
یکم فروری ۲۰۱۱ء کو تیل کی قیمتیں ۱۰۰؍ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئیں۔ اگلے تین سال تک چند غیر متوقع اتار چڑھاؤ کو چھوڑ کر جس کے لیے تیل کی منڈیاں مشہور ہیں، قیمتیں کم و بیش اپنی جگہ ٹھہری رہیں۔ اس لیے جب اس سال جون میں قیمتیں گرنا شروع ہوئیں تو بیشتر صنعتی ماہرین نے اسے اہمیت نہ دی۔ ان کے خیال میں ۱۰۰؍ڈالر فی بیرل تیل کی قیمت قائم رہنی ہی تھی۔
اس رویے نے پچھلے مہینوں میں تیل کی قیمتوں میں شیطانی اضافے کو غیر متوقع بنا دیا۔ امریکا کی تیل کی پیداوار پچھلے کئی برسوں سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں لیبیا کی تیل کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کمزور عالمی معیشت کے ساتھ متصادم ہو کر ان اضافوں نے اس موسمِ گرما میں تیل کی افراط پیدا کر دی۔ پچھلے مہینے کے آخر میں اوپیک کے ارکان نے اعلان کیا کہ وہ قیمت کو مستحکم رکھنے کے لیے اپنی پیداوار کو کم نہیں کریں گے۔ تیل فوراً ہی جون کی قیمت سے ۴۰ فیصد کم ہو کر ۷۰ ڈالر فی بیرل پہ آگیا۔
بلوم برگ نیوز نے اعلان کیا کہ ’’تیل نئے عہد میں داخل ہو گیا ہے‘‘۔ ایک بڑے بینک کے سربراہ برائے آئل ریسرچ نے کہا کہ ’’اوپیک ہار مان رہی ہے‘‘ اور توانائی کی منڈی کو آنے والے کئی سالوں کے لیے تبدیل کر رہی ہے۔ ماہرین کی رائے کے مطابق کم قیمت تیل کا ایک نیا عہد ہمارے سامنے ہے۔ جس میں اوپیک کا کردار ثانوی ہو گا اور ہر ایک کو نئی صورتحال کے مطابق ڈھلنا ہوگا۔
مگر اس سے پہلے کہ ہر فرد تیل کی منڈیوں سے متعلق ایک متصعبانہ رائے کے بجائے ایک مختلف نقطۂ نظر اپنائے، ہمیں پوچھنا چاہئے کہ ’’اتنے سارے لوگ تیل کی قیمتوں سے متعلق غلط کیوں تھے‘‘۔ امریکا کی تیل کی صنعت اور اوپیک اور سعودی عرب سے متعلق غلط مفروضات کی وجہ سے ہمیں غلط فہمی ہوئی کہ قیمتیں کس طرف جا رہی ہیں اور آئندہ یہ قیمتیں کیا ہوں گی۔
امریکا کی پیداواری ترقی ’’ٹائٹ آئل‘‘ (Tight Oil) کی وجہ سے ہے، جسے لوگ ’’شالے آئل‘‘ (Shale Oil) کہتے ہیں۔ یہ تیل ’’فریکنگ‘‘ کے عمل کے ذریعے نکالا جاتا ہے اور روایتی ڈرلنگ کے ذریعے نکالے جانے والے تیل کے مقابلے میں منڈی کے حالات پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔
ٹائٹ آئل میں تیل کے کنوؤں کی منصوبہ بندی اور تعمیر سالوں کے بجائے مہینوں میں کی جا سکتی ہے۔ یعنی ضرورت کے وقت پیداوار زیادہ تیزی سے بڑھائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح جیسے ہی ڈرلنگ روکی جائے، پیداوار رک جاتی ہے۔ ان خصوصیات کی وجہ سے اگر تیل کی فراوانی ہو اور قیمتیں گرنا شروع ہوں تو ٹائٹ آئل کی پیداوار جلد ہی کم ہو جائے گی اور قیمتیں مستحکم رہیں گی۔
اگرچہ ٹائٹ آئل منڈی پر زیادہ انحصار کرتا ہے لیکن درحقیقت فوری طور پر یہ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوتی۔ یہ بات ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۲ء میں واضح ہو گئی تھی، جب شالے گیس کی پیداوار کی وجہ سے قدرتی گیس کی قیمتیں ایک سال میں تقریبا ۶۰ فیصد تک گر گئیں۔ یہ نکتہ پچھلی سردیوں میں مزید واضح ہوا جب غیر معمولی سرد موسم اور ایندھن کی طلب میں شدید اضافہ کے باوجود صنعت تیزی سے پیداوار نہ بڑھا سکی اور قدرتی گیس کی قیمت ایک مہینے میں دگنی ہو گئی۔ اگر لوگ ان واقعات پر ٹھنڈے دل سے غور کرتے تو خام تیل کی قیمتوں میں غیر متوقع اضافہ کے لیے تیار رہتے۔
ایک اہم وجہ جس کی وجہ سے لوگ تیل کی قیمت میں کمی کا اندازہ نہ لگا پائے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ سیاست کس طرح تیل کی پیداوار کو متاثر کرتی ہے، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں۔ دو غلط فہمیوں نے بہت عرصے سے لوگوں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ قیمتیں بہت زیادہ نہیں گر سکتیں۔
پہلی یہ کہ اوپیک ایک فعال تنظیم ہے، جو تیل کی قیمت کو ایک متفقہ ہدف تک برقرار رکھتی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی فراوانی ہونے پر یہ ہم آہنگ تنظیم اپنی پیداوار کم کر دے گی، جو قیمت اور آمدن کو برقرار رکھے گی۔
اس تاثر کے برخلاف اوپیک بہت عرصے سے باہمی رابطہ کاری میں ناکام ہو رہی ہے، یہ ایک ایسے ملکوں کی تنظیم ہے جن کے درمیان سوائے تیل کے کچھ بھی مشترک نہیں۔ قطر کو وینزویلا کے مستقبل کی فکر نہیں۔ سعودی عرب ایران کو کامیاب کے بجائے ناکام دیکھنا پسند کرے گا۔ ہر رکن کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ وہ دوسروں کو پیداوار کم کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کرے جبکہ خود کچھ بھی نہ کرے اور یہ سوچے کہ شاید اس طرح تیل کی زائد قیمت سے وہ زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ ہر تنظیم کی طرح مسئلہ یہ ہے کہ جب ہر رکن کا یہ ہی رویہ ہے تو کوئی بھی پیداوار کم نہیں کرتا اور تنظیم ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے۔
اوپیک میں ہم آہنگی کی جو کمی ابھی نظر آئی ہے، وہ انوکھی بات نہیں بلکہ معمول کا رویہ ہے۔ جب پچھلی دفعہ ۲۰۰۸ء میں تیل کی قیمتیں گری تھیں تو اوپیک کا ردِعمل بہت دیر میں آیا۔ تنظیم نے اُس وقت تک پیداوار میں کمی کا اعلان نہیں کیا تھا، جب تک قیمتیں ۱۴۵؍ڈالر سے ۶۵ ڈالر پر نہیں آگئیں اور جب قیمت ۴۰ ڈالر سے بھی نیچے آئی، تب اس نے فیصلہ کن اقدام کیا۔ اسی طرح ۱۹۸۰ء کے وسط میں اوپیک نے تکلیف دہ حد تک کم قیمت ہونے پر بھی تعاون نہیں کیا۔ جب سعودی عرب نے منڈیوں کو تیل سے بھر دیا، صرف تب یہ تعاون کرنے پر رضامند ہوئی۔ درحقیقت اوپیک صرف اُن صورتوں میں منڈی سے تیل کم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، جب انتہائی کم قیمتوں یا ۱۹۷۳ء جیسی غیر معمولی عالمی سیاسی تبدیلی کی وجہ سے شدید دباؤ تھا۔
یہاں تک کہ وہ بھی جو اوپیک پر بالکل اعتماد نہیں رکھتے، ان کے پاس ایک دوسری غلط فہمی تھی، یہ کہ سعودی عرب تنہا قدم اٹھا لے گا۔ سعودی عرب جو تقریباً اوپیک کی ایک تہائی پیداوار کنٹرول کرتا ہے، تنظیم کے باقی ارکان کے مقابلے میں منڈی میں قیمت پر اثرانداز ہونے میں زیادہ فعال رہا ہے، اور حالیہ سالوں میں کئی تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچے کہ سعودی عرب سمجھتا ہے کہ ۱۰۰؍ڈالر فی بیرل تیل کی صحیح قیمت ہے۔ اس یقین کو عرب بہار سے بھی تقویت ملی جس میں مقامی امن برقرار رکھنے کے لیے سعودی عرب کو بہت زیادہ خرچ کرنا پڑا۔ اس لیے بیشتر لوگ اس بات پر قائل ہیں کہ زیادہ قیمت سعودی عرب کے لیے ضروری ہے۔ سعودی عرب کی طاقت کو اتنا زیادہ سمجھا گیا کہ مبصرین نے سوچا کہ ریاض تیل کی قیمت کو بہت زیادہ بڑھنے سے بھی روکے گا، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ صارفین تیل کی خرید چھوڑ دیں۔
تاریخ زیادہ محتاط رہنے کا سبق دیتی ہے۔ محض پندرہ سال پہلے بیشتر تیل ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ خام تیل کی قیمت ۲۰ ڈالر فی بیرل پر مستحکم رہے گی۔ یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یہ وہ جادوئی قیمت ہے جسے سعودی اور اوپیک ہدف بنائیں گے۔ دو ہزار کی دہائی نے اسے بالکل غلط ثابت کر دیا۔ تیل کی قیمتیں دس سال سے بھی کم عرصے میں ۱۵؍گنا بڑھ گئیں جبکہ سعودیوں نے کوئی ردِعمل نہیں دیا اور سعودی عرب کو اپنا بجٹ متوازن کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے پاس بینک میں پیسہ موجود ہے اور ماضی میں وہ خسارے میں چلتا رہا ہے۔
اس کے باوجود کہ صرف چند ماہ پہلے ماہرین پورے اعتماد کے ساتھ قیمتوں کے کریش ہونے کے امکان کو رد کر رہے تھے، وہ ایک بار پھر پورے اعتماد کے ساتھ یہ بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تیل کی نئی دنیا کیسی ہوگی۔ وہ ایک ایسا عہد دیکھتے ہیں جس میں امریکی تیل عالمی منڈیوں پرغالب رہے گا۔ ایک رپورٹر تو اس حد تک چلا گیا کہ اس نے ’’ٹائم میگزین‘‘ کے ’’پرسن آف دی ایئر‘‘ کے لیے شالے انقلاب کو نامزد کر دیا اور آنے والے برسوں میں کم قیمتوں کی پیش گوئی کی۔
ہمیں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ پچھلی دہائی نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ تیل کی قیمتیں لمبے عرصے کے لیے شاذ و نادر ہی مستحکم رہتی ہیں اور یہ کہ صرف معاشی نہیں بلکہ سیاسی حالات بھی ان کے اتار چڑھاؤ میں اہم ہوتے ہیں۔ درحقیقت بعض ماہرین جنھوں نے جغرافیائی سیاسی عناصر کو اہمیت دی ہے، انھوں نے کم از کم ایک سال پہلے ہی قیمتوں میں متوقع کمی سے خبردار کیا تھا۔ جب پیش گوئی کرنے والوں نے مانگ کے مقابلے میں فراہمی کو بہت زیادہ دکھایا تھا۔
مَیں ان میں سے ایک تھا جو پچھلے دو سال سے بڑھتی ہوئی قیمت کے کریش ہونے سے خبردار کر رہے تھے مگر کوئی بھی یہ تعین نہ کر سکا کہ ایسا کب ہوگا۔
اب قیمتوں کا کیا ہوگا؟ کئی عوامل ایک ساتھ کار فرما ہوتے ہیں تو قیمتیں نسبتاً تیزی سے استحکام کی طرف لوٹ سکتی ہیں۔ کمپنیوں کے نفع و نقصان کا ازسرِنو جائزہ لینے کے نتیجے میں امریکی تیل کی فراہمی میں کمی، توقع سے زیادہ مضبوط عالمی معیشت یا سعودیوں کا آخرکار کمی کرنے کا فیصلہ۔ مگر قیمتیں اس سے زیادہ بھی گر سکتی ہیں۔ اگر امریکی صنعت کم قیمتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اور زیادہ فعال ہو جائے، اگر عالمی معیشت نقصان میں جاتی رہے یا سعودی عرب مداخلت سے دور ہی رہے۔ یا ایک کم امکان یہ بھی ہے کہ قیمتیں اپنی موجودہ حالت پر قائم رہیں۔ ہر راستے کے الگ معاشی اور سیاسی نتائج مرتب ہوں گے اور صرف کوئی سوچ بچار سے عاری شخص ہی کسی خاص نتیجے پر پورے وثوق کے ساتھ شرط لگانے پر تیار ہوگا۔
“Why the world missed the oil price crash”. (“Washington Post”. December 5, 2014)
Leave a Reply