
چین کے صدر شی جن پنگ کے دورۂ واشنگٹن کے دوران بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر زیادہ تر سائبر کرائم اور بحیرہ جنوبی چین میں جزیرے کا معاملہ زیر بحث رہا۔ لیکن ان معاملات کے باعث ایک بڑی خبر ذرائع ابلاغ پر مناسب جگہ نہ پاسکی۔ یہ خبر ہے بحرالکاہل اور بحرِ ہند کے خطے میں اثر و رسوخ قائم کرنے سے متعلق ایک ’’عظیم کھیل‘‘ کی۔ چین سمندر کے راستے تجارتی راہداری قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے تو بھارت کی توجہ ایشیا میں اپنی برتری ثابت کرنے پر لگی ہے۔ ایسے میں امریکا کی خواہش ہے کہ ایشیا کی سیاست دوبارہ اس کے پلڑے میں آجائے۔ ایسا ممکن ہے کہ یہ تینوں حکمت عملیاں ایک ساتھ چلتی رہیں لیکن امریکا کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں ہوگا۔
رابطے ضروری
ایسا ہوسکتا ہے کہ بھارت اور چین خطے میں سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ کے لیے جدوجہد کررہے ہوں لیکن پڑوسی ہونے کے ناتے باہمی رابطے قائم رکھتے ہوئے حکمت عملی تشکیل دینا دونوں ملکوں کے لیے بہتر رہے گا۔ بھارت اور چین کے لیے اقتصادی اور سیاسی میدان میں کامیابی دونوں ملکوں اور خطے کے دیگر فریقوں کے درمیان مضبوط تعلقات سے ہی ممکن ہے۔ موجودہ حالات میں دونوں ہی فریق یہ سمجھتے ہیں کہ کشیدگی کے بجائے سفارت کاری کے ذریعے انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
دونوں ملکوں کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ چین اور بھارت کے سامنے تجارت، توانائی اور جیواسٹریٹجک اہمیت کے معاملات ہیں۔ آبنائے ملاکا کی صورت میں بحرِہند اور بحرالکاہل کے درمیان عالمی تجارت کا مرکز موجود ہے۔ دنیا بھر میں کنٹینروں کی نقل و حمل کا نصف اور بحری سفر کا ایک تہائی حصہ بحرِہند سے گزرکر آبنائے ملاکا پہنچتا ہے اور پھر بحیرۂ جنوبی چین میں داخل ہوتا ہے۔ اس مقام کی اہمیت کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جنوبی کوریا کے لیے توانائی کا دو تہائی حصہ، جاپان کا ساٹھ فی صد حصہ اور چین کے لیے جانے والا اَسی فیصد خام تیل یہیں سے ہوکر گزرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی توانائی کا ستّر فیصد حصہ بحرِ ہند سے گزرتا ہے۔
چین کے قومی مفادات کے لیے آبنائے ملاکا طویل عرصے سے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ بحرِہند اور بحرالکاہل تک رسائی کے لیے چین کو اس راستے پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ چین کے جہاز بحیرۂ جنوبی چین سے ہوکر آبنائے ملاکا سے گزرتے ہیں، بحیرۂ جنوبی چین مختلف ملکوں کے درمیان سمندری حدود کے تنازعات کے باعث ان دنوں ایک پیچیدہ راستہ ہے۔ چین ایک دہائی سے اس کوشش میں لگا ہواہے کہ اہم بحری راستوں تک رسائی آسان بنائی جائے، اس کے لیے بحیرۂ جنوبی چین میں مصنوعی جزیرے اور ہوائی اڈے بھی تعمیر کیے جارہے ہیں۔ ساتھ ہی چین نے اس علاقے کو خصوصی اقتصادی زون بھی قرار دیا ہے، جو اقوام متحدہ کے کنونشن برائے سمندری قوانین سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس بارے میں چین کی بحریہ کے وائس ایڈمرل یوآن یوبے کا حالیہ بیان نہایت اہم نوعیت کا حامل ہے، انہوں نے بحیرۂ جنوبی چین کو چین کا حصہ قرار دیا۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ چین کی دلچسپی بحرِ ہند اور بحرالکاہل کے خطے میں کس قدر ہے۔
بحیرۂ جنوبی چین سے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اس میں کچھ غلط بھی نہیں لیکن یہ معاملہ پہلے سے جاری عظیم کھیل کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔
آبنائے ملاکا کے اطراف بحری راستے بنانے کے ساتھ ساتھ چین اب شاہراہوں، توانائی کے منصوبوں، بندرگاہوں کی تعمیر اور دیگر منصوبوں کے لیے بنگلا دیش، پاکستان، میانمار (برما) اور سری لنکا کو آسان اقساط پر قرضے بھی فراہم کررہا ہے۔ یہ سب کوششیں سمندری راستوں کے ذریعے تجارت سے متعلق چین کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ اس کا مقصد خلیج بنگال اور بحرِہند کے ملکوں کو چین کی معیشت سے جوڑنا اور تجارتی راہداریوں کے ذریعے بحرِہند کو چین کے ساتھ ملانا ہے۔ اس طرح چین کی تجارت کا انحصار آبنائے ملاکا پر کم ہوجائے گا۔ اس وقت بحیرۂ جنوبی چین میں اپنی ہی حکومت کی سرگرمیوں سے تجارت بڑھانے کے لیے چین کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کے پڑوس میں موجود چھوٹے ملک اور بھارت، جاپان و امریکا کے قریبی اتحادی اس صورت حال سے خوف زدہ ہیں۔
بھارت نوے کی دہائی تک غیر ملکی امداد لینے والا بڑا ملک تھا، لیکن اب وہ بھی امداد دینے والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔ چین کی طرح بھارت نے بھی ساری توجہ بحری راستوں تک رسائی، سرمایہ کاری اور تجارت کے مزید مواقع حاصل کرنے پر لگا رکھی ہے۔ بحری راستے سے تجارت دوہزار گیارہ میں بھارت کی مجموعی پیداوار کا اکتالیس فیصد رہی، یہ شرح دوہزار پندرہ میں پینتالیس فیصد تک جاپہنچی ہے۔ بھارت اس وقت تین چوتھائی تیل بحرِہند کے راستے درآمد کررہا ہے۔ بھارت کو یہ خدشہ ہے کہ پاکستان کی مدد سے چین اس کا زمینی اور سمندری راستے سے گھیراؤ کررہا ہے۔ بھارتی دانشوروں کے مطابق وہ وقت دور نہیں جب چین اپنی بحری قوت میں اضافہ کرکے بحیرۂ جنوبی چین سے خلیج فارس تک اپنا اثر و رسوخ قائم کرلے گا۔
اس طرح کی مداخلت روکنے کے لیے بھارت نے بڑے پیمانے پر غیرملکی امداد کی فراہمی کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ نئی دلی حکومت نے بارہ ارب ڈالر کی خطیر رقم کئی ملکوں کو قرضے دینے اور وہاں جاری مختلف ترقیاتی منصوبوں میں لگا رکھی ہے۔ یہ امداد چین کے مقابلے میں اگرچہ بہت کم ہے لیکن بھارت کو امید ہے کہ وہ غیرملکی امداد کی فراہمی، تجارتی، عسکری و ثقافتی تعلقات میں بہتری اور مشرق سے متعلق اپنی نام نہاد پالیسی کے بل بوتے پر بحرِہند کے ملکوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھائے گا، اس طرح خطے میں چین کی مستقل موجودگی روکی جاسکتی ہے۔
بنگلادیش میں ترقیاتی کام
بحرِہند میں بھارت اور چین کے درمیان مقابلے کا آغاز بنگلادیش سے ہوا، یہ ملک اس خطے میں چین سے امداد حاصل کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ ایک دہائی کے دوران بنگلادیش کے لیے چین کی امداد کا دو تہائی حصہ مواصلات کے شعبے میں لگایا گیا۔ بیجنگ حکومت کا ماننا ہے کہ نئی بندرگاہوں کی تعمیر، بنگلادیش اور چین کے درمیان ریلوے نیٹ ورک میں بہتری آبنائے ملاکا کے لیے دباؤ کا باعث بن سکتی ہے۔ چین نے بنگلادیش کی بندرگاہیں بہتر بنانے کے لیے خطیر رقم دی ہے۔ چٹاگانگ پورٹ کے منصوبے کے لیے بھی بیجنگ بڑی رقم دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ سونادیا کے مقام پر بندرگاہ کی تعمیر پر بھی رضامندی ظاہر کی تھی لیکن بھارت، جاپان اور امریکا کے اظہار تشویش کے بعد اس منصوبے پر کام روک دیا گیا۔ حال ہی میں چین نے پیرا کے مقام پر بندرگاہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔
بنگلادیش کو ملنے والی غیر ملکی امداد میں بڑا حصہ بھارت کا بھی ہے اور چین کی طرح نئی دلی سرکار بھی امداد کا بڑا حصہ مواصلات کے شعبے پر لگارہی ہے۔ بھارت مشرق سے متعلق اپنی پالیسی میں بنگلادیش کو مرکزی حیثیت دیتا ہے۔ حال ہی میں اس نے بنگلادیش میں پانی، ریل اور سڑکوں کے نظام کی بہتری کے لیے اَسی کروڑ ڈالر دیے ہیں اور مزید ایک ارب ڈالر دینے کی تجویز زیر غور ہے۔ بھارت نے بھی پیرا میں بندرگاہ کی تعمیر کے لیے بنگلادیش کو پیشکش کی ہے۔
ساتھ ہی ساتھ نئی دلی سرکار ڈھاکا کے ساتھ سرحدی تنازعات تیزی سے نمٹارہا ہے۔ دونوں ملکوں نے ایک معاہدے کے تحت ۷ مئی ۲۰۱۵ء کو ۱۶۰؍ متنازع علاقوں سے متعلق فیصلہ کیا۔ جس کے ذریعے سیاسی تعاون کی راہ میں ستر برس سے حائل بڑی رکاوٹ کا خاتمہ ہوگیا۔ بحیرۂ جنوبی چین کے بارے میں چین سے متعلق پالیسی کے مقابلے میں نریندر مودی نے بنگلادیش سے نرم رویہ اختیار کیا اور خلیج بنگال میں سمندری حدود کے تنازع پرعالمی برادری کا فیصلہ قبول کرلیا۔ مودی سرکار کو امید ہے کہ پڑوسی ملکوں سے اچھے تعلقات اور تعاون بڑھا کر خطے میں چین کا اثر و رسوخ کم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح جنوبی ایشیا میں رابطوں میں مزید بہتری اور تجارت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
برما پر جھگڑا
چین نے بنگلا دیش کے پڑوسی ملک میانمار (برما) میں بھی بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ بیجنگ نے کئی دہائیوں تک میانمار میں فوجی آمر کی حکومت سے دوستانہ تعلقات قائم رکھے تاکہ تجارت اور خام مال تک رسائی کے لیے ایک اتحادی تیار کیا جاسکے۔ چین نے ۱۹۸۸ء سے ۲۰۱۳ء کے دوران میانمار میں بندرگاہیں اور ڈیم تعمیر کیے، تیل اور گیس کی پائپ لائنیں بچھائیں۔ چین کی غیرملکی سرمایہ کاری کا بیالیس فیصد حصہ میانمار میں لگایا گیا۔ بیجنگ کے تعاون سے تعمیر کی گئی مغربی ساحلی بندرگاہ ’’کیاکفیو‘‘ کو محل وقوع کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے۔ اس بندرگاہ کے ذریعے بحرِہند تک چین کی رسائی ممکن ہوسکی ہے۔ اسی علاقے میں دونوں ملکوں نے ۲۰۱۳ء میں گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح کیا تھا، اس کے تحت خام تیل کی چین کو درآمد رواں برس کے آخر میں شروع ہوجائے گی۔
فوجی جنتا کے ساتھ تعلقات کے باعث میانمار میں چین کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ شمالی حصوں میں چین مخالف احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے تیل کی فراہمی کے منصوبے میں تاخیر ہوئی۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے کلادن کے مقام پر مواصلات کے منصوبے پر کام تیز کردیا، یہ منصوبہ کولکتہ کو سمندر کے راستے میانمار میں ستوے کی بندرگاہ سے جوڑ دے گا، پھر یہی سڑک بھارتی ریاست میزورام تک جائے گی۔ بھارت اپنی مشرقی ریاستوں کو میانمار سے جوڑنا چاہتا ہے، ساتھ ہی اس کا منصوبہ سارے خطے کو سمندری راستوں اور زمینی راستوں کے ذریعے ملانے کا ہے۔
بھارت کی کوششیں ترقیاتی منصوبوں میں تعاون سے کہیں آگے بڑھ گئی ہیں۔ سرحدی سلامتی سے متعلق معاہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، جون میں بھارتی اسپیشل سیکورٹی فورسز نے میانمار میں جنگجوئوں کے مبینہ کیمپ پر حملہ کیا تھا۔ اس کارروائی میں مبینہ دہشتگردں کی ہلاکت پر میانمار کی سیکورٹی فورسز نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس سے پہلے ۲۰۱۳ء میں بھارت نے میانمار کی بحریہ کے لیے چار گاڑیاں اور فوجیوں کو تربیت دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ اس کے جواب میں میانمار نے ۲۰۱۰ء میں فوجی جنتا تحلیل ہونے کے بعد چین سے اپنے راستے جدا کرنے شروع کردیے۔ چین اور میانمار کے تعلقات کو پہلا بڑا دھچکا ۲۰۱۱ء میں لگا، جب دریائے اراودے پر بیجنگ کے تعاون سے تعمیر کیے جارہے ڈیم پر کام روک دیا گیا۔ دوسرا نقصان جون ۲۰۱۵ء میں برما کی سرحد کے ساتھ فوجی مشقوں کے معاملے پر ہوا۔ چین کے تزویراتی نقصان میں بھارت کے لیے بڑی فتح ہے۔ یہی کچھ معاملات جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ملکوں میں دیکھے گئے ہیں۔
پاکستان میں کوئی مقابلہ نہیں
ایک میدان ایسا بھی ہے جہاں چین کو واضح برتری حاصل ہے اور وہ ہے پاکستان۔ بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان تیزی سے فروغ پاتے تعلقات نئی دلی سرکار کے لیے پریشان کن ہیں، چین کے ہر اقدام سے بھارت کی تشویش بڑھتی جاتی ہے۔ چین نے پاکستان میں گوادر بندرگاہ کی تعمیر کے لیے فنڈ دیے، اس کا مقصد درآمدی ایندھن اور گیس بحیرۂ عرب سے چین کے صوبے ژنگ جیانگ تک پہنچانا ہے۔ بندرگاہ کی تعمیر پر ایک ارب سولہ کروڑ ڈالر لاگت آئی، ساتھ ہی بیجنگ حکومت نے چالیس سال کے لیے بندرگاہ کا انتظام سنبھالنے کا معاہدہ بھی کرلیا۔ لیکن حال ہی میں طے کیے گئے چھیالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں کے مقابلے میں گوادر پورٹ پر چین کی فنڈنگ کچھ نہیں۔ ان معاہدوں کے تحت چین لگ بھگ تین ہزار کلومیٹر طویل اقتصادی راہداری بنانے میں پاکستان کی مدد کرے گا، جس کے ذریعے گوادر کو چین سے ملایا جاسکے گا۔ دونوں ملکوں کی مشترکہ بحری سرگرمیوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ چین کے جہاز اور آبدوزیں طویل سفر طے کرکے کراچی میں لنگرانداز ہوئی ہیں۔ بعض خبروں کے مطابق چین اگلے چند برسوں میں پاکستان کو جنگی جہاز دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان کوششوں سے بیجنگ کو بحیرہ عرب تک رسائی مل جائے گی جہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
بھارت بھی سبقت لینے کی کوششوں میں ہے، نئی دلی سرکار نے پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے افغانستان اور وسط ایشیا تک رسائی کے لیے حکمت عملی تیار کرلی ہے، اس کے تحت بھارت کے تعاون سے ایران میں بندرگاہ کی تعمیر نو کی جانی ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ کا معاہدہ ۲۰۰۲ء میں طے پایا تھا لیکن ایران پر عالمی پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا۔ اب تہران کا امریکا اور دیگر ملکوں سے ایٹمی معاہدہ طے پاگیا ہے، تو امکان ہے کہ اس منصوبے پر دوبارہ کام شروع کیا جائے گا۔ بھارت نے اب تک افغانستان میں سڑکوں کی تعمیر پر دس کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں، جو چاہ بہار کو وسط ایشیا سے ملائیں گی۔ نریندر مودی نے حال ہی میں چاہ بہار کی دو گودیوں کو کنٹینر ٹرمینل میں تبدیل کرنے اور لیز پر حاصل کرنے سے متعلق ۸ کروڑ ۵۰ لاکھ ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ منصوبہ ۲۰۱۶ء کے آخر تک مکمل کرلیا جائے گا۔ اس کے علاوہ مودی سرکار نے ایران میں پندرہ ارب ڈالر تک سرمایہ کاری کی پیش کش بھی کی۔ جس میں کم قیمت پر ایرانی گیس کی فراہمی کے بدلے چاہ بہار کو گہرے پانی کی بندرگاہ میں تبدیل کرنے کا بڑا منصوبہ بھی شامل ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ کے مکمل فعال ہونے سے بھارت اس قابل ہوجائے گا کہ ایران اور وسط ایشیا کی قدرتی گیس اور خام تیل کے ذخائر کا رخ مغرب میں موجود چین کے بجائے جنوب کی طرف موڑ دے۔
سری لنکا میں مقابلہ
آخر میں بات کرلیں سری لنکا کی جہاں چین اور بھارت کے درمیان مقابلے کی واضح فضا نظر آرہی ہے۔ راجا پکسے کے دور حکومت میں سری لنکا کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ سے نکل کر چین کے پاس چلا گیا تھا کیوں کہ بیجنگ نے تامل ٹائیگرز کے خلاف پچیس سال سے جاری جنگ جیتنے کے لیے فوجی ساز و سامان فراہم کیا تھا اور سفارتی سطح پر بھی مدد کی تھی۔
چین اب سری لنکا کے جنوب میں ہمبن ٹوٹو بندرگاہ بھی تعمیر کرارہا ہے، اسی سال تیسرے مرحلے کی تکمیل کے ساتھ یہ بندرگاہ جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی بندرگاہ بن جائے گی۔ چین کی مدد سے کولمبو کے قریب ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر مالیت کی نئی بندرگاہ پر بھی کام شروع کردیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ ننانوے برس طویل ہے اور ۵۰؍ایکڑ اراضی بیجنگ کے پاس رہے گی۔ کولمبو پورٹ سٹی پروجیکٹ کے مجوزہ نام سے بننے والا یہ شہر لیز پر چین کے پاس رہے گا۔ یہاں رہائشی عمارتیں، شاپنگ مال اور گالف کورس بنانے کا منصوبہ ہے۔ ضرورت پڑنے پر چین اس علاقے کو عسکری سہولت کے طور پر استعمال کرسکے گا۔ سری لنکا کی حکومت نے ۲۰۱۴ء میں چین کی آبدوزوں کو کولمبو ساؤتھ کنٹینر ٹرمینل پر لنگر انداز ہونے کی غیراعلانیہ اجازت دی تھی۔ بندرگاہ کا یہ حصہ چینی کمپنیوں کے زیر استعمال ہے۔ اس سے پہلے جنگی جہاز اور آبدوزیں سری لنکا پورٹ اتھارٹی کے زیر انتظام علاقوں میں لنگر انداز ہوتی تھیں۔ لیکن، فروری ۲۰۱۵ء میں سری لنکا کے نومنتخب صدر متھری پالا سری سینا نے اقتدار سنبھالا تو ان کی حکومت نے راستے بدل لیے۔ متھری پالا سری سینا چین کی سرمایہ کاری کے بڑے ناقد سمجھے جاتے ہیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں اسے خصوصی اہمیت بھی دی تھی۔ انہوں نے پہلے سرکاری دورے کے لیے بھارت کا انتخاب کیا، نئی دلی سرکار کے ساتھ سول جوہری توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے، اقتصادی اور تزویراتی تعلقات کو فروغ دینے سے متعلق کئی معاہدے بھی کیے۔ صدر سری سینا نے چین کی بارہا کوششوں کے باوجود کولمبو پورٹ کے منصوبے پر کام روک دیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے دورہ سری لنکا کے دوران دونوں ملکوں کے تزویراتی، اقتصادی اور دفاعی تعلقات مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔ اس دوران بھارت نے سری لنکا کو ریل کا نظام بہتر بنانے کے لیے اکتیس کروڑ اسی لاکھ ڈالر دینے کی پیش کش بھی کی۔ کوئلہ اور پیٹرولیم سیکٹر مزید بہتر بنانے کے لیے سری لنکا نے بھارت سے مزید دو معاہدوں پر دستخط کیے۔ بحری معیشت سے مزید فائدہ اٹھانے کے لیے سری لنکا اور بھارت نے ٹاسک فورس بھی بنادی ہے۔
