دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ جغرافیائی سرحدوں کے مقابلے میں اب قبائلی تعلقات، نسل، زبان اور مذہب کی بنیاد پر سرحدوں کو ترتیب دیا جارہا ہے۔ صدیوں سے انسانوں اور خطوں کو الگ کرنے کے لیے نقشے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ مگر اب شاید ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے جس میں انسانی رشتوں کی زیادہ اہمیت ہے۔ قدیم قبائلی تعلقات نئی سرحدوں کو ترتیب دے رہے ہیں اور عالمی سطح پر ایک نیا اور قدرے پیچیدہ نظام معرض وجود میں آ رہا ہے۔ جہاں پہلے سفارت کاری سرحدوں کو تعین کرتی تھی وہاں اب تاریخ، نسل، زبان، ثقافت اور مذہب نئی سرحدوں کا تعین کرنے والی قوتیں بن کر ابھری ہیں۔ اس بنیاد پر نئی گروپنگ سامنے آرہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام، سوشل ازم یا مارکس ازم چند شہری اشرافیہ تک تو اثرات کا حامل ہوسکتا ہے، عوام کو ان نظریات سے کچھ خاص غرض نہیں۔ کسی بھی عالمگیر نظریے کے مقابلے میں اب قبیلے کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ عرب مؤرخ ابن خلدون نے لکھا تھا کہ صحرا میں، جہاں مشکل ترین حالات پیش آتے ہیں، صرف قبائلی بنیاد پر پیدا ہونے والے ہمدردانہ جذبات ہی بقاء کے ضامن ہوسکتے ہیں!
قبائلی تعلقات صدیوں پرانے ہیں مگر اب عالمگیریت کی نوعیت اور پھیلاؤ نے ان میں ناقابل یقین حد تک وسعت پیدا کردی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے نے صورت حال کو بدل دیا ہے۔ امریکا اور سابق سوویت یونین نے جو بلاک تشکیل دیئے تھے ان کی ذرہ بھر بھی اہمیت نہ رہی۔ حال ہی میں چین اور بھارت کے بنیادی کردار کے ساتھ متحدہ تیسری دنیا کا تصور بھی پیش کیا گیا ہے۔ برازیل، روس، بھارت اور چین کی ثقافت اور تاریخ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے مگر یہ ایک نئی معاشی دنیا کو معرض وجود میں لانے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب دنیا میں کس نوعیت کی تبدیلیوں کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔
مختلف خطوں اور ممالک کی سرحدوں کے نئے سرے سے تعین کے لیے جو درجہ بندی کی جارہی ہے اس میں کئی ممالک آسانی سے فٹ نہیں ہوتے۔ فرانس ان میں نمایاں ہے۔ نشاۃ ثانیہ کے دور کی شہری ریاستیں کہاں ہیں؟ لندن اور سنگاپور جیسے شہروں کو اگر کوئی چیز جوڑ رہی ہے تو وہ جغرافیہ نہیں، خوش حالی ہے۔
ہانسیٹک لیگ کا احیاء
تیرہویں صدی میں شمالی یورپ کے شہروں اور قصبوں کو تجارتی بنیاد پر ایک اتحاد کی لڑی میں پرویا گیا جس کا نام ہنسیٹک لیگ تھا۔ اس لیگ میں ڈنمارک، فن لینڈ، جرمنی، ہالینڈ، ناروے اور سوئیڈن شامل تھے۔ اس خطے نے بیسویں صدی میں بے مثال ترقی کی اور جرمنی نے ہائی ٹیک میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا خوب منوایا ہے۔ جرمن ہائی ٹیک پروڈکٹس روس، چین اور بھارت میں بڑے پیمانے پر استعمال کی جارہی ہیں۔ جرمنی اور شمالی یورپی کے دیگر ممالک میں فلاحی ریاست کا تصور رو بہ عمل ہے۔ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دی جارہی ہیں تاکہ ان کی زندگی کا معیار بلند ہو۔ لیگیٹم پروسپیرٹی انڈیکس کے ذریعے دنیا بھر میں سہولتوں اور معیار زندگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس انڈیکس کے تحت آٹھ بہترین ممالک میں شمالی یورپ کے 6 ممالک شامل ہیں۔ اس انڈیکس کے ذریعے روزگار، تعلیم اور ٹیکنالوجی کی جدت کا اندازہ لگانے کے ساتھ ساتھ بچتوں کا اندازہ بھی لگایا جاتا ہے۔ ان ممالک میں بچوں کی شرح تقریباً پچیس فیصد ہے جو یقیناً قابل رشک ہے۔
نئی سرحدوں کا تعین
برطانیہ، چیک جمہوریہ، بیلجیم، ہنگری، ایسٹونیا، آئر لینڈ، لیٹویا، لتھوانیا، پولینڈ، رومانیہ اور سلواکیہ اب قبائلی رشتوں کے تحت نئی سرحدوں کو گلے لگانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی ممالک ثقافتی اعتبار سے قدرے الجھے ہوئے ہیں۔ کئی ممالک غیر یقینی حالات کے حامل ہوسکتے ہیں۔ آئرلینڈ بڑی مشکل سے معیشت کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوسکا ہے۔ ماضی میں خطے کے بڑے ممالک کی افواج نے ان ممالک کو کچل کر رکھ دیا تھا۔ مستقبل میں بھی انہیں علاقائی بنیاد پر طاقت کے اندھا دھند استعمال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
’’زیتونی‘‘ ریاستیں!
