
جوکووی ودودو انڈونیشیا کے نئے لیڈر ہیں۔ ان میں غیر معمولی سادگی پائی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان میں وہ سب کچھ ہے جو انڈونیشیا جیسے ملک کو چلانے کے لیے لازم ہے؟
ڈھائی ماہ قبل جوکووی ودودو نے ایک عام طیارے پر اکانومی کلاس میں سفر کرکے اس میں موجود بیشتر مسافروں کو حیران کردیا۔ انہیں اپنے درمیان پاکر لوگوں کو آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اس سفر کا مقصد بظاہر عوام کو یہ یقین دلانا تھا کہ وہ (جوکووی ودودو) خود کو عوام میں سے سمجھتے ہیں۔
انڈونیشیا سے باہر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ جوکووی ودودو کا تعلق پسماندہ طبقے سے ہے۔ انہوں نے خاصی عُسرت کی زندگی بسر کی ہے۔ وہ انڈونیشیا کے پہلے صدر ہیں جن کا تعلق اعلیٰ درجے کے سیاسی یا عسکری پس منظر سے نہیں۔ انہوں نے عام آدمی کے گھر میں جنم لیا اور عوام ہی میں پلے بڑھے ہیں۔ ملک پر طویل ترین مدت تک راج کرنے والے آمر سے نجات پانے کے سولہ سال بعد انڈونیشیا کے عوام نے اپنے میں سے کسی کو صدر کی حیثیت سے چُنا ہے۔ جوکووی ودودو نے ۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۴ء کو ملک کے ساتویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ دیگر ترقی پذیر معاشروں کے جمہوریت سے متعلق ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ انڈونیشیا کے لیے بہت بڑی بات ہے۔ اُس نے جمہوری اقدار کے مطابق آگے بڑھ کر دکھایا ہے۔
جوکووی ودودو نے جولائی کے عام انتخابات میں سابق جنرل پرابووو سبریانتو کو شکست دی۔ صدر کا منصب سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں وہ ذرا بھی نہیں بدلے۔ وہ منصب کے تحت ملنے والے پروٹوکول میں بھی زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ انہوں نے باڈی گارڈز کا فوجی یونیفارم تبدیل کرکے انہیں عام سے کپڑے پہننے کی تاکید کی ہے۔ جوکووی ودودو نہیں چاہتے کہ ان پر قومی خزانے کو زیادہ خرچ کیا جائے۔ وہ عام آدمی کی طرح سفر کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ کسی کے لیے کوئی الجھن پیدا نہ ہو۔ ۵۳ سالہ جوکووی ودودو بڑھئی کا کام کرتے رہے ہیں، وہ جب عام طیارے میں اکانومی کلاس سے سفر کرتے ہیں تو اُن کے ساتھ سفر کرنے والے بہت سے سرکاری افسران اور ساتھیوں کو بہت بُرا لگتا ہے۔ وہ تو سرکاری طیارے میں خاصے پُرتعیش انداز سے سفر کرنا چاہتے ہیں۔ جوکووی ودودو سادگی پر زور دیتے ہیں۔ وہ سرکاری اخراجات میں زیادہ سے زیادہ کمی لانا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں سے ٹیکس کی شکل میں لی جانے والی رقم اُنہی کی بہبود پر خرچ ہو۔
دس سال پہلے تک جوکووی ودودو فرنیچر بنانے والی ایک بڑی فیکٹری کے مالک تھے۔ وہ امریکا اور جرمنی میں منعقد ہونے والے کاروباری میلوں میں شرکت کرتے تھے۔ وہ سیاسی اعتبار سے کسی مستحکم گھرانے کے فرد نہ تھے۔ عسکری حلقوں سے بھی ان کے کچھ ایسے خاص روابط نہ تھے۔ وہ کچی بستیوں والے شہر سولو کے رہنے والے تھے۔ وہیں انہوں نے پرورش پائی اور وہیں سے سیاسی کیریئر بھی شروع کیا۔ سولو کے باشندوں نے انہیں اپنا لیڈر یعنی میئر منتخب کیا۔ یہ ۲۰۰۵ء کی بات ہے۔ اِس کے بعد وہ دارالحکومت جکارتہ کے گورنر مقرر کیے گئے۔ یہ اُن کے لیے حقیقی ٹیسٹ کیس تھا۔ اس میں کامیاب ہونے ہی پر اُن کے لیے قوم کی قیادت کی راہ ہموار ہوسکتی تھی۔ جوکووی نے آستینیں چڑھائیں اور اصلاحات کی راہ پر گامزن ہوگئے۔ کسی کو کاروبار شروع کرنے کے لیے درکار پرمٹ فوری طور پر جاری کیے جانے لگے۔ جکارتہ میں کچرا بہت ہوا کرتا تھا۔ جوکووی نے کچرے کو بہترین ڈھنگ سے ٹھکانے لگانے کا اہتمام کیا۔ اُنہوں نے دارالحکومت میں ٹرانسپورٹیشن کا نظام درست کیا اور سرکاری اسپتالوں کے بستروں کی تعداد بڑھائی۔ یہ سارے کام عوام کے لیے تھے۔ بہبودِ عامہ کا جوکووی ودودو کو غیر معمولی خیال رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں میسر ہوں اور وہ بہتر زندگی بسر کرے۔
جوکووی ودودو جس طور کام کرتے ہیں، اُسے روایتی نوعیت کی اور انتہائی پُرکشش قیادت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جوکووی ودودو چاہتے ہیں کہ شان و شوکت ایک طرف رہے اور عوام کے مسائل حل کرنے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔ جوکووی ودودو کے طور طریقے خاصے پُرانے مگر عوام دوست ہیں، اس لیے عوام نے انہیں اپنی بھرپور حمایت سے نوازا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر معاملے کی تمام تفصیلات اور جزئیات پر نظر رکھی جائے۔ وہ کسی بھی معاملے کو یوں ہی چھوڑنے کے قائل نہیں۔ جکارتہ میں مقیم سیاسی تجزیہ کار فلپس ورمونتے اُنہیں مائکرو منیجر انچیف قرار دیتے ہیں۔
انڈونیشیا ایسا ملک ہے جس پر غیر معمولی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انڈونیشیا کی سرزمین پر دہشت گردی کی کسی بڑی واردات کو وقوع پذیر ہوئے پانچ سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ ملک کے مسائل کم نہیں ہوئے۔ دہشت گردی پر قابو پانے میں بہت حد تک کامیابی حاصل ہوچکی ہے۔ ملک میں سکیورٹی کا معیار بلند ہے مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ سوال کرپشن کا ہے۔ انڈونیشیا قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مگر سرکاری مشینری میں کرپشن اس قدر پھیل چکی ہے کہ ہر شعبے میں غیر معمولی ترقی یقینی بنانا ممکن نہیں ہو پایا ہے۔ کرپشن ہی کے باعث غیر ملکی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنا بھی اب تک پوری طرح ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ چند برسوں کے دوران آمدنی کا فرق بڑھتا ہی رہا ہے۔ انڈونیشیا کی معاشی نمو کی شرح ۷ فیصد سالانہ سے زائد رہی ہے مگر چند برسوں کے دوران اِس میں غیر معمولی گراوٹ آئی ہے جس کے نتیجے میں عمومی معیارِ زندگی بے حد متاثر ہوا ہے۔ جوکووی ودودو نے قوم کو یقین دلایا ہے کہ ۲۰۱۸ء تک معاشی نمو کی شرح ۷ فیصد کردی جائے گی۔ ایسا کیونکر ممکن ہوسکے گا، یہ بات بہت سوں کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ جوکووی ودودو کہتے ہیں کہ عوام کو اپنے معمولات تبدیل کرنے ہوں گے۔ انڈونیشیا کا معاشرہ اس وقت صَرف کے رُجحان کا اسیر ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ اشیا صَرف کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اِس کے مقابلے میں پیداوار برائے نام ہے۔ جوکووی ودودو نے قوم پر زور دیا ہے کہ وہ پیداوار کی سطح بلند کرے تاکہ ملک کو پیداوار اور صَرف کے باہمی تفاعل کے حوالے سے متوازن بنایا جاسکے۔ واشنگٹن کے سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹر نیشنل افیئرز کے سربراہ ارنسٹ باور کا کہنا ہے کہ جوکووی ودودو کو کئی چیلنج درپیش ہیں اور یہ کہ اُن کے لیے بہتر ڈھنگ سے کام کرنا کچھ آسان نہ ہوگا۔ مگر ارنسٹ باور کو یقین ہے کہ انڈونیشیا کو جس نوعیت کی قیادت درکار ہے، وہ جوکووی ودودو فراہم کریں گے۔
انڈونیشیا کی قیادت آسان کام نہیں۔ یہ ملک ۱۳؍ہزار چھوٹے بڑے جزائر پر مشتمل ہے جو تین لاکھ مربع میل پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں کم و بیش ۳۰۰ سے زائد نسلی گروہ آباد ہیں، جن کی بولیوں کی تعداد ۶۰۰ تک ہے۔ معدنیات برآمد کرنے والے ممالک میں انڈونیشیا نمایاں ہے۔ انڈونیشیا کی آبادی میں کم و بیش ۹۰ فیصد مسلمان ہیں جو مجموعی طور پر اعتدال پسند رجحانات رکھتے ہیں۔ ڈھائی کروڑ کی اقلیتوں میں ہندو، عیسائی اور بدھ اِزم کے پیروکار شامل ہیں۔ انڈونیشیا کی حکومت نے عوام کو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے میں بُخل سے کام نہیں لیا۔ ملک بھر میں انٹرنیٹ کے نرخ اِتنے کم ہیں کہ تقریباً ۲۳ فیصد باشندے فیس بک پر ہیں۔
انڈونیشیا آبادی کے اعتبار سے بڑا ملک ہے۔ اس کا ثقافتی تنوع بھی خوب ہے مگر اس کے باوجود بین الاقوامی امور میں اس کا وزن نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی معاملات میں انڈونیشیا کی آواز شاذ و نادر ہی سُنائی دیتی ہے۔ وہ ایک ابھرتی ہوئی جمہوریت کی حیثیت سے بھی اپنے آپ کو پروجیکٹ کرسکتا ہے مگر ایسا کرنے سے گریز کرتا ہے۔ انڈونیشین ڈیفنس یونیورسٹی کے تجزیہ کار یوحانیز سلیمان کہتے ہیں۔ ’’ہم کسی بھی معاملے میں عالمی لیڈر کی حیثیت نہیں رکھتے۔ قوم پرستی کے معاملے میں تو ہم میں غیر معمولی شدت پائی جاتی ہے مگر ہم بین الاقوامی سطح پر انتہائی غیر فعال ہیں۔ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
جوکووی ودودو کا انتخاب اس بات کی علامت قرار دیا جاسکتا ہے کہ انڈونیشیا میں عوام کا جمہوریت سے متعلق شعور پختہ ہوچکا ہے اور وہ اپنی رہنمائی کے لیے ایسے لوگوں کو منتخب کرنا چاہتے ہیں جو اُنہی میں سے ہوں اور اُن کا بھلا سوچتے ہوں۔ علاقائی معاملات بھی پریشان کن ہیں اور اندرونی الجھنیں بھی کم نہیں۔ ایسے میں اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ جوکووی ودودو انڈونیشیا کو بیرونی محاذ پر کھڑا کرنے کا سوچیں گے۔ جنوبی چین کا سمندر وہ سمندری راستہ ہے جو چین بہت تیزی سے اپنے کنٹرول میں لیتا جارہا ہے۔ اس راستے پر انڈونیشیا سمیت چھ دیگر ریاستوں کا بھی دعویٰ ہے۔ ماحول کو نقصان پہنچانے والے سب سے بڑے ممالک میں امریکا اور چین کے بعد انڈونیشیا ہے۔ اس خطے میں جنگلات کے ختم ہونے کی رفتار بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ سمندر کی سطح بلند ہوتی جارہی ہے۔ مالدیپ کی طرح انڈونیشیا کے بیشتر علاقوں کو بھی سمندر کی بلند ہوتی ہوئی سطح سے خطرات لاحق ہیں۔
جوکووی ودودو کو اندازہ ہے کہ لوگوں کو ان سے بہت سی توقعات ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر معاملے میں اعتدال کے ساتھ رائے دیں۔ وہ خود بھی کہہ چکے ہیں کہ میں ایک ہی آدمی ہوں مگر لوگ ہر معاملے میں میری رائے جاننا چاہتے ہیں۔
انڈونیشیا پر بیشتر وقت سکارنو اور سوہارتو نے حکومت کی ہے۔ انڈونیشیا ۱۹۴۵ء میں آزاد ہوا تھا۔ تب سے اب تک جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے، وہ جوکووی ودودو کے آتے آتے اچھا خاصا بگاڑ پیدا کرچکا ہے۔ ودودو کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انہیں بہت کچھ کر دکھانا ہے۔ امریکی ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ سے انٹرویو میں جوکووی نے کہا کہ ملک میں سرخ فیتے کی لعنت پھیلی ہوئی ہے۔ جب میں بزنس مین تھا تب مجھے اچھی طرح اندازہ تھا کہ معاملات کو نمٹنے میں کتنی دیر لگتی یا لگائی جاتی ہے۔ کاروباری برادری کو ہر معاملے میں حکومتی مشینری کی طرف سے رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ یہی سبب تھا کہ بہت سے معاملات میں تاخیر سے بچنے کے لیے بہت سے تاجر اور سرمایہ کار سرکاری مشینری کو رشوت دیا کرتے تھے۔ جوکووی نے جب یہ دیکھا (اور بھگتا) کہ مٹھی گرم کیے بغیر سرکاری مشینری کوئی کام نہیں کرتی، تب انہوں نے طے کیا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو بہت کچھ تبدیل کریں گے۔ اور اب وہ وقت آچکا ہے۔ جوکووی ودودو کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں، دعوے اور وعدے کرنے پر نہیں۔ وہ تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹیشن جیسے بنیادی شعبوں میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں پہنچانا چاہتے ہیں۔ وہ خاموش طبع ہیں اور چاہتے ہیں کہ باتیں کم کی جائیں اور کام زیادہ۔ عوام کو بھی اندازہ ہے کہ ان کا نیا لیڈر بہت کچھ کر دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جوکووی ودودو کو جمہوریت پر غیر متزلزل یقین ہے۔
جوکووی ودودو نے گُجا یونیورسٹی میں اپنا تحقیقی مقالہ بھی سکارتہ میونسپلٹی میں پلائی وڈ کے حتمی ڈیزائنز کے بارے میں لکھا تھا۔ جکارتہ کے گورنر کی حیثیت سے جوکووی نے جو کچھ کیا، وہ کئی اعتبار سے سنگِ میل قرار دیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ایک رہائشی منصوبے کا سنگِ بنیاد بھی رکھا جس کا مقصد انتہائی غریب افراد کو رہائش کی بہتر سہولتیں فراہم کرنا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ عوام کے لیے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ جوکووی نے گورنر کی حیثیت سے جو کچھ کیا وہ عوام کو یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ بھرپور موقع ملنے پر جوکووی ودودو اُن کے لیے کیا کچھ کر گزریں گے۔
جوکووی نے ہر چیز پر نظر رکھنے کی عادت اپنائی ہے۔ گورنر کی حیثیت سے وہ بہت سخت تھے۔ وہ بیشتر منصوبوں کا جائزہ لیتے رہتے تھے تاکہ کام کی رفتار سُست نہ پڑے۔ انہیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ انڈونیشیا میں سارے کام آسانی سے اور نظام الاوقات کے مطابق نہیں ہوتے۔ انہوں نے سائٹ پر جانا شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ الرٹ ہوتے چلے گئے۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ گورنر صاحب تو کسی بھی وقت آسکتے ہیں تو انہوں نے پوری تندہی سے کام کرنا بھی شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے منصوبے مقررہ وقت تک تکمیل کے مرحلے میں داخل ہوگئے۔ اب صدر کی حیثیت سے بھی جوکووی ودودو یہی چاہتے ہیں۔ اُنہیں تمام ممکنہ مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے۔
جوکووی کے لیے صدر کی حیثیت سے مشکلات کم نہیں۔ سابق جرنیل پرابووو نے انتخابی معرکے میں جوکووی سے مات کھائی۔ انہوں نے جاتے جاتے جوکووی کے لیے کچھ مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً آئین میں ایک ایسی ترمیم منظور کرالی گئی کہ گورنر، میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب براہِ راست نہیں ہوگا۔ کہنے کو یہ بات بس ذرا سی تکنیکی دکھائی دیتی ہے مگر اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اب انڈونیشیا کے عوام بڑھتی ہوئی کرپشن اور بے قاعدگی کو ختم کرنے کا عزم رکھنے والوں کو براہِ راست منتخب نہیں کرسکیں گے۔ جمہوریت کا دم بھرنے والے اس ترمیم کو ختم کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ انڈونیشیا پر کتاب لکھنے والے معروف سیاسی تجزیہ کار جیمی ڈیوڈسن کا کہنا ہے کہ جمہوریت کو عوام زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’چینجنگ پولیٹیکل اکانومی: گورننگ دی روڈز‘‘ جلد ریلیز ہونے والی ہے۔
انڈونیشیا کے ایک معروف تاجر میریاتی سودبیو کہتے ہیں: ’’جوکووی ودودو کے کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ انہیں بہت کچھ کر دکھانا ہے۔ وہ بہت سادہ مزاج انسان ہیں۔ انہیں باتوں سے زیادہ عمل اچھا لگتا ہے۔ ان کی شخصیت میں کوئی بھی ایسی بات دکھائی نہیں دیتی جو انہیں ایک عظیم رہنما کے طور پر پیش کرتی ہو۔ انہوں نے کبھی بڑے خواب نہیں دیکھے۔ وہ کبھی کسی بڑے سرکاری منصب کے خواہاں دکھائی نہیں دیے۔ انہوں نے کبھی میئر یا گورنر بننے کا خواب نہیں دیکھا تھا اور صدر بننے کے بارے میں بھی، ظاہر ہے، نہیں سوچا تھا۔ اب ان کے کاندھوں پر واقعی بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے‘‘۔
انڈونیشیا میں بھی انتہا پسند رجحانات رہے ہیں۔ اسلامی گروپ عسکریت پسندی کی راہ پر بھی گامزن رہے ہیں۔ سولو کے نواح میں المکمن نامی مدرسہ انتہا پسندوں کے لیے بھرتی کے بہترین ذریعے کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس مدرسے کو عرف عام میں ’’گروکی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہیں سے طلبہ کا وہ گروپ نکلا تھا جس نے بالی میں بم دھماکے کیے تھے۔ مگر اب انتہا پسندی زیادہ رہی نہیں۔ ’’گروکی‘‘ میں بھی بہت سے ایسے طلبہ پڑھتے ہیں جن کا دہشت گردی یا انتہا پسندی سے کوئی واسطہ نہیں۔ اعتدال کی راہ پر گامزن رہنے والے طلبہ کو بھی یقین ہے کہ جوکووی ودودو کی آمد کے بعد معاملات درست ہوجائیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انڈونیشیا میں سب کچھ اعتدال پر گامزن رہے۔
جوکووی ودودو کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے پہلے صدر ہیں۔ ان کے نائب جوسف کَلّا بھی آجر رہے ہیں۔ ایسے میں پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں مل کر ملک میں ایسا ماحول پیدا کرنے پر توجہ دیں گے جس میں کاروبار تیزی سے پروان چڑھے اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ خوش حالی ملے۔ سیاسی محاذ پر اِن کی کارکردگی ذرا کم بھی رہ سکتی ہے مگر مجموعی طور پر ان کی کوشش یہ ہوگی کہ معیشت کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جائے۔ انڈونیشیا کو اِس وقت سیاست اور سکیورٹی کے ساتھ ساتھ بہتر معیشت بھی درکار ہے۔ خطے کی تجارت اور سرمایہ کاری میں انڈونیشیا کا معاملہ کچھ زیادہ متاثر کن نہیں کیونکہ اُس کا مقابلہ چین، ملائیشیا اور سنگاپور جیسی مستحکم معیشتوں سے ہے۔
جوکووی ودودو تین بچوں کے باپ ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا جبران ریکابومنگ رَکا ۲۷ سال کا ہے جو ایک چھوٹے شہر میں کیٹرنگ اور ویڈنگ پلاننگ کا بزنس چلاتا ہے۔ ایشیا میں ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی قوم کے لیڈر کا بیٹا چھوٹا موٹا کام کرے۔ مگر جوکووی کو اس بات پر فخر ہے کہ اُن کا بیٹا اپنے پیروں پر کھڑا ہے اور بہتر ڈھنگ سے زندگی بسر کر رہا ہے۔
جوکووی کو اپنے کام خود کرنا اچھا لگتا ہے۔ وہ اس میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ اُن میں گھمنڈ نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ جب کبھی موقع ملتا ہے، وہ چھوٹے موٹے ذاتی نوعیت کے کام خود کرتے ہیں۔ اُنہیں یہ بات پسند نہیں کہ ہر کام کے لیے کسی خادم کو آواز دی جائے۔
سادگی سے مُزیّن ایک شخصیت آبادی کے اعتبار سے دنیا کے ساتویں بڑے ملک کی سربراہی کر رہی ہے۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ اِس ملک کو اب بہتر حالات میں جینے کا موقع ملے گا۔
“The new face of Indonesian democracy”. (“Time”. October. 15, 2014)
Leave a Reply