
چین ۲۰۱۰ء میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت بننے کی تیاری کر رہا ہے اور اس کے قائدین اس کی ممکنہ عالمگیر خواہشات اور ارادوں سے متعلق کوئی تسلی بخش تصور اور نظریہ تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔ غیر معمولی توسیع پسندی نے سوویت یونین کی تحلیل کی راہ ہموار کی اور ضرورت سے زیادہ پائوں پھیلانے کی امریکی کوششو ںنے اس کے بہت سے اتحادیوں کو ناراض کر دیا ہے۔ ان دونوں حقیقتوں کو پیش نظر رکھ کر چینی قیادت نے ’’پرامن عروج‘‘ کا نظریہ اپنایا ہے۔ تصور یہ دیا جا رہا ہے کہ چین کا عروج دوسروں کو پریشان نہیں کرے گا، کوئی منفی تبدیلی رونما نہیں ہو گی جیسا کہ پہلے کسی بڑی قوت کے ابھرنے کی صورت میں ہوتا رہا ہے۔ چینی قیادت باقی دنیا کو پیغام دے رہی ہے کہ وہ صرف اپنے بنیادی اور مرکزی مفادات (تائیوان اور تبت وغیرہ) پر توجہ مرکوز رکھے گی۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ چین ۱۰ ہزار سال تک کسی بھی ملک پر حملہ نہیں کرے گا۔
چین کے ماضی سمیت تمام تاریخی حقائق کو ایک طرف ہٹایئے اور اس بحث کو بھی بالائے طاق رکھیے کہ کوئی بھی ملک تنازعات میں الجھے بغیر بڑی یا عالمی قوت میں تبدیل ہوا ہے، حقیقت یہ ہے کہ چینی فوج اب بین الاقوامی امور میں وسیع تر کردار چاہتی ہے۔ چین کو عسکری میدان میں آگے بڑھنے کے لیے تازہ ترین کال چین کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر اور سینئر کرنل لنگ منگ فو نے دی ہے۔ انہوں نے اپنی تازہ کتاب ’’دی چائنا ڈریم‘‘ میں اس نکتے پر زور دیا ہے کہ چین کو مستقبل بعید میں عسکری برتری قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ امریکا اُسے غیر مؤثر، غیر فعال اور عضوِ معطل نہ بنا دے۔
’’نیشنل بیورو آف ایشین ریسرچ‘‘ میں امریکا چین دفاعی تعلقات کے ماہر رائے کیمپ ہاسین کا کہنا ہے کہ جو کچھ لنگ منگ فو نے لکھا ہے وہ سرکاری پالیسی تو نہیں تاہم اس سے ’’پیپلز لبریشن آرمی‘‘ کے ارادوں کا سراغ ملتا ہے۔ لنگ منگ فو نے چین کے ’’پرامن عروج‘‘ کے اعلان یا عزم کو براہِ راست تو چیلنج نہیں کیا تاہم اتنا ضرور لکھا ہے کہ امریکا نے جس طور جاپان اور سوویت یونین کو ابھرنے سے روکا تھا، اُسی طور وہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے آگے بھی بند باندھے گا۔اس کا علاج لنگ منگ فو نے یہ تجویز کیا ہے کہ چین کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کا معیار بلند کرنا چاہیے۔ رومن مصنف ویجیٹیس کا حوالہ دیتے ہوئے لنگ منگ فو نے لکھا ہے کہ امن درکار ہے تو جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کو طاقت استعمال کر کے اس امر کو یقینی بنانا ہو گا کہ اس کے تکوینی مقاصد کی راہ میں کوئی دیوار حائل نہیں ہو گی۔
لنگ منگ فو کا استدلال یہ ہے کہ عسکری میدان میں سرگرم ہونے پر بھی چین کا عروج تنازعات سے پاک ہو گا کیونکہ اس کی ثقافت برتر ہے اور دنیا بھر میں اس ثقافت کو بخوشی گلے لگایا جائے گا۔
چین کے بیرونی اثرات کے وسیع ہوتے ہوئے دائرے نے تنازعات کی بنیاد رکھنا شروع کر دی ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ چین مشرقِ وسطیٰ اور افریقا میں بدمعاش حکومتوں اور مقامی برادریوں سے روابط بڑھا رہا ہے۔ افریقا میں انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں چینی محنت کشوں کی شرکت پر بھی احتجاج کیا جا رہا ہے۔ یو ایس نیول وار کالج کے چائنا میری ٹائم اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اینڈریو ایس ایرکسن کہتے ہیں کہ چین کے انتہا پسند یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ چین اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو کسی دبائو کے بغیر استعمال کرے گا اور سابق (یا دیگر موجودہ) طاقتوں کے برعکس اپنی طاقت کے قدرے مختلف اور قابل قبول انداز بروئے کار لائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ۱۹۷۹ء میں ویتنام پر حملے کے ناکام تجربے کے بعد چین نے بیرونِ ملک عسکری مہم جوئی سے اجتناب برتا ہے۔ مگر ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ چین کا بحیثیت عالمگیر طاقت ابھرنا بین الاقوامی سطح پر ہم آہنگی میں اضافہ کرے گا یا نہیں۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘ ۲۹ مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply