
امریکی صدر براک اوباما کہتے ہیں کہ آج کی دنیا غیر یقینی ہے، کہیں بھی کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر اس بدلتی ہوئی دنیا میں صرف ایک چیز ہے جو غیر تبدل پذیر ہے اور وہ ہے امریکی خارجہ پالیسی۔
۱۹۹۰ء کے عشرے کے ابتدائی لمحات میں جب سابق سوویت یونین کا وجود ختم ہوا، تب سرد جنگ بھی ختم ہوئی اور امریکا نے اپنی غیر معمولی طاقت کے نشے میں چُور ہو کر بھرپور اِجارہ دارانہ رجحانات کے ساتھ دنیا سے بَھلا کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ پوری دنیا پر حکومت کرنے کے خواب کو مکمل طور پر شرمندۂ تعبیر کرنے کی خواہش کو امریکا نے یہ کہتے ہوئے درست اور جائز ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایسا کرنا دنیا کے اپنے مفاد میں ہے۔ امریکی اپنی طاقت کے نشے میں یہ نکتہ بھول گئے کہ عالمی قیادت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنی غیر معمولی پوزیشن کا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے بلکہ بین الاقوامی قوانین کو ہر حال میں تمام معاملات پر مقدم رکھنا ہوتا ہے۔ حقیقی عالمگیر یا عالمی قائد وہی ہوتا ہے جو اپنی غیر معمولی پوزیشن یعنی طاقت کو اِس بات پر صَرف کرے کہ یہ دنیا پہلے سے بہتر ہو اور لوگ بہتر ڈھنگ سے جینے کے قابل ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ، عالمی قائد وہ ہے جو اپنے چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لیے ایسے حالات کو جنم نہ دے جن سے دنیا بھر کے معاملات اُلجھ کر رہ جائیں۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں امریکا اپنے اس معیار پر پورا اُترنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔
ناقدین نے امریکا کی اُس فکر کو غلط بتایا ہے کہ جو اُس نے ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور محکمہ دفاع پر حملوں کے بعد اپنائی تھی۔ اپنے دفاع کا حق استعمال کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عالمی استحکام کو داؤ پر لگا دیا جائے۔ بالکل اِسی طور ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی لشکر کشی کو بھی سیاسی مبصرین اور امریکی خارجہ پالیسی کے ناقدین نے ایک آزاد مملکت پر حملے سے تعبیر کیا۔ امریکا کو عراق سے کوئی بھی براہِ راست خطرہ لاحق نہ تھا اور یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹس یکسر بے بنیاد تھیں۔ امریکی سپریم کورٹ نے جارج واکر بش کے دور میں قائم کیے جانے والے گوانتا ناموبے ملٹری کمیشنز کو امریکی قوانین اور جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
سابق امریکی صدر جارج واکر بش پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے مگر اس کے باوجود صدر براک اوباما نے کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے طاقت کے استعمال ہی کو بہترین آپشن کے طور پر اپنایا ہے۔ اب ’’داعش‘‘ کے خلاف محاذ کھولا گیا ہے۔ امریکی خفیہ اداروں کی اپنی رپورٹس اس امر کی تصدیق کر چکی ہیں کہ ’’داعش‘‘ میں امریکا کے خلاف جنگ چھیڑنے کی صلاحیت ہے نہ ارادہ۔ اِس تنظیم کے مقاصد خالص علاقائی نوعیت کے ہیں۔ وہ اپنے لیے طے کردہ علاقائی حدود سے نکلنا نہیں چاہتی۔ ’’داعش‘‘ کے خلاف کارروائی کے نام پر شام کے مختلف علاقوں میں امریکی بمباری ایک آزاد ریاست پر حملے کے سوا کچھ نہیں۔
جارج واکر بش کے دور میں کانگریس نے القاعدہ سے جڑے ہوئے گروپس اور عراق کے خلاف فوجی کارروائیوں کی اجازت دی تھی۔ اُس اجازت ہی کو بنیاد بناکر اوباما نے شام اور یمن کے خلاف کارروائی جاری رکھی ہے۔ طاقت کے استعمال کو بہترین حل کی حیثیت سے استعمال کرنے کی ذہنیت نے ابھی دَم نہیں توڑا۔
امریکی صدر نے جون میں اس قانون کو بھی تبدیل کرنے کی بات کی، جس کے تحت عراق میں امریکی برّی فوج کو کسی بھی سطح پر متحرک کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ ’’داعش‘‘ کو بنیاد بناکر اس قانون میں ترمیم نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ اس گروپ کو القاعدہ نے کبھی کا مسترد کر دیا ہے اور جس وقت وہ قانون نافذ کیا گیا تھا تب ’’داعش‘‘ کا دور دور تک وجود نہ تھا۔
امریکا نے نائن الیون کے بعد جو اوپن اینڈیڈ پالیسی اپنائی تھی، اُس کے نتائج کے بارے میں غور کرنے کی زحمت کم ہی لوگوں نے گوارا کی ہے۔ پاکستان میں ڈرون حملے اس کی ایک واضح مثال ہیں۔ ایک طرف تو بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور دوسری طرف ان حملوں سے پاکستان کی حکومت اور عوام کے درمیان بھی بدگمانیاں بڑھ رہی ہیں۔ یہ ڈرون حملے کسی بھی باضابطہ رسمی معاہدے کے بغیر ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں ڈرون حملوں کو سراسر غیر قانونی اور اخلاقی جواز سے محروم قرار دیا جاچکا ہے۔ امریکا نے اپنے دشمنوں کو ختم کرنے کے معاملے میں جو طریقے اختیار کیے ہیں، وہ اُن طریقوں سے کسی بھی طور مختلف نہیں، جو نان اسٹیٹ ایکٹر (غیرریاستی عناصر) نے اختیار کیے ہیں۔ اس کسوٹی پر پرکھیے تو امریکا اور نان اسٹیٹ ایکٹر ایک ہی پیج پر ہیں۔
غیر روایتی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق کوئی بھی باضابطہ بین الاقوامی قانون نہ پائے جانے کا سب سے زیادہ فائدہ امریکا نے اٹھایا ہے اور جو کچھ بھی کیا ہے، اپنی مرضی کے مطابق کیا ہے۔ اپنا دفاع یقینی بنانے کے نظریے نے سبھی کچھ دھندلا دیا ہے۔ امریکا نے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے نام پر دنیا بھر میں تباہی مچائی ہے۔ مسلم دنیا ایک طویل مدت سے اُس کے نشانے پر ہے۔ کسی بھی فریق پر غیر معمولی بمباری کے نتیجے میں اگر بڑی تعداد میں شہری بھی مارے جائیں تو کوئی بات نہیں۔ ’’کولیٹرل ڈیمیج‘‘ قرار دے کر اس پورے معاملے سے انسانیت کا ہر پہلو نکال دیجیے۔
امریکا نے مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں ہمیشہ طاقت کے توازن کے حوالے سے بات کی ہے۔ اب وہ نان اسٹیٹ ایکٹر کے بارے میں یہی فکر اپناتا دکھائی دے رہا ہے۔ اپنے مفادات کے حصول کے لیے امریکا نے ہمیشہ باغیوں کو تربیت دینے یا پھر اپنے ہم نوا ممالک میں فوج کی تشکیلِ نو پر زور دیا ہے۔ افغانستان اور عراق کی مثال بہت واضح ہے۔ افغانستان میں نئی فوج کی تشکیل سے معاشرے میں تفریق کم نہیں ہوئی، بلکہ بڑھی ہے۔ عراق میں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ آج عراقی معاشرہ واضح طور پر تین حصوں میں بٹ چکا ہے۔ باغیوں کو تربیت دے کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے امریکا نے متعلقہ ممالک کے لیے کتنی خرابیاں پیدا کی ہیں، یہ اظہر من الشمس ہے۔ امریکا نے شام میں بھی فری سیرین آرمی کی حمایت کر کے معاملات کو مزید الجھایا ہے اور یہ فری آرمی باضابطہ فوج کے سامنے بہت کمزور ہے کیونکہ اِس کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خفیہ معلومات کا نظام بھی باضابطہ اور طاقتور نہیں۔ اب امریکی صدر اوباما نے طے کیا ہے کہ عراق یا شام میں زمینی افواج تعینات نہیں کی جائیں گی مگر جنرل ڈیمپسی نے اپنے آپشنز کھلے رکھے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ کسی نہ کسی مرحلے پر زمینی افواج کو بھی تعینات کرنا انتہائی ناگزیر ہوجائے گا۔ ’’داعش‘‘ کے خلاف کوئی بھی کارروائی ایران اور شام کو آن بورڈ لیے بغیر کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔ ایسا کرنے میں ناکامی سے شیعہ سُنّی اختلافات مزید وسعت اختیار کریں گے اور اس کا فائدہ سب سے زیادہ ’’داعش‘‘ کو پہنچے گا۔
وقت آگیا ہے کہ امریکا اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنی پالیسیوں کی خرابیوں پر نظر ڈالے۔ ایسا کیے بغیر وہ حالات کو درست کرنے کی کوئی بھی تدبیر سوچ سکے گا نہ اس پر عمل کرسکے گا۔
“The one constant”. (“Dawn”. Sep. 29, 2014)
Leave a Reply