
امریکا کو زوال سے دوچار ہوتے ہوئے دیکھنے کی تمنا ہر اس ملک کے باشندوں کے دل کی دھڑکن ہے جس پر امریکی پالیسیوں کا قہر ٹوٹا ہے۔ امریکا نے بھرپور طاقت کے نشے میں چُور ہوکر دنیا بھر میں خرابیاں پیدا کی ہیں۔ ایسے میں اگر لوگ امریکا کے زوال کی خواہش رکھتے اور دعا کرتے ہیں تو حیرت کی کوئی بات نہیں۔ مگر کیا واقعی امریکا کا زوال قریب آچکا ہے؟ اگر زوال کو ہم کوئی واقعہ نہ سمجھیں اور سلسلۂ واقعات قرار دیں تو اس میں کچھ شک نہیں کہ امریکا کا زوال اب واقع ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں امریکی مفادات کو دھچکا لگ رہا ہے۔ معیشت اور معاشرت دونوں میدانوں میں امریکا اور مجموعی طور پر مغرب کے متبادل مقبول ہو رہے ہیں۔ جاپان نے امریکا اور یورپ کی ہم نوائی تو کی ہے تاہم وہ مغربی تہذیب کے لیے سب سے بڑے خطرے کی حیثیت بھی تو رکھتا ہے۔ دوسری طرف چین اور بھارت تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ عالمی معیشت میں ان دونوں کا حصہ بڑھتا جارہا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی نظر نہیں چرا سکتا کہ امریکا کے لیے عالمی سطح پر اپنی بالا دستی برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے؟ تو کیا امریکا اس طرح دھڑام سے گر پڑے گا جس طرح کوئی عمارت گر جایا کرتی ہے؟ کسی بھی دور کی بڑی طاقت کس طرح زوال پذیر ہوتی ہے، تاریخ کیا بتاتی ہے؟ امریکی زوال واقعہ ہے یا واقعاتی سلسلہ؟ اس موضوع پر امریکا اور یورپ میں بھی خاصی توانا بحث ہو رہی ہے۔ مغرب کے دانشور اپنی معیشت اور معاشرت کے زوال پذیر ہونے کے اسباب پر غور کر رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ حالات کی نوعیت پر غور کرکے وہ کسی ایسے نتیجے تک ضرور پہنچیں گے جو انہیں ایک نئی دنیا سے روشناس کرائے گا۔ اپنے ہی زوال کے اسباب پر غوروخوض اور بحث و تمحیص دراصل امکانات تلاش کرنے کی تمنا کا نتیجہ ہے۔
عالمی معیشت میں چین اور بھارت کا تیزی سے ابھرنا معاملات کو نئی شکل دے رہا ہے۔ ان دونوں ممالک کو اب اہم فیصلوں میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی کچھ بھی کہے، چین اور بھارت نے جدید ٹیکنالوجی اور معیشتی رویوں میں انفرادیت ثابت کردی ہے۔ چین نے صدیوں کے جمود کو خیرباد کہتے ہوئے امریکا اور یورپ کے لیے طبل جنگ بجادیا ہے۔ مغربی دنیا کو اب چین کے بارے میں اور اس سے کہیں بڑھ کر اپنے بارے میں سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ وینڈی ڈوبسن نے اپنی کتاب ’’گریویٹی شفٹ‘‘ (Gravity Shift) میں اس نکتے پر بحث کی ہے کہ اکیسویں صدی میں جاپان، چین اور بھارت عالمی معیشت کا رخ متعین ضرور کریں گے تاہم دوسرے شعبوں میں ان کے لیے زیادہ امکانات پیدا نہ ہوسکیں گے۔
وینڈی ڈوبسن کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ ابھی ایشیائی قوتوں کو اندرونی طور پر بہت کچھ درست کرنا ہے۔ جب تک وہ اندرونی مشکلات پر قابو نہیں پائیں گی، عالمی سطح پر ان کا حقیقی طور پر ابھرنا ممکن نہ ہوگا۔ چین اور بھارت کا ابھرنا اس اعتبار سے اہم ہے کہ ایشیا کے باشندوں میں کسی حد تک فخر کا احساس پیدا ہوگا کہ ان کی بھی کچھ حیثیت ہے۔ مگر یہ معاملہ معیشت تک ہی محدود دکھائی دیتا ہے۔ چین اور بھارت کی معیشتیں وزن پیدا کر رہی ہیں، تاہم امریکا کے لیے مجموعی طور پر طاقت کے حوالے سے اب تک ایسی مشکلات پیدا نہیں ہوئیں جن کی بنیاد پر ہر وقت پریشان رہا جائے۔ امریکا بیشتر بین الاقوامی معاملات میں اپنی حیثیت منواتا رہے گا اور دوسروں کو اس کی رائے اور پالیسی قبول کرنی ہی پڑے گی۔
وینڈی ڈوبسن لکھتی ہیں ’’۲۰۰۹ء کے دوران دنیا بھر کی معیشتیں مشکلات سے دوچار رہیں تاہم چین اور بھارت کی معیشت میں نمو کا عمل جاری رہا ہے۔ عالمی منڈی میں مختلف حوالوں سے دونوں نے ہلچل مچائی ہے۔ ماہرین کے اندازوں کی روشنی میں حالات کا جائزہ لیجیے تو چین کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ امریکی معیشت کی ہمسری ۲۰۲۰ء تک کرنے لگے گا اور بھارت کو اس منزل تک پہنچنے میں مزید ۲۵، ۳۰ سال لگیں گے۔ دوسری طرف امریکا کو عالمی کساد بازاری کے اثرات سے مکمل آزادی اب تک نصیب نہیں ہوسکی۔ اندرون ملک صارفین کا اعتماد اب تک بحال نہیں ہوسکا ہے۔ مالیاتی شعبہ کمزور ہے۔ بچتوں کی شرح بھی ایسی نہیں جس پر معاشی نمو کا مدار ممکن ہو۔
ان تمام باتوں کے باوجود یہ سوچنا سادہ لوحی کی دلیل ہوگی کہ امریکا دھڑام سے گرنے والا ہے۔ ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ چین اور بھارت کو ابھی بہت سے شعبوں میں اعلیٰ معیار قائم کرکے دکھانا ہے۔ چین میں معاشرتی تبدیلی کا عمل تیز ہوچلا ہے۔ حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ صَرف (خرچ) کے رجحان کو قابو میں رکھنا ہے۔ جب آمدنی بڑھی تو لوگوں نے بڑے پیمانے پر خرچ کرنا بھی شروع کردیا اور اس کے نتیجے میں بہت سی چیزوں کی سپلائی برقرار رکھنا درد سر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کو یہ مسئلہ عمدگی سے حل کرنا ہے کیونکہ اس کا سیاسی کیریئر داؤ پر لگا ہوا ہے۔
بھارت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیکنو مینوفیکچرنگ انڈسٹریز میں غیر معمولی پیش رفت کو یقینی بنایا ہے مگر آج بھی ۶۰ فیصد سے زائد بھارتی دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور ان کا معیار زندگی پست ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنا بھارت کی مرکزی حکومت کا سب سے بڑا درد سر ہے۔
چین چاہتا ہے کہ معیشت کے بنیادی شعبے کے طور پر اب سرمایہ کاری کے بجائے اشیائے صَرف کی پیداوار کو اپنایا جائے۔ چینی حکومت نے دنیا بھر میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ کئی ممالک میں صارفین کے رجحانات کو موافق بنانے میں چینی آجروں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے بیشتر ممالک میں چینی سرمایہ کاری اس قدر ہے کہ معاشرے کے عمومی رجحانات کو تبدیل کرنے میں چینی حکومت اور آجر بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ اب چین چاہتا ہے کہ خدمات کے شعبے کو اپناکر توانائی کی بنیاد پر کام کرنے والے شعبوں پر دباؤ گھٹایا جائے۔ سرمایہ کاری کے بجائے پیداوار پر زور دینے کی صورت میں چین کے لیے مزید پنپنے کی گنجائش پیدا ہوگی۔ اگر چین کی حکومت صَرف کے رجحان کو متوازن انداز سے پروان چڑھانا چاہتی ہے تو دیہی علاقوں میں صحت عامہ اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں سرکاری شعبے سے فراہم کرنی ہوں گی۔ جب عوام پر دباؤ کم ہوگا تو وہ اپنی آمدنی بہتر انداز سے خرچ کرسکیں گے۔ جب لوگوں کو بچتوں پر معقول شرح سے منافع ملے گا تو وہ بچت کے رجحان کو پھر پروان چڑھائیں گے، اس صورت میں مقامی سطح پر روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
معیشت کے کئی شعبے آج بھی چینی حکومت کے سخت کنٹرول میں ہیں۔ خدمات کے شعبے پر حکومتی کنٹرول سخت ہونے کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقت مشکل ہے۔ چین میں خدمات کی فراہمی پر مامور ادارے چاہتے ہیں کہ انہیں عالمی معیشت میں آزاد کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس صورت میں وہ اپنے لیے بہتر امکانات تلاش کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ صحت مند مسابقت سے کئی ممالک کو فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ خدمات کی قیمت کم ہوتی جائے گی۔ چین میں زر مبادلہ کی منڈی آج بھی سرکاری کنٹرول میں ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت نے چین کے لیے خاص طور پر مشکلات پیدا کی ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ ۲۰۲۰ء تک کچھ ایسا انتظام ہوجائے کہ توانائی کی ۱۵ فیصد طلب کو دوبارہ بروئے کار لائے جانے والے ذرائع سے پورا کیا جائے۔ یہ وہ طریق ہے جس کے تحت کام کرنے کی صورت میں معیشت پر سے دباؤ کم ہوگا۔
چین کے لیے ایک بنیادی مسئلہ بدعنوانی بھی ہے۔ حکومت نے مختلف سرکاری شعبوں میں بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے بیورو آف کرپشن پریوینشن قائم کیا ہے اور اسٹیٹ آڈٹ ایڈمنسٹریشن کو تفتیش کے وسیع اختیارات دیے ہیں۔ چین میں بدعنوان عناصر کو پھانسی دینے کا رواج بھی ہے۔ سخت اقدامات کے نتیجے میں بدعنوانی کا گراف گرتا جارہا ہے تاہم اسے تسلی بخش سطح تک لانے میں کچھ وقت لگے گا۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی کے مختلف ونگز کے ارکان آج بھی قانون کی دسترس سے بالا ہیں۔ میڈیا کو بھی اب تک آزادی نہیں مل سکی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیزی سے پنپنے والی مڈل کلاس کب تک اس صورت حال کو برداشت کرے گی۔
بھارت کے لیے بھی اندرونی سطح پر تبدیلیاں ناگزیر ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ۲۰۲۰ء تک بھارت میں ورک فورس ۹۰ کروڑ نفوس پر مشتمل ہوگی۔ ان میں سے ۲۵ کروڑ افراد ۱۵ سے ۲۴ سال کی عمر کے ہوں گے۔ ان کے لیے ملازمت کے مواقع فراہم کرنا حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔ ایسے میں وہی صنعتیں زیادہ کارگر ثابت ہوسکیں گی جن میں افرادی قوت کی زیادہ ضرورت ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صنعتوں میں مشینوں کا بڑھتا ہوا عمل دخل بھارتی معاشرے کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک طرف تو انفرا اسٹرکچر پر سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف قوانین کی رو سے کسی بھی آجر کے لیے لازم ہے کہ ۱۰ یا اس سے زائد افراد کو ملازمت دینے کے لیے حکومت سے اجازت لی جائے۔ ملازمت کی تعداد جس قدر بڑھتی جاتی ہے، آجروں کے لیے مختلف مدوں میں محصولات اور دیگر اخراجات بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بیشتر آجر اب افرادی قوت بڑھانے کے بجائے سرمایہ کاری کو بنیاد بناکر کام کر رہے ہیں۔ بھارت میں بہت سے قوانین ازکارِ رفتہ ہیں جس کے باعث آجر مختلف شعبوں میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں۔ محنت کی حرکت پذیری میں بھی یہی چیز حائل ہے۔ بنیادی ڈھانچے میں جدید ترین سہولتوں کی کمی نمایاں ہے۔ ایشیا میں کراس بارڈر پروڈکشن نیٹ ورکس تیزی سے فروغ پارہے ہیں۔ تاہم بھارت اس میدان میں پیچھے دکھائی دے رہا ہے۔
بھارت میں ٹیلی کام سیکٹر کا فروغ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب کبھی مرکزی حکومت کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے تو بہت سے کام کے اقدامات ممکن ہوجاتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نے بھی ٹیلی کام سیکٹر کے فروغ میں خصوصی دلچسپی لی ہے۔ ٹیلی کام سیکٹر میں مرکزی حکومت کا عمل دخل زیادہ نہیں۔ مارکیٹ فورسز کو کام کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا ہے۔ نجی اداروں کو کام کرنے کی پوری آزادی دی گئی، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں صرف ۲ سال میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد میں ۲۰ کروڑ کا اضافہ ہوا۔
چین اور بھارت میں معاشی طور پر پنپنے کی خاصی سَکت ہے، مگر ان کی معاشی قوت مجموعی طور پر ایشیا میں مرتکز رہے گی۔ جنوب مشرقی اور مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ممالک ان دونوں بڑی معیشتوں سے بھرپور مستفید ہوتے رہیں گے۔ علاقائی معاہدوں کی اہمیت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ چین فی الحال چاہتا بھی یہی ہے کہ علاقائی سطح پر اپنی طاقت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرے۔ سب سے ترقی یافتہ ۲۰ ممالک کی تنظیم جی۔۲۰ میں چین اور بھارت بھی اہم ہیں۔ مگر ستمبر ۲۰۰۹ میں پٹزبرگ (Pittsburg) کے اجلاس میں ثابت ہوگیا کہ دونوں عالمی سطح پر کوئی پوزیشن حاصل کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی طاقت کم کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
چین نے امریکا میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرکے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے ہیں، جس کے نتیجے میں امریکی معیشت عالمی کساد بازاری کے اثرات سے بہتر طور پر نمٹنے کے قابل ہوسکی ہے۔ اس عمل سے امریکا میں چین کے لیے کسی حد تک نرم گوشہ پیدا ہوا ہے۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امریکا کے لیے معاشی میدان میں تمام خطرات ٹل گئے ہیں۔
امریکا کی مجموعی قوت میں کمی واقع ہو رہی ہے، مگر یہ عمل اتنا تیز رفتار نہیں جتنا سمجھا جارہا ہے۔ آج بھی بیشتر عالمی فیصلے امریکا ہی کی مرضی سے ہو رہے ہیں۔ یورپی یونین، چین اور بھارت نے اب تک خود کو نرم قوت کے میدان میں سرگرم رکھا ہے۔ عسکری معاملات میں ان کا عمل دخل زیادہ نہیں۔ چین اور بھارت اس معاملے میں بہت پیچھے ہیں۔ وہ عالمی معیشت میں تو اہم کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، مگر عسکری معاملات میں اپنی ٹانگ پھنسانے کے موڈ میں ہر گز نہیں۔ امریکا ان لوگوں کی بھی کمزوری اور مجبوری ہے جو اسے کمزور تر دیکھنا چاہتے ہیں۔ عالمی مالیاتی نظام اب تک مغرب کے طے کردہ اصولوں اور مفادات کے تحت چل رہا ہے۔ طاقت کا حقیقی توازن ایشیا کی طرف اس وقت پلٹے گا جب مالیاتی نظام پر ایشیائی طاقتوں کا کنٹرول ہوگا۔ دنیا بھر میں فیشن آج بھی امریکا اور یورپ کی برآمدات میں شمار ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے حوالے سے پیش رفت بھی امریکا اور یورپ ہی کو سردار بنائے ہوئے ہے۔
(From the bookshelf of www.theglobalist.com)
Leave a Reply