
امریکی صدر براک اوباما نے نومبر ۲۰۱۰ء میں جب بھارت کا دورہ کیا تو ممبئی میں کالج کے طلبا و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت عالمی معیشت میں ابھر نہیں رہا بلکہ ابھر چکا ہے۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہ تھی کیونکہ دنیا بھر کے ماہرین معاشیات یہ بات کہہ رہے تھے اور اس حوالے سے بہت سی کتابیں بھی دستیاب تھیں۔
۱۹۹۰ء کے عشرے کے اوائل میں بھارتی معیشت کو مختلف پابندیوں اور حدود سے آزاد کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں معاشی نمو کی رفتار تیز ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے معاشی نمو کی شرح آٹھ فیصد تک جاپہنچی۔ ایک موقع پر صاف دکھائی دینے لگا کہ بھارت بھی ایک بڑی اقتصادی قوت بن کر ابھرنے والا ہے۔ بھارت اور چین کو ایک ہی صف میں رکھا جانے لگا۔ اس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ بھارتی معیشت کی غیر معمولی نمو نے معاشرے کے ہر فرد کو بہتر زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا مگر اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ڈھائی عشروں کے دوران بھارت میں غیر معمولی شرح نمو کے نتیجے میں ایک ایسی مڈل کلاس ابھر چکی ہے جو بہتر زندگی بسر کر رہی ہے اور اپنا معیار زندگی مزید بلند کرنے کی طرف مائل ہے۔
تین سال قبل اچانک بہت کچھ بدل گیا۔ بھارتی معیشت کی غیر معمولی نمو کا سلسلہ تھم سا گیا۔ جب یہ ہوا تو شور اٹھا کہ ناکامی کے عوامل تلاش کیے جائیں۔ قربانی کے بکرے تلاش کیے جانے لگے۔ عالمی سطح پر رونما ہونے والے معاشی اور مالیاتی بحران کو بھی بھارتی معیشت کی خرابی کے لیے ایک حد تک ذمہ دار قرار دیا گیا۔ کانگریس اور اس کے اتحادیوں کے کرپشن اسکینڈلز نے بھی قومی معیشت پر بُرا اثر ڈالا۔ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ مگر خیر، یہ سب کچھ تو ایک بہت بڑے معمے کے چند حصے ہیں۔ بھارتی معیشت میں خرابیاں ایک طویل مدت سے موجود ہیں جو ظاہر نہیں ہو پارہی تھیں۔ اب اچانک ابھر کر سامنے آگئی ہیں۔ ملک کی معیشت اور معاشرت کو شدید نقصان پہنچانے والے عوامل ایک طویل مدت سے فعال ہیں مگر ان کی طرف کسی کی نظر جاتی نہیں تھی۔
چالیس سال سے وہ بنیادی تصور فضا میں تحلیل ہوتا جارہا ہے جس پر جمہوریت اور سیکولر ازم کی بنیاد تھی۔ یہ تصور تھا معیشت کو رفتہ رفتہ آزاد کیے جانے کا۔ بھارت کی معیشت ایک طویل مدت تک مکمل طور پر سرکاری کنٹرول میں رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی پوری کوشش رہی ہے کہ معیشت کو زیادہ سے زیادہ مٹھی میں رکھا جائے تاکہ کوئی بھی شعبہ من مانی نہ کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ معیشت کو آزاد بنانے سے بہت پہلے بھارت کو نظریات کے محاذ پر کچھ کرنا تھا۔ بھارت کی نظریاتی شناخت کو مستحکم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت خواہ کسی بھی طرز کی ہو اور معیشت کو خواہ کیسے ہی خطوط پر چلایا جارہا ہو، جب کبھی عوام کی خواہشات اور امنگوں کو نظر انداز کیا گیا ہے، قومی سطح پر عدم اطمینان ہی پیدا ہوا ہے اور جب بھی عوام شدید عدم اطمینان محسوس کرتے ہیں تب سیاست دان اپنی دکان چمکانے میدان میں آ جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر قوم پرستی کو بہانہ بناکر سیاست دان اپنی مرضی کی رائے عامہ پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ نسلی، لسانی یا ثقافتی بنیاد پر قوم پرستی کو فروغ دے کر سیاست دان اپنے مقاصد زیادہ آسانی سے حاصل کرلیتے ہیں۔ اس صورت حال کے نتیجے میں عوام شدید اشتعال کے عالم میں رہتے ہیں۔ یوں ملک کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچتا ہے۔ جب کوئی حقیقی آئیڈیا سامنے نہ ہو تو عوام کے جذبات سے کھیل کر کامیابی حاصل کرنا آسان ترین راستہ ہوتا ہے۔
مئی ۲۰۱۴ء میں یہی ہوا۔ عوام نے کانگریس سے بدظن ہوکر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو بھرپور مینڈیٹ دیا تاکہ وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کرسکے اور اس کے پاس یہ جواز نہ ہو کہ اس کے پاس تو کوئی اختیار تھا ہی نہیں۔ بہت سے مبصرین کے نزدیک کانگریس کا زوال انقلاب سے کم نہ تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کی کارکردگی سے بددل ہوکر لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ دیے۔ یہ کوئی انقلاب نہیں تھا بلکہ محض جذباتیت تھی۔ عوام نے اپنا موڈ بدل لیا تو حکمراں جماعت بدل گئی۔
بھارت میں آگے بڑھنے اور کچھ کر دکھانے کی بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہے۔ دس کروڑ سے زائد افراد انگریزی بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فی زمانہ سفارت کاری اور تجارت میں انگریزی بولنے کی مہارت کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ بھارت کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بھی خوش کن حد تک زیادہ ہے۔ ۲۰۲۰ء تک بھارت میں اوسط عمر ۲۹ سال ہوگی۔ یعنی ضرورت کے مطابق توانا افرادی قوت موجود ہے۔ بھارت کے آجروں نے عالمی منڈی میں اپنی پوزیشن مستحکم کرلی ہے۔ انہوں نے کئی شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھرپور انداز سے منوایا ہے۔ عسکری اعتبار سے بھی بھارت کم تر نہیں۔ دس لاکھ نفوس پر مشتمل فوج ہے اور ان کی معاونت کے لیے نیوکلیئر ڈیٹرنٹ بھی ہے۔
اس وقت بھارت کو شدید نظریاتی خلا کا سامنا ہے۔ تنگ نظری پر مبنی سیاست نے اب تک بھارت کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ بہت سے غیر اہم معاملات کو جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کرکے ووٹ حاصل کرنے کی روش پر سیاست دان اب تک گامزن ہیں۔ محدود سوچ کے نتیجے میں سیاست بھی محدود ہوگئی ہے۔ عشروں کے دوران پنپنے والے نظریاتی انحطاط کو راتوں رات ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس نظریاتی خلا نے نریندر مودی کی بھرپور کامیابی کی راہ ہموار کی۔ بھارت کے لیے نریندر مودی اصل خطرہ نہیں ہیں۔ اصل خطرہ تو نظریاتی انحطاط کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خلا ہے۔
۱۹۴۷ء میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد پنڈت جواہر لعل نہرو اور ان کے ساتھیوں نے بھارت کو سوشل ازم کی راہ پر ڈال دیا۔ جاگیرداری ختم کرکے صنعتی بنیاد مضبوط کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ نظریاتی طور پر سرد جنگ سے الگ تھلگ رہتے ہوئے کام کرنے کو ترجیح دی گئی۔ معیشت کو مضبوط کرنے پر زیادہ دھیان دیا گیا۔ نہرو اور ان کے ساتھیوں کی بھرپور کوشش یہ تھی کہ ملک کو مجموعی طور پر سوشلسٹ رکھا جائے تاہم چند ایک معاملات میں لبرل اکانومی کو بھی اپنایا جائے۔
بی جے پی کی مادر تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے کانگریس کے سوشل ازم اور سیکولر ازم کے ماڈل کو ترک کرکے ہندو قوم پرستی کا ماڈل اپنایا۔ آر ایس ایس کا مطالبہ یہ رہا ہے کہ غیر لچک دار خارجہ پالیسی اپنائی جائے، بالخصوص پاکستان سمیت ان تمام ممالک کے حوالے سے جن سے تعلقات مخاصمانہ رہے ہیں۔ نہرو نے ۱۹۵۲ء کے بعد سے انتقال تک ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ اس دوران انہوں نے ملک کو سیکولر شناخت دینے اور سوشلسٹ ماڈل اپنانے پر خاص توجہ دی۔
نہرو اور ان کے ساتھی سوشلسٹ اپروچ اپناکر امیر اور غریب کے فرق کو کم رکھنے میں کامیاب ہوئے مگر بیورو کریسی کو وہ بھی لگام نہ دے سکے۔ سرکاری مشینری دن بہ دن بھاری ہوتی چلی گئی۔ سرکاری نوکری کے حصول کی خواہش نے غریبوں کو سرکاری مشینری کی طرف دیکھتے رہنے پر مجبور کیا۔ عمر بھر کی ملازمت اور مراعات سبھی کے لیے پرکشش تھیں۔ ڈیموکریٹک سوشل ازم کے اس چہرے کو معروف امریکی ماہر معاشیات اور بھارت میں سابق امریکی سفیر کینتھ گلبریتھ نے پوسٹ آفس سوشل ازم قرار دیا۔ مرکزی حکومت نے پدرانہ کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ یہ ماڈل غربت ختم کر پایا نہ معاشی نمو کی رفتار بڑھائی جاسکی۔ نہرو مقبول لیڈر تھے مگر ان کے وژن کو حقیقت کی دنیا میں وہ کامیابی نہ مل سکی جس کا اب تک ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ ان کے وضع کردہ نظام میں بہت سی خرابیاں تھیں۔ صنعتی ترقی پر زیادہ زور دیا گیا۔ زرعی شعبے کو غیر معمولی حد تک نظر انداز کردیا گیا۔ ابتدائی تعلیم پر بھی خاطر خواہ توجہ نہ دی جاسکی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ابتدائی تعلیم میں خامیوں نے نظریاتی خلا کی راہ ہموار کردی۔
۱۹۶۶ء میں آں جہانی اندرا گاندھی نے اقتدار سنبھالا۔ ان پر ابتدا ہی سے بہت دباؤ تھا جس کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہوں نے بعض معاملات میں ناپسندیدہ فیصلے کیے۔ امریکا اور بڑے مغربی بینکوں کے دباؤ پر اندرا گاندھی نے روپے کی قدر میں ۳۷ فیصد کمی کردی۔ اندرا گاندھی میں بالغ نظری کا واضح فقدان تھا۔ ان کی سوچ میں ایسی گہرائی نہ تھی کہ بھارت کو کسی بلند مقام تک لے جاسکتی۔ غلط پالیسیوں نے انہیں مشکلات سے دوچار کردیا۔ انہوں نے پارٹی الیکشن ختم کرکے پس ماندہ اور دور افتادہ ریاستوں کے رہنماؤں کو مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے موقع سے محروم کردیا۔ اندرا گاندھی ہی کے دور میں سول سروس سیاسی رنگ پکڑ گئی۔ انہوں نے عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری پر بھی قدغن لگائی۔
اندرا گاندھی کے کسی بھی دور میں ملک کو جمہوریت کے محاذ پر کوئی فائدہ نہ پہنچا۔ معاشی امکانات نے تیزی سے پنپ کر اندرا گاندھی کے لیے چند ایک آسانیاں ضرور پیدا کیں مگر اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ووٹ بینک مستحکم کرنے کے لیے کھوکھلی سیاست اپنائی۔ انہوں نے غریبی ہٹاؤ کے نعرے کا سہارا لے کر مخالفین کو بھی مجبور کردیا کہ وہ بھی پست معیار کی سیاست اپنائیں۔ جب تنگ نظری کی سیاست عام ہوئی تو ہندوؤں کو ان کی اکثریت کا احساس دلایا گیا۔ اس کے بعد ہر خرابی کو اقلیتوں کے کھاتے میں ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اندرا گاندھی نے ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جو عامیانہ نعرے لگائے اُن پر دانشوروں نے تنقید کی اور آں جہانی لیڈر کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی پارٹی کو کھوکھلے نعروں کی نذر کرنے سے گریز کریں مگر وہ نہ مانیں اور زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے وہ سب کچھ کرتی رہیں جو ایسا کرنے کے لیے ضروری تھا۔ تنگ نظری کی سیاست کا خمیازہ اقلیتوں کو بھگتنا پڑا ہے۔
جب سیاست میں تنگ نظری عام ہوئی تو ہندو قوم پرستی کا برہنہ رقص شروع ہوا۔ اقلیتوں کے خلاف جذبات بھڑکانا عام ہوگیا۔ سیاست دانوں کی اس روش نے خرابیاں اس قدر بڑھادیں کہ ملک کا سیکولر چہرہ کئی پردوں میں چھپ کر رہ گیا۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں بی جے پی نے ہندو قوم پرستی (ہندوتوا) کے عنصر کو اس قدر مضبوطی سے پکڑ لیا کہ اس کے بعد سے اس کی سیاست اِسی کے گرد گھوم رہی ہے۔ یوں سوشل ازم کی بنیاد کمزور پڑتی چلی گئی۔
اپنے آخری دور میں اندرا گاندھی نے ووٹ بینک بچانے یا بڑھانے کے لیے بعض انتہائی ناپسندیدہ اقدامات کیے۔ انہوں نے علیٰحدگی کی تحریک چلانے والے سکھ لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ سے ہاتھ ملایا جو پوری قوم کو ناگوار گزرا۔ یہ اتحاد محض اس لیے تھا کہ کانگریس کی مخالف سکھ تنظیم شرومنی اکالی دل کو نیچا دکھایا جاسکے۔ جب جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے راہیں الگ کیں اور اندرا گاندھی سے منحرف ہوگئے تو آں جہانی لیڈر کے لیے لازم سا ہوگیا کہ بھنڈرانوالہ کے خلاف طاقت استعمال کریں۔ یوں جون ۱۹۸۴ء میں سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل (امرتسر) پر فوج نے چڑھائی کی جس میں جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ سمیت سیکڑوں افراد مارے گئے۔ اِس لشکر کشی کے ردعمل کے طور پر اندرا گاندھی کو ان کے سکھ محافظوں نے نومبر ۱۹۸۴ء میں موت کے گھاٹ اتارا۔
اندرا گاندھی کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی نے اقتدار سنبھالا۔ انہوں نے بھی سوشل ازم کو ترک کرکے ہندو قوم پرستی کی طرف جھکنا شروع کیا۔ کئی مواقع پر انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکاکر ہندوؤں کی ہمدردیاں بٹورنے کی کوشش کی تاکہ ووٹ بینک مستحکم ہوجائے۔ جب ووٹ درکار ہوتے تھے تب وہ مسلمانوں کی طرف جھکنے سے بھی نہیں کتراتے تھے۔ ۱۹۸۸ء میں ایران سے بھی بہت پہلے راجیو گاندھی نے سلمان رشدی کی کتاب پر پابندی لگائی اور اس سے دو سال قبل راجیو گاندھی نے مسلم علما کی ہمدردیاں بٹورنے اور اس بہانے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک مسلم خاتون کے حق میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پارلیمنٹ کے فلور پر ناکام بنایا۔
ہندوؤں کی توجہ پانے کے لیے مسلمانوں کی طرف جھکاؤ کا جو مظاہرہ راجیو گاندھی نے کیا تھا اُسی کو بنیاد بناکر بی جے پی نے ہندو قوم پرستی کا نعرہ پوری شدت سے لگایا۔ ایک طرف تو اس نے کانگریس پر مسلمانوں کی چاپلوسی کا الزام عائد کیا اور دوسری طرف ہندوؤں کو ڈرایا کہ انہیں گھیرے میں لیا جارہا ہے۔ بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ وہ ملک کی سیکولر بنیادوں کو مضبوط کر رہی ہے جبکہ معاملہ اس کے برعکس تھا۔
۱۹۸۰ء کے عشرے کے اواخر میں حالات بی جے پی کے حق میں ہوچکے تھے مگر اس کے باوجود وہ انتخابی میدان میں بھرپور کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ کانگریس کی کارکردگی چونکہ ناقص تھی اس لیے ووٹرز اسے مزید قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ایسے میں کئی مخلوط حکومتیں قائم ہوئیں اور ناکامی سے دوچار بھی ہوئیں۔ وشو ناتھ پرتاپ سنگھ، دیوے گوڑا اور چندر شیکھر قوم کو کچھ دینے میں ناکام رہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ کئی جماعتوں نے مل کر حکومت تشکیل دی تھی۔ جب کسی جماعت کو اپنی مرضی کی وزارت اور دیگر فوائد نہیں ملتے تھے تو وہ الگ ہوجاتی تھی اور یوں حکومت گر جایا کرتی تھی۔ پے در پے حکومتوں کی ناکامی سے معیشت پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ٹھوس معاشی پالیسی نہ ہونے سے بیرونی سرمایہ کاری بھی ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکی اور بیرونی تجارت سے بھی خاطر خواہ فوائد حاصل نہ ہوسکے۔ برآمدات بھی گھٹتی گئیں۔ بھارتی معیشت جس تیزی سے آگے بڑھی تھی اُسی تیزی سے پیچھے بھی ہٹ گئی۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ سوشلسٹ ماڈل ناکام ہوگیا اور بھارت کے لیے ناگزیر ہوگیا کہ کھلی منڈی کی معیشت کو گلے لگائے۔ معاشی پٹڑی بدلنا بھارت کے لیے ناگزیر ہوگیا۔
۱۹۹۱ء میں کانگریس کو دوبارہ اقتدار ملا۔ دوسری بہت سی جماعتوں سے مایوس ہوکر ووٹرز نے ایک بار پھر کانگریس کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ پی وی نرسمہا راؤ وزیر اعظم منتخب ہوئے اور من موہن سنگھ وزیر خزانہ۔ ان دونوں نے ملک میں معاشی اصلاحات نافذ کی۔ بھارتی معاشی سیٹ اپ کو کھلے بازار کی معیشت سے ہم آہنگ کرنے کا سفر شروع ہوا۔ بیشتر اداروں، شعبوں اور محکموں کو سرکاری ملکیت میں رکھنے کا تصور کمزور پڑنے لگا۔ معیشت پر عائد غیر ضروری پابندیاں ختم کردی گئیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوئی۔ ملک نے لائن تبدیل کی تو عالمی منڈی میں موجود مواقع سے بھرپور استفادہ ممکن ہوسکا۔ جب معیشت کو کھولا گیا تو معاشرے میں بھی کھلا پن پیدا ہوا۔ دنیا بھر سے چیزیں آنے لگیں۔ اس کے نتیجے میں بھارت میں بھی توانا مڈل کلاس پنپنے لگی۔
مشکل یہ تھی کہ ملک نظریاتی طور پر کھوکھلا ہوتا جارہا تھا۔ صرف معیشت کو مستحکم کرنے پر توجہ دی گئی۔ نظریاتی بنیاد کو مضبوط کرنے کا خیال کسی کو نہ آیا۔ ملک نے ترقی کی۔ معیشت کا پہیہ تیزی سے گھومنے لگا۔ چند ادارے تیزی سے پنپنے لگے مگر عوام کی حالت میں بہتری نہ آئی۔ ان کی غربت کم نہ ہوئی اور انہیں دی جانے والی سہولتوں میں بھی اضافہ نہ ہوا۔ چند شعبوں کو زرِ اعانت کی مدد سے ہی چلایا جاتا رہا۔ اشیائے خور و نوش اور ٹرانسپورٹیشن پر زرِ اعانت کا دیا جانا جاری رہا۔ لوگ سرکاری نوکریوں کی طرف ہی دیکھتے رہے کیونکہ یہ ان کے لیے انتہائی پرکشش تھی۔ ایک طرف تو زندگی بھر کی نوکری کی ضمانت تھی اور دوسری طرف سہولتیں بھی یقینی تھیں۔ کھلے بازار کی معیشت کا اصول اپنایا گیا مگر شفافیت برائے نام تھی۔ اس کے نتیجے میں کرپشن کو راہ ملی۔ چند بڑے کاروباری اداروں نے مل کر اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانا شروع کیا۔ یوں بہت سے کمزور اداروں کے لیے غیر صحت مندانہ مقابلے کی فضا پیدا ہوئی۔ چند ادارے مل کر پوری معیشت کو اپنی مرضی کے مطابق ہانکنے لگے۔ انہوں نے مرضی کا ماحول پیدا کرلیا جس میں فیصلے بھی ان کی مرضی ہی کے ہوا کرتے تھے۔ سوال پھر وہی تھا کہ عوام کو کیا ملا؟ عوام کی حالت بہتر نہ ہو پائی۔ انہیں بنیادی سہولتیں بھی ڈھنگ سے میسر نہ تھیں۔ معیشت ترقی کر رہی تھی۔ دنیا بھر میں بھارت کے ڈنکے بج رہے تھے مگر عوام کے ہاتھ تو کچھ بھی نہ آیا تھا۔ ان کی تو وہی زندگی تھی جو اب تک تھی۔ سرکاری شعبہ عوام کی توقعات پوری کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ ہر طرف کرپشن تھی۔ اعلیٰ سرکاری افسران اور نجی اداروں نے مل کر پوری معیشت کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال لیا۔ برآمدات بڑھیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر بھی بڑھے مگر عوام کو کچھ بھی نہ ملا۔ انہیں بہتر ملازمتوں تک سے محروم رکھا گیا۔ چند بڑوں نے سب کچھ آپس میں بانٹ لیا۔ غریبوں کے آنسو بہتے ہی رہے۔
۱۹۹۸ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں آنا نصیب ہوا۔ مگر اس نے معاملات کو درست سمت میں لے جانے کے بجائے ہندو قوم پرستی کو بہترین آپشن کی حیثیت سے اپنالیا۔ معاشی بہتری کے باوجود سیاسی عدم استحکام بڑھتا گیا۔ خرابیاں زور پکڑتی گئیں۔
عوام نے ۲۰۰۴ء میں ایک بار پھر کانگریس کو اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیا۔ معیشت اگرچہ پنپ چکی تھی مگر کانگریس کے لیے مشکلات پھر بھی کم نہ ہوئیں۔ وہ شفافیت یقینی بنانے میں بری طرح ناکام رہی۔ ۲۰۱۱ء میں معاشی نمو کم ہوتے ہوتے تقریباً تھم گئی۔ اب قربانی کے بکروں کی تلاش شروع ہوئی۔ کبھی اقلیتوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ کبھی کہا جانے لگا کہ حکومت کی پالیسیاں ناقص تھیں۔ کبھی عالمی منڈی میں پائی جانے والی مشکلات کا رونا رویا گیا۔ کوئی بھی حقیقت پسندی کا آپشن اپنانے کے لیے تیار نہ تھا۔
کانگریس جب ناکام ہوئی تو بی جے پی کو تیسری بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ نریندر مودی نے بھرپور کامیابی حاصل کی اور وزیراعظم بھی بن گئے ہیں مگر وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ملک کی مشکلات کو کس طور ختم کر پائیں گے۔ انہوں نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنی بھرپور کامیابی کو کیش کرایا ہے مگر گجرات کے ماڈل کی بنیاد پر پورے ملک کو چلانا ممکن نہیں۔ ملک اور صوبے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ نریندر مودی کے پاس وہ وژن نہیں جو ملک کو بلندیوں پر لے جانے کے لیے درکار ہوا کرتا ہے۔ بی جے پی اب تک ہندو قوم پرستوں کے چنگل سے نکل نہیں سکی۔ نریندر مودی نے بھی ہندو قوم پرست کی امیج کی بنیاد ہی پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر وہ ملک کو کچھ دینا چاہتے ہیں تو انہیں بالغ نظری اپنانی ہوگی۔ نظریاتی شناخت درست کیے بغیر بھارت کو آگے لے جانا ممکن نہ ہوگا۔ بی جے پی اقتدار میں اس لیے نہیں ہے کہ لوگ اسے چاہتے ہیں بلکہ یہ اقتدار تو اس لیے ملا ہے کہ لوگ کانگریس سے بدظن ہیں۔ اگر بی جے پی ڈلیور نہ کرسکی تو ایک بار پھر کانگریس کو اقتدار میں آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ہمیں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ بھارت کے لیے اصل خطرہ بی جے پی یا نریندر مودی نہیں بلکہ نظریاتی خلا ہے۔ جب تک یہ خلا ختم نہیں ہوگا، درست سمت میں بڑھنے کی راہ ہموار نہ ہوپائے گی۔
“The path of least resistance”.
(“Foreign Policy”. July-August, 2014)
Leave a Reply