بلغاریہ، کروشیا، یونان، اٹلی، کوسووو، مقدونیہ، مونٹینیگرو، پرتگال، سلووینیا اور اسپین کو ’’زیتونی‘‘ ریاستیں قرار دیا گیا ہے۔ ان ممالک کی جڑیں یونان اور روم کی سلطنت اور ثقافت سے وابستہ ہیں۔ یہ تمام ممالک شمالی یورپ کے مقابلے میں ہر شعبے میں کمزور ہیں۔ غربت کی شرح تقریباً دگنی ہے۔ یونان، اسپین اور پرتگال کی سربراہی میں قائم ان ریاستوں میں سرکاری قرضے دگنے ہوچکے ہیں۔ ان ممالک میں پیدائش کی شرح انتہائی کم، بلکہ صفر کے مساوی ہے۔ اٹلی اب جاپان کے ساتھ دنیا میں معمر افراد کی سب سے زیادہ تعداد رکھنے والا ملک ہوگیا ہے۔
شہری ریاستیں
لندن مالیات اور میڈیا کا مرکز ہے مگر اسے شہری ریاست کی حیثیت سے سمجھنے کے لیے دوسرے درجے کے ملک میں بہترین شہری ریاست کے تصور کو ذہن میں لانا ہوگا۔
پیرس میں فرانس کی پچیس فیصد معیشت اور بڑی تجارتی اور مالیاتی کمپنیاں مرتکز ہیں۔ وہ معیشت کے اعتبار سے لندن کا مقابلہ تو نہیں کرسکتا تاہم بڑے تجارتی مرکز کی حیثیت سے اس کی اہمیت برقرار رہے گی۔
عالمی سطح پر بڑی تبدیلیاں اب ایشیا کے ہاتھوں انجام پا رہی ہیں۔ سنگاپور بحر الکاہل اور بحر ہند کے درمیان واقع ہونے کی بناء پر غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ سنگاپور کی بندر گاہ کا شمار بہترین بندر گاہوں میں ہوتا ہے۔ تعلیم اور روزگار کی شرح غیر معمولی طور پر بلند ہے اور اسے شہری ریاست کے حوالے سے کامیابی کی ایک عظیم کہانی قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب بھی ہائی ٹیک کا مرکز ہے۔ اس شہر میں فی کس آمدنی پورے ملک کے مقابلے میں پچاس فیصد زیادہ ہے۔ ملک کے ۹ ارب پتیوں میں سے ۴ تل ابیب میں رہتے ہیں۔
شمالی امریکی اتحاد
امریکا اور کینیڈا جغرافیائی، ثقافتی، نسلی اور معاشی طور پر ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ ان کے درمیان تجارت بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور اس میں فروغ ہی کے آثار ہیں۔ شمالی امریکا میں کئی بڑے شہر ہیں جو ہائی ٹیک اور ثقافت کا مرکز ہیں۔ ان میں نیو یارک نمایاں ہے جو ہائی ٹیک سے متعلق معیشت میں دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔ زرعی اعتبار سے بھی یہ خطہ بہت مستحکم ہے۔ یورپ اور ایشیا کے مقابلے میں شمالی امریکا میں پانی کی فی کس دستیابی چار گنا ہے۔
لبرلسٹاز
چلی، کوسٹا ریکا، کولمبیا، میکسیکو اور پیرو وہ ممالک ہیں جو لاطینی امریکا میں جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار کہلاتے ہیں۔ ان کے ہاں غربت اب تک ختم نہیں کی جاسکی ہے۔ بیروزگاری زیادہ ہے، فی گھرانہ اوسط آمدنی خاصی کم ہے، صحت عامہ کا معیار بلند نہیں۔ یہ ممالک چین کی طرح تیز رفتار معاشی ترقی چاہتے ہیں مگر ان کے لیے چند مسائل بھی ہیں۔ میکسیکو امریکا سے متصل ہے۔ اس کے لیے امریکی اثرات کے دائرے سے نکلنا ممکن نہیں۔ اب تک واضح نہیں کہ مستقبل قریب میں ان کی معیشت کون سی راہ پر گامزن ہوگی۔
بولیویرین ریاستیں
ارجنٹائن، بولیویا، ایکواڈور، کیوبا، نکارا گوا اور وینزویلا نے امریکا کے خلاف جانے کی جسارت کی ہے۔ وینزویلا ان ممالک کا قائد ہے۔ یہ ممالک آمریت کو گلے لگاکر امریکا کو منہ دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز کی قیادت میں یہ ممالک ایک الگ راہ پر گامزن ضرور ہیں تاہم غربت نے خطے کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ بولیویا میں شدید غربت کے تحت زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد ساٹھ فیصد تک ہے۔ تیل اور معدنیات کے وسیع ذخائر کے حامل یہ ممالک چین اور روس کے عزائم کو خطے میں پروان چڑھانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی اپنی ترقی کی راہ بھی ہموار ہو۔
اسٹینڈ الون
برازیل تنہا کھڑا ہے۔ اس کی ترقی کی رفتار قابل رشک ہوتی جارہی ہے۔ اس نے امریکا کے اثرات سے ہٹ کر چلنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس معاملے میں قدرے کامیاب بھی رہا ہے۔ چین، بھارت، ترکی اور ایران کے ساتھ مل کر وہ تیسری دنیا میں ایک نیا بلاک بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ وہ خطے میں ایک طاقت کا درجہ رکھتا ہے تاہم اب تک وہ سماجی مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ غربت اور جرائم پر قابو پانا بظاہر ممکن نہیں۔
فرانس بھی تنہا کھڑا ہے۔ وہ برطانیہ سے اتحاد نہیں کرسکتا۔ جرمنی سے جا ملنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہ اینگلو امریکن ازم کی راہ میں بھی مزاحم ہے۔ اب وہ سپر طاقت تو رہا نہیں تاہم اسے نظر انداز کرنا بھی آسان نہیں۔
بھارت کا شمار تیز رفتار ترین ترقی پذیر معیشتوں میں ہوتا ہے تاہم اس کی فی گھرانہ اوسط آمدنی چین کے مقابلے میں ایک تہائی ہے۔ سوا ارب بھارتیوں میں سے ایک تہائی شدید غربت کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ چند بڑے شہروں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ممبئی اور کلکتہ جیسے شہروں میں بڑی کچی آبادیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ان مشکلات کے باوجود بھارت آٹو انڈسٹری سے سوفٹ ویئر انڈسٹری تک ہر شعبے میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
جاپان کے مالیاتی ذرائع غیر معمولی ہیں۔ اس نے دنیا بھر میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ آٹو انڈسٹری اور الیکٹرانکس میں جاپان کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔ وہ سپر طاقت ہے۔ کل تک وہ دوسری بڑی معیشت کے درجے پر فائز تھا، اب یہ مقام چین کو مل چکا ہے۔ جاپان تارکین وطن کی آمد کے معاملے میں بہت حساس ہے جس کے باعث ۲۰۵۰ء تک اس کی آبادی میں ساٹھ سال سے زائد عمر والے افراد کی تعداد ۳۵ فیصد ہوچکی ہوگی۔
جنوبی کوریا نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چالیس سال قبل جنوبی کوریا میں فی کس آمدنی وہی تھی جو افریقی ملک گھانا میں تھی۔ اب کورین باشندوں کی فی کس آمدنی گھانا کے باشندوں سے پندرہ گنا ہے! اس کی فی گھرانہ اوسط آمدنی کم و بیش جاپان کے برابر ہے! عالمگیر معاشی بحران کا جنوبی کوریا نے عمدگی سے سامنا کیا ہے اور ساتھ ہی اس بات کا خیال بھی رکھا ہے کہ کہیں چین کی معیشت اسے اپنے اندر جذب نہ کرلے۔
سوئٹزر لینڈ بنیادی طور پر شہری ریاستوں کا مجموعی ہے۔ یہ مواصلاتی ذرائع سے دنیا سے جڑا ہوا ہے۔ معیار زندگی بلند ہے۔ دنیا بھر کی دولت اس ملک میں جمع کی جاتی ہے۔ عام آدمی کو غیر معمولی سہولتیں میسر ہیں۔ کاروباری مواقع بھی بہتر ہیں۔
روسی سلطنت
یہ علاقہ آرمینیا، مالدووا، یوکرین، روسی فیڈریشن اور بیلارس پر مشتمل ہے۔ قدرتی وسائل غیر معمولی ہیں۔ روس کی فوج بڑی ہے اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ روس کی حکومت جارجیا، یوکرین اور وسط ایشیا میں اپنی حیثیت منوانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ زاروں کے زمانے کی طرح آج بھی روس کی آبادی میں 80 فیصد روسی سلاوک نسل کے لوگ ہیں۔ انہی پر روسی حکومت اپنی شناخت کے لیے انحصار کرتی ہے۔ فی گھرانہ آمدنی اٹلی کے مقابلے میں نصف ہے اور آبادی میں معمر افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ روس کو مختلف سیاسی اور سماجی مسائل کا سامنا ہے۔
دی وائلڈ ایسٹ
پاکستان، افغانستان، آذر بائیجان، قازقستان، کرغیزستان اور تاجکستان پر مشتمل علاقہ شدید عدم استحکام کی لپیٹ میں ہے اور مختلف طاقتوں کی زور آزمائی کے باعث ایسا ہی رہے گا۔
ایرانستان
ایران، بحرین، غزہ کی پٹی، لبنان، شام اور عراق میں ایرانی اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ علاقہ ایرانی حکومت کے عزائم کے زیر اثر رہے گا۔ ایران کے پاس تیل کی دولت ہے اور تعلیم کی سطح بھی بلند ہے۔ وہ علاقائی طاقت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مغرب اور عرب دنیا سے کشیدگی نے ایرانی مفادات کے پنپنے کی گنجائش کم کردی ہے۔ ایران اپنی معیشت کو بہتر انداز سے چلانے میں ناکام رہا ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک اب اشیائے صرف کا درآمد کندہ بن کر رہ گیا ہے اور فنشڈ پٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے پر بھی مجبور ہے۔
گریٹر عربیا
سعودی عرب، مصر، کویت، یمن، اردن، امارات اور فلسطینی علاقوں پر مشتمل یہ علاقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اسی لیے عمومی سطح پر خوش حالی بھی نمایاں ہے۔ یمن اور چند دوسرے ممالک شدید غربت کی لپیٹ میں ہیں۔ امارات میں فی کس آمدنی چالیس ہزار درہم سالانہ ہے جبکہ یمن میں اس کا پانچ فیصد ہے۔ یہ ناہمواری خطے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ مذہب، نسل اور ثقافت کی بنیاد پر یہ خطہ متحد ہے تاہم دیگر خطوں اور ممالک سے تعلقات بہتر نہیں۔
نئی سلطنتِ عثمانیہ
ترکی، ترکمنستان اور ازبکستان پر مشتمل علاقہ اب اپنی ترقی کے لیے ترکی کی قیادت میں مشرق کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ترکی یورپی یونین کا رکن بننا چاہتا ہے مگر یورپ اس پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکی آج بھی یورپ کا بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے تاہم ساتھ ہی ساتھ روس اور چین سے بھی معاشی تعلقات کو وسعت دی جارہی ہے۔ ترکی وسط ایشیا میں ہم نسل برادری سے بھی معاشی اور سیاسی تعلقات کو وسعت دینے کا خواہش مند ہے۔
جنوب افریقی سلطنت
بوٹسوانا، لیسوتھو، نمیبیا، جنوبی افریقا، سوازی لینڈ اور زمبابوے پر مشتمل علاقہ تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ جنوبی افریقا کی معیشت خاصی بڑی اور متنوع ہے۔ وہ مختلف شعبوں پر انحصار کیے ہوئے ہے۔ بنیادی ڈھانچا اچھا ہے، قدرتی وسائل کی بھی کمی نہیں۔ زمین زرخیز ہے اور صنعتی ڈھانچا بھی موجود ہے۔ ایسے میں جنوبی افریقا کی سلطنت کو پپنپنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ جنوبی افریقا میں فی کس آمدنی دس ہزار ڈالر ہے جو اسے افریقا میں دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔
سب سہارن افریقا
