
سماجی، معاشی اور سیاسی سطح پر ان تمام مسائل اور مشکلات کے باوجود جن کا پاکستان کو سامنا رہتا ہے، یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ بین الاقوامی شہرت رکھنے والے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ ملک کی حالت اس کے بارے میں عالمی سطح پر بننے والے تاثر اور درجہ بندیوں کے برعکس بہتر نظر آتی ہے۔
قطع نظر اس کے کہ ملک میں کس کی حکومت قائم تھی، پاکستان نے ہمیشہ مشکل وقت اور بحرانوں کے دوران لچکدار اور سخت جان ہونے کا مظاہرہ کیا ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ ہو، زلزلہ اور سیلاب کے اوقات ہوں، ۲۰۰۸ء کا عالمی مالیاتی بحران ہو یا پھر موجودہ کورونا کا وبائی مرحلہ، ہر امتحان میں پاکستان نے اپنی کارکردگی سے دنیا کو اور خود کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈالا ہے۔ اس کے متعلق تاریخی تناظر غیر مستحکم اور پیش گوئیاں اونچ نیچ کا شکار رہی ہیں۔ ایک ایسا وقت بھی تھا جب پاکستان کو ’ناکام ریاست‘ کہا گیا، پھر چند ہی برسوں بعد اسے تیزی سے ترقی کرتی اقوام میں شمار کیا جانے لگا۔ شہریوں نے متعدد شدید بحرانوں کا سامنا کیا اور حکومتیں بھی گرائی جاتی رہیں، تاہم ملک انتہائی حالت میں جانے سے بچا رہا اور معیشت کبھی مکمل طور پہ تباہ نہیں ہوئی۔
حکومتی پالیسیوں اور خراب معاشی ڈھانچے کے سخت نقاد بھی اس وقت حیران رہ جاتے ہیں، جب عالمی اعدادوشمار کے اشاریوں میں پاکستان کو عراق، یمن اور افغانستان کے ساتھ نچلے درجے میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے عالمی سطح پر ’استحکام کی صلاحیت رکھنے والے مسابقتی اشاریے‘ میں پاکستان کو ۱۸۰ ممالک کی فہرست میں ۱۷۴؍ویں نمبر پر رکھا گیا تھا، افغانستان کے علاوہ اپنے تمام پڑوسی اور ہم پلہ ملکوں سے بہت پیچھے بھارت ۱۲۷ درجے پر تھا، چین ۳۹ ویں نمبر پر، بنگلادیش ۱۱۵ پر، سری لنکا ۸۶ نمبر پر، نیپال کا ۵۳ واں درجہ تھا، بھوٹان ۱۵۵ پر، ایران درجہ بندی میں ۹۳ نمبر پر، ترکی ۸۴ پر، ویتنام کا درجہ ۹۱ تھا، انڈونیشیا ۶۸ ویں پر، برازیل ۵۴ پر، اور ملائیشیا کا نمبر ۷۳ واں ہے۔
’’ہمارے مزدور اور ورکنگ کلاس توقعات تو بہت رکھتے ہیں، لیکن ان میں مہارتوں اور نظم وضبط کی کمی ہے‘‘۔
مذکورہ بالا اشاریہ سوئٹزرلینڈ اور جنوبی کوریا سے وابستہ ایک مشترکہ کمپنی نے ترتیب دیا ہے، جس کا نام SolAbility ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ ممالک کے مابین مسابقتی اہلیت رکھنے کی درجہ بندی میں ۱۱۶؍امور کا جائزہ لیتی ہے جن کی بنیاد وہ اشاریے ہوتے ہیں جو عالمی بینک، آئی ایم ایف اور اقوام متحدہ کی تنظیموں سے لیے جاتے ہیں۔ ان تمام اشاریوں کی پانچ ذیلی اشاریوں میں تقسیم کی جاتی ہے جو یہ ہیں: ملک میں قدرتی سرمائے کا وجود، وسائل کے مؤثر و کارگر ہونے کی نوعیت، علمی معیشت اور فکری سرمائے کی نوعیت، حکومتی کارکردگی اور سماجی ہم آہنگی۔
یہ تھنک ٹینک ’قابل استحکام مسابقت کی اہلیت‘ (Competitiveness Sustainable) کا مفہوم اس طرح بیان کرتا ہے: ملک میں پائی جانے والی ایسی صلاحیت کہ جس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ موجودہ مشکل حالت میں اقوام کے ساتھ ترقی کی مسابقت اور اس میں کامیابی کے امکان کو باقی رکھتی ہے، بلکہ طویل مدتی دوڑ میں بھی اس کی سانس بحال رکھتی ہے۔ تھنک ٹینک کے اپنے الفاظ میں: ’’قابلِ استحکام مسابقت کا مطلب ایسی صلاحیت کا پایا جانا ہے جو پالیسی سازی، ضوابط، انتظامی ذرائع اور منصوبہ بند وژن کے تناظر میں ایک ایسے جامع فریم ورک کی تشکیل کرسکے جو کسی کمپنی، شعبے، فرد یا پورے ملک کے لیے وہ راہ ہموار کردے جس کے تحت دولت کی پیداوار اور معیار زندگی کو بلند کرنے کا عمل ممکن ہوسکے، اور یہ بھی کہ مستقبل میں بھی یہ اہلیت برقرار رہے‘‘۔
SolAbility تھنک ٹینک ممالک میں ترقی کے معیار کو ۱۲؍اشاریوں پر پرکھتا ہے، جو یہ ہیں: عالمی ماحولیاتی ٹیکس کی ادائیگی، بہتر جمہوریت، اچھی حکومتی کارکردگی، حقیقی کاروباری معیشت، معیاری تعلیم، بہتر مالیاتی منڈی، صحت اور سوشل سکیورٹی، قابل رسائی معتبر عدالتی نظام، انفرادی ٹیکس کی ادائیگی کا ڈھانچا، حقائق پر مبنی غیرجانبدارانہ معلومات تک رسائی، مذہبی آزادی، اور برابری کے حقوق۔
اس تھنک ٹینک کی درجہ بندی پر بات چیت کرنے کے لیے ہم نے کئی جگہ رابطہ کیا، تاکہ جان سکیں کہ وہ کیا رائے دیتے ہیں۔ مگر حکومتی شخصیات نے ہچکچاہٹ دکھائی، کاروباری حضرات ٹال مٹول کرتے رہے اور معاشی ماہرین اس پر کنفیوژ نظر آئے۔
اعدادوشمار کے کھیل سے ماورا ہر سماج کی اپنی حساس باریکیاں موجود ہوتی ہیں جنہیں tick-box ماڈلز پر نہیں پرکھا جاسکتا۔
وزیر برائے صنعت حماد اظہر اور وفاقی سیکرٹری لطیف افضل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مصروفیت کی بنا پر اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کردیا۔ وزارتِ صنعت کے اعلیٰ اہلکار سعید نواز نے اس اشاریے میں پاکستان کی منفی تاثر کی حامل نچلی درجہ بندی کو ایک حد تک تو پاکستان مخالف متعصب عنصر کا شاخسانہ قرار دیا۔ تاہم انہوں نے صنعت کے شعبے میں قلیل پیداوار اور کم مسابقتی اہلیت کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس کی جڑیں کم خواندگی اور تعلیمی نظام کے مرکزی دھارے میں ہنر کی مہارت اور ٹیکنیکل تعلیم میں عدم توجہ میں مضمر ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس حوالے سے خلا کی اولین ذمہ داری معاشرے پر عائد ہوتی ہے، نہ کہ پالیسیوں پر۔ ’’ہمارا مزدور اور ورکنگ کلاس حلقہ توقعات تو بہت وابستہ رکھتا ہے لیکن ان میں مہارتوں اور نظم وضبط کی کمی ہے‘‘۔
ایک نامور ماہر معیشت نے نجی طور پہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکومت کاروباری حلقے کی جھولی میں ہمیشہ بہت زیادہ آسانیاں پیش کرتی اور انہیں خطیر فوائد فراہم کرتی ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ ملک کا نجی کاروباری شعبہ ایجادات کے شعبے اور پیداوار میں اضافے کے نئے انصرام کی عالمی مسابقتی دوڑ میں آگے نہیں جاسکا۔ ’’میں ملک کے موجودہ نمایاں اور بڑے کاروباری حلقے کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنے اس کمفرٹ زون سے نکل کر پاکستان سے باہر کہیں کاروبار کریں اور کامیاب ہوکے دکھائیں۔ مجھے یقین ہے کہ سرپرستی کے بغیر عالمی مارکیٹ میں وہ کوئی مقام نہیں بناسکیں گے‘‘۔
’’دنیا میں کہاں ایسا ہوتا ہے کہ عین دن کے اوقات میں کاروباری شخصیات گولف کھیلنے میں مصروف رہتی ہوں؟‘‘ ان کے مطابق پاکستان کا موجودہ تجارتی فریم ورک انہیں اس بات کی آسائش دیتا ہے کہ وہ زیاہ محنت کیے بغیر اپنی دولت میں اضافہ کرتے جائیں۔
انہوں نے متعدد اشاریوں کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے اور معیشت جیسے پیچیدہ عناصر کو محض کسی میکانکی اصول پر ناپنے کے گمراہ کن نتائج ہوسکتے ہیں۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں انجم نثار نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ پبلک پالیسیوں کے اندر صنعتی کارکردگی میں بہتری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح کی مسابقتی دوڑ میں پاکستان کا نام روشن ہوسکے اور ترقی کے بین الاقوامی اشاریوں میں بہتر درجہ بندی حاصل کرنا ممکن ہوسکے۔
(ترجمہ: شفیق منصور)
(بحوالہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ ۲۱ دسمبر ۲۰۲۰ء)
Leave a Reply