غیر مسلم دنیا کے چند بڑے دانشوروں میں سے ایک سوامی وویکانند نے یہ تصور پیش کیا تھا کہ نئی دنیا میں زیادہ منظم اور متوازن ہندو ازم قومی قوت، اتحاد اور شناخت کا ذریعہ ثابت ہوگا۔
مذہبی انتہا پسندی کی بھرپور مذمت ایک عام حقیقت ہے مگر اسلامک اسٹیٹ اور بوکو حرام جیسی تنظیموں کی طرف سے بڑے پیمانے پر قتلِ عام اور پاکستان جیسے ممالک میں انتہا پسندوں کو حاصل تقدس کے تناظر میں یہ زیادہ نمایاں ہے۔ روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے استعمار سے عیسائیت کے گٹھ جوڑ کو نئی زندگی دینے کی کوشش کی ہے۔ روس کے بہت سے رَبِّیوں نے انیسویں صدی اور یہودیت میں صہیونیت کے مابین مناقشے کو نظرانداز کر کے مغربی کنارے میں یہودیوں کو بسانے کو ترجیح دی ہے۔
اسلام، عیسائیت اور یہودیت مجموعی طور پر وحدانیت کی بات کرتے ہیں۔ جن مذاہب نے وحدانیت کو اوّلیت نہیں دی، وہ بھی کارکردگی کے اعتبار سے بہتر ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ بھارت میں ہندو ازم نے اگرچہ رواداری کی مثالیں بھی قائم کی ہیں یعنی دوسروں کو قبول کرنے میں بُخل سے کام نہیں لیا مگر یہ بھی ایک دل خراش حقیقت ہے کہ دو عشروں کے دوران ہندو قوم پرستوں نے اپنے دل کا غبار اقلیتوں پر مظالم ڈھا کر نکالا ہے۔ بدھ ازم کے پیروکار عام طور پر خاصے پُرامن رہے ہیں مگر سری لنکا اور میانمار (برما) میں بدھ راہبوں نے بھی تشدد کی راہ اپنائی ہے۔ تھائی لینڈ کے انتہائی جنوبی حصوں میں بدھ راہب ریاست مخالف شورش میں سپاہی بن کر سامنے آئے ہیں۔
دنیا بھر میں مذہب اگر تمام معاملات کا بنیادی عنصر بن کر ابھر رہا ہے، تو اس سے ہمیں خوف اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ ہم ہر معاملے میں صرف منفی پہلو دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں اور پہلے ہی سے طے کر لیتے ہیں کہ فلاں چیز کے بطن سے صرف شر برآمد ہوگا، خیر نہیں۔ کارل مارکس سے میکس ویبر تک مغرب کے بیشتر دانشوروں کا اندازہ تھا کہ فطری علوم اور ان سے متعلق فنون میں غیر معمولی مہارت اور پیش رفت انسان کو ایسی بھرپور ترقی اور روشن خیالی سے ہمکنار کرے گی کہ پھر اُسے ماورائے فطرت قوتوں کی طرف دیکھنا نہیں پڑے گا۔ ان کا خیال تھا کہ بڑھتی ہوئی مادّی ترقی انسان کو مذہب کی احتیاج سے بیگانہ کر دے گی اور سچ بھی یہی ہے کہ جب ترقی کا رخ مغرب سے غیر مغربی خطوں کی طرف ہوا تو مذہب بہت حد تک پسپائی اختیار کرتا گیا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مذہب لاتعلق سا ہو کر رہ گیا۔
آج بھی دنیا بھر میں آبادی کا بڑا حصہ اپنے بیشتر معاملات میں مذہب کو بنیاد بنا کر بات کرتا ہے۔ سیاست ہو یا معاشرت، قانون ہو یا معیشت، مذہب ہر معاملے میں ٹھوس گفتگو کی بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی میں مغرب اور دیگر ترقی یافتہ خطوں کے ممالک کی مداخلت نے ایشیا اور افریقا میں بہت سی اقوام کو مذہب کی نئے سِرے سے تشریح کرنے کی تحریک دی۔ ترقی یافتہ قوتوں کی طرف سے ہر معاملے میں مداخلت اور طاقت کے محابا استعمال نے چھوٹی اور کمزور اقوام کو اس امر کی تحریک دی کہ مذہب کی طرف پلٹیں اور اپنی صفوں میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا کر کے طاقتور اقوام کا سامنا کریں۔
برطانوی راج کے ہندوستان میں جہاد کا اعلان اور سوڈان میں مہدی کا مورچہ بند ہونا، مغربی استعمار کے خلاف مذہب کی بنیاد پر صف آرا ہونے کی روشن ترین مثالوں میں سے ہیں۔ کوریا کے ہان یونگون، چین کے ٹائگزو، سری لنکا کے اناگاریکا دھرم پالا، میانمار کے یو دھمالوکا اور بھارت کے سوامی وویکانند نے یہ تصور پیش کیا کہ جدید دنیا میں منظم ہندو ازم یا بدھ ازم ہی متعلقہ خطوں کی جامع اور بے داغ شناخت کا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
غیر مسلم دانشوروں نے جو کچھ سوچا اور جو خواب دیکھے (یا بدترین صورت حال کا تصور کیا) وہ بہت حد تک حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ سری لنکا میں بدھسٹ قوم پرستی اب محض تصور نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ بھارت میں سیکولر قوم پرستی کا شیشہ چکنا چور ہو چکا ہے اور اکھنڈ بھارت کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے والے جنونی ہندوؤں نے مرکزی دھارے کی سیاست کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔
جدید قوم پرستی بھی بہت حد تک اُنہی رسوم پر مبنی ہے، جو مذہب سے وابستہ رہی ہیں۔ آئین، ریاست کا قیام، پرچم سے وفاداری بلکہ اُس پر جان و دل سے مر مِٹنے کی تیاری اور سب سے بڑھ کر اکابر پرستی یعنی نظریے کی بنیاد ڈالنے والوں کی رائے کو ہر معاملے میں حتمی تصور کرنا۔ مذہب کے بنیادی تصورات اور رسوم نے مغرب کے انتہائی نوعیت کے سیکولراِزم کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
آئر لینڈ میں کیتھولس اِزم عروج پر رہا ہے۔ انیسویں صدی میں ویلز کے لوگوں نے اپنی شناخت قائم کرنے کے لیے خود کو کلیسائے انگلستان سے الگ کر لیا۔ امریکی انقلاب سے پہلے اور اُس کے بعد پروٹیسٹنٹ عقائد اور نظریات کی غیر معمولی پذیرائی کی گئی۔
جدید دنیا کو حقیقی سیکولراِزم اور ترقی پسند رجحانات عطا کرنے والا ری پبلکن فرانس ہر مرحلے پر غیر معمولی اور استثنائی ثابت ہوا ہے۔ مگر ایک مرحلے پر تو فرانس کے صدر نکولا سرکوزی کو بھی کہنا پڑا کہ یورپ کی جڑیں عیسائیت میں ہیں۔
برطانیہ کی ملکہ الزبتھ آج بھی کلیسائے انگلستان کی سربراہ ہیں۔ جرمنی میں آج بھی کلیسا کو سرکاری امداد ملتی ہے اور ہر کلیسا کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اپنے ارکان سے ٹیکس وصول کرے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں مذہب اور ریاست کو آئینی طور پر الگ کیا جاچکا ہے مگر اس کے باوجود مذہب اب بھی سیاست پر غیر معمولی حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی میں بھی مذہبی رجحانات کا عمل دخل ایسا نہیں کہ محسوس نہ کیا جاسکے۔
مغرب ہو یا مشرق، سیکولر جدت پسندی میں ہمارا بے انتہا یقین ہمیں بہت سے معاملات میں مذہب سے بیگانہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم اِس نشہ میں ایسے مست ہیں کہ کبھی اِس نکتے پر بھی غور نہیں کرتے کہ خالص سیکولر نام کی کوئی چیز ہوا بھی کرتی ہے یا نہیں۔ اپنی یورپی اصل میں صہیونیت خاصی مذہب مخالف تھی مگر اس کے دو بنیادی مقاصد تھے۔ اول ارضِ موعود کی واپسی اور دوم عبرانی زبان کا احیا۔ ٹیکنالوجیکل ترقی نے اِن دونوں مقاصد کو بہت واضح طور پر سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ہندو انتہا پسند اکھنڈ یعنی غیر منقسم بھارت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس میں پورا جنوبی ایشیا شامل ہے۔ ہندو انتہا پسند ہی نہیں بلکہ کانگریس سے تعلق رکھنے والے سیکولر ذہن والے ہندو بھی اکھنڈ بھارت کے حق میں رہے ہیں۔
ہم نے سیکولراِزم کے سامنے بہت تیزی سے ہتھیار ڈالے ہیں اور ہر معاملے میں سیکولر سوچ کو اپنے لیے ہر درد کی دوا سمجھا ہے۔ اسلامک اسٹیٹ (داعش) نے بہت کچھ واضح کیا ہے۔ خیالی جنت کے حوالے سے ان کا تصور سیکولر کھیمر روج (کمبوڈیا) سے کچھ خاص مختلف نہیں۔ اپنے عہد میں پائے جانے والے تشدد پسند رجحانات کو سمجھنے کے لیے ہمیں تازہ تصورات کی ضرورت ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کو سمجھنے کے لیے محض سخت گیر قسم کے سیکولراِزم سے کام نہیں لیا جاسکتا۔
(“The new crusades”.
(Daily “Dawn”. October 1, 2014)
Leave a Reply