جس زمین کے لیے یہودی اور فلسطینی سو سال سے بھی زائد مدت سے لڑ رہے ہیں اسے تقسیم کرنے کے بجائے اس پر مل کر رہنے کے تصور کو انتہائی بائیں بازو کے چند مصنفین کے سوا کسی نے زیادہ حمایت سے نہیں نوازا۔ حال ہی میں یہودی آباد کاروں اور چند دوسرے دائیں بازو کے یہودیوں نے بھی ایک ریاست کے تصور کو قبول کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اسرائیلی اخبار ہاریز میں حال ہی میں شائع ہونے والے ان کے خیالات اپنی نوعیت کے اعتبار سے بائیں بازو کے لکھنے والے دو قومی نظریے سے زیادہ مختلف نہیں۔ چند ایک امور بہت دشوار دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً غرب اردن کو ساتھ جوڑنا، اسرائیلی ریاست کے یہودی کردار کو برقرار رکھنا اور اسرائیل میں جمہوریت کو کسی نہ کسی طور زندہ رکھنا۔ ان تمام باتوں کو عمدگی سے سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ آباد کاروں اور دائیں بازو کے یہودیوں کے خیالات کو پرکھا جائے۔
یہ سب کچھ اس تصور کے ساتھ شروع ہوا کہ غرب اردن کو ہاتھ سے جانے دینے سے بہتر ہے کوئی بھی دوسرا طریقہ اختیار کرنا۔ ایسے میں فلسطینیوں کو ایک ریاست قائم کرنے کا موقع دینے میں کوئی ہرج نہیں۔ دائیں بازو کے بہت سے لکھنے والوں نے اب غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے اور فلسطینیوں کو تمام سیاسی اور شہری حقوق دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ بات بہت عجیب لگتی ہے۔ غرب اردن اور دیگر فلسطینی علاقوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے کی صورت میں یہودیوں کی فیصلہ کن اکثریت داؤ پر لگ سکتی ہے۔ اسرائیل میں سوچ مختلف ہے۔ ۲۰۰۵ء میں غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کا انخلا صورت حال کو یہودیوں کے حق میں کرنے کے مترادف ثابت ہوا ہے۔ اس علاقے کے ۱۵ لاکھ فلسطینیوں کو اب اسرائیل کا حصہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ اگر یہ علاقہ اسرائیل میں شامل کرلیا جاتا تو اسرائیلی یہودیوں کی اکثریت میں پندرہ لاکھ کی لازمی کمی واقع ہوتی۔ یہ تاثر عام ہے کہ غرب اردن میں فلسطینیوں کی تعداد عام طور پر بیان کی جانے والی تعداد یعنی پچیس لاکھ سے کہیں کم ہے اور ان میں اضافے کی رفتار بھی خاصی سست ہے۔
سابق سفارت کار اور غرب اردن کو انجیل اور توریت کی بیان کردہ روایات کی روشنی میں اسرائیل کا لازمی حصہ سمجھنے والے یورم ایٹنگر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فلسطینیوں کی اکثریت پیدا ہونے کا خوف پالے بغیر غرب اردن کو اسرائیل کا حصہ بنایا جائے۔ ایٹنگر بزنس ایڈمنسٹریشن اور اکاؤنٹنگ میں سند یافتہ ہیں۔ فلسطینی مرکز برائے شماریات اور دیگر ذرائع سے موصولہ معلومات اور فلسطینیوں میں شرح پیدائش و اموات کی بنیاد پر ان کا کہنا ہے کہ غرب اردن کو اسرائیل کا حصہ بنانے میں کوئی خطرہ نہیں اور اسرائیل یہودیوں کی واضح اکثریت (۶۷ فیصد) طویل مدت تک برقرار رکھ سکتا ہے۔
ہبریو یونیورسٹی، مقبوضہ بیت المقدس کے پروفیسر اور معروف آبادی دان سرگیو ڈیلا پرگولا نے ایٹنگر کے مقابل چند نکات پیش کیے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ فلسطینیوں نے اپنی آبادی اور اس میں اضافے کی رفتار کے معاملے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ یعنی ایٹنگر کے خیال میں فلسطینیوں کی آبادی میں اضافے کا خطرہ اس حد تک نہیں جس حد تک بیان یا پیش کیا جارہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بیس برسوں کے دوران فلسطینیوں میں شرح پیدائش کم ہوئی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی آبادی کم ہو رہی ہے۔ فلسطینیوں میں نوجوانوں کا تناسب اسرائیل کے یہودیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچے پیدا کرنے والے فلسطینی خاندانوں کا تناسب زیادہ ہے اور ان میں شرح اموات بہت کم ہے۔ ڈیلا پرگولا کا کہنا ہے کہ یہودیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں میں شرح پیدائش دگنی ہے۔ اگر غزہ کی پٹی کو بھی اسرائیل میں گن لیا جائے تو ملک کی مجموعی آبادی میں ان کا تناسب ۵۰ فیصد ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں اسرائیل کو یہودی ریاست کی حیثیت سے برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہو جائے گا۔ ڈیلا پرگولا کا کہنا ہے کہ اگر فلسطینیوں کو ساتھ ملانے کی صورت میں یہودی ۶۰ یا ۶۵ فیصد بھی ہوں تو ریاست کے اہم امور پر ان کی گرفت کمزور پڑ جائے گی۔ ایسی صورت میں اسرائیل کے مزاج کو یہودی رکھنا ناممکن ہوتا جائے گا۔ پرگولا کا استدلال یہ ہے کہ جو یہودی اپنی ریاست میں فلسطینیوں کی شراکت چاہتے ہیں انہیں اس بات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے کہ کل کو ان کی ریاست کسی بھی اعتبار سے مکمل طور یہودی نہیں رہے گی۔ بیشتر اسرائیلی اب تک ایک ریاست کے تصور کو اپنانے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں دو ریاستوں کا آپشن ہی بہتر اور قابل عمل دکھائی دیتا ہے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘ پاکستان۔ ۶ستمبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply