مشہور جریدے لائف کے بانی ہنری لیوس نے دوسری جنگ عظیم میں امریکا کے شریک ہونے سے کچھ پہلے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ امریکی چاہیں تو دنیا سے الگ تھلگ رہ کر اپنے لیے ایسی انفرادی حیثیت پیدا کرسکتے ہیں کہ اکیسویں صدی کا بقیہ حصہ ان کے نام ہوگا۔ ان کے خیال میں یہ امریکا کی پہلی صدی ہوگی۔ جس وقت انہوں نے یہ بات لکھی تھی تب انہیں یقین نہیں ہوگا کہ یہ کوئی واحد امریکی صدی نہیں ہوگی۔ دنیا بھر میں امریکی اثرات اس تیزی سے پھیل رہے ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں مستقبل زیادہ امریکی دکھائی دیتا ہے۔ دنیا بھر میں نئی نسل آج بھی امریکا کی دیوانی ہے۔ امریکا کو اب بھی خوابوں کی نگری سمجھا جاتا ہے۔ پس ماندہ دنیا کے جو لوگ اپنا مستقبل سنوارنا چاہتے ہیں وہ امریکا جانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ امریکی مصنوعات کی مقبولیت میں اب تک کمی واقع نہیں ہوئی۔
ایسا نہیں ہے کہ امریکا نے کوئی غلطی کی ہی نہیں۔ کئی فیصلے مکمل طور پر غلط ثابت ہوئے ہیں۔ عالمی معاشی بحران میں بھی امریکی اسٹاک مارکیٹ کی مہم جوئی نے مرکزی کردار ادا کیا۔ مگر اس کے باوجود امریکا زیادہ متاثر نہیں ہوا۔ کئی ممالک کی معیشت اس بحران کو جھیلنے میں ناکام رہی ہے مگر امریکا نے غیر معمولی استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اور پالیسی میں اہم تبدیلیوں کے ذریعے معیشت کی بحالی کو یقینی بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ امریکا نے ثابت کیا ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں خود کو ایڈجسٹ کرسکتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں دوسروں کے لیے غلطی کی گنجائش ہو یا نہ ہو، امریکا کے لیے گنجائش ضرور باقی رہتی ہے۔
امریکا کی آبادی عالمی آبادی کا ۵ فیصد ہے مگر اس کے باوجود وہ عالمی پیداوار کا ۲۵ فیصد تک پیدا کرتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جی سیون پہلے جی ایٹ میں تبدیل ہوئی اور اب جی ٹوئنٹی کی بات ہو رہی ہے۔ کئی ممالک معاشی اعتبار سے تیزی سے ابھر رہے ہیں اور علاقائی سطح پر ان کی پوزیشن غیر معمولی ہوتی جارہی ہے مگر اس کے باوجود کوئی بھی ابھرتا ہوا ملک امریکا کے لیے خطرہ بننے کی اہلیت اور سکت نہیں رکھتا۔ تمام ترقی یافتہ اور ابھرتے ہوئے ممالک چاہتے ہیں کہ امریکا اور کچھ نہ سہی، اپنے اصولوں کے مطابق کام کرتا رہے۔ یونان کے مالیاتی بحران نے یورپی یونین میں سیاسی اور معاشی پالیسیوں کی ہم آہنگی کے فقدان کو ظاہر کیا ہے اور اس کے نتیجے میں عالمگیر ریزرو کرنسی کی حیثیت سے امریکی ڈالر کی پوزیشن مزید مستحکم ہوئی ہے۔ چین بڑی تیزی سے نجی املاک کے مغربی تصور کو اپنا رہا ہے اور امریکی ٹریژری بلز میں اس کی غیر معمولی سرمایہ کاری اس کا مظہر ہے کہ وہ امریکی کرنسی کو آج بھی قابل اعتبار سمجھتا ہے۔ چین، بھارت اور برازیل میں صَرف کے رجحان کی حامل مڈل کلاس کا ابھرنا امریکا کے لیے بھی خوش آئند ہے کیونکہ ان ممالک میں ابھرتی ہوئی مڈل کلاس اس امر کی عکاس ہے کہ امریکی اشیا و خدمات اور ثقافت کے لیے بھی نئی مارکیٹ معرض وجود میں آرہی ہے۔
امریکا کے حتمی زوال کی پیش گوئی کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ۱۹۸۸ء میں پال کینیڈی کی کتاب ’’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘‘ نے بیسٹ سیلر کا درجہ حاصل کیا۔ اس کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ امریکا مجموعی طور پر اپنے اثرات سے محروم ہوتا جارہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب امریکی معیشت اور سفارت کاری اپنے اثرات سے محروم ہوچکی ہوگی اور اس کی عسکری برتری بھی غیر معمولی نہیں رہے گی۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ امریکا خطرناک حد تک پائوں پھیلا رہا ہے۔ دنیا بھر میں عسکری مہمات کا بوجھ اٹھانا اس کے لیے ممکن نہ رہے گا۔
مگر اس کے بعد کیا ہوا؟ برلن کی دیوار گری اور بہت سے دوسرے ممالک نے بھی مارکیٹ کیپٹل ازم کو اپنایا۔ امریکا نے آن لائن ٹیکنالوجی (انٹرنیٹ) کے ذریعے دنیا کو گائوں میں تبدیل کردیا اور ایک بار پھر ثقافتی اعتبار سے اپنی برتری برقرار رکھنے کا سامان کرلیا۔ امریکا کو اپنی عسکری برتری برقرار رکھنے کی بھی کچھ زیادہ قیمت ادا نہیں کرنی پڑ رہی۔ اس وقت بیرون ملک تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد ۲ لاکھ ۸۸ ہزار ہے۔ اور ان عسکری مہمات پر قومی پیداوار کا چار اعشاریہ چھ فیصد خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار دوسری جنگ عظیم کے بعد کے کم ترین ہیں۔ ۱۹۸۷ء میں بیرون ملک تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد ۵ لاکھ ۲۴ ہزار تھی اور اس مد میں امریکا کو قومی پیداوار کا ۶ فیصد ادا کرنا پڑ رہا تھا۔ امریکا اب بھی دفاع کی مد میں اپنی قومی پیداوار کا خاصا چھوٹا حصہ صرف کر رہا ہے جبکہ دوسری ۹ بڑی طاقتوں کا مجموعی دفاعی بجٹ اس سے کم ہے!
آج بھی امریکی اپنے بارے میں بہت کچھ بڑھ چڑھ کر بیان کرتے ہیں اور خود کو دوسروں سے بلند سمجھتے ہیں۔ یہ اس اعتبار سے اچھی چیز ہے کہ وہ اپنے معیار پر سمجھوتہ نہیںکرنا چاہتے اور کسی بھی بحران کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مگر اس سوچ کا ایک گندا پہلو یہ ہے کہ دوسروں کی نئی نئی خوش حالی بھی امریکیوں سے ہضم نہیں ہو پارہی۔ چین اور بھارت میں اگر کروڑوں افراد پہلی بار بھرپور خوش حالی کا مزا لوٹ رہے ہیں تو اس پر امریکیوں کو احساس کمتری یا احساس غربت نہیں ہونا چاہیے۔
امریکا کی طاقت اور اثر و نفوذ کی پیمائش کے دو طریقے ہوسکتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کی بطن سے پیدا ہونے والی تباہی کو مد نظر رکھا جائے تو امریکا کی خوش حالی واقعی قابل رشک ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر امریکا عالمی پیداوار میں ایک تہائی حصہ کا مالک تھا۔ اگر اس پیمانے پر پرکھا جائے تو یورپ کی طاقت بحال کرنا اب ناممکن نہیں تو غیر معمولی حد تک دشوار ضرور ہے۔
اب اگر امریکا کی طاقت کا اندازہ لگانا ہے تو اس کی دولت کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اس کے ثقافتی اثرات کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ ہنری لیوس نے ۱۹۴۱ء میں لکھا تھا ’’امریکن جاز میوزک، ہالی وڈ کی فلمیں، امریکن انگلش، امریکی مشینیں اور پیٹنٹیڈ مصنوعات وہ چیزیں ہیں جنہیں زنجیبار سے ہمبرگ تک مختلف اقوام مشترک قدر کی حیثیت سے جانتی ہیں۔‘‘ اس وقت لیوس کو اندازہ نہیں تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب چین میں بھی اتنے ہی لوگ انگلش سیکھ رہے ہوں گے جتنے امریکا میں جانتے اور بولتے ہیں۔ اور چین میں بھی اتنے ہی لوگ باسکٹ بال کھیل رہے ہوں گے جتنے امریکا میں کھیل رہے ہیں۔ انہیں کچھ اندازہ نہیں تھا کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ۱۰ ٹی وی شوز میں سے ۷ ؍امریکا کے ہوں گے۔ امریکی فلم AVATAR چین میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم بن گئی ہے۔ امریکی مصنوعات میں پوری دنیا کے لیے آج بھی خاصی کشش ہے۔ مکڈونلڈ سے لے کر نایکی (NIKE) تک بیشتر امریکی مصنوعات کی نصف آمدنی بیرون امریکا سے حاصل ہوتی ہے۔ نائجیریا، سوئیڈن، جنوبی کوریا اور ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو کسی مقام پر جمع کریں اور اس امر کا جائزہ لیں کہ ان میں قدرِ مشترک کیا ہے تو اندازہ ہوگا کہ امریکی ثقافت نے انہیں ایک دھاگے میں پرو رکھا ہے۔ وہ امریکی موسیقی پسند کرتے ہیں، ہالی وڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں، امریکی انگلش بولتے ہیں۔ امریکی الیکٹرانک گِم اور گوگل بھی ان کے درمیان قدر مشترک ہیں۔ علاوہ ازیں وہ امریکی کنزیومر برانڈز میں بھی غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں۔ ہاں، صرف ایک مشترک قدر ان کے درمیان ایسی ہے جس کا براہ راست امریکا سے کوئی تعلق نہیں اور وہ ہے فٹ بال میں ان کی دلچسپی۔ چند اچھے اور چند برے طریقوں سے دنیا بہت تیزی سے امریکی انداز اختیار کرتی جارہی ہے بلکہ امریکی ہوتی جارہی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا کی انفرادیت میں تیزی سے رونما ہوتی ہوئی کمی کے باوجود اب تک یہ اکیسویں صدی بھی امریکی ہے۔
سوال صرف یہ نہیں ہے کہ امریکا کتنی طاقت رکھتا ہے بلکہ اب اس امر کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے کہ دوسری بہت سی ابھرتی ہوئی قوتوں کے مقابل توازن قائم رکھنے کے لیے امریکا کا سہارا لیا جائے۔ جاپان، جنوبی کوریا اور ویت نام چاہتے ہیں کہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے سامنے بند باندھنے میں امریکا مرکزی کردار ادا کرے۔ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے خلاف امریکا کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ سال ’’پیو گلوبل ایٹیڈیوڈ سروے‘‘ میں ۲۴ ممالک کی اکثریت نے امریکا کے حق میں رائے دی۔ انہوں نے چین اور روس کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا۔ صرف مشرق وسطیٰ ایسا خطہ ہے جس میں امریکا کے لیے زیادہ پسندیدگی نہیں پائی جاتی اور امریکی مصنوعات کو پسند کرنے والوں کی تعداد خاصی کم ہے۔
چند ایک معاملات میں امریکا کو ناپسند بھی کیا جاتا ہے۔ امریکیوں میں مثالی نظم و ضبط نہیں۔ بہتر حکمرانی کا خواب بھی امریکا میں مکمل طور پر شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے مسائل نے امریکی معیشت کو گھیر رکھا ہے مگر اس کے باوجود عام امریکی بیشتر امور میں اب تک احساس برتری کے حامل ہیں۔ امریکا میں آج بھی بہت سے مالدار افراد تعطیلات گزارنے کے لیے الگ مکان رکھتے ہیں اور ان مکانات پر انہیں رہن کے سود میں چھوٹ بھی ملتی ہے۔ معیشت کو چلتا رکھنے کے لیے امریکا کو بڑے پیمانے پر تیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اب امریکی حکومت ایٹمی بجلی گھروں کی تعداد بڑھانے پر غور کر رہی ہے۔ اس بات کو سبھی محسوس کر رہے ہیں کہ ایک قوم کی حیثیت سے امریکی اب کسی بھی بحران سے نمٹنے کے لیے درکار مثالی عزم سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ان میں وہ دم خم دکھائی نہیں دیتا جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے اختتام پر تھا۔
امریکا کو عالمی قائد کا کردار دوبارہ اختیار کرنے اور اسے بہتر طور پر استعمال کرنے کے لیے اب سیاسی مفلوجیت سے نجات پانے کی ضرورت ہے۔ امریکا کی صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اب بھی دنیا کو بہت کچھ دے سکتا ہے اور اس کے بدلے میں بہت کچھ پاسکتا ہے۔ کئی شعبوں میں امریکا آج بھی قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے اور کوئی عظیم شئے ایجاد کر سکتا ہے۔ مثلاً زندگی کا دورانیہ بڑھانے کی ادویہ کی ٹیکنالوجی ہے جس میں پیش رفت کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ یا مثلاً یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس (LICLA) اور ایری زونا اسٹیٹ یونیورسٹی جیسے مقامات پر جاری تحقیق کے ذریعہ امریکا زندگی کی ایسی شکلیں دریافت کرنے میں بھی مصروف ہے جو توانائی کے احیاء میں معاون ثابت ہوں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بھی امریکا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس حوالے سے اس کی برتری قائم رہے۔ امریکا اب بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئے رجحانات دے رہا ہے۔ گوگل اور یاہو کی دسترس سے کون واقف نہیں؟
جو لوگ امریکا آتے ہیں وہ دو باتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اول تو یہ کہ یہ ملک کس قدر زبردست اور خوشحال ہے اور دوسرے یہ کہ اس کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کس قدر الجھی ہوئی ہے۔ میڈیا کو دیکھ کر لوگ حیران ہی ہو رہتے ہیں۔ امریکا کو سمجھنے میں بیشتر غیر ملکیوں کو مشکل ہی پیش آتی ہے۔ ایک طرف بلند معیارات ہیں اور دوسری طرف بلند توقعات۔ امریکیوں کی عادات مختلف ہیں۔ بہت سی قدرتی آفات کے بارے میں بھی وہ تفتیش کرتے ہیں۔ اگر انتظامی سطح پر کوئی کوتاہی سرزد ہوئی ہو تو وہ معاف نہیں کرتے اور کوشش کرتے ہیں کہ ذمہ داروں کا احتساب ہو۔ معیار بلند رکھنے کا یہ بھی ایک عمدہ طریقہ ہے۔ امریکیوں کو اپنی برتری کا احساس ہے اور اسے برقرار رکھنے کی فکر بھی لاحق رہتی ہے۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ اکیسویں صدی بھی امریکا ہی کے نام رہے گی۔
(آندرے مارٹنیز نیو امریکا فائونڈیشن میں برنارڈ ایل شوارٹز فیلوز پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں۔)
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ ۔ ۲۲ مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply