
ایک زمانے سے، بلکہ پاکستان کے قیام کے بعد سے، بھارت کے مسلمانوں کو مختلف معاملات میں شدید نوعیت کی زیادتیوں کا سامنا ہے۔ اُن کے مجموعی بہبود کے بارے میں سوچنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کی گئی۔ ملک کی سب سے بڑی اور واضح اقلیت ہونے کے باوجود مسلمانوں کو بھارت میں یوں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے گویا اُن کا وجود ہی نہ ہو۔ آبادی کے اِتنے بڑے حصے کو یوں نظر انداز کرنا کسی بھی اعتبار سے کوئی قابلِ تحسین بات نہیں۔ ہندو قائدین کی عمومی روش یہ رہی ہے کہ مسلمانوں کو پریشان حال رکھا جائے، اُن کے مسائل حل نہ کیے جائیں تاکہ وہ الجھنوں کا شکار رہ کر ’’خطرہ‘‘ نہ بن سکیں۔ انتہا پسند ہندوؤں نے ووٹ بینک مضبوط بنائے رکھنے کی خاطر مسلمانوں کو ملک کے لیے ایک بڑے خطرے کے روپ میں پیش کرنے کی روش پر گامزن رہنا پسند کیا ہے۔ نریندر مودی نے رہی سہی کسر پوری کردی۔
آج پوری دنیا تبدیلیوں کی زَد میں ہے۔ کوئی بھی معاشرہ تبدیلی کے عمل سے بچ نہیں سکتا۔ کوئی بھی معاشرہ اگر اپنے تاریخی، تہذیبی اور علمی ورثے کو بچانا چاہتا ہے تو اُسے بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ بدلنا پڑے گا۔ اقدار کو بچانے کے لیے فعال ہونا پڑے گا۔ ایسا کیے بغیر چارہ نہیں۔ بھارتی معاشرے کو بھی بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں نے معاشرے کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ پہلے صرف مسلمانوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ اب تمام ہی اقلیتوں سے امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندو ازم کو ہر معاملے میں بڑھاوا دیا ہے۔ ۲۲ کروڑ سے زائد بھارتی مسلمان شدید الجھن میں ہیں۔ ملک کی ہندو آبادی کے بڑے حصے کو پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف کردیا گیا ہے۔ یہ زبردستی کی خرابی ہے، جو مسلمانوں کے مسائل بڑھانے کے لیے پیدا کی گئی ہے مگر اس کی زَد میں خود ہندو بھی آرہے ہیں۔
بھارتی مسلمانوں کے پاس جنونی ہندوؤں سے نمٹنے کے لیے مختلف آپشنز رہے ہیں۔ انتہا پسند ہندوؤں کا فلسفہ عام ہندو کی بھی سمجھ میں آتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو نظر انداز کرکے ملک کو حقیقی ترقی سے ہم کنار نہیں کیا جاسکتا۔ انتہا پسند ہندوؤں نے کئی بار اقتدار کا مزا چکھا ہے۔ اب پھر مسلسل دوسری میعاد کے لیے اقتدار اُن کے ہاتھ میں ہے۔ بھارت نے کئی عشروں کی محنت کے نتیجے میں جو کچھ حاصل کیا ہے، وہ انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں داؤ پر لگتا دکھائی دے رہا ہے۔ انتہا پسند سوچ نے عام ہندو کے لیے شدید مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ وہ بہت سے معاملات میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ شدید مخمصے کی حالت میں ہے۔
بھارتی معاشرہ کبھی پیچیدگیوں سے آزاد نہیں رہا۔ اُس کی مشکلات بڑھتی ہی رہی ہیں۔ لسانی، ثقافتی، مذہبی اور نسلی بنیاد پر پائے جانے والے تنوع نے معاملات کو کبھی درست نہیں ہونے دیا۔ بھارتی معاشرہ گوناگوں خصوصیات کا حامل ہے۔ نسلی، لسانی، ثقافتی اور مذہبی تنوع نے معاشرے کو رنگینی بخشی تھی مگر انتہا پسند ہندوؤں نے اس خصوصیت کو پیچیدگی میں تبدیل کرکے سبھی کے لیے مشکلات پیدا کردیں۔
اب سوال یہ ہے کہ بھارتی اقلیتیں کیا کریں؟ اور بالخصوص مسلمان کون سی راہ پر گامزن ہوں؟ بھارتی مسلمانوں نے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر زندگی بسر کرنے کو ترجیح دینا شروع کردی ہے۔ بھارتی مسلمانوں کی نئی نسل میں اعتماد بھی ہے اور خاصی بالغ نظری بھی۔ وہ تیزی سے علم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ دانش کا دامن تھام کر چلنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ یہی معقول ترین راستہ ہے جس پر گامزن ہوا جاسکتا ہے۔ غیر معمولی اعتماد بھارتی مسلمانوں میں پہلے سے موجود ہے۔ اس اعتماد ہی نے تو انہیں زندہ رکھا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کی شرکت نمایاں ہوتی جارہی ہے۔ عام، غیر جانبدار و غیر متعصب ہندو بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کو مرکزی دھارے سے الگ رکھ کر ملک کو حقیقی معنوں میں ترقی دی جاسکتی ہے نہ استحکام سے ہم کنار کیا جاسکتا ہے۔
بھارتی مسلمانوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ اگر انہیں بھارت میں ڈھنگ سے جینا ہے تو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہی پڑے گا۔ بدی کا جواب بدی سے دینا مسائل کا حل نہیں۔ حملوں کے جواب میں صرف حملے نہیں کیے جاسکتے۔ مشتعل ہوکر غیر متعلق اور بے قصور افراد کو نشانہ بنانے سے نفرت کا گراف محض بلند ہوتا ہے، نیچے نہیں آتا۔ بھارتی مسلمانوں کے مذہبی اور علمی سطح کے قائدین نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ انتہا پسند ہندو سوچ کا ڈھنگ سے سامنا کرنے کے لیے لازم ہے کہ عصری تقاضوں کے تحت معاملات کو معقولیت سے طے کیا جائے، نرمی اختیار کی جائے۔
ایک دور تھا کہ بھارتی مسلمان تشدد کا جواب صرف تشدد سے دینے کو بہترین طریقہ سمجھتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے تاکہ وہ بھی عام ہندوؤں کو نشانہ بنائیں اور یوں نفرت کا گراف بلند ہوتا جائے۔ انتہا پسندو ہندو ذہن کی یہ فتنہ گیری مسلمانوں نے بہت حد تک سمجھ لی ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرنے پر بھی مسلمانوں نے کہیں بھی ہندوؤں کو گھیر کر تشدد ڈھانے سے گریز کیا ہے۔ جنونی ہندوؤں کی طرف سے اُکسانے کی بیشتر کوششوں کو مسلمانوں نے بہت عمدگی سے ناکام بنایا ہے۔ مسلمانوں نے میڈیا کے ذریعے اپنی بات ڈھنگ سے کہنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ اس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی سامنے آیا ہے۔ مسلمانوں نے اپنی بات میڈیا کے ذریعے کہنے کا جو طریقہ اپنایا ہے وہ عام ہندوؤں کے نزدیک بہت مستحسن ہے۔ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ انتہا پسند ہندو مسلمانوں سمیت کم و بیش تمام ہی اقلیتوں سے امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ انتہا پسند ہندو چاہتے ہیں کہ تشدد اور زیادتی کا جواب تشدد اور زیادتی سے دیا جائے۔ ایسا ہوگا تو عام، غیر جانب دار و غیر متعصب ہندو بھی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے نفرت کرے گا۔
بھارتی مسلمانوں کی نئی نسل میں مذہب کی طرف جھکاؤ نمایاں ہے۔ یہ اچھی بات ہے کیونکہ اس صورت میں ان کی سوچ بھی متوازن رہے گی اور کردار بھی پختہ تر ہوتا جائے گا۔ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رہنے کی لگن بھی توانا تر ہوتی جارہی ہے۔ بھارت کے نوجوان مسلم مختلف علوم و فنون میں مہارت کے حصول کو ترجیح دے رہے ہیں۔ عمومی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ فنون میں مہارت کا حصول یقینی بناکر معاشی استحکام یقینی بنارہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اپنی بات دنیا تک ڈھنگ سے پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ کل تک بیشتر بھارتی مسلمان دل کی بات کہتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ چند باہمت اور دلیر مسلمان اپنی بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ آج کا عام بھارتی مسلمان غیر معمولی اعتماد کے ساتھ جینے پر یقین رکھتا ہے۔ وہ اس بات کو سمجھتا ہے کہ ڈھنگ سے جینا ہے تو اپنی بات سلیقے سے کہنا ہوگی۔ یہ بڑی مثبت تبدیلی ہے۔ جنونی ہندوؤں کی منصوبہ سازی کو ناکام بنانے پر توجہ دی جارہی ہے۔ معاشرے میں مزید تفریق اور انتشار پیدا کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے پر متوجہ ہوا جارہا ہے۔ آج بھارتی مسلمان دل کھول کر اپنی بات کہہ رہے ہیں مگر سلیقے سے۔ بڑھک مارنے کو ترجیح نہیں دی جارہی۔ اہلِ علم عام بھارتی مسلمانوں کو سکھارہے ہیں کہ ہندو اکثریت سے اپنے معاملات کس طور بہتر بنائے جاسکتے ہیں۔ مذہب کو اُس کی روح کے ساتھ اپناکر بھارتی مسلمان ہندوؤں کی غالب اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتِ حال نے ’’مین لینڈ انڈیا‘‘ کے مسلمانوں کو بھی پریشان کیا ہے۔ کشمیری مسلمانوں سے بھارتی قابض فوج کا سلوک عام بھارتی مسلمانوں کے لیے بھی تکلیف دہ ہے مگر اس نکتے کو سمجھ گئے ہیں کہ اس صورتِ حال سے تنگ آکر عام ہندوؤں سے نفرت کرنا اور اُنہیں کسی نہ کسی طور گھیر کر تشدد کا نشانہ بنانا مسئلے کا حل نہیں۔ بھارت کے باضمیر ہندو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے روا رکھا جانے والا سلوک انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ مودی سرکار نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کا باضابطہ حصہ بنانے کا اعلان کرکے عالمی برادری سے کیے ہوئے عہد و پیمان کی بھی شدید خلاف ورزی کی ہے۔ بھارت کے مسلمان اس حوالے سے شدید ذہنی تناؤ کی زَد میں ہیں۔
بھارتی مسلمانوں کا ایک بنیادی مسئلہ مرکزی قیادت کا ہے۔ مختلف ریاستوں اور علاقوں میں چند ایک سیاسی رہنما تیزی سے ابھر کر مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں مگر مجموعی طور پر جامع مرکزی قیادت ابھر نہیں پاتی۔ بھارتی مسلمانوں کو ایسی مضبوط مرکزی قیادت کی ضرورت ہے جو اپنا موقف ڈھنگ سے بیان کرنے کی اہلیت رکھتی ہو اور عام ہندو ذہن کو تیزی سے اپیل کرے اور عام مسلمانوں کو سکھائے کہ معاشرے کو مکمل طور پر اپناکر ہی اپنی بات ڈھنگ سے کہی جاسکتی ہے۔ مرکزی دھارے سے الگ لے جانے والی قیادت کو خیرباد کہنے ہی میں عافیت ہے۔ جہاں تنہا کھڑے ہونے والے مسلم قائدین اپنی جوشیلی اور بھڑکیلی تقریروں سے مسلمانوں کو کچھ دیر کے لیے اکسا ضرور سکتے ہیں، انہیں سیدھا راستہ نہیں دکھا سکتے۔ اس کے لیے بالغ نظر مرکزی قیادت ناگزیر ہے۔
Leave a Reply