات بھلا کر ’’داعش‘‘ کے خلاف مل کر لڑنے پر آمادہ کرنا کسی طور آسان نہیں۔ امریکا نے چند ایسے معاملات بھی آگے بڑھائے ہیں جو اَب تک ممکن دکھائی نہ دیتے تھے۔ ’’داعش‘‘ کے خلاف لڑائی میں ایران کو بھی امریکا نے جُزوقتی اتحادی کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اوباما انتظامیہ کے لیے شام کی بشارالاسد انتظامیہ اوّلین خطرے کی حیثیت رکھتی تھی مگر اب اس کی حیثیت ثانوی نوعیت کے دشمن کی سی ہوگئی ہے۔ اردن نے اپنی سرحدوں کے نزدیک ’’داعش‘‘ کی سرگرمیوں سے متعلق امریکا کو باخبر رکھنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ خطے کی طاقتور سُنّی ریاستیں مثلاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی عراق کے سُنّیوں کو ’’داعش‘‘ کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرنے کے لیے اثر و رسوخ اور دولت، دونوں بڑے پیمانے پر بروئے کار لائیں گی۔
’’داعش‘‘ کے خلاف جس نوعیت کا اتحاد تشکیل دیا جارہا ہے، اُس میں سب سے ضروری عنصر کو ہم تحمل کے نام سے جانتے ہیں۔ اس لڑائی میں امریکی کردار اب تک خاصا محدود ہے۔ امریکی فضائیہ اور بحریہ، دونوں ہی ’’داعش‘‘ کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہی ہیں اور ایک ہزار سے زائد امریکی فوجی اس حوالے سے متحرک ہیں۔ ’’داعش‘‘ نے دو امریکی صحافیوں کے سَر قلم کیے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں امریکیوں نے اپنی حکومت کو، رائے عامہ کے جائزوں کی شکل میں، اس بات کی محدود اجازت دی ہے کہ عراق میں کارروائی کی جائے مگر یقینا کوئی بھی امریکی نہیں چاہے گا کہ امریکی فوج ایک بار پھر عراق میں مکمل جنگ میں الجھ کر رہ جائے۔ ترکی بھی اس حوالے سے ایک اہم ملک ہے جس کی شام سے ملحق دشوار گزار سرحد یورپ اور مشرقی وسطیٰ سے آنے والے ہزاروں ’’داعش‘‘ جنگجوؤں کے لیے بہترین کراسنگ پوائنٹ رہا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ ترکی اپنی سرحد کی سخت نگرانی کرے تاکہ جنگجو ترکی کے راستے شام یا عراق میں داخل نہ ہوں۔ ترکی نے اب تک اس معاملے میں چشم پوشی کی راہ پر گامزن رہنا پسند کیا ہے کہ وہ بھی شام میں بشار انتظامیہ کو پسند نہیں کرتا۔ کردوں نے امریکا سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ’’داعش‘‘ کے خلاف لڑائی کے لیے محدود پیمانے پر فوج فراہم کریں گے۔ قطر اور کویت سے یہ توقع رکھی جارہی ہے کہ وہ مالدار افراد کی طرف سے ’’داعش‘‘ کو دی جانے والی خطیر رقوم کے عطیات کو محدود رکھیں گے۔ یہ عطیات شام میں بشارالاسد انتظامیہ کے مخالفین کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لیے دیے جاتے رہے ہیں اور صدر اوباما شام میں اعتدال پسند عناصر کا ساتھ دیں گے تاکہ وہ زمینی کارروائیوں میں ’’داعش‘‘ کے خلاف بھرپور کارروائی میں معاون ثابت ہوں۔
اوباما چاہتے ہیں کہ عراق کے سُنّی بغداد میں بننے والی مرکزی حکومت سے مل کر چلیں اور بالخصوص ’’داعش‘‘ کے خلاف کارروائی کی خاطر۔ آٹھ سال تک مختلف ہتھکنڈوں سے زیادہ سے زیادہ طاقت بٹورنے والے دغاباز وزیراعظم نوری المالکی سے نجات پائی جاچکی ہے۔ سُنّیوں نے اُن پر ہمیشہ جانب داری کا الزام عائد کیا۔ حیدر العابدی بھی شیعہ ہیں مگر اُن کے ہاتھوں پر سُنّیوں کا خون نہیں، اِس لیے سُنّی اُنہیں آسانی سے قبول کر لیں گے اور وہ مزاجاً بھی خاصے روادار ہیں یعنی سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ جان کیری نے بغداد میں ایک اور منصوبے کی بات بھی کی جس کے تحت فوج کے شیعہ دستوں کو ’’داعش‘‘ کے سُنّی جنگجوؤں کے مقابل کھڑا کرنے کے بجائے نیشنل گارڈز قسم کی نئی فورس قائم کی جائے گی۔ مگر یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں، جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ عراق میں جب بھی نئی صبح کی بات کی گئی ہے، تاریکی اور بڑھی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ عراق میں معاملات اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ہمیں مزید مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ معاملات مزید الجھیں اور ہمیں سوچنا پڑے کہ اب ہم کہاں جائیں گے۔
بنیادی خطرہ
امریکا کے لیے سب سے بڑا چیلنج سُنّیوں کی اکثریت کے نزدیک انتہائی محترم سمجھے جانے والے اس عقیدے کو کمزور کرنا ہے کہ جنگ مقدس ہے، سیکولراِزم شَر کی ایک شکل ہے اور یہ کہ اِس لڑائی میں عام شہریوں کو کہیں بھی نشانہ بنانا کچھ غلط نہیں۔
جہاد کے تصور ہی نے القاعدہ اور اس سے تعلق رکھنے والے تمام گروپوں کو جنم دیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکا سے ٹکرانے والوں کے عزائم پُختہ تر ہوتے گئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی صورت حال نے جہادیوں کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔ خانہ جنگی بھی جہادیوں کو متحرک رکھنے میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ اُن کے نزدیک عرب معاشرے جمود کا شکار ہیں اور یہ جمود ویسا ہی ہے جیسا کہ ٹھہرا ہوا پانی مچھر پیدا کرنے کے لیے ہوا کرتا ہے۔
امریکا ایک زمانے سے دہشت گردی ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ڈرون استعمال نہ کرنے پڑیں اور اپنے ہم نوا آمر کھڑے کرنے پر زیادہ ڈالر بھی صرف نہ کرنے پڑیں مگر اب تک یہ محض خواب ہے۔ امریکا کو اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا اور دینا پڑتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے بغداد میں یہ ’’مژدہ‘‘ بھی سُنایا کہ امریکا مذہبی اور سماجی قائدین سے مل کر تخلیقی شراکت قائم کرنا چاہتا ہے اور ایسے مستقبل کو یقینی بنانے کا خواہش مند ہے جس میں رواداری اور اعتدال پسندی کے ساتھ ساتھ محبت کی بھی گنجائش ہو۔
امریکا جانتا ہے کہ ’’داعش‘‘ کی پشت پر کام کرنے والے ذہن سوشل میڈیا پر بھی بہت متحرک ہیں۔ امریکیوں نے بھی چند وڈیوز کی مدد سے ’’داعش‘‘ کے بارے میں دنیا کو بتانے کی کوشش کی ہے۔ بہت سی ویڈیوز کے ساتھ تبصرہ بھی موجود ہے کہ جو کچھ ’’داعش‘‘ کر رہی ہے، وہ مسلمانوں کے سوادِ اعظم کی راہ نہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ایک خاص حد تک کنٹرول تو کیا جاسکتا ہے، جیتا نہیں جاسکتا۔
ترکہ (The Legacy)
تمام پہلوؤں پر غور کیا جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ’’داعش‘‘ نے سامنے آکر براک اوباما کے لیے ایک اچھا موقع بھی پیدا کیا ہے۔ یہ موقع حالات کے مطابق پالیسی بدلنے اور حقیقی فتح یقینی بنانے کے لیے کماحقہٗ تیاری کرنے کا ہے۔ ایک بڑے دشمن کے خلاف کئی ممالک کو متحد اور صف آرا کر کے اوباما نے قیادت کا جوہر دکھایا ہے۔ اب امریکا میں اور اُس سے باہر اُن کے ناقدین کچھ سوچنے پر مجبور ہوں گے۔ اب تک صدر اوباما پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ قیادت سے بھاگتے رہے ہیں اور بالعموم پسِ پردہ رہتے ہوئے قیادت کا فرض نبھاتے ہیں۔ اب وہ سامنے آکر زیادہ عسکری قوت استعمال کرنے کے حوالے سے بھی پُرعزم دکھائی دے رہے ہیں۔
اخراجات کا معاملہ بھی اب تک اوباما کے ہاتھ میں نہیں۔ ۲۰۱۳ء کے موسمِ بہار میں اوباما نے اعلان کیا تھا کہ ڈرون حملے کم کر دیے جائیں گے، گوانتا ناموبے جیل بند کر دی جائے گی اور شہری آزادیوں پر لگائی جانے والی ہر بے جا قدغن دور کر دی جائے گی۔ مگر ’’داعش‘‘ اور اُس کے ہم نوا گروپوں کے سامنے آنے سے اوباما کے تمام منصوبے دُھول چاٹتے دکھائی دے رہے ہیں۔ نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی کا خفیہ معلومات جمع کرنے کا نظام بہت پھیل چکا ہے۔ اِسے کنٹرول کرنے کے لیے کانگریس میں جو کوشش کی جارہی تھی، وہ اب تقریباً مُردہ ہو چکی ہے۔
صدر اوباما نے اِس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ کو اپنی اوّلین ترجیحات میں نہیں رکھیں گے۔ مگر ایسا ممکن نہیں رہا۔ ملک میں بھی اُن کے لیے مسائل کی کمی نہیں۔ ہیلتھ کیئر سسٹم کے حوالے سے مشکلات برقرار ہیں اور چین بھی ایک بڑے خطرے کی شکل میں اُبھر رہا ہے۔ اب بنیادی سوال یہ نہیں کہ اوباما اپنے دوسرے اور حتمی عہدِ صدارت کے خاتمے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ختم کر سکیں گے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ اِتنا کچھ بھی کرسکیں گے کہ اُن کا جانشین اِس جنگ کو ختم کرنے کی پوزیشن میں آسکے۔ فلوریڈا کے ری پبلکن سینیٹر مارکو ربیو کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لامتناہی تو یقیناً نہیں ہو سکتی مگر ہاں، یہ غیر معمولی طویل ضرور ہوگی۔
مئی ۲۰۱۳ء میں صدر اوباما نے قوم کو خبردار کیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ قوم کی نفسیاتی ساخت کو کھا جائے گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے اِس جنگ کا مفہوم متعین نہ کیا تو یہ ہمارا مفہوم متعین کرے گی۔ سچ یہ ہے کہ صدر اوباما نے معاملات کی تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی نوعیت کو سمجھنے میں تساہل کا مظاہرہ کیا۔ اب یہ تبدیلی اُنہیں Define کر رہی ہے۔ اِس حد تک تو وہ درست ہی کہہ رہے ہیں۔
“The never-ending War”. (“Time”. Sep.11,2014)
Leave a Reply