
بچوں کے لیے بہتر دینی تعلیم کا اہتمام کرنا صرف مسلم گھرانوں یا کمیونٹیز ہی کا فرض نہیں بلکہ ان معاشروں یا ریاستوں کا بھی فرض ہے جن میں یہ کمیونٹی رہتی ہے اور ٹیکس ادا کرتی ہے۔ یورپی اقوام نے جب مسلم معاشروں پر قبضہ کیا تو سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دی کہ نئی نسل کو دین کی حقیقی تعلیم نہ دی جاسکے۔ انہیں اندازہ تھا کہ دین کی بنیادی اور حقیقی تعلیمات سے ہمکنار ہونے پر مسلم نئی نسل اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی اور محکومی کو کسی بھی حال میں برداشت کرنے پر راضی نہ ہوگی۔ مسلم معاشروں پر قابض ہونے والے کمیونسٹوں اور فاشسٹوں نے بھی یہی کیا۔ تعلیم پر قدغن لگانے سے