
دو ہفتے قبل نیو یارک سٹی پر نائن الیون کے بعد سب سے بڑا حملہ ہوا۔ اس مرتبہ مین ہیٹن کی ویسٹ سائڈہائی وے کو مقتل بنایا گیا۔ یہ حملہ ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گرد حملے انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرچکے ہیں۔ ہم نے نائن الیون کے بعد ایسے حملوں کی روک تھام کے لیے انفرا اسٹرکچر تعمیر کیا لیکن ہم دہشت گردی کے اس نئے مرحلے سے نمٹنے کی تیاری نہیں رکھتے۔ ہاں، تازہ حملے کے بعد آنے والی اچھی خبر یہ ہے کہ اس کے بعد مختلف قومیتوں نے ایک دوسرے سے تعاون کیا۔ بری خبر یہ ہے کہ جس دوران ہم دہشت گردی کے تدارک کے لیے کرمنل جسٹس کو تیز کرنے کی بات کر رہے تھے، ہم نے واپسی کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے اپنے نظام انصاف پر تنقید شروع کردی۔
ہمیں اپنی سر زمین پر ہونے والے حملے پر کس طرح کا ردعمل دینے کی ضرورت ہے؟ تارکین وطن کے خلاف نفرت بھڑکانے اور سیاسی حملے کرنے کی یا پھر اپنے نظام انصاف جسٹس پر تنقید کے بجائے قابل عمل امکانات کی دیکھنے کی؟ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ محض بیان بازی سے کام نہیں چلے گا۔ یہ بات یادر کھنے کی ہے کہ دنیا میں صرف ر وس ہی ایسا ملک نہیں جو امریکا کو کمزور دیکھنا چاہتا ہے۔ دہشت گردوں کا بھی یہی ایجنڈا ہے۔ ہمیں کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
جب دہشت گردی ہوتی ہے یا کوئی اور سانحہ گزرتا ہے تو ہمیں یاد آتا ہے کہ ہمیں تیز اور موثر نظام انصاف کی ضرورت ہے۔ حملے کے بعد صدر ٹرمپ مشتبہ شخص کو گوانتاناموبے بھیجنے پر تل گئے تھے لیکن شکر ہے کہ معقولیت کی بات سن لی گئی۔ درحقیقت اس مرحلے پر ہمارے سامنے بحث جنگ اور قانون کی حکمرانی کی ہے۔ گزشتہ انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے صدق دل سے کام کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملک کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تمام دستیاب وسائل (مثلاً عسکری قوت، انٹیلی جنس، نفاذِ قانون، سفارت کاری اور معاشی پابندیاں) بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردوں کا نیٹ ورک ختم کرنا ہوگا۔ امریکی سرزمین سے گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کو امریکا کے اس نظام انصاف کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسے دنیا رشک کی نظر سے دیکھتی ہے اور جو قانون کی حکمرانی یقینی بنانے والے معاشرے کا طرۂ امتیاز ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کے ذریعے بہت حد تک مطلوب نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔
ہمارے سامنے اس نظامِ انصاف کا ریکارڈ واضح ہے۔ انٹیلی جنس حاصل کرنے، ریکارڈ کو محفوظ بنانے، نتیجہ نکالنے اور دہشت گردوں کے بچ نکلنے کے امکانات ختم کرنے کے لیے اس نظام کے پاس بہت سے وسائل ہیں۔ اس نظام میں دس لاکھ سے زائد وفاقی، ریاستی اور مقامی افسران و اہلکار مستعد و فعال رہتے ہیں۔ وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر ہماری جان اور ریاست کے اثاثوں کو محفوظ بناتے ہیں۔ لیکن کیا ان کی خدمات کے صلے میں انہیں تمسخر کا نشانہ بنانا اور کسی بھی غلطی کی بنیاد پر شدید نکتہ چینی کرنا درست ہے؟ صرف یہی نہیں، اس نظام میں تیس ہزار سے زائد ایف بی آئی ایجنٹ، انٹیلی جنس تجزیہ کار اور دیگر پروفیشنلز ہیں جنہیں میں بہت فخر سے اپنے کولیگز کہا کرتا تھا۔ اس قوم کی خدمت روزانہ اپنے کام سے لگاؤ رکھنے والے وفاقی قانون دان بھی کرتے ہیں اور یہ بات کسی بھی مرحلے میں کوئی مذاق نہیں۔ اس میں نیویارک کے جنوبی علاقے سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہیں جو اپنی آزادی اور روایات سے محبت کرتے ہیں اور نیو یارک پر حملے کے وقت مشتبہ شخص کو پکڑنے کے لیے تیزی سے روانہ ہوئے تھے۔ ان دہشت گردوں اور جاسوسوں کے خلاف انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیوں کی اشد ضرورت کے نتیجے میں محکمہ انصاف کی نیشنل سیکیورٹی ڈویژن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کی قیادت بارک اوباما کے دور میں میرے سپرد تھی۔ نائن الیون کے بعد ہمارے یہ اقدامات دہشت گردی کے سیکڑوں مقدمات میں انصاف کی راہ ہموار کرنے کا ذریعہ ثابت ہوئے ہیں۔
کسی بھی مشتبہ شخص کو گوانتا نامو بے بھیجنے کی حکمت عملی محض اس بنیاد پر درست نہیں کہ ہم جنگ کی صورت حال سے دوچار ہیں اور دشمنوں کو وکیل نہیں ملنے چاہییں۔ سپریم کورٹ نے طے کردیا ہے کہ گو انتا نامو بے وکلا سے خالی علاقہ نہیں۔ پندرہ سال کے دوران ملٹری کمیشنز نے صرف آٹھ مرتبہ مجرموں کو سزا سنائی اور ان میں سے بھی بیشتر سزاؤں پر عمل نہیں کیا جاسکا۔ نائن الیون اور یو ایس ایس کول پر بمباری کے متاثرین اور ان کے اہل خانہ آج بھی انصاف کی راہ تک رہے ہیں۔
ملزم کوگوانتا نامو بے بھیج دینے سے انصاف نہیں ہوگا۔ نہ ہی اس سے انٹیلی جنس کے مقاصد پورے ہوں گے اور یہ سمجھ آئے گی کہ ہیلوئین کی شام کو راہ گیروں پر ٹرک چڑھا نے کوئی کیسے آگیا؟ ملزم نے ایف بی آئی کے ارکان سے بات چیت کی اور انہیں بتایا کہ اس کا یہ حملہ داعش کے پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ کیسے اور کب اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوا۔ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے یہ سب جاننا بہت ضروری ہے۔
یہ سوچ خطرناک ہے کہ ایف بی آئی اس معاملے میں زیر حراست شخص سے کچھ حاصل نہیں کر سکتی۔ نائن لیون کے بعد اس نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایف بی آئی دہشت گردوں سے فوری پوچھ گچھ کرکے نئے خطرات اور ممکنہ حملوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس کی حاصل کی ہوئی معلومات مزید دہشت گردوں کو گرفتار کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ ہمیں اس وقت ایف بی آئی کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ ہمارے پاس یہ نادر موقع ہے کہ ملزم ہمارے پاس زندہ حالت میں موجود ہے۔ نیو یارک سٹی پولیس کے ڈپٹی کمشنر جان ملر کا کہنا ہے کہ ملزم داعش کے ہاتھوں کا کھلونا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ایک گاڑی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ دہشت گردوں کی اس نسل نے قانون نافذکرنے والے اداروں کے لیے نئے چیلنج کھڑے کیے ہیں۔ اس واقعے سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہوگا۔
اس چیلنج کے جواب میں ۲۰۱۰ء میں اس شخص کی امریکا آمد کا سبب بنے والے ڈائیورسٹی امیگرنٹ ویزا پروگرام پر ذمہ داری ڈالنا نہایت غلط بات ہے۔ اطلاعات کے مطابق وہ امریکا آنے کے کئی سال بعد داعش کے نظریے سے متاثر ہوا۔
ہمیں ہر اس شخص کے لیے جو اس ملک کے حقوق اور فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے، پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ یہ نظر ثانی کسی خاص پروگرام کی بجائے انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ۲۰۱۵ء میں پیرس حملوں کے بعد ڈی ایچ ایس نے ویزا ویور پروگرام کو مضبوط کیا۔ ہمیں سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ مل کر بھی کام کرنا چاہیے تاکہ ان کا غلط استعمال روکا جاسکے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The next phase in the War on terror is here”. (“Foreign Policy”. November 8, 2017)
Leave a Reply