
گزشتہ ۷۰ سالوں میں بین الریاستی جنگوں میں غیر معمولی کمی آنے کے باوجود خارجہ پالیسی کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اب دنیا ایک ایسی دہائی میں داخل ہو رہی ہے جہاں یہ جنگیں ممکنات میں شامل ہوں گی۔ علاقائی جنگوں کی وجہ تو چند بدمعاش ریاستیں ہو سکتی ہیں، جیسا کہ ایران اور شمالی کوریا، لیکن عالمی طاقتوں کے درمیان جنگوں کے امکانات ابھی بھی کم ہی ہیں۔ چین، روس اور امریکا کے درمیان مقابلے کی فضا نہ صرف عالمی امن کے لیے خطرے کی علامت ہے بلکہ اس کی عسکری سمت بھی ہے۔
اس رپورٹ میں کوریائی جزیرے پر جنگ کے خطرے (جس کی شدت آج کل زیادہ ہے) پر غور کرنے کے بجائے ان نکات پر غور کیا گیا ہے، جو مستقبل میں عالمی طاقتوں کے درمیان تصادم کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے لیے کسی بھی قسم کی جنگ کا امکان آج کل کچھ زیادہ ہے اور شاید آنے والے چند سالوں میں بھی اسی طرح قائم رہے۔ ہوسکتا ہے یہ جنگ تباہ کن ہو، لیکن اس کے نقصانات کی حیثیت اس تباہ کاری کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو کہ روس یا چین اور مغرب کے درمیان ممکنہ تصادم کے نتیجے میں ہوگی، اگرچہ یہ تصادم ایٹمی تصادم کی سطح تک نہ بھی پہنچے۔
عالمی طاقتوں کے درمیان تصادم کے خطرات میں سرد جنگ کے بعد پہلی دفعہ اتنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ روس اور چین میں مغربی پالیسیوں اور امریکا کے عالمی کردار کے حوالے سے پائی جانے والی بے اطمینانی ہے۔ یہ دونوں ممالک سمجھتے ہیں کہ مغرب کی پالیسیاں اورعالمی منظر نامے میں ’’امریکی پولیسنگ‘‘ ان کے جائز مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک نے مغرب کی سیاسی اور تکنیکی کمزوریوں کوہدف میں رکھ کر اپنی فوجوں کو جدید بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے متعین کردہ دائرہ اثرورسوخ میں امریکا کی طاقت استعمال کرنے کی صلاحیت میں بھی نمایاں کمی کی ہے۔ دونوں نے اپنے پڑوسیوں پربزور طاقت اپنی مرضی تھوپنے کی صلاحیت کو منوایا ہے۔ دونوں ممالک کے راہنماؤں نے قومی طاقت اور دنیا بھر میں اپنے ملک کے لیے عزت و احترام کے ازسرنو حصول کے بیانیے کو بھرپور شہہ دی ہے۔ اسی طرح ان ممالک کے راہنماؤں نے داخلی سیاست سے بھی بھرپور فوائد حاصل کیے ہیں۔ ان دونوں ممالک میں جو قدر مشترک نہیں وہ یہ کہ روس موقع پرست قیادت کی موجودگی میں سماجی اور معاشی اعتبار سے زوال پذیر طاقت ہے۔ جب کہ دوسری طرف چین ہے جو کہ بلاشبہ ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور آج کل وقت کا بہاؤ بھی اس کے ساتھ ہے۔ چین اپنے آپ کو امریکا سے برتر نہیں تو برابر ضرور سمجھتا ہے۔
روس کے صدر ولادی میر پوٹن اپنے ملک کے اس کھوئی ہوئی عزت اور مقام کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو اسے سوویت یونین کے خاتمے کے وقت حاصل تھی۔ پوٹن سوویت یونین کے خاتمے کوجغرافیائی سیاست کے لحاظ سے بیسویں صدی کا سب سے بڑا سانحہ قرار دیتے ہیں۔ پوٹن سمجھتے ہیں کے نوے کی دہائی میں مغرب نے روس کو برابری کی سطح پر قبول کرنے سے انکار کیا۔ پھر یورپی یونین اور نیٹو کی مشرق کی جانب پیش قدمی نے روس کی داخلی اور خارجی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا۔ ۲۰۱۵ء کے اواخر میں جاری ہونے والی ’’نیشنل سیکورٹی اسٹریٹجی‘‘ میں روسی حکومت نے اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ ’’نیٹو‘‘ کو قرار دیا تھا۔ روس سمجھتا ہے کہ مغرب ،روس اور اس سے ملحقہ علاقوں میں مختلف قسم کی تحریکیں چلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یوکرین کا ’’کلرریولوشن ‘‘اس ہی کی ایک مثال ہے۔
اگرچہ روسی فوج کا امریکی فوج سے کوئی مقابلہ نہیں لیکن روسی فوج کو جدید کرنے کے عمل سے گزارا جا رہا ہے ،اور وہ مستقل بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں کر رہی ہے۔ اور وہ نیٹو کے خلاف مختصر نوٹس پرجنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ روسی فوج کے طیارے اکثر یورپی ائر ڈیفنس سسٹم ،بحر اسود اور بحیرہ بالٹک میں موجود نیٹو کے جنگی جہازوں کی جاسوسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح کے عمل سے کسی بھی قسم کی حادثاتی جنگ کا خطرہ برقرار رہتا ہے۔
رینڈ کارپوریشن کی سال ۲۰۱۵ء میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ’’یورپ پر روسی حملے کی صورت میں نیٹواتحاد روس سے ملحقہ علاقوں کا دفاع کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا‘‘۔ اگر چہ اس کے بعد سے بحیرہ بالٹک میں نیٹو نے اپنی موجودگی میں اضافہ کیا ہے، لیکن پھر بھی رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ کے مطابق روسی فوج جنگ شروع ہونے کے ۶۰ گھنٹوں بعد لٹویا اور ایسٹونیا کے دارلحکومتوں میں جنگ لڑ رہی ہوگی۔
اور اگر ایسا ہوتا ہے تو نیٹو ممالک کی سیاسی قیادت کے پاس ان حالات سے نمٹنے کے لیے تین بدترین ممکنہ صورتیں یہ ہوں گی: بھرپور جوابی حملہ کیا جائے ،جس سے تصادم مزید بڑھے گا،دوسری صورت روسی تنصیبات پر حملے کی دھمکی جو جنگ کے شعلے کو ہوا دینے کا کام کرے گی اور تیسری صورت یہ ہوگی یورپ ہار مان لے،اور شکست کے خطرناک نتائج کا سامنا کرے۔ داخلی طور پر پہلی اور دوسری صورت کے لیے حمایت نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ پیو ریسرچ سینٹر کے سروے کے مطابق جرمنی اور برطانیہ کے عوام نیٹو ممالک کے مشترکہ دفاع کے خلاف ہیں۔ اورصدر پوٹن اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یورپ کے مقابلے میں ان کو کم خطرات کا سامنا ہے۔
نیٹو ممالک کو براہ راست تو شاید مشترکہ دفاع کے لیے نہ آنا پڑے،لیکن صدر پوٹن نے جارجیا،یوکرائن اور شام میں اس بات کو ثابت کیا ہے کہ انھیں جب بھی موقع ملے گا، یا ان کو لگے گا کہ حالات ان کی حمایت میں ہیں تو ان مواقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ اور اگر تیل کی قیمتیں اسی طرح کم رہتی ہیں اور معیشت بھی کمزور رہی تو صدر ٹرمپ کے لیے اپنے دوسرے دور صدارت میں نیٹو کی حمایت کرنے والے جرنیلوں کو فارغ کرنا نہایت آسان ہو گا۔ کیوں کہ اس وقت کانگریس میں بھی ری پبلکن کی اکثریت ہوگی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ’’تھوسی ڈائڈز‘‘کے نظریہ ’’ٹریپ‘‘ سے دیکھا جائے تو امریکا اور چین میں جنگ ناگزیر ہے۔ تھوسی ڈائڈز یونان کے ایک عظیم مورخ گزرے ہیں، جنھوں نے تھیوری پیش کی تھی کہ ایک ابھرتی ہوئی طاقت،ایک مستحکم طاقت کے لیے ہمیشہ خطرے کی علامت ہوتی ہے۔ اس لیے وہ ابھرتی ہوئی طاقت سے عاجز آکر اس پر حملہ آور ہو جاتی ہے۔ گراہم نے اپنی مشہور کتاب میں اس نظریہ کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نظریہ سے اگرحالات پر نظر ڈالی جائے تو آنے والی دہائی میں چین اور امریکا میں جنگ کے امکانات میں یقینا اضافہ ہو گا۔
گراہم نے اس ممکنہ جنگ کے بارے میں پیشن گوئی ماضی میں ہونے والے تصادم کو سامنے رکھ کر کی ہے، لیکن امریکا اور چین کی جنگ کے بارے میں ان کا تجزیہ شاید حقیقت سے میل نہیں کھاتا۔ اگرچہ امریکا اور برطانیہ کی طرح امریکا اور چین کا کوئی مشترکہ عالمی ایجنڈا نہیں ،لیکن پھر بھی امریکی صدور نے کبھی بھی چین کو محدود رکھنے کی کوشش نہیں کی (سوائے موجودہ صدر کے)بلکہ امریکی صدور نے ہمیشہ چین کو اس بات کی طرف لانے کی کو شش کی ہے کہ وہ عالمی منظر نامے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ گراہم نے اپنی کتاب میں جن جنگوں کا تذکرہ کیا ہے اس میں ایٹمی اسلحے کے عنصر کو سامنے نہیں رکھا گیا، جو کہ اپنے تمام تر نقصانات کے باوجود موجودہ دور میں عالمی طاقتوں کو جنگ سے روکے رکھنے کی بڑی وجہ بھی ہے۔
اس کے علاوہ دفاعی تھنک ٹینک RUSI سے تعلق رکھنے والی Jonathan Eyal کہتی ہیں کہ چین میں آبادی کے عوامل نے سماجی رویوں کو تبدیل کیا ہے۔ آنے والے سالوں میں امریکا سے تصادم کے بیانیے کی حمایت میں کمی ہوگی، اگرچہ حکومتی ذرائع ابلاغ قوم پرستی پر ضرورت سے زیادہ زور دیتے ہیں۔ باقی ترقی یافتہ ممالک کی طرح چین میں بھی شرح پیدائش بہت کم ہے،اورمعاشرے میں تشدد کا عنصر بھی تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ایک بڑا متوسط طبقہ ہے جس کی نظر میں جدید طرین سمارٹ فون اور نئے ماڈل کی کار کا حصول ہی کامیابی کی تعریف ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں اپنی اکلوتی اولاد کو بہت نازبرداری سے پالا جاتا ہو (ایک بچے کی پالیسی کی وجہ سے) وہاں اس بات کا قوی امکان ہے کہ والدین اپنے بچوں کو محاذ جنگ سے بچائے رکھنے کی ہر ممکن کو شش کریں گے۔
حتیٰ کے روس جہاں پوٹن روس کے عالمی کردار کی تجدید کے لیے کوشاں ہیں، وہ بھی جہاں تک ممکن ہو جانی نقصان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ۱۹۸۰ء میں روس کی تباہی میں افغان جنگ سے بہت بڑی تعداد میں فوجی تابوتوں کی واپسی نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یوکرائن کی مہم کشی کے دوران بھی سرکاری فوجیوں کے جانی نقصان سے بچنے کے لیے بھر پور کوشش کی۔ اور شام میں بھی وہ جہاں تک ممکن ہو نجی فوجی کنٹریکٹرز کو استعمال کررہے ہیں۔
مغرب کے چین کے مقابلے میں روس سے تصادم کے امکانات زیادہ ہیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ چین کے ساتھ تصادم نا ممکن ہو، بلکہ اب تو چین کے ساتھ جنگ کے امکانات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ چین نے حال ہی میں مغربی بحراوقیانوس میں امریکی بحری بیڑے کی موجودگی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر امریکا کے ساتویں بحری بیڑے نے بحیرہ جنوبی چین میں ’’فریڈم آف نیوی گیشن ‘‘ کے نام سے جو آپریشن کیے ہیں ان پر چین نے غصہ کا اظہار بھی کیا۔ امریکا کی جانب سے ان کارروائیوں کا مقصد چین کو اس بات کا احسا س دلانا تھا کہ وہ بحیرہ جنوبی چین پر نہ ہی کسی قسم کے چینی دعویٰ کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی ایسی کسی سرگرمی کو قبول کرے گا جس سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے قومی مفادات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔
دوسری طرف چین اپنی بحری فوج کو طویل فاصلے تک نشانہ بنانے والے میزائل اور جدید ترین آبدوزوں سے لیس کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اور اس منصوبے کے پیش نظر پہلے تو امریکا کو ’’first island chain‘‘ سے دور رکھنا اور پھر’’second island chain‘‘ میں اس کی نقل و حرکت کو ناممکن بنا دینا ہے۔ اور ایسا کرنا شاید فوراً تو ممکن نہ ہو لیکن چین اس منصوبہ بندی پر کافی پیش رفت کر چکا ہے۔ اب اگر چین اور تائیوان کے مابین کوئی بحران پیدا ہوتا ہے تو ۱۹۹۶ء کی طرح امریکا کے لیے یہ ممکن نہ ہو گا کہ وہ تائیوان کے سمندر سے اپنا طیارہ بردار جہاز بھیج کر اپنی موجودگی سے سامنے والی طاقت کو ڈرا سکے۔
اس طرح کی کشیدگیاں آئندہ کیا صورت اختیار کرتی ہیں، اس کا انحصار امریکا کے اتحادیوں پر بھی ہو گا۔ جیسا کہ اگر جاپانی ’’شنزو ایب‘‘ کو دوبارہ وزیراعظم منتخب کر لیتے ہیں تو اس بات کاقوی امکان ہے کہ وہ ملک کے امن پسند آئین کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور وہ جاپانی بحری فوج کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے اور انھیں اس طرح تربیت دیں گے کہ وہ اپنے اتحادی امریکی فوج کے ساتھ مل کر کسی بھی کارروائی میں حصہ لے سکیں۔ لیکن اسی دوران دوسرے کمزور اتحادی ممالک جیسا کہ فلپائن، ملائیشیا اور انڈونیشیا زوال پذیر امریکا سے کوئی امید لگانے کے بجائے اپنا رخ ابھرتی ہوئی فوجی و معاشی طاقت چین کی طرف موڑنے میں عافیت سمجھ رہے ہیں۔
روایتی حریف اور ایک دوسرے کے ساتھ مدمقابل طاقتوں کے درمیان کسی بھی قسم کے غلط اندازے اور غلط فہمیاں کسی بڑے بحران کو جنم دینے کا باعث بنیں گی، جس کے نتیجے میں معاملات قابو سے باہر ہونے کا اندیشہ ہے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“The odds on a conflict between the great powers”. (“The Eeconomist”. Jan.25, 2018)
Leave a Reply