
امریکا کی سلیٹی صنعتیں (Shale Firms) تیل کی منڈی میں پیداوار مسلسل بڑھا رہی ہیں جس سے کم قیمت پر زیادہ تیل حاصل ہوسکے گا۔ اس سے قبل تیل کی صنعت گویا اس طرح چلائی جارہی تھی کہ بڑی کمپنیاں تیل کے کنوؤں کو اپنے قبضے میں رکھتی تھیں اور تیل پیدا کرنے والی ریاستیں خود کو خوشحال رکھنے کے لیے گٹھ جوڑ کرکے قیمتوں کو تبدیل نہیں ہونے دیتی تھیں۔
یہ گٹھ جوڑ اب ٹوٹتا محسوس ہوتا ہے۔ تیل استعمال کرنے والے بڑے ممالک کی نمائندہ بین الاقوامی توانائی ایجنسی نے ۱۳؍مئی کو کہا کہ عالمی سطح پر اضافی تیل جمع ہورہا ہے کیونکہ امریکی سلیٹی صنعتوں کا عالمی منڈی میں حصہ کم کرنے کے لیے سعودی عرب نے تیل مسلسل فراہم کیا ہے۔ مگر سلیٹی صنعتیں سعودیوں اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کی توقعات سے کہیں زیادہ سخت جان نکلیں اور پیداوار بڑھاتی رہیں۔ گزشتہ نومبر میں جب قیمتیں پہلے ہی کم ہورہی تھیں، اوپیک (OPEC) کے ارکان نے پیداواری کوٹے پر اتفاق کرنا بھی ترک کردیا، جس سے عدم توازن اور بڑھا۔ انہیں یہ امید تھی کہ ایسا کرنے سے حریف (خاص طور پر امریکی سلیٹی صنعتیں) سرمایہ کاری میں کمی پر مجبور ہوجائیں گے۔ کیونکہ جب تیل کی فراہمی میں تیزی سے کمی ہوتی ہے تو قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
اس دفعہ ایسا نہیں ہوا۔ قیمتوں میں محض جزوی اضافہ ہی دیکھا گیا۔ خام تیل کی قیمتوں کا مرکزی پیمانہ ڈبلیو ٹی آئی (West Texas Intermediate) ایک سال پہلے ۱۰۰؍ڈالر سے کچھ زیادہ تھا جو مارچ میں ۴۴ ڈالر تک آگیا تھا۔ مئی کے وسط میں یہ محض ۶۰ ڈالر تک ہی پہنچ پایا۔ اگر فراہمی میں اضافہ مسلسل ہوتا ہے تو ممکن ہے قیمتیں دوبارہ کم ہوجائیں۔ اوپیک کے وزرائے توانائی کی رواں ماہ ویانا میں مجوزہ ملاقات سے متعلق وال اسٹریٹ جرنل کو ملنے والی ایک دستاویز سے پتا چلتا ہے کہ اگر بہت خوش گمانی کی جائے تو بھی ۲۰۲۵ء کے بعد تک قیمت ۷۶ ڈالر فی بیرل سے اوپر نہیں جائے گی۔ دستاویز میں اس امکان کو بھی اہمیت دی گئی ہے کہ اگر قیمت ۴۰ ڈالر سے کم ہوگئی تو کیا ہوگا۔ اوپیک نے ایسی کسی دستاویز کی موجودگی سے انکار کیا ہے، تاہم اس کے مندرجات سچ لگتے ہیں کیونکہ خام تیل کی قیمت کے تین ہندسوں میں جانے کے امکانات کم محسوس ہوتے ہیں۔
بی پی، شیورون (Chevron)، ایگزن موبل (Exxon Mobil)، شیل اور ٹوٹل جیسی بڑی کثیر القومی کمپنیوں نے تیل کی گرتی قیمتوں کے تناظر میں اخراجات کم کرنے اور تیل کی تلاش کے کچھ منصوبے معطل اور منسوخ کرنے کے فیصلے کیے (البتہ مئی کے وسط میں شیل نے قطب شمالی میں حادثات اور تاخیر کا شکار رہنے والے ۶ بلین ڈالر کے منصوبے کی عبوری منظوری دی)۔ بہرحال سلیٹی صنعتوں کی پیداواری استعداد حیرت انگیز طور پر شاندار ثابت ہوئی ہے حالانکہ گزشتہ اکتوبر میں کارکردگی کے عروج پر جانے کے بعد کھدائی میں خاصی کمی کی گئی ہے۔
اس کی ایک وجہ معقول منافع کمانے کے بعد سلیٹی صنعتوں کا ازخود محدود ہوجانا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں منڈی کی موجودہ شرح سے زیادہ منافع ہورہا ہے۔ لیکن بہت سی صنعتیں تیل کی پیداوار جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی کمائی ایک بیرل پیداوار کی معمولی لاگت سے اب بھی زیادہ ہے، چاہے اس میں کنویں کھودنے کی لاگت شامل نہ بھی کی جائے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ان کی پیداواری صلاحیت میں روز افزوں بہتری آئی ہے۔ آئی ایچ ایس نامی تحقیقی مرکز کے ڈینیل یرگِن کے بقول، جو کنویں ۳۵ روز میں قابلِ استعمال بنتے تھے، اب ۱۷؍دنوں میں تیار ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک ڈالر کے بدلے حاصل ہونے والے تیل کی شرح اس سال ۶۵ فیصد بڑھ جائے گی۔ بہتر زمینی معلومات، کنوؤں میں ڈالے جانے والے مائع کے معیار میں اضافہ اور کھدائی کے جدید آلات اس کے عوامل ہیں۔
آئی ایچ ایس کا اندازہ ہے کہ اس سال منافع کی شرح ۸۰ فیصد رہے گی اور ڈبلیو ٹی آئی ۵۰ سے ۶۹ ڈالر فی بیرل کے درمیان رہے گا۔ حالیہ دنوں میں چونکہ قیمت ۶۰ ڈالر فی بیرل سے اوپر بھی گئی ہے، اس لیے کچھ سلیٹی کمپنیوں نے پیداوار بڑھانے کے اشارے دینے شروع کیے ہیں۔ بہتر قیمتوں کے منتظر نئے منصوبوں کی ’’فرَیک لاگ‘‘ نامی پائپ لائن کا حجم ابھی متنازعہ ہے۔ لیکن اصول بڑا واضح ہے: امریکی سلیٹی صنعتیں عالمی تیل منڈی کی بڑی فراہم کنندہ بن چکی ہیں۔
عالمی منڈی میں بنیادی اثر و رسوخ اوپیک اور بالخصوص سعودیوں کا تھا جو قیمتیں اپنے قابو میں رکھنے کے لیے رَسَد بڑھاتے اور کم کرتے تھے۔ اب منڈی پر زیادہ اِجارہ داری امریکی صنعت کاروں کی ہے جو عالمی قیمتوں کے تناظر میں کھدائی کم یا زیادہ کرتے رہتے ہیں۔ پیٹرو میٹرکس نامی ایک مشاورتی فرم نے ۴۵ سے ۶۵ ڈالر کے مابین رہنے والی قیمتوں کے لیے ’’شیل بینڈ‘‘ (Shale Band) کی اصطلاح ایجاد کی ہے۔ ان حدود سے نیچے امریکی پیداوار یکدم کم ہوجاتی ہے اور اس سے اوپر بڑھتی رہتی ہے۔ یعنی یہ ضروری ہے کہ قیمتیں انہی حدود کے درمیان رہیں۔
اب عالمی سطح پر تیل کی جتنی زیادہ فراہمی زیرِ زمین چٹانوں میں دباؤ کے ساتھ مائع چھوڑ کر تیل نکالنے (Fracking) کے ذریعے ہوگی، اتنا ہی یہ طریقہ مضبوط ہوتا جائے گا۔ امریکی حکومت کی توانائی کی معلومات رکھنے والی انتظامیہ (Energy Information Administration) نے اپنے اندازوں کو گزشتہ تین برسوں کے دوران بڑھا کر اب پیشگوئی کی ہے کہ امریکا اپنی پیداوار میں ۲۰۲۰ء تک ۱ء۳ ملین بیرل یومیہ اضافہ کرکے اسے ۶ء۱۰ ملین بیرل یومیہ تک لے جائے گا جو عراق کی پیداوار کے برابر ہے۔ فریکنگ کے منتشر کاروبار کو اگر مربوط کرلیا جائے تو پیداواری لاگت میں مزید کمی کے امکانات ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد اپنی نوعیت کے پہلے سودے میں نوبل انرجی نامی کمپنی نے اپنے نسبتاً چھوٹے اور قرضوں میں دبے حریف Rosetta Resources کو شیئرز کے ذریعے ۲ بلین ڈالر میں خریدنے کا عِندیہ دیا ہے۔ اس طرح کے مزید سودے متوقع ہیں۔ لندن کے تحقیقی ادارے شئے ٹَم ہاؤس کے پال اسٹیونز کو امید ہے کہ بہت سی چھوٹی بڑی کمپنیاں اسی طرح انضمام کرلیں گی۔
جس طرح امریکی پیداوار بڑھ رہی ہے، خام تیل کی برآمد کے لیے حکومت پر دباؤ بھی بڑھتا چلا جائے گا۔ دوسری جانب امریکی درآمدات میں کمی ہورہی ہے، جو اپریل میں چینی درآمدات سے بھی کم رہیں۔ روس سے لے کر ارجنٹائن تک دیگر ممالک کے پاس بھی سلیٹی صنعتیں ہیں۔ گو کہ ان کے پاس امریکا جیسی مہارت، سرمایہ اور قانونی نظام نہیں ہے، پھر بھی ممکن ہے کہ وہ قابلِ لحاظ مقدار میں تیل پیدا کرنے لگیں۔
تیل کی مغربی کمپنیوں کے لیے یہ صورتِ حال ناخوشگوار ہے۔ ان کمپنیوں کو بہت بڑے، خطرات سے بھرے اور گاہک کی مانگ کے مطابق مہنگے طویل المدت منصوبے مکمل کرنے کی عادت تھی جن سے ان کے انجینئرز تو خوش ہوتے تھے مگر کھاتے داروں کی جان پر بن آتی تھی۔ یرگن کہتے ہیں کہ اس صنعت میں صرف والوز (Valves) کے لیے ۳۲۸ معیارات ہیں۔ اب اس کا تقابل سلیٹی صنعتوں سے کریں، جن کے کنویں چھوٹے اور سستے ہیں اور انہیں بآسانی استعمال ہونے والے معیاری پُرزوں کے ذریعے جلدی کھودا جاسکتا ہے۔ قیمتوں میں حالیہ کمی تیل کی ان بڑی کمپنیوں کو کام کرنے کے سستے اور زیادہ آسان طریقوں کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کردے گی۔ تحقیقی ادارے سینفرڈ سی برنسٹین (Sanford C. Bernstein) سے وابستہ اوسوَلڈ کلِنٹ (Oswald Clint) کے خیال میں بڑی کمپنیوں کو اب اپنی لازمی قیمتوں (Breakeven Prices) میں شاید دسیوں ڈالر فی بیرل کمی کرنی پڑے۔
دنیا میں تیل کے مرکزی ذخائر اگر کسی بڑے تنازع کی زد میں نہ آئے تو تیل کی صنعت ایک نئے استحکام کی جانب گامزن ہوگی جس میں خام تیل کی قیمت درمیانی دو ہندسوں (Mid-double Digits) کے مابین رہے گی۔ طلب میں اضافہ وہ اکلوتی وجہ ہوسکتی ہے جو شاید اس حد بندی کو توڑ کر قیمت کو ۱۰۰؍ڈالر سے اوپر لے جائے۔ بہرحال، امیر ممالک میں معاشی ترقی اور توانائی کا استعمال اب دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں اور یہ ایک کھلا سوال ہے کہ آیا ابھرتی ہوئی معیشتیں بھی آنے والی دہائیوں میں توانائی اسی طرح ضائع کریں گی جس طرح مستحکم معیشتوں نے گزشتہ صدی میں کی تھی۔ دوبارہ قابلِ استعمال بننے والی توانائی کے سستے ذرائع اور سستی گیس، تیل سے بنی اشیا استعمال کرنے والوں کے لیے اب زیادہ پرکشش ثابت ہورہے ہیں۔
نیویارک میں قائم ادارے وولف ریسرچ (Wolfe Research) سے وابستہ پال سینکی کو یقین ہے کہ خام تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی کے باعث ہونے والی کم سرمایہ کاری شاید قیمتوں کو آخری بار اوپر لے جائے، لیکن اس کے بعد ’’تیل کا دور‘‘ ختم ہوجائے گا۔ اگر یہ بات مبالغہ آرائی ہی ثابت ہوئی، تب بھی اوپیک کی دوبارہ اِجارہ داری اب ایک دُور پَرے کی بات لگتی ہے۔
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“The oil industry after OPEC”.
(“The Economist”. May 16, 2015)
Leave a Reply