
یہ بات کہ گیارہ ستمبر کے بعد ریاست اپنی عملداری والے قومی دائرہ معاملات وامور کا کچھ حصہ امریکا کے ہاتھ میں دے بیٹھی ہے ہم میں سے کچھ لوگوں نے اسی وقت نمایاں کی تھی۔ بدقسمتی سے وہ فوائد جو اُس وقت حاصل ہوئے تھے بہت عارضی ثابت ہوئے بلکہ اس کے نقصانات بہت تباہ کن اور دیرپا بھی ثابت ہوئے۔ بہرحال یہ بات سامنے آئی کہ ہمیں اس کھوئی ہوئی دسترس کو دوبارہ واپس لینے کے لیے ابھی مزید آگے بڑھنا ہے۔ اگرچہ صوبہ سرحد کی حکومت اور جنگجو گروپوں میں سے ایک کے مابین گفتگو سے ہم نے اس کی ابتدا کر دی ہے۔ ہمارے شہری طبقہ اشراف میں بعض لوگ ایسے ہیں جن کے نزدیک شدت پسندوں کے ساتھ گفتگو ناقابل قبول ہے۔ لیکن اس طرح وہ محض اپنے عدم برداشت اور تعصب کو آشکار کر رہے ہیں۔ شاید انہیں اگر یہ کوئی نشاندہی کرتا کہ برطانیہ جیسی ریاست بھی انہی دہشت گردوں سے گفتگو کی جانب متوجہ ہوئی جنہوں نے اس کے فوجیوں کو اور ماؤنٹ بیٹن جیسی عوامی شخصیت کو قتل کیا تھا۔ یہاں ان معصوموں کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے جو شمالی آئرلینڈ میں فرقہ وارانہ جنگ کے شکار ہو گئے۔ ہمارا مغرب زدہ طبقہ اشراف شدت پسندوں اور پاکستانی ریاست کے مابین گفتگو کو ان سے زیادہ قبول کر سکتا ہے۔ بہرصورت پاکستانی عوام کی اکثریت گفتگو اور گنجائش کے ذریعہ داخلی امن و امان کی خواہاں ہے۔ بدقسمتی سے جہاں ایک سطح پر ہم نے اپنے خارجی و داخلی ماحول کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ مثبت اقدامات کیے ہیں تو دوسری سطح پر خارجہ پالیسی کی نجکاری کا ایک غیر مانوس و غیر منطقی رجحان نظر آتا ہے۔یہ بعض این جی اوز کی بے لگام سرگرمیاں ہیں جنہیں بیرونی ہاتھ سرمایہ فراہم کر رہے ہیں۔ جیسا کہ قبل کے ایک کالم میں یہ نکتہ زیر بحث آ چکا ہے کہ ہم نے Pugwash کو تنازعہ کشمیر کے ابعاد کو مسخ کرتے دیکھا اور بھارت امریکا و نیٹو پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے افغانستان میں بھارتی اثر و نفوذ کو فروغ دیتے ہوئے دیکھا۔ جہاں امریکی ایجنڈا آشکار ہوتا ہے وہاں ایک آدمی کو یقین ہو جاتا ہے کہ وفادار برطانیہ اس کی پیروی ضرور کرے گا۔ لہٰذا کوئی، ایک پاکستانی این جی او The Pakistan Institute of Legislative Development and Transparency (PILDAT) کو مسلم دنیا اور مغرب کے مابین گفتگو کے موضوع پر کانفرنس کا اہتمام کرتے دیکھتا ہے تو وہاں قومی ترجیہات و مفادات سے زیادہ دلچسپی نہ دیکھ کر حیران ہوتا ہے۔ اس طرح کے قدر و قیمت سے پُر عنوان سے یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ شرکاء کے لیے اس کے خزانے میں کیا ہے۔ اگر کوئی خفیہ ایجنڈا اور منفرد اہداف کی تکمیل مقصود نہیں ہے تو پھر یقیناً گفتگو ہونی چاہیے تھی۔ مسلم ریاستوں اور عیسائی و سیکولر ریاستوں کے مابین یا مسلم سول معاشروں اور مسیحی سول معاشروں کے مابین اور اسی طرح کچھ اور کے مابین۔ اور اس ’’مغرب‘‘ میں مسلمان نہیں ہیں کیا، خواہ اس مبہم اصطلاح کی کسی بھی مخصوص زمانے میں جو بھی تعریف کی جائے ؟ پھر بھی اسلام کو مغرب سے غیر مرتبط کرنا مغرب کی ایک بڑی مگر روز بروز کمزور پڑتی مسلم اقلیت کے وجود کا انکار کرنا ہے۔ مزید ضرر رساں وہ ورکشاپ ہے جس کا انعقاد ۲۲ اپریل کو ہوا اور پھر یہ کہ جسے برطانوی حکومت نے ہی رقوم فراہم کی تھی۔ اول نظر میں پاکستان اور افغانستان کے پارلیمانی اراکین کا یہ باہمی ورکشاپ بہت ہی شاندار اقدام معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان میں موجود جرمن این جی اوز ابھی حال ہی میں افغان دانشوروں کی ایک ٹیم پاکستان لے کر آئی ہیں۔ لیکن برطانوی حضرات کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنا ایجنڈا خفیہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی حکومت نے اس ورکشاپ جسے دوطرفہ فرض کیا گیا تھا کے اختتامی اجلاس میں ایک بھارتی پارلیمانی رکن کو ایک بہت ہی اہم تقریر کر نے کا موقع دیا، اس کے باوجود کہ انہیں افغانستان اور ہندوستان کی خطے میں مداخلت پسندانہ کوششوں پر پاکستان کی حسّاسیت کا بخوبی علم ہے اور ابھی حال ہی میں ہم نے افغان وزیر دفاع کے دورئہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے احتجاج بھی کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ورکشاپ میں شریک بھارتی پارلیمانی رکن نجمہ ہیپتُلّا، جو بنیادی طور سے پاکستانیوں میں اپنی پاکستان مخالف بیانات کی وجہ سے معروف ہیں، اصلاً موردِ بحث نہیں ہیں۔ نکتہ اعتراض یہ ہے کہ یہ ایک اور کوشش ہے پاکستان و افغانستان کی مفاہمت میں مداخلت کی جس پر تفصیل سے Pugwash سے متعلق کالم میں بحث ہو چکی ہے۔ لیکن جو بات بہت زیادہ پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ پاکستانی این جی اوز کیوں بھارت امریکا /نیٹو کے ہاتھوں کی کھلونا بن کر پاکستانی موقف کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں۔ یہ کیوں پاک افغان باہمی معاملات کے بیچ بھارت کو مخل ہونے کا موقع فراہم کرتی ہیں؟ یقیناً لاعلمی اور سادہ لوحی تو اس کی وجہ نہیں ہو سکتی ہے۔ پاکستانی این جی اوز سے کون مواخذہ کرے گا۔ کیا پاکستانی این جی اوز وہی کرتی رہیں گی جو ان کا دل چاہے گا، حتیٰ کہ خارجہ پالیسی جیسے حساس امور میں بھی جہاں ان کی سرگرمیاں پاکستانی موقف کے لیے ضرر رساں ثابت ہوتی ہیں۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ جب کبھی ہم جمہوری ہندوستان کی بات بطور نکتہ ٔ حوالہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت نے نہ صرف Pugwash کو گزشتہ سال اپنے یہاں کانفرنس کرنے سے روک دیا بلکہ اس نے پاکستانی اسکول کے بچوں کو بھی گزشتہ سال بھارت میں ایک این جی او کی سرگرمیوں میں شریک ہونے سے روک دیا اور اب تو کئی سالوں سے بھارت نے انٹرنیشنل کرائسس گروپ کو دہلی میں موجودگی کی اجازت ہی نہیں دی ہے جس کی وجہ سے اس کا ’’پاکستانی باب‘‘ حال ہی میں ’’جنوبی ایشیائی باب‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا۔
Pildat کے ایک رکن کی طرف سے ایک لغو قسم کی توجیہہ یہ کی گئی کہ وہاں ہندوستانی موجود ہیں پاکستانیوں اور افغانیوں کو بھارتی تجربے سے تعلیم دینے کے لیے۔ لیکن سرمایہ فراہم کرنے والے نے کیوں نہ کوئی نمونہ اپنے ملک سے پیش کیا جبکہ انہیں پاکستان کی حساسیت اور سیاسی مضمرات کا علم ہے؟ بہرحال پاکستان اور افغانستان اپنے منفرد حالات رکھتے ہیں اور ان دونوں ممالک کے پارلیمانی اراکین کا اجتماع یقیناً دونوں ممالک کی مفاہمت کو مزید بہتر بنانے کے لیے تھا جہاں ہندوستان کی موجودگی یقیناً اپنا کوئی کردار نہیں رکھتی ہے۔ سب سے اہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست NGOs کی سرگرمیوں کے لیے بعض بنیادی قانون وضع کرے خاص طور سے ان این جی اوز کے لیے جو سلامتی اور خارجہ پالیسی جیسے حساس دائروں میں سرگرم عمل ہیں۔ پاکستانی ریاست کے ایسا نہ کرنے کی ایک وجہ یہ رہی ہے کہ اس نے خود یہ علاقہ گیارہ ستمبر کے بعد سے بیرونی کھلاڑیوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے خواہ یہ معاملہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا ہو یا ڈاکٹر قدیر خان کا ہو۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ بیرونی ممالک کے افسران و حکام پاکستان آرہے ہیں اور ریاستی اداروں اور ریاستی طریقہ معاملات سے بے نیاز ہو کر اپنے طور سے مختلف سیاسی پارٹیوں اور سیاسی شخصیات سے تعلقات بنا رہے ہیں۔ یہ ملاقاتیں فی نفسہ کوئی مسئلہ نہیں ہیں بلکہ وہ طریقہ کار اور انداز قابل اعتراض ہے جو ان ملاقاتوں کے لیے اپنایا جا رہا ہے۔ وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ پاکستان میں معاملات کرنے کے حوالے سے انہیں جمہوری روایات کا پابند ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ پس منظر ہے جس کے تحت ہمیں متشدد بھارت نواز اور سابق امریکی سفیر برائے ہند بلیک ویل کے بیان کو دیکھنا چاہیے جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’پاکستان سے نمٹنے کے لیے بھارت اور امریکا کو مشترکہ حکمتِ عملی طے کرنے کی ضرورت ہے‘‘ جو پاکستان کے مستقبل کو انتہائی غیر یقینی تصور کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستانی ہائی کمشنر برائے ہند نے بلیک ویل کے اس مداخلت پسندانہ بیان کا سرکاری سطح پر جواب دیا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکا اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے تمام داخلی اور خارجی امور میں مداخلت کر رہا ہے اور ان دائروں میں ہندوستان کی مداخلت کا بھی خواہاں ہے اور یہ اس کے ایجنڈے کا ایک جُزو ہے۔ اس وجہ سے ہمیں چاہیے کہ ہم اُن علاقوں کو جہاں اغیار نے مداخلت کر رکھی ہے کوشش کر کے ان سے بازیاب کرائیں اور اپنے اور امریکا کے مابین کچھ فاصلہ پیدا کریں۔ پاکستانی ریاست سے متعلق کوئی بھی چیز غیر یقینی نہیں ہے جبکہ یہ ملک اس طرح دوسرے بہت سارے ممالک کے مقابلے میں جو ایسی ہی صورتحال سے دوچار تھے بہت زیادہ لچک کا مظاہرہ کر چکا ہے۔ یعنی مشکل صورتِ حال سے کامیاب ہو کر نکلا ہے۔ لیکن اگر یہ ملک بیرونی کھلاڑیوں کو معاملات کے دائرے میں مداخلت جاری رکھنے کو برداشت کرتا ہے تو وہ این جی اوز کو ان دائروں میں مداخلت سے کیسے باز رکھ سکتا ہے؟ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ہم دہشت گردوں سے بلیک میل نہیں ہوں گے۔ ٹھیک اسی طرح ہمیں نفسیاتی دہشت گردی اور دھمکی آمیز ایجنڈا کے سامنے بھی سرنگوں نہیں ہونا چاہیے جو قدرے طاقتور بیرونی کھلاڑیوں اور ان کے داخلی ذرائع کی جانب سے ہمیں درپیش ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دی نیوز‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۲۳ اپریل ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply