ترکی اور روس وسط ایشیا اور ایشیائے کوچک میں اپنے اثرات کا دائرہ پھیلاتے جارہے ہیں۔ امریکی مصنف ایرک والبرگ نے الاہرام ویکلی میں لکھا ہے کہ ترکی اور روس مل کر امریکا کا راستہ روک رہے ہیں۔ امریکا میں مذہبی انتہا پسندوں نے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں میں جو تبدیلیاں کی ہیں ان سے امریکا کے لیے وسط ایشیا میں پنپنے کی گنجائش پیدا کرنا مقصود ہے۔ تاہم اس راہ میں ترکی اور روس سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتے ہیں۔ امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ افغانستان اور عراق میں جو کچھ ہوا اس کے بعد میدان جنگ بھی تبدیل ہوگیا ہے۔
۵۰۰ سال تک ایک بڑے رقبے پر محیط سلطنت پر حکمرانی کرنے والا ترکی ایک بار پھر بیدار ہو رہا ہے۔ اسلامی نظام کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے کئی اسلامی ممالک اور خطوں سے سفارتی تعلقات کو وسعت دیتے ہوئے ویزا وغیرہ کی پابندیاں نرم یا ختم کردی ہیں۔ ان میں البانیہ، اردن، لبنان، لیبیا اور شام شامل ہیں۔ ترکی نے یورپی یونین کی طرز پر مڈل ایسٹرن یونین کے قیام کی تجویز بھی عملی طور پر پیش کی ہے۔ سیاحت اور تجارت کو فروغ دیا جارہا ہے۔
ترکی اور روس کے درمیان بھی اشتراک عمل بڑھتا جارہا ہے۔ دونوں ممالک جوہری تعاون کو فروغ دینے کی بات کر رہے ہیں۔ سیاحت اور تجارت کا دائرہ وسیع کرنے پر بات چیت ہوتی رہی ہے۔ علاقائی معاملات میں مشترکہ مفادات کی بدولت انہیں ایک دوسرے کے قریب آنے کے لیے خصوصی تحریک بھی درکار نہیں۔ روس بھی بازنطینی سلطنت کے ایک وسیع حصے پر حکومت کرتا رہا ہے۔ امریکا اور برطانیہ کے عروج سے قبل ترکی اور روس وسط ایشیا اور ایشیائے کوچک میں غیر معمولی اثر و رسوخ کے حامل تھے۔ مشرق وسطیٰ اور یوریشیا میں امریکی اور اسرائیلی گٹھ جوڑ کے تحت زندگی بسر کرنے والے علاقے اب مضبوط ہوکر ابھر رہے ہیں۔ وہ امریکی اور اسرائیلی اثرات کے دائرے سے نکلنے کے لیے بے تاب ہیں۔ روس، ترکی، ایران اور شام اب عسکری سطح پر تعاون بڑھانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ شام، ترکی اور ایران کے درمیان جغرافیائی، مذہبی، تہذیبی اور تذویری ہم آہنگی پائی جاتی ہے جس کی بدولت ان میں تعاون کی گنجائش بھی بڑھتی جارہی ہے۔
روس کے اثرات کا دائرہ بھی تیزی سے وسیع ہو رہا ہے۔ شام اور ترکی کو روس سے قربت بڑھانے میں اپنے مفادات کا تحفظ دکھائی دے رہا ہے۔ علاقائی سطح پر تعاون میں اضافے کی گنجائش پیدا کی جارہی ہے۔ ان ممالک کے درمیان تجارت بھی تیزی سے پنپ رہی ہے۔ ان ممالک کے لیے مل کر رہنا اور ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہی فطری امر ہے۔ جغرافیائی حقائق بھی انہیں ایک دوسرے میں بھرپور دلچسپی لینے کی تحریک دے رہے ہیں۔ ترکی، شام، ایران اور روس مل کر وسط ایشیا اور یوریشیا میں ایک نئے اور قدرے مستحکم اتحاد کو جنم دے سکتے ہیں۔ ماضی میں اس نوعیت کے تعاون کی مثالیں موجود رہی ہیں۔ ایک ہزار سال قبل صلیبی حملوں کے وقت بھی مقامی سطح پر تعاون دکھائی دیا تھا۔ ترکی نے برازیل کے ساتھ مل کر ایران پر مغربی دباؤ کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ غزہ کی پٹی کے محصور فلسطینیوں کے لیے امدادی قافلہ بھیج کر بھی ترکی نے اسلامی دنیا میں ہیرو کا درجہ حاصل کرلیا۔ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو آئندہ سال کے عام انتخابات میں اس صورت حال کا فائدہ ضرور پہنچے گا۔
روس، ترکی اور دیگر بہت سے ممالک کے درمیان تجارتی اور مالیاتی سطح پر بڑھتا ہوا تعاون فروغ دیکھتے ہوئے سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں کی توقع عبث نہ ہوگی۔ روس اندرونی دباؤ کا شکار ہے۔ اسے دوبارہ سپر پاور کا سا درجہ پانے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا ہے۔ فوج میں وہ پہلی سی بات نہیں۔ اشرافیہ اس نکتے پر منقسم ہے کہ امریکا سے تعلقات کس نہج پر ہونے چاہئیں۔ روس نے چیچنیا، افغانستان، داغستان اور دیگر ’’ستانوں‘‘ میں جو کچھ کیا ہے اس کی بنیاد پر اسلامی دنیا میں اس کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ۱۹۷۲ء میں سابق سوویت افواج نے شام سے انخلا کیا تھا۔ تب سے اب تک مشرق وسطیٰ میں روسی فوج کی سرگرم یا نمایاں موجودگی ممکن نہیں ہوسکی۔ مشرق وسطیٰ روس کو قبول کرنے میں تذبذب کا شکار اس لیے ہے کہ روس اور اسرائیل کے تعلقات بھی خاصے خوشگوار رہے ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے کے وسط سے اب تک دس لاکھ یہودی اسرائیل چھوڑ کر روس میں آباد ہوچکے ہیں مگر ان میں سے بیشتر نے دہری شہریت رکھی ہوئی ہے۔ جب جی چاہے، یہ روس جاتے ہیں۔
مغرب اور ایران کے درمیان ایٹمی تنازع میں روس نے ایران کا ساتھ دینے میں خاصی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ سلامتی کونسل میں ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے حق میں ووٹ دینے کے ساتھ ساتھ روس نے اس سے ۲۰۰۵ء میں ایس۔۳۰۰ میزائل کی فراہمی کا معاہدہ بھی منسوخ کردیا ہے۔ صدر دیمتری میدویدوف کی قیادت میں روس بیشتر بین الاقوامی معاملات میں بظاہر امریکا کے سامنے جھک رہا ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم ولادیمیر پوٹن کی پالیسیاں سامراج مخالف ہیں۔ ایران کو روس پر زیادہ اعتبار نہیں۔ ایرانی وزیر دفاع احمد واحدی روس کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ روس بین الاقوامی سطح پر ٹھوس کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے تاہم وہ بہت حد تک تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ والیئرنیٹ ڈاٹ او آر جی پر تھئری میسن لکھتے ہیں کہ علاقائی طاقتیں روس کو شک کی نظر دیکھتی ہیں۔ امریکا اور یورپی یونین نے ایران پر مذاکرات میں ترکی اور برازیل کو شامل نہ کرنے کا فیصلہ کرکے روس کے لیے مزید الجھن کھڑی کی۔
ایران، ترکی، شام اور مصر ایٹمی پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے چلانے کے خواہش مند ہیں۔ روس نے مشرق وسطیٰ میں امریکا اور اسرائیل کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے بچنے کی جو کوششیں کی ہیں ان پر اسرائیل فطری طور پر برہم ہے۔ جن علاقوں میں روس کا اثر و رسوخ رہا ہے وہاں وہ اپنی موجودگی محسوس کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران اور شام کسی حد تک چاہتے ہیں کہ روس خطے میں صورت حال کو معمول پر لانے کی کوششوں میں ہاتھ بٹائے۔ روس علاقے میں پاور بروکر کا کردار بھی ادا کرسکتا ہے۔ اسرائیل میں آباد لاکھوں روسی یہودی اب بھی خطے کے حالات سے مطمئن نہیں۔ ایسے میں اگر انہیں روس یا اسرائیل میں سے کسی کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ روس کو ترجیح دیں گے۔ اسرائیل میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ توریت پر یقین رکھنے والے یہودی اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ مگر ٹھہریے، ۱۹۲۸ء میں روس میں بیروبجان کے مقام پر عارضی یہودی ریاست قائم کی گئی تھی۔ یہ ریاست سوویت سیکولر نیشنلسٹ پالیسی کا حصہ تھی۔ اسرائیلی علاقوں میں آباد یہودیوں کو یہاں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اس علاقے میں مختلف دھاتوں کے وسیع ذخائر ہیں۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد نئی زندگی شروع ہوئی۔ دیمتری مدویدوف نے حال ہی میں اس علاقے کا دورہ کرکے ریاست کی مدد سے یہودیوں کو یہاں آباد ہونے کی تحریک دی ہے۔ اس نام نہاد یہودی ریاست میں یورپی یہودیوں کی زبان یڈش بولی جاتی ہے۔
ترکی، روس، شام اور ایران مل کر خطے سے برطانوی اور امریکی سامراج کی غلاظت صاف کرنا چاہتے ہیں۔ یورپ نے اسرائیل کو پروان چڑھایا ہے۔ سوال سوچ کے فرق کا ہے۔ امریکا اور اسرائیل اب بھی ایران پر حملے کا منصوبہ بنا رہے ہیں جبکہ ترکی اور روس کے قائدین خطے میں تجارت، توانائی اور دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دے کر نئے دور کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ لبنان اور ایران پر مزید پابندیاں عائد کردی جائیں۔ دوسری جانب لبنان، ایران، شام اور خطے کے دیگر ممالک اشتراک عمل کی بات کر رہے ہیں۔ سوچ کا یہ فرق مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا اور یوریشیا میں ایک نئے دور کے آغاز کی راہ ہموار کرے گا۔
(بشکریہ: ’’الاہرام ویکلی‘‘ قاہرہ۔ یکم اکتوبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply