بھارتی قیادت ۱۹۴۷ء میں آزادی کے بعد سے عالمی برادری میں نمایاں مقام پانے کے لیے کوشاں رہی ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں بھارت برتر حیثیت کا حامل رہا ہے اور مختلف تنازعات بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔ بھارتی قیادت نے علاقائی سطح پر بالا دستی یقینی بنانے کو ہمیشہ اہم ہدف قرار دیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ بھارت کو اب تک عالمی برادری میں وہ مقام نہیں ملا جس کا وہ مستحق ہے۔ گرو چرن داس نے اپنی کتاب ’’دی ایلیفنٹ پیراڈائم‘‘ میں نمایاں مقام پانے سے متعلق بھارتی کوششوں کا عمدگی سے جائزہ لیا ہے۔ ان کے خیال میں بھارت کا ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہونا کسی بھی اعتبار سے قومی مفاد میں نہیں۔ ان کے نزدیک ایٹمی ہتھیار بھارت کو مزید ناقابل قبول بنانے کے لیے کافی ہیں۔ ۱۹۹۸ء میں ایٹمی دھماکے کرکے بھارت نے اپنے مخالفین کی تعداد میں اضافہ کیا۔ ان دھماکوں نے بھارت کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ کتاب سے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ ٭٭٭
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ہونا خوشی اور فخر کی بات نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اس معاملے میں مجھ سے اتفاق کرنے والے بھارتی کم ہی ہوں گے۔ بھارتی قیادت کے لیے کرنے کے لیے ابھی بہت سے کام پڑے ہیں۔ ملک کو شدید غربت کا سامنا ہے۔ بے روزگاری پر قابو پانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ خام قومی پیداوار میں اضافے کی رفتار اب بھی قابل فخر نہیں۔ قابل فخر بات تو تب ہوتی جب حکومت اعلان کرتی کہ غربت میں بیس فیصد کمی واقع ہوگئی ہے۔ یا یہ کہ شرح خواندگی پچھتر فیصد ہوگئی ہے۔ ملک کو مختلف معاشرتی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ان مسائل کو حل کیے بغیر کسی بھی بہتری کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ خام قومی پیداوار میں اضافے کے لیے اقدامات ناکافی ہیں۔ بھارت کی آبادی ایک ارب سے متجاوز ہوچکی ہے۔ اتنی بڑی آبادی کے مسائل حل کرنا آسان کام نہیں۔
قومی سلامتی کو یقینی بنانا ہر ملک کا حق اور فرض ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں معیشتوں کو مستحکم کرنے کا عمل جاری ہے۔ جو ممالک طویل المیعاد بنیاد پر قومی سلامتی کو یقینی بنانا چاہتا ہے وہ معاشی استحکام کو اولیت دیتا ہے۔ بھارتی قیادت بھی اگر چاہتی ہے کہ خطے میں برتر حیثیت برقرار رہے اور قومی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تو لازم ہے کہ معیشت کو مزید مستحکم کیا جائے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعے سے قومی سلامتی کے تمام مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے۔
دنیا بھر میں اس بات کو اہمیت دی جاتی ہے کہ انسانی ترقی کا گراف بلند ہو۔ کسی بھی شخص کو جو بنیادی سہولتیں میسر ہوتی ہیں انہی کی بنیاد پر اس کی انفرادی بہبود اور معاشرتی استحکام کا تعین ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہر شخص کو بنیادی سہولتیں بہتر معیار کے ساتھ اور ہر وقت میسر ہوتی ہیں۔ لوگ بنیادی مسائل سے بے نیاز ہوکر زندگی کی دوڑ میں آگے نکلتے جاتے ہیں۔ فی کس آمدنی بھی کسی معاشرے اور معیشت کا استحکام جانچنے کا اچھا پیمانہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مسابقت پذیر رہنے کی صلاحیت کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ اندازہ ہو کہ اقوام عالم میں کوئی قوم کس حد تک مسابقت کا سامنا کرسکتی ہے۔ اس صلاحیت کی بنیاد ہی پر وہ ترقی کرسکتی ہے، کوئی بلند مقام پاسکتی ہے۔ بھارتی قیادت نے ان تینوں معاملات میں آگے بڑھنے کو اب تک ترجیح نہیں دی۔ فی کس آمدنی میں اضافے کی رفتار بھی سست ہے اور دوسری طرف ملک کے ۶۰ کروڑ سے زائد افراد اب تک بنیادی سہولتیں بہتر ڈھنگ سے حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو اب تک ترقی کا حقیقی مفہوم بھی معلوم نہیں۔ قومی آمدنی میں اضافہ ضرور ہو رہا ہے مگر ملک کے تمام باشندوں تک اس کے ثمرات نہیں پہنچ رہے۔ مشکل حالات میں زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے۔ چند بڑے شہروں میں لوگ بہتر حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دیہی اور پس ماندہ علاقوں میں زندگی بسر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔
بھارت اور پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے اور اعلان کیا کہ ان کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ اس اقدام نے خطے میں شدید کشیدگی اور عدم استحکام پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ کسی نے سوچا ہے کہ کبھی جنگ چھڑ گئی تو کیا ہوگا؟ ایٹمی ہتھیار استعمال ہوگئے تو کس طرح کی قیامت کا ہمیں سامنا کرنا پڑے گا؟ ایٹمی ہتھیار بناکر بھارت اور پاکستان نے آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کردی ہیں۔ پاکستان کے حالات شدید عدم استحکام کا شکار ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کو ہر صورت حال میں محفوظ رکھنا ممکن ہوسکے گا؟
روایتی ہتھیاروں کے معاملے میں بھارت کو پاکستان پر غیر معمولی برتری حاصل ہے۔ خیال تھا کہ ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ہونے کا اعلان کر کے بھارت کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ روایتی ہتھیاروں میں برتری بھی بھارت کے لیے کسی کام کی نہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہونے کا اعلان کرکے بھارت عالمی برادری میں اپنی پوزیشن کو کسی حد تک داؤ پر لگا بیٹھا ہے۔ آج کے دور میں کسی بھی ملک یا خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے ڈرانا ممکن نہیں۔ دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں مگر اس کے باوجود کوئی بھی ملک خوفزدہ ہونے کو تیار نہیں۔ یہ تصور اب کارگر نہیں رہا کہ ایٹمی ہتھیار ہوں گے تو پڑوسی ممالک خوفزدہ ہوں گے۔
پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو روایتی ہتھیاروں کے حوالے سے خاصی برتری حاصل تھی مگر اب یہ برتری بھی داؤ پر لگتی دکھائی دیتی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ہونے سے بھارت کو اب تک پاکستان پر کسی بھی نوع کی برتری حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ قومی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کا یہ تصور کارگر ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان نے بھی بھارت کی ہمسری کا اہتمام کیا ہے۔ دنیا بھر میں اس تصور کو پروان چڑھنے کا موقع ملا ہے کہ اب پاکستان بھی ایک معاملے میں بھارت کے برابر ہے۔
بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے ایک اہم معاملے میں فخر کا اہتمام کیا ہے۔ قوم کو ان ایٹمی دھماکوں پر فخر ہے۔ ایٹمی سائنس دانوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کو قومی مفاد میں کس طور استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کیا محض فخر کرنے سے قوم کا کچھ بھلا ہوسکے گا؟ کیا ایٹمی قوت بننے سے عوام کا بوجھ کم ہوسکے گا؟ حکومت کو اب یہ بات بتانا ہوگی کہ ایٹمی پروگرام پر کس قدر وسائل خرچ ہوتے رہے ہیں اور اب ایٹمی قوت بنے رہنے کے لیے کیا خرچ کرنا ہوگا۔ کیا عوام کو ایٹمی پروگرام پر خرچ ہونے والی رقوم کے حوالے سے سکون کا سانس لینے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ ایٹمی پروگرام ہو یا کوئی اور سیٹ اپ، خطیر رقوم خرچ کرتے رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ قومی سلامتی کے نام پر لوگوں کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ حکومت کو اس معاملے میں معقول پالیسی وضع کرنا ہوگی تاکہ بہبود عامہ کو یقینی بنایا جاسکے۔ زرعی شعبے کو بھی قومی سلامتی یقینی بنائے رکھنے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ کھاد، بیج اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں حکومت کی جانب سے زر اعانت کا خاتمہ لاکھوں دیہی گھرانوں کے لیے شدید مشکلات کا باعث بنا ہے۔ بہت سے دیہی علاقوں میں آج بھی حکومت کی جانب سے زر اعانت کی ادائیگی جاری ہے۔ بیشتر زرعی مصنوعات پر آج بھی ٹیکس نہیں۔ کسانوں کے بجائے بڑے زمینداروں کو اس کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ پانی، بجلی اور کھاد وغیرہ کے لیے ادائیگی میں چھوٹ اور سہولت کا فائدہ چھوٹے کسانوں کو پہنچے تو کچھ بات بھی ہے۔ اب تک بڑے زمیندار صورت حال کا فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ قومی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے زرعی شعبے کو بہتر ڈھنگ سے ریگیولیٹ کرنا ضروری ہے۔
بھارتی حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں دنیا پر یا اپنے دشمنوں پر کچھ واضح اور ثابت نہیں کرنا۔ ہماری اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف ملے، ان کا معیار زندگی بلند ہو اور وہ بہتر انداز سے زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں۔ کسی کو متاثر کرنے سے کہیں بڑھ کر ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ قوم خوش حالی سے ہمکنار ہو، لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں میسر ہوں اور وہ زندگی کا واضح اور مثبت رخ متعین کرنے میں مشکلات محسوس نہ کریں۔ دنیا کی ہر قوم اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ عمل رکے بغیر جاری رہتا ہے۔ بھارت کو بھی طے کرنا ہوگا کہ بحیثیت قوم اس کی ترجیحات کیا ہیں اور وہ کس طور دیگر اقوام کی مدد سے اپنے اہداف حاصل کرسکتی ہے۔ ہمیں اپنے قومی اہداف اور ترجیحات کا از سر نو تعین کرنا ہوگا۔ دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ قومی ترجیحات کا بھی نئے سرے سے تعین کیا جارہا ہے۔ ایسے میں بھارت کو بھی طے کرنا ہوگا کہ اس کی ترجیحات میں ایٹمی ہتھیاروں کا مقام کہاں ہے؟
ہر سیاسی جماعت کا دعوٰی ہے کہ وہ ملک کو بلند مقام پر دیکھنا چاہتی ہے۔ مگر یہ تو محض خواہش ہے اور صرف خواہش کرلینے سے کوئی مقام حاصل نہیں ہو جایا کرتا۔ قومی وقار کی خاطر پالیسیوں کو تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ محنت کرنا پڑتی ہے۔ عالمی برادری میں مختلف سطحوں پر مسابقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جدید علوم اور فنون کے میدان میں صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیے بغیر کوئی بھی قومی ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
کسی بھی قوم کے لیے عسکری قوت میں اضافہ صرف ایک ہدف ہوسکتا ہے۔ عسکری قوت کی بنیاد پر کوئی بھی قوم حقیقی ترقی اور استحکام حاصل نہیں کرسکتی۔ مختلف ادوار میں ایسی بہت سے اقوام گزری ہیں جنہوں نے غیر معمولی عسکری قوت پیدا کی مگر اقتصادی قوت میں اضافہ نہ کرنے کے باعث وہ اپنی پوزیشن برقرار نہ رکھ سکیں۔ روس کی مثال خاصی واضح ہے۔ سابق سوویت یونین کے دور میں روس نے بھی عسکری قوت میں غیر معمولی اضافہ کیا اور کئی عشروں تک عالمی سیاست میں مرکزی کردار ادا کیا مگر جب اقتصادی قوت نہ بڑھائی جاسکی تو عسکری قوت بھی کسی کام کی نہ رہی۔ دوسری جانب جاپان نے عسکری قوت میں اضافہ کرنے کی روش ترک کردی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد صرف معاشی قوت میں اضافے کی راہ پر گامزن رہ کر عالمی معیشت میں برتر حیثیت حاصل کرلی ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت جاپان کی ہے۔ جاپانی ماہرین کی طلب دنیا بھر میں ہے۔ کئی ممالک اور خطوں کو جدید خطوط پر ڈھالنے میں جاپان نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ صرف معاشی قوت کے ذریعے ترقی کرنا ہو تو جاپان ہمارے لیے بہترین ماڈل کا درجہ رکھتا ہے۔
صرف معاشی قوت کے ذریعے حقیقی ترقی کسی بھی ملک کے بس کی بات نہیں۔ عسکری قوت اگر پشت پر ہو تو معاشی قوت قومی استحکام میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ مگر بھارت جیسے ممالک کے لیے معاشی ترقی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ بھارت میں چالیس کروڑ سے زائد افراد بہتر زندگی کے لیے ترس رہے ہیں۔ شدید غربت سے نجات پانا اولین قومی ترجیح ہونا چاہیے۔ اگر ایک بار ہم طے کرلیں کہ قومی استحکام معاشی قوت میں اضافے کے ذریعے حاصل کریں گے تو دیگر تمام امور پر نظر ثانی کی راہ ہموار ہوگی۔ بہت سے مقاصد کے لیے سرگرداں رہنے کے بجائے چند اہداف پر توجہ دینا بہتر ہے۔
ریاستیں اسی وقت حقیقی ترقی سے ہمکنار ہوتی ہیں جب انہیں بڑے کاروباری اداروں کی طرح چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بڑے کاروباری ادارے ہر ملازم کے مشورہ یا مارکیٹ میں پھیلائی جانے والی ہر بات پر عمل نہیں کرتیں بلکہ اپنے لیے چند واضح اہداف متعین کرکے انہیں حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ کسی بھی ملک کو محض سیاسی اصولوں کے تحت نہیں چلایا جاسکتا۔ سیاست دان اپنی ضرورت کے مطابق بہت کچھ کہتے ہیں۔ ان کی کہی ہوئی ہر بات پالیسی کا درجہ نہیں رکھتی۔ سیاست دانوں کے وعدوں اور قومی مفادات میں بہت فرق ہوتا ہے۔ قانون کی بالا دستی، فوری انصاف اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانے سے سرمایہ کاری کو فروغ ملتا ہے اور معاشی قوت میں اضافہ ممکن ہوجاتا ہے۔
ایٹمی ہتھیار بھی معاشی قوت میں اضافے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کی تیاری سے دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور روایتی ہتھیاروں پر انحصار کم ہوجاتا ہے اور افواج کی تعداد میں کمی کی گنجائش بھی پیدا ہوتی ہے۔ سیاسی استحکام ہو تو لوگ بڑے پیمانے پر بچت کرتے ہیں اور یہ بچتیں قومی معیشت کو مستحکم کرنے کا سبب بنتی ہیں۔
یہ بات کسی بھی طور نہیں بھولنا چاہیے کہ ایٹمی ہتھیاروں کا حامل کوئی بھی ملک ساٹھ سال کے دوران روایتی ہتھیاروں پر انحصار کم کرنے میں کامیاب ہوا ہے نہ افواج کی تعداد میں کمی کے قابل ہوسکا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کو اپ گریڈ کرنے پر بھی خطیر رقوم خرچ ہوتی ہیں۔ ان ہتھیاروں کا تحفظ سب سے اہم مسئلہ ہے۔ ایٹمی تنصیبات کو غیر معمولی سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ بھارت اگر ایٹمی ہتھیار تیار کرتا رہا تو انہیں محفوظ رکھنے اور اپ گریڈ کرنے کا خرچ بھی بڑھتا جائے گا اور یوں بہبود عامہ کے منصوبوں کے لیے خاطر خواہ فنڈ مختص کرنا ممکن نہ ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیار رکھنے کا سب سے بڑا فائدہ کیا ہے؟ ایٹمی ہتھیار رکھنے کی صورت میں بھارت کی سیکیورٹی کا گراف ضرور بلند ہوا ہوتا اگر پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار نہ ہوتے۔ پاکستان بھی ایٹمی قوت ہے۔ جب اس کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار ہیں تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بھارت کو پاکستان پر برتری حاصل ہے؟
بھارت اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں نے جنوبی ایشیا کو ایک بڑے فلیش پوائنٹ میں تبدیل کردیا ہے۔ دونوں ممالک میں مکمل سیاسی استحکام نہیں پایا جاتا۔ بھارت میں علیحدگی کی تحاریک چلتی رہی ہیں۔ کئی علاقوں میں آج بھی حالات تشویش ناک حد تک خراب ہیں۔ ایسے میں ایٹمی ہتھیاروں کا تحفظ یقینی بنانا کسی بڑے درد سر سے کم نہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا موقف ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں روایتی جنگ تک بھی نوبت نہیں پہنچے گی۔ حملے سے قبل دشمن دس بار سوچے گا کہ اس کے نتیجے میں کس نوعیت کی تباہی ہوسکتی ہے۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ممالک کے درمیان کبھی جنگ نہیں ہوئی۔
ہمارے حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کی بقا اور استحکام کے لیے کسی بھی دوسری چیز سے بڑھ کر اہم یہ بات ہے کہ تمام باشندوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ دنیا ہماری کوئی بات مانے یا نہ مانے، قومی ترقی کے اہداف پر توجہ دینا لازم ہے۔
☼☼☼
Leave a Reply