
مئی ۲۰۱۴ء میں ہونے والے بھارتی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی واضح کامیابی جہاں نئے حالات کی صورت گری کرتی ہے، وہیں انتخابی نتائج کئی حوالوں سے بھارت کی ایک دوسری تصویر بھی پیش کرتے ہیں۔
سادہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کا حکومت بنانا انتخابی نظام کی بنیادی خامی ہے۔ جیتنے والا امیدوارعموما مجموعی طور پر ڈالے گئے ووٹوں میں سے کم ووٹ حاصل کرتا ہے، جب کہ ہارنے والے امیدوار مجموعی طور پر زیادہ ووٹ لیتے ہیں، لیکن پھر بھی سادہ اکثریت حاصل کرنے والا امیدوار اُن لوگوں کی بھی نمائندگی کرتا ہے جنہوں نے جیتنے والے کے خلاف یا اُس کی پارٹی اور پالیسیوں کے خلاف ووٹ دیا ہوتا ہے۔ حقیقی معنوں میں قانون ساز اداروں میں ووٹروں کی رائے کی عکاسی اُس وقت ہوتی ہے جب جیتنے والا امیدوار مجموعی ووٹوں کا ۵۱ فیصد یا مجموعی طور پر ڈالے گئے ووٹوں کی اکثریت لے کر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر پارلیمان میں اپنی اکثریت ثابت کرتا ہے۔ قانون ساز اداروں میں ووٹروں کی حقیقی نمائندگی یقینی بنانے کے لیے دنیا بھر میں ۳۰سے زائد ممالک میں لازمی ووٹ ڈالنے کا طریقہ بھی رائج ہے۔
بھارت میں گزشتہ ساٹھ سالوں کے مقابلے میں ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب سب سے زیادہ رہا۔ ۸۱ کروڑ ۴۰ لاکھ ووٹروں میں سے ۵۳ کروڑ ۷۰ لاکھ ووٹروں نے ان انتخابات میں ووٹ ڈالا۔ یہ تعداد کل رجسٹرڈ ووٹوں کی ۴۸ء ۶۶ فیصد ہے۔مجموعی طور پر ڈالے گئے ووٹوں میں بی جے پی کے تمام امیدواروں کامشترکہ حصہ مجموعی طور پرڈالے گئے ووٹوں کا ۳۱ فیصدرہا، یعنی ہر ۳ میں سے صرف ایک ووٹر نے بی جے پی کو ووٹ دیا۔
لوک سبھا کی کل ۵۴۳میں سے ۲۸۲ نشستیں حاصل کرنے یا ۳۱ فیصد ووٹوں کے ساتھ تقریبا ۵۱ فیصد نشستیں جیتنے کی وجہ سے بی جے پی نے لوک سبھا میں واضح اکثریت حاصل کی۔ ۸۱ کروڑ ۴۰ لاکھ مجموعی ووٹروں میں سے ۲۷ کروڑ ۷۰ لاکھ ووٹروں نے کسی وجہ سے ان انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالا، جب کہ ۵۳ کروڑ ۷۰ لاکھ ووٹروں میں سے ۱۷ کروڑ ۱۶؍ لاکھ ۵۷ ہزار ۵۴۹ لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ ڈالاجو کہ کل رجسٹرڈ ووٹوں کا تقریباً ۲۱ فیصد ہے۔
اگر بی جے پی کی اتحادی جماعت شیوسینا کے ووٹوں کاجائزہ لیا جائے تو اُس نے ۱۸ نشستوں کے ساتھ مجموعی طور پر ڈالے گئے ووٹوںمیں سے ۹ء۱؍ فیصدووٹ حاصل کیے۔ اسی طرح بھارتی نوجوانوں کی بڑی اکثریت نے یا تو بی جے پی اور نریندرمودی کے خلاف ووٹ دیا، یا پھر کسی بھی جماعت یا امیدوار کے حق میں ووٹ استعمال نہیں کیا۔ دریں اثنا کانگریس نے مجموعی طور پر ڈالے گئے ووٹوںمیں سے ۱۹ فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود صرف ۴۴ نشستیں حاصل کیں، لیکن اگر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر فیصلہ ہونا ہوتا تو کانگریس کو ۱۰۳ نشستیں ملتیں۔
نئی لوک سبھا میں ۳۵ سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے ۔ ان میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹیاں بھی ہیں اورایک متنوع آبادی کے حامل ملک کی عکاسی کرنے والی جماعتیں بھی۔ حیدرآباد میں موجود آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کا ایک ہی نمائندہ ہے۔ مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس کی ۳۴ نشستیں ہیں۔بی جے پی کے ظاہری غلبے کو روکنے کے لیے پارلیمان میں اور بھی چھوٹی اور درمیانے قد کی جماعتیں موجود ہیں۔
جب انتخابی نتائج کا تجزیہ صوبوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے تو بھارتی انتخابی نقشے کا تنوع اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے۔ بھارت کے جنوبی حصے میں سوائے کرناٹک کے بی جے پی خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکی۔ کرناٹک میں تو وہ ۲۸ میں سے ۱۷نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی لیکن کیرالہ اور تامل ناڈو کی بالترتیب ۲۰؍ اور ۳۹ نشستوں میں سے ایک نشست بھی بی جے پی نہ جیت سکی۔ آندھرا پردیش کے ۴۲؍ انتخابی حلقوں میں سے صرف تین حلقوں میں بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوئے ۔ اگرچہ گوا شہر کی دونوں نشستیں بی جے پی نے جیت لیں تاہم مشرقی ساحلی شہر پدچیرری کی واحد نشست پر آل انڈیا این آر کانگریس نے کامیابی حاصل کی۔
بھارت میں کمزور پڑتی بائیں بازو کی جماعتوں کو اپنی اصلاح اور احیا میں شاید کئی سال لگیں، تاہم دائیں بازو کی جماعت بی جے پی واضح اکثریت کے ساتھ لوک سبھا میں موجود ہے۔ اتحادیوں کو ساتھ ملا کر بی جے پی کو قانون سازی اور با اختیار رہ کر حکومت کرنے کا طاقتور مینڈیٹ حاصل ہوگیا ہے۔ اگر چہ پارٹی کی ترجیح اول اقتصادی ترقی بتائی جاتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوانتہا پسند جماعتوں، راشٹریہ سیوک سنگھ، بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کے پہلے ہی بی جے پی میں گہرے اثرات موجود ہیں۔ان اثرات کے باعث بی جے پی کااپنا ایجنڈا بھی ہندو مذہب اور ہندو طرز زندگی کو بزور نافذ کرنے کے ایجنڈے میں بدل گیا ہے۔
اب ووٹروں کے انگوٹھوں کی سیاہی تو غائب ہوچکی ہے، لیکن ۲۰۰۲ء میں گجرات میں ہو نے والے قتل عام میں مارے گئے لوگوں کے خون کی لالی تاحال انمٹ ہے۔ جزوی طور پر اس لیے کہ ۱۲ سال گزر جانے کے باوجود اس واقعہ پر کوئی ندامت نہیں ہے۔ اسی طرح ان قوانین اور پالیسیوں کا بھی خطرہ موجود ہے جو سیکولر ازم کو کمزور کردیں گی۔ غیر ہندوئوں سے امتیازی سلوک ہوگا اور جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت تبدیل کرکے متنازعہ علاقے کو جبراً بھارت کا حصہ بنانے کا عمل تیزکردیاجائے گا۔
توقع ہے کہ ۸۰ فیصد بھارتی، جنہوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا، اعلیٰ عدلیہ سمیت دیگر ریاستی ادارے، سول سوسائٹی اور ذرائع ابلاغ کے چند حلقے پارلیمان میں موجود حزب اختلاف کے ساتھ مل کربی جے پی کے متنازعہ فرقہ وارانہ اقدامات کا راستہ روکیں گے۔
نو منتخب وزیراعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ انتخابات کے نتائج ایک ارب ۲۵ کروڑ بھارتیوں کا فیصلہ ہے۔ اپنے آپ کو محض اپنے ووٹروں کا نہیں بلکہ پورے بھارت کی حکومت کا سربراہ کہلوائے جانے کی لائق تحسین خواہش کی تکمیل پر نو منتخب وزیر اعظم کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کو ملنے والا مینڈیٹ محدود ہے نہ کہ بلینک چیک۔
خوش قسمتی سے، خاص طور پر بھارت کے پڑوسی ممالک کے لیے، حقیقت یہ ہے کہ یہاں ایک دوسرا بھارت ہے۔ یہ بھارت زیادہ بڑا ہے، زیادہ متنوع ہے اور زیادہ پیچیدہ ہے، بہ نسبت اثر انداز ہونے والے بھارت سے۔ اس دوسرے بھارت نے فیصلہ کن انداز میں اور پورے عزم کے ساتھ نریندر مودی یا بی جے پی یا مذہبی انتہا پسندی کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ جس سے یہ امید ملتی ہے کہ اگلے پانچ سے دس سالوں میں اس دوسرے اور اصلی بھارت کی صفات اپنی حکومت کے داخلی اور خارجی طرزِ عمل کو اعتدال میں رکھے گی۔
مضمون نگار پاکستان میں سینیٹ کے رکن اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔
“The other India”. (“The News”. May 24, 2014)
Leave a Reply