
ذرا ۲۰۲۰ء میں پیچھے چلتے ہیں۔ عرب لیگ زمین کے بدلے امن اقدام کی توثیق کرتی ہے۔ مرحوم فلسطینی صدر یاسر عرفات ٹی وی پر براہ راست قریب قریب چِلّاتے ہوئے سنے جاسکتے ہیں: ’’شہید، شہید، شہید‘‘۔ وہ اس وقت رام اللہ میں اسرائیلی فوج کے محاصرے میں تھے اور اپنے کمرۂ استراحت سے بول رہے تھے۔
تب مغربی صحافی لبنان میں مہاجر کیمپوں میں کود پڑے تھے تاکہ وہ عرب لیگ کے سربراہ اجلاس کی کوریج میں اپنا اپنا رنگ ڈال سکیں۔ میں اس وقت ان کے ترجمان کا کردار ادا کررہا تھا اور بتا رہا تھا کہ فلسطینی دنیا کو کیا بتانا چاہتے ہیں۔
انہیں بڑی چابیاں اور گھروں کے عثمانی عنوانات دکھانے کے بعد فلسطین میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ پھر مہاجرین نے اپنی آخری سانسوں تک حقِ واپسی کے لیے لڑنے کی قسم کھائی لیکن جب کیمرے بند ہوئے تو ان میں سے ایک مجھے ایک طرف لے گیا اور یوں گویا ہوا: ’’میری بیٹی جرمنی میں رہ رہی ہے۔ شاید تمہارے صحافی دوست مجھے میری بیٹی تک پہنچانے میں کوئی مدد کرسکیں‘‘۔
لبنان میں پلا بڑھا ہونے کے ناتے، جہاں فلسطینیوں کا سب سے بڑا مطالبہ معمول کا پُرامن حل ہوتا، میں یہ سُن کر ہکّا بکّا رہ گیا۔ میرے مہاجر فلسطینی دوست لڑنا چاہتے تھے لیکن صرف کیمرے کے سامنے۔ حقیقی زندگی میں، ہم سب کی طرح وہ ایک شائستہ زندگی چاہتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ میں جب جب فلسطینیوں سے ملتا رہا ہوں تو انھوں نے اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ان کی واضح نظر اپنے مفادات پر ہوتی ہے، نہ کہ خالی خولی قومی نعروں پر۔
۲۰۰۷ء میں جب سلام فیاض کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیراعظم نامزد کیا گیا تو اس کے بعد ان فلسطینیوں نے ایک وقفہ لیا تھا اور یہ منظرنامے پر ’’فیاض ازم‘‘ کا نتیجہ تھا۔ ان کی سلسلہ وار اصلاحات سے اقتصادی ترقی ہوئی۔ یہ فلسطینیوں کی اب تک کی سب سے بہترین حکومت رہی ہے لیکن انتخابات کی عدم موجودگی اور سلام فیاض کے پیچھے کوئی اتحاد کارفرما نہ ہونے کی وجہ سے فتح تحریک اور حماس نے انھیں نکال باہر کرنے کے لیے سازش کی اور حسبِ معمول کرپٹ انداز میں حکومت کے پیچھے لگ گئے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا امن منصوبہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس میں فلسطینیوں کے حقیقی مسئلے سے پہلوتہی کی گئی ہے۔ کیا انھیں اس منصوبے کو قبول کر لینا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انھیں فلسطینی سرزمین کا صرف ۱۵؍ فیصد ہی ملے گا۔ ان کی ریاست بمشکل ہی خودمختار ہوگی اور آزاد تو بالکل بھی نہیں۔
فلسطینیوں کی تشویش اور تحفظات جواز کے حامل ہیں۔ اگر آج کی دنیامیں اقتصادی ترقی اور نشوونما کے لیے اراضی پیشگی بنیادی ضرورت ہے تو شاید ایک صدی قبل جب فلسطین اسرائیل تنازع پہلی مرتبہ پیدا ہوا تھا تو اس وقت بھی یہی معاملہ تھا اور اس کے بعد آنے والے عشروں میں بھی یہی معاملہ رہا ہے۔
مگرعالمگیریت نے زراعتی اور صنعتی شعبوں کو چھوٹے ممالک بشمول اسرائیل سے دیس نکالا دے دیا ہے اور ان ممالک کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی معیشتوں کو ایشیائی شیروں (ایشین ٹائیگرز) سنگاپور اور ہانگ کانگ کے نمونے پر استوار کریں۔ مشرقِ اوسط میں دبئی اور ابوظہبی نے اس ماڈل کو اپنایا اور شاندار کامیابی حاصل کی ہے اور سعودی عرب بھی اپنے وژن ۲۰۳۰ء کے تحت اسی نمونے پر عمل پیرا ہے۔
صدر ٹرمپ کے ویژن میں کوئی زیادہ تفصیل بیان نہیں کی گئی ہے۔ فلسطینی اس کے تحت شاید غرب اردن کے اے اور بی علاقوں کا کنٹرول حاصل کریں گے۔ ۱۹۹۳ء کے اوسلو معاہدے میں کچھ ایسا ہی خاکہ بیان کیا گیا ہے۔ ان دونوں زون کا مل کر کل رقبہ ۲۲۵۶ مربع کلومیٹر بنتا ہے۔ یعنی غرب اردن کے کل ۵۶۴۰ مربع کلومیٹر کا کوئی ۴۰ فیصد۔ اس میں مشرقی القدس کا علاقہ بھی شامل ہے۔ غرب اردن کے اس علاقے میں ۲۸ لاکھ افراد آباد ہیں یا یوں کہہ لیں ۹۷فیصد فلسطینی ہیں۔ غربِ اردن کا باقی علاقہ ’سی‘ کہلاتا ہے اور متنازع ہے۔ کسی بھی حل کی صورت میں اس علاقے میں شاہراہوں اور سرنگوں کا ایک جال ہوگا۔ اس سے فلسطینی ریاست کو مربوط ہونا چاہیے۔ فلسطینی ریاست کو غزہ کی پٹی کا مختصر مگر دنیا کا سب سے گنجان آباد علاقہ بھی حاصل ہوگا۔ یہاں اس وقت ۳۶۹ مربع کلومیٹر کے رقبے میں ۱۹؍لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔فلسطین میں ساڑھے تین لاکھ یروشلمی بھی شامل ہوں گے۔ اس شہر کے ساتھ اس کے شمال مشرق میں واقع علاقے بھی فلسطینی ریاست کا حصہ ہوں گے۔
یوں صدر ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق فلسطینی ریاست کا کل رقبہ قریباً تین ہزار مربع کلومیٹر ہوگا اور اس کی آبادی ۵۰ لاکھ نفوس کے لگ بھگ ہوگی۔
اگر ایشیائی ٹائیگر معیشتوں سے موازنہ کیا جائے تو فلسطین سنگاپور سے پانچ گنا اور ہانگ کانگ سے تین گنا بڑا ہوگا۔ فلسطین ۵۰ لاکھ آبادی کے ساتھ سنگاپور سے کم گنجان آباد ہوگا۔ اس کی آبادی ۵۶ لاکھ ہے۔ ہانگ کانگ کی آبادی ۷۴ لاکھ ہے۔ وہ مستقبل کے فلسطین سے زیادہ چھوٹے اور زیادہ گنجان آباد ہیں مگر سنگاپور اور ہانگ کانگ کی موجودہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) بالترتیب ۳۴۰؍ارب ڈالر اور ۳۵۰؍ارب ڈالر ہے۔ان کے مقابلے میں فلسطینی علاقوں کی جی ڈی پی بہت تھوڑی ہے اور ۱۵؍ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔
کیا فلسطینیوں کو اس ڈیل میں اظہارِ دلچسپی کرنا چاہیے؟ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ۵۰؍ارب ڈالر کی موعودہ معاشی امداد میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس سے فلسطینیوں کو تیز رفتار اقتصادی ترقی کا ایک عشرہ حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے ملازمتوں کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ فلسطینیوں کو اچھی آمدن اور خوشحالی حاصل ہوسکتی ہے۔یہ سب کچھ خود مختاری اور اپنی زیادہ تر اراضی سے دستبرداری کی قیمت پر ہوگا۔
لیکن اگر خودمختاری کی کوئی قدر وقیمت ہے تو یہ لبنان جیسے ملک کو مکمل خود مختار اور خوشحال بنا چکی ہوتی۔ اس کے بجائے لبنان ٹوٹ رہا ہے، اس کی معیشت زبوں حال ہے، کرنسی روز بروز اپنی قدر کھو رہی ہے اور اس کے لوگ غربت کا شکار ہورہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے امن منصوبے میں فلسطینیوں کے ساتھ گزشتہ ایک صدی کے دوران میں ہونے والی تمام ناانصافیوں کو نظرانداز کیا گیا ہے لیکن یہ انہیں ایک واضح انتخاب بھی دیتا ہے۔ وہ یہ کہ کیا وہ دبئی طرز کی ایک خود مختار (خوشحال) ریاست چاہتے ہیں یا وہ ایک ایسا خود مختار ملک چاہتے ہیں جو لبنان جیسا دِکھتا ہو؟
حسین عبدالحسین ایک عراقی، لبنانی کالم نگار اور لکھاری ہیں۔وہ کویتی روزنامہ الرائے کے واشنگٹن میں بیورو چیف ہیں۔
(بحوالہ: ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘۔ ۵ فروری ۲۰۲۰ء)
Leave a Reply