عظیم کھیل
بھارت نے چین کے اقدامات پر شور مچانے کے بجائے جنوبی ایشیا کے ملکوں سے تعلقات مزید مضبوط بنانے پر توجہ دی اور یہ کوشش کی کہ خلیج فارس سے بحیرۂ جنوبی چین تک متوقع شراکت داروں سے رابطے بڑھائے جائیں۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت نے خطے میں چین کے مفادات کو مستقل دعوتِ مبارزت بھی دی۔ (چیلنج بھی کیا) سری لنکا کی پارلیمان سے خطاب میں نریندر مودی نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ خطے میں مثالی پڑوسی ہوں، جہاں تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، خیالات اور عوام کا تبادلہ آسانی سے ہوسکے۔ اسی طرح کے خیالات جنوبی ایشیا سے متعلق امریکی ایجنڈے میں بھی نظر آتے ہیں، جس کا ذکر جنوری میں طے کیے گئے ’’امریکا، انڈیا جوائنٹ اسٹریٹجک وژن فار ایشیا پیسیفک اینڈ انڈین اوشین ریجن‘‘ اور امریکی محکمہ دفاع کے ’’ایشیا پیسیفک میری ٹائم اسٹریٹجی‘‘ میں بھی ملتا ہے۔
بھارت کی خارجہ پالیسی اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ چھوٹی ریاستیں اپنی معیشت کی بہتری کے لیے چین کی مدد حاصل کرنا چاہتی ہیں، کیوں کہ نئی دلی ان کی ضروریات کے مطابق رقم خرچ نہیں کرسکتا۔ اس طرح بھارت ان ملکوں پر اپنا اثر کھودے گا لیکن جس طرح کی سرمایہ کاری پڑوسی ملکوں میں کی جارہی ہے، اس سے بھارت کی حکمت عملی کو مدد مل سکتی ہے۔ یہی نہیں بھارت نے آس پاس کے کئی ملکوں کے ساتھ مشترکہ ثقافت اور اقدار کے فروغ کی بھی بات کی، یہی نئی دلی کے لیے اہم اثاثہ ہے اور بیجنگ اس معاملے میں پیچھے ہے۔
نئے ’’عظیم کھیل‘‘ میں بحرِہند سے بحیرۂ جنوبی چین تک سمندری حدود مرکزی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہے جو ایشیا اور خطۂ بحرالکاہل تک پھیل جائے گی۔ یہ سارا کھیل انیسویں صدی کے دوران وسط ایشیا پر قبضے کے لیے برطانوی اور روسی سلطنتوں کے درمیان ہوئی کشمکش سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس معاملے میں مرکزی محاذ کو الگ یا دخل اندازی سے محفوظ نہیں رکھا جاسکے گا۔ ایسے میں سامان بردار جہاز اور تیل سے بھرے ٹینکروں کی حفاظت کے لیے جنگی جہازوں کی مدد لینا ہوگی۔ کیوں کہ دونوں بڑی طاقتیں خطے میں توازن قائم رکھنے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہیں۔ اس کھیل کے نتائج توقع سے کہیں زیادہ بہتر نکل سکتے ہیں لیکن مقابلے کی اس فضا کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا۔
چین اور بھارت خطے میں اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے نئی قوت حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے رہیں گے۔ بھارت ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۴ء کے دوران اسلحہ درآمد کرنے والے ملکوں میں سرفہرست رہا۔ چین ۲۰۱۳ء میں اسلحے کا تیسرا بڑا درآمد کنندہ اور ۲۰۱۴ء میں چوتھا بڑا درآمد کنندہ رہا۔ اسلحے کی خریداری میں اضافے کا یہ رجحان اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ خطے میں سرحدی معاملات کیا ہیں، دنیا بھر میں اسلحے کے پندرہ میں سے بارہ بڑے خریدار بحرِہند اور بحرالکاہل کے خطے میں موجود ہیں۔ اس تحریر کا مقصد ہرگز یہ باور کرانا نہیں کہ ایشیا کے دو بڑے ملک کسی یقینی تصادم کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مقابلے کی یہ فضا چین اور بھارت سے مدد لینے والے ملکوں اور خطے کی اقتصادی حالت میں ڈرامائی تبدیلی لاسکتی ہے۔ تجارت میں اضافے، انفرا اسٹرکچر بہتر ہونے اور رابطے مزید مضبوط ہونے کا فائدہ چین اور بھارت کو بھی ہوسکے گا۔ ان حالات میں تمام فریقین کی جانب سے فعال اور متوازن کردار ہی بہتر نتائج دے سکتا ہے۔
یہی وہ موقع ہے جہاں امریکا کا کردار شروع ہوتا ہے۔ سب کی خوشحالی اور آسودگی یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ امریکا، چین اور بھارت سلامتی سے متعلق ایک دوسرے کے تحفظات کا ادراک کریں۔ یہ تعجب خیز بات نہیں کہ بحیرۂ جنوبی چین میں بیجنگ حکومت کی بڑھتی سرگرمیوں نے امریکا کو بھارت کے مزید قریب کیا، اوباما انتظامیہ نے نئی دلی سرکار کے ساتھ دو طرفہ تعلقات مزید مضبوط کیے اور بھارت پر زور دیا کہ وہ خطے میں مزید فعال کردار ادا کرے۔ امریکا سمندری سلامتی اور اقتصادی شعبے میں بھارت کے علاوہ آسٹریلیا، جاپان اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ واشنگٹن اس سلسلے میں دفاع اور خارجہ کے محکموں میں مخصوص شعبے بھی قائم کرے گا۔ بحرِہند ایسا خطہ ہے جہاں امریکی پالیسیوں پر منفی ردعمل زیادہ سامنے آتا ہے، ایسے میں واشنگٹن کی جانب سے اس خطے پر خصوصی توجہ دے کر بڑی کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔
امریکا کو خطے میں قابلِ اعتماد شراکت دار کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہیے لیکن واشنگٹن کو بھی چاہیے کہ بین الاقوامی قوانین اور معیارات کا لحاظ کرے۔ چین یا بھارت کو ترقی کی جانب سفر سے روکنے کی کوئی بھی کوشش غیر نتیجہ خیز رہے گی بلکہ منفی اثرات چھوڑے گی۔ امریکا کی جانب سے اپنے اتحادیوں کو چین کی قیادت میں بننے والے ’’ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک‘‘ سے دور رکھنے کی غیرمؤثر کوشش سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی۔ امریکا نے ۲۰۱۰ء میں عالمی مالیاتی فنڈ کی قانون سازی میں ترمیم کے معاملے پر بھی سخت موقف اپنایا تھا۔ نتیجے میں ترقی پزیر ملکوں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقا نے نیو ڈویلپمنٹ بینک قائم کرلیا تھا۔ بحیرۂ جنوبی چین میں مصنوعی جزیروں اور ہوائی اڈے کی تعمیر پر امریکا نے سفارتی احتجاج کرنے پر اکتفا کیا اور اب تک اس علاقے میں سمندری یا فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی۔
واشنگٹن کو چین، بھارت اور خطے کے دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ جہاز رانی کی آزادی برقرار رکھی جائے، دھمکی آمیز برتاؤ ترک اور بین الاقوامی اصولوں کو برقرار رکھا جائے گا۔ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جس سے آزاد تجارت کو فروغ حاصل ہو، چین یا بھارت کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے کیے جائیں۔ بحرالکاہل اور بحرِہند کے خطوں میں اہم شراکت دار اور ضرورت پڑنے پر قوت فراہم کرکے ہی امریکا اس عظیم کھیل کا اختتام ایسا کرسکتا ہے، جس میں سب کے لیے فائدہ ہو۔ نریندر مودی نے چند ماہ کے دوران کئی بار یہ واضح کیا ہے کہ خطے کے مستقبل کا دار و مدار بحرِہند کی لہروں سے جڑا ہے۔ شاید یہ درست بھی ہو، ایسا کرکے دیکھنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔
(ترجمہ: سیف اللہ خان)
“The new great game: A battle for access and influence in the Indo-Pacific”.
(“Foreign Affairs”. Sept. 29, 2015)
Leave a Reply