انگولا، کیمرون، سینٹرل افریقن ری پبلک، کانگو۔کنشاسا، ایتھوپیا، گھانا، کینیا، لائبیریا، ملاوی، مالی، موزمبیق، نائجیریا، سینیگال، سیئرالیون، سوڈان، تنزانیہ، ٹوگو، یوگنڈا اور زمبیا پر مشتمل علاقہ مجموعی طور پر پس ماندگی کی لپیٹ میں ہے اور اس کے پنپنے کے امکانات محدود ہیں۔ سابق برطانوی یا فرانسیسی نو آبادیوں پر مشتمل یہ ممالک مسلمانوں اور عیسائیوں میں منقسم ہیں۔ بیشتر ممالک میں انگریزی اور فرانسیسی بولی جاتی ہے تاہم ثقافت کا فرق نمایاں ہے۔ معدنیات سے مالا مال ان میں سے بیشتر ممالک کے ۷۰ سے ۸۰ فیصد آبادی شدید غربت تلے زندگی بسر کر رہی ہے اور چین، بھارت اور شمالی امریکا صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
مغربی پٹی
الجزائر، لیبیا، ماریطانیہ، مرکش اور تیونس پر مشتمل یہ خطہ بھی معاشی طور پر ابھرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ لیبیا اور تیونس میں کچھ کچھ خوش حالی دکھائی دیتی ہے۔ تاہم ان ممالک اور مجموعی طور پر پورے خطے میں غریبوں کی تعداد غیر معمولی ہے۔
وسطی بادشاہت
چین، ہانگ کانگ اور تائیوان پر مشتمل علاقہ بہت سے تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے اندازے کے مطابق چین ایک آدھ عشرے میں تو امریکا کو پیچھے نہیں چھوڑ پائے گا تاہم اس کی جانب سے امریکی مفادات کے لیے خطرات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ نسلی اور لسانی وحدت اور تاریخ سے رشتہ مستحکم ہونے کی بنیاد پر چین کے لیے مسائل کم ہیں۔ چین کے ہان نسل کے لوگ دنیا کا سب سے بڑا نسلی اور لسانی گروپ ہیں۔ چین میں ایک ارب سے زائد افراد ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ چین کو اپنی معیشت کا پہیہ چلتا رکھنے کے لیے خام مال اور توانائی کی مستقل ضرورت رہتی ہے۔ افریقا، جنوبی ایشیا، لاطینی امریکا اور دیگر خطوں میں چین نے خام مال نکالنے سے متعلق سیٹ اپ قائم کیا ہے۔ چین کے بنیادی مسائل میں غریب اور امیر کے درمیان بڑھتا ہوا فرق اور ماحول کو پہنچنے والا نقصان نمایاں ہیں۔ چین کی آبادی میں معمر افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ تیس سال اس کے لیے سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔
دی ربر بیلٹ
کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملائیشیا، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویت نام پر مشتمل علاقہ ربر کی پیداوار کے لیے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ان ممالک میں قدرتی وسائل کی کمی نہیں۔ سمندری خوراک کی اچھی ورائٹی موجود ہے تاہم سیاسی عدم استحکام نے بیشتر ممالک کی ترقی کا راستہ روک رکھا ہے۔ تمام ہی ممالک معیشت کو بہتر بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ ملائیشیا کے سوا کسی کی فی کس آمدنی قابل رشک نہیں تاہم مستقبل قریب میں اس خطے کے ابھرنے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
خوش نصیب ممالک
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو خوش نصیب ملک کہا جاسکتا ہے کیونکہ انہیں کسی سے مسابقت کا سامنا نہیں۔ قدرتی وسائل بے حساب ہیں، آبادی خاصی کم ہے، فی کس آمدنی زیادہ ہے، زندگی کا معیار بلند ہے۔ ثقافتی طور پر یہ شمالی امریکا اور برطانیہ وغیرہ سے جڑے ہوئے ہیں تاہم جغرافیائی حقائق انہیں بہت جلد چین اور بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بنادیں گے۔
(جوئل کوٹکن، چیپ مین یونیورسٹی (اورنج کاؤنٹی) کے ڈسٹنگوشڈ پریزیڈینشل فیلو ہیں۔ وہ لندن کے لیگیٹم انسٹی ٹیوٹ کے ایڈجنکٹ فیلو بھی ہیں۔ اس مضمون کے لیے مواد لیگیٹم انسٹی ٹیوٹ نے فراہم کیا۔)
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘ پاکستان۔ ۴ اکتوبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply