
افغانستان کئی دہائیوں سے میری زندگی میں موجود رہا ہے۔ ترکی میں ہائی اسکول کے طالب علم کی حیثیت سے میں نے جیمز اے کا کارواں پڑھا، جو بہت جادوئی تھا۔ دور دراز کا ایسا علاقہ جہاں تک پہنچنا بہت مشکل ہو۔ لیکن کچھ سال بعد ہی میں وہاں پہنچ گیا تھا۔ ایک کالج کے طالبعلم کی حیثیت سے ایشیا کے سفر کے دوران میں افغانستان کے علاقے ہرات میں تھا۔ افغانستان نے مجھے بالکل مایوس نہیں کیا۔ خیبر پاس کے راستے میں قندھار، بامیان اور کابل تک گیا، اس وقت میں نے خود سے دوبارہ واپس آنے کا وعدہ کیا۔ یہ موقع صرف ایک سال بعد اس وقت آیا جب تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد مجھے افغانستان میں انگریزی کے استاد کے حیثیت سے مدعو کیا گیا، لیکن پھر مجھے وزارت خارجہ میں نوکری کی پیشکش ہوگئی۔ لہٰذا افغانستان والا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا، لیکن میں نے اس کو مکمل طور پر فراموش نہیں کیا۔ اٹھارہ ماہ بعد ہی مجھے امریکی نائب قونصلر کی حیثیت سے ایران کے شہر زاہدان ایک قیدی سے ملنے جانا پڑا، میں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور زابل کے راستے افغانستان کی سرحد عبور کرلی۔ جس کے بعد ایک لمبا عرصہ گزر گیا، لیکن افغانستان دیگر حوالوں سے میری زندگی میں موجود رہا۔
۱۹۷۹ء کے آخر میں جب میں عراق میں سفارتی ذمہ داریاں ادا کر رہا تھا تو میں نے عراقی وزارت خارجہ کو افغان سرحد پر سوویت فوجیوں کی غیر معمولی نقل و حرکت سے آگاہ کیا اور ان سے پوچھا کہ وہ اس بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں۔ فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ لیکن سوویت حملے کے بعد مجھے دوبارہ وزارت خارجہ میں طلب کرکے بتایا گیا کہ وہ صورتحال سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکی پالیسی سازوں نے افغانستان میں سوویت مداخلت کا راستہ کھولا تاکہ امریکا کو نئی قائم شدہ ایرانی حکومت پر حملے اور خلیج فارس میں بندرگاہوں پر قبضے کا موقع مل جائے۔ جہاں سے پھر امریکی فوجیں عراق پر حملہ اور قبضہ کریں گی۔ مجھے مزید بتایا گیا کہ امریکی منصوبے کامیاب نہیں ہوں گے۔ میں نے اس بے وقوفی والی بات پر سر ہلادیا۔ لیکن بعد میں پیش آنے والے واقعات نے کچھ اور ہی منظر دکھایا۔ اگلے برس ہی عراق نے ایران پر حملہ کردیا، جبکہ دہائیوں بعد امریکا نے ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر حملہ کیا۔ لیکن عراقی حکام کی پیشگوئی درست ثابت ہوئی اور امریکا نے ۲۰۰۳ء میں عراق پر بھی قبضہ کرلیا۔ امریکیوں کی بڑی تعداد کو اب بھی ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کا دن یاد ہوگا کہ وہ کیا کررہے تھے، میں بحیثیت امریکا کا نیا معاون وزیر خارجہ اقوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندے سے عراق پر پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کے لیے نیویارک پہنچا اور مجھے دھوئیں کے بادل نظر آئے۔ میں نے دونوں ٹاور کو گرتے دیکھا۔ واشنگٹن واپسی پر لانگ ڈرائیو کے دوران میں نے اس بارے میں بہت سوچا۔ محض دو دن قبل شمالی اتحاد کے کمانڈر احمد شاہ مسعود کے قتل کی وجہ سمجھ آگئی۔ مسعود کی قیادت میں شمالی اتحاد نے طالبان کے خلاف شمال مشرقی افغانستان میں اپنا قبضہ مستحکم کرلیا تھا۔ واضح طور پر نائن الیون کے حملوں سے قبل ہی القاعدہ نے اسے قتل کردیا۔ اگرچہ افغانستان میری ذمہ داریوں میں شامل نہیں تھا، لیکن میری زندگی بہت تیزی سے تبدیل ہونے والی تھی۔ اگلے سات سال میں نے افغانستان، پاکستان اور عراق میں گزارے، میں تینوں ممالک میں سفیر رہا۔
نائن الیون کے بعد فضائی آپریشن بحال ہوتے ہی میں پہلی فلائٹ سے جنیوا گیا اور ایرانیوں سے افغانستان پر بات چیت کی۔ طالبان اب ایران اور امریکا کے مشترکہ دشمن تھے۔ ہم نے اگلے کئی ہفتوں تک جنیوا، پیرس، نیویارک اور یہاں تک کہ کابل میں ایران سے بات چیت جاری رکھی۔ یہ تعاون اچانک جنوری ۲۰۰۲ء میں ختم ہوگیا، جب اس وقت صدر بش کے اسٹیٹ آف یونین کے خطاب میں ایران کو برائی کا محور قرار دے دیا گیا۔ صرف ایک مہینہ پہلے دسمبر ۲۰۰۱ء میں کرسمس کے فوراً بعد نائب سکریٹری خارجہ رچرڈ آرمیٹیج نے مجھے کہا تھا کہ آپ کابل جاکر سفارت خانہ قائم کریں۔ میں جنیوا میں ایرانیوں کے ساتھ آخری ملاقات کے بعد افغانستان روانہ ہوا۔ ان مذاکرات میں میرے سینئر افسر نے ایران سے افغانستان میں سفارت خانہ کھولنے کے لیے بات چیت کی۔ جب میں پہنچا تو کابل کا ہوائی اڈہ بند پڑا تھا، اس کا رن وے تباہ ہوچکا تھا۔ ہم شہر کے شمال میں بگرام گئے تو کیچڑ اور تباہ شدہ تعمیراتی ڈھانچہ نظر آیا۔ بالکل ویران کھیتوں سے ہم گزرے، جہاں زندگی کی کوئی علامت نہیں تھی، کوئی درخت، انسان اور جانور موجود نہیں تھا۔ میں نے ۱۹۴۵ء کے برلن کی تصویر کو ذہن میں رکھا، پورے شہر کے راستے تباہ کر دیے گئے تھے۔ حالانکہ امریکیوں نے ابھی موسم خزاں میں ہی کابل پر بمباری شروع کی تھی، کابل کی اس تباہی کا ذمہ دار نہ تو روس تھا نہ ہی امریکا بلکہ ۱۹۸۹ء کے بعد افغانیوں کی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملک کا یہ حال ہوا تھا۔ کچھ عرصہ بعد بون کانفرنس میں افغان عبوری اتھارٹی قائم کی گئی، جس کے چیئرمین حامد کرزئی تھے، جو کچھ دن قبل ہی کابل پہنچے تھے، حقیقت میں وہ کسی چیز کے چیئرمین نہیں تھے، وہاں پولیس، فوج اور بیورو کریسی کچھ بھی موجود نہیں تھا۔ یہاں تک کہ مواصلاتی نظام تک موجود نہیں تھا، ہم ریڈیو اور سیٹلائٹ فون استعمال کرتے تھے۔ میں اور کرزئی تقریباً ہر روز رابطے میں رہتے تھے، ہم دونوں دیگر لوگوں کے برعکس صبح سویرے اٹھنے والے تھے اور اکثر صبح ہی رابطہ کرلیا کرتے تھے۔ ایک دن محل میں ناشتے کے دوران کرزئی نے کہا کہ اب تک افغانستان کا کوئی قومی پرچم نہیں ہے۔ ہم نے غور کیا یہ پرچم کس طرح کا ہونا چاہیے۔ انہوں نے رومال پر ایک ڈیزائن تیار کیا جو سابق بادشاہت کے دور کا پرچم تھا، بادشاہت کو افغانستان میں ایک بہتر دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن حامد کرزئی نے کہا کہ ملک اب ایک اسلامی جمہوریہ ہے، اس لیے جھنڈے پر کلمہ طیبہ لکھوا دیا گیا، افغانستان کا نیا پرچم تیار تھا۔
۲۰۰۲ء کے آغاز میں افغانستان کے دورے پر بہت سے لوگ آئے، ان میں دو انتہائی اہم تھے، ایک وزیر خارجہ کولن پاؤل اور دوسرے سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین جوبائیڈن۔ بائیڈن اور میں کابل میں لڑکیوں کے ایک اسکول گئے، جہاں پر امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی نے فنڈ فراہم کیے تھے۔ طالبان دور تمام افغانیوں کے لیے انتہائی سخت تھا، لیکن سب سے زیادہ ظلم لڑکیوں اور خواتین کو سہنا پڑا تھا۔ افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسی پر حالیہ بحث غلط رخ پر جارہی ہے، کہ امریکا کابل میں موجود کیوں ہے؟یہ شروع سے ہی واضح ہے کہ امریکی فوجی کارروائی نائن الیون کے حملے کانتیجہ تھا۔ اس کے بعد سے امریکی موجودگی کے ذریعے یقینی بنایا گیا کہ افغانستان سے پھر کبھی امریکی سرزمین پر حملہ نہیں کیا جاسکے۔اسی لیے ہم نے ۱۱ مارچ ۲۰۰۲ء کو نائن الیون حملوں کے چھ ماہ بعد کابل کے سفارتخانے کے پرچم تلے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا ایک ٹکرا امریکا سے لاکر دفن کیااور اس سفارتخانے کو ہی اس واقعہ سے جوڑدیا۔ باقی افغانستان میں سب کچھ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تھا۔ طویل المیعاد معاشی اور معاشرتی ترقی کے ذریعے ایسے ماحول کا فروغ جس میں القاعدہ اور طالبان زندہ نہیں رہ سکیں۔یہ کسی قوم کی تعمیرنو کے لیے نہیں تھا بلکہ امریکا کی قومی سلامتی کے لیے تھا۔ اسی طرح افغان دھڑوں کے درمیان امن کاقیام بھی امریکا کے لیے بہت اہم ہے۔ تاکہ افغانستان طویل عرصے تک جمہوری بنیاد پر مستحکم رہے اور ترقی کرتا رہے۔ دہشت گرد تنظیموں اوران کے سرپرستوں کو امریکا کے خلاف حملے کا موقع نہیں مل سکے۔ لیکن یہ آخری راستہ نہیں ہے، اگر افغانستان میں استحکام نہیں آرہا ہے تو امریکی فوجی موجودگی کے ذریعے ملک کی قومی سلامتی کے تحفظ کے دیگر ذرائع موجود ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امریکا کی گزشتہ انتظامیہ نے اس نقطہ کو نظر انداز کردیا اور اب موجودہ انتظامیہ بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے۔میں نے مشرق وسطیٰ میں اپنے تجربے سے سیکھا کہ بہت کم ہی صورتحال آپ کے حق میں موافق ہوتی ہے لیکن کسی پھندے میں پھنسے سے بچنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ یہ محض ایک خیال ہی ہوسکتا ہے کہ اگر ہم ایسا کریں اور ویسا نہ کریں تو سب ٹھیک ہو جائے گا، لیکن ضروری نہیں اس طرح کی صورتحال سے مدد ملے۔ افغانستان میں معاشی اور معاشرتی ترقی خود ہی نہیں رک گئی بلکہ اس کی کئی وجوہات ہیں، ترقی کو فروغ دے کر طالبان کی شورش کو جڑ سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اگر امریکا افغانستان میں صرف فوجی موجودگی برقرار رکھے گا اور غریب عوام کی زندگی بہتر بنانے پر توجہ نہیں دے گا تو طالبان کی شورش میں بہت زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے۔ میں دو سال بعد پاکستان میں امریکی سفیر کی حیثیت سے (۲۰۱۴ء ۔۲۰۰۷ء) خطے میں واپس آیا، اس وقت افغانستان میں میرے دوست رون نیومن امریکی سفیر تھے، انہوں نے مجھے کئی بار صدر حامد کرزئی سے ملاقات کے لیے کابل آنے کی دعوت دی، تاکہ پاکستان اور دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانے پر بات چیت کی جاسکے۔ ایسا ممکن نہیں ہوسکا، لیکن اس سے کرزئی سے تعلقات برقرار رکھنے میں مدد ملی۔ ۲۰۱۱ء میں ایک بار پھر مجھے افغانستان میں سفیر بنا کربھیجا گیا۔ حامد کرزئی اب بھی صدر تھے، اس وقت مجھ دو کام سونپے گئے۔ ایک کرزئی سے تعلقات کی ازسرنو تشکیل اور دوسرا دونوں ممالک کے درمیان طویل مدتی اور جامع تعلقات کے لیے بات چیت کرنا۔ مئی ۲۰۱۲ء میں اوباما اسٹرییٹجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کرنے کابل آئے۔ جس کے بعد امریکا اور افغانستان کے تعلقات نئی بلندیوں پر چلے گئے۔
اسی مہینے کے آخر میں شکاگو میں نیٹو اجلاس میں افغان سیکورٹی فورسز کی طویل مدتی امداد کا معاہدہ ہوا اور جولائی میں ٹوکیو میں ایک وزارتی اجلاس کے دوران افغانستان میں معاشی مدد کا وعدہ بھی کیاگیا،معاشی بدحالی خود افغانستان کی حکومت کی وجہ سے تھی۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ اقدامات امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے قومی اور بین الاقوامی سکیورٹی کے لیے اٹھائے جارہے تھے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ آغاز میں تو اس بات کو سمجھتے تھے، اسی لیے انہوں نے اگست ۲۰۱۷ء میں جنوبی ایشیا کے حوالے سے پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکا کی موجودگی حالات کے حساب سے ہے، کیلنڈر کے حساب سے نہیں۔
لیکن یہ آخری پالیسی نہیں رہی۔ دو سال سے بھی کم عرصے میں امریکا نے اعلان کیا کہ وہ قطر میں افغان حکومت کے بغیر طالبان سے امن مذاکرات شروع کررہا ہے۔ امریکی فیصلہ ساز ایک طویل عرصے سے طالبان کے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کررہے تھے کہ وہ صرف امریکا سے مذاکرات کریں گے جبکہ افغان حکومت اس پورے عمل سے باہر رہے گی۔ طالبان افغان حکومت کو امریکا کی کٹھ پتلی حکومت کہتے ہیں۔ اس فیصلے سے افغان حکومت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا، جبکہ امریکی اتحادیوں اور مخالفین کو واضح پیغام گیا کہ مذاکرات امن کے بارے میں نہیں بلکہ امریکا کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے بارے میں ہیں، یہ ایک لحاظ سے ویتنام جنگ ختم کرنے کے بارے میں ’’پیرس امن معاہدے‘‘ کی طرح تھا۔ امریکا نے افغان حکومت سے پوچھے بغیر ہی طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کرلیا اور پھر افغان حکومت کو قیدیوں کی رہائی پر مجبور بھی کیا۔
افغان شہریوں کو قتل کرنے والے افراد کو رہا کردیا گیا اور ان سے دوبارہ تشدد میں ملوث نہ ہونے سے متعلق کوئی ضمانت بھی نہیں لی گئی۔ حالیہ عرصے میں افغانستان میں اہدافی قتل اور خواتین کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ چند ہفتوں میں تین خواتین صحافیوں کو قتل کردیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر طالبان اقتدار میں واپس آئے تو افغان خواتین اور لڑکیوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ بلاشہ ٹرمپ نے اپنے جانشین کے لیے بہت ہی برا فغانستان چھوڑا تھا۔ انہوں نے انخلا کے بدلے طالبان پر وعدے پورے کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی بجائے افواج کی تعداد انتہائی کم کردی۔ ٹرمپ کے آخری دور میں افغانستان میں محض ڈھائی ہزار فوجی تھے۔ اس دوران طالبان نے امریکی یا نیٹو افواج کو نشانہ بنانے سے گریز کیا ہے۔ بس یہی فائدہ حاصل ہوا۔ ٹرمپ نے تین اچھے بین الاقوامی معاہدوں کو ختم کردیا، جن میں ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ، پیرس معاہدہ اور ایران کا جوہری معاہدہ شامل ہے۔ بدلے میں ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ بہت ہی خراب معاہدہ کیا۔ بائیڈن کو اس معاہدے کو ختم کردینا چاہیے تھا۔ لیکن بائیڈن نے اس معاہدے کو قبول کرتے ہوئے افغان مصالحت کے لیے ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی کو بھی گلے لگالیا۔ یعنی بائیڈن بھی اب ٹرمپ کی پالیسی کے حامل ہیں۔ اس فیصلے کے ممکنہ نتائج سنگین ہوسکتے ہیں۔ طالبان اور افغان حکومت میں سنجیدہ مذاکرات کا کوئی امکان نہیں، کیوں کہ طالبان کے پاس مذاکرات کی کوئی وجہ موجود نہیںہے۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کے مطابق انخلا سے امریکی حکومت کی انٹیلی جنس جمع کرنے کی صلاحیت انتہائی کم ہو جائے گی۔ سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر کے مطابق افغان فوج کی میدان میں طالبان سے مقابلے کی صلاحیت قابل اعتبار نہیں ہے۔ کچھ عرصے سے امریکی فوج اور عہدیداروں کے لیے کام کرنے والے افغانوں کے ویزوں کا مسئلہ چل رہا ہے۔ ان افغانوں نے اپنی جانیں ہمارے لیے خطرے میں ڈالیں۔ امریکی انخلا کے حتمی اعلان کے بعد ان کی جانوں کو خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ عراق میں میرے ونگ مین جنر ل ڈیوڈ پیٹریاس اور میں ایک این جی او کے ساتھ مل کر اپنے ان افغان ساتھیوں کو امریکا لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم نے حال ہی میں امریکی سیکرٹری خارجہ انتھونی بلنکن کو خط لکھ کر ان افغانوں کو امریکی فوجی انخلا سے قبل نکالنے اور اس کے لیے تمام ضروری وسائل فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بائیڈن کا موقف ہے کہ امریکا کو دوسرے علاقوں پر زیادہ توجہ دینا ہوگی جو امریکی مفادات کے لیے زیادہ اہم ہیں۔ یہ سمجھداری ہے، لیکن یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ امریکی فوج کے پاس اپنے تمام مشنز کو پورا کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ افغانستان میں امریکا کے ڈھائی فوجی موجود تھے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے، جب میں نے ۲۰۱۲ء میں کابل چھوڑا تھا تو افغانستان میں امریکا کی ایک لاکھ فوج موجود تھی اور طالبان کا کسی بھی صوبائی دارالحکومت پر قبضہ نہیں تھا، آج امریکا کی ڈھائی ہزار فوج موجود ہے اور آج بھی طالبان کسی صوبائی دارالحکومت پر قابض نہیں ہیں۔ اصل میں بائیڈن کہہ رہے ہیں کہ وہ بطور صدر افغانستان کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکاکے انسانی اور ترقیاتی پروگرام خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کو مضبوط بنانے کے پروگرام جاری رہیں گے۔ حالانکہ معلوم نہیں کہ افغانستان کے سکیورٹی حالات کیا شکل اختیار کرتے ہیں اور کیا وہاں غیر سرکاری تنظیمیں ان پروگرامات کو جاری رکھ پائیں گی، ابھی تویہ بھی واضح نہیں کہ کابل میں امریکی سفارت خانہ برقرار رہ سکے گا یا نہیں، امریکی حکومت پہلے ہی بڑی تعداد میں سفارتکاروں کو نکال چکی ہے۔ ایک بار امریکی توجہ ہٹتے ہی وہاں امریکا مخالف قوتیں بے قابو ہوجائیں گی، امید ہے شاید ایسا نہیں ہو، لیکن امید کوئی حکمت عملی نہیںہوتی۔
بائیڈن کے فیصلے کا مطلب ہے کہ اب طالبان فیصلہ کن کردار ادا کریں گے نہ کہ امریکا۔ وہ فیصلہ کریں گے کہ عام شہریوں پر حملے جاری رکھیں یا نہیں، وہ پیچھے ہٹتے امریکی اور نیٹو فوجیوں پر حملے کریں یا نہیں، وہ امریکی فوج کی واپسی کے بعد امریکی سفارتخانے اور این جی اوز پر حملے کریں یا نہیں اور بہت سے فیصلے وہ کریں گے۔ افغانستان میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر صرف افغانستان تک محدود نہیںرہتا۔ ۲۰۰۰ء کی دہائی کے وسط میں جب میں پاکستان میںامریکی سفیر تھا تو مجھے ایک سینئر پاکستانی عہدیدار کا پیغام ملا کہ ’’۱۹۸۰ء کی دہائی میں ہم افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف مہم میں اسٹریٹجک اتحادی تھے۔ لیکن سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکا چلاگیا اور ہمیں اپنی سرحدوں پر خانہ جنگی کے ساتھ چھوڑ گیا۔ ہمارے نیوکلیئر ہتھیاروں کے پروگرام کی وجہ سے امریکا نے تمام معاشی اور فوجی امداد روک لی، ایک ایسا نیوکلیئر پروگرام جس کے بارے میں آپ کو ایک دہائی سے معلوم تھا، اب آپ واپس آگئے ہیں اور ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں دینا چھوڑ دیں۔ ایسا نہیں ہونے والا ہے، اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہم طالبان کو ایک جان لیوا دشمن میں تبدیل کر لیں گے تو آپ دیوانے ہیں، کیونکہ کسی وقت آپ تو افغانستان سے چلے جائیں گے اور طالبان یہاں موجود رہیں گے۔ بالکل ایسا ہی ہورہا ہے، آج پاکستانی طالبان کی حمایت کو پوری طرح درست محسوس کرتے ہوں گے۔ امریکی افواج افغانستان میں موجود ہیں تاکہ افغان سرزمین سے امریکا پر دوبارہ حملہ نہیں کیا جاسکے، ہم جنگ کو ختم نہیں کررہے ہیں، بلکہ اپنے دشمن کے لیے میدانِ جنگ کھلا چھوڑ رہے ہیں۔ طالبان اور القاعدہ ہمارے لیے نائن الیون کاسانحہ لائے تھے۔ یہ اب پچھلی نسل کے مقابلے میںزیادہ ہوشیار، سخت اور پُرعزم ہیں۔ سست اور بیوقوف پہلے ہی مارے جاچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اب یہ امریکا پر دوبارہ حملے کی کوشش نہ کریں ، لیکن بائیڈن کے اعلان کے بعد یہ فیصلہ بھی ان کے ہاتھ پر چھوڑ دیا گیا ہے، ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے،یہ بہت ہی بُرا فیصلہ ہے۔
(کالم نگار امریکا کے ممتاز سفارت کار رہے ہیں، آپ نے کویت، لبنان، شام، عراق، پاکستان اور افغانستان میں سفارتکاری کے فرائض انجام دیے ہیں)۔
ِ
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
ِ
“The once and future Afghanistan”. (“carnegieendowment.org”. April 29, 2021)
Leave a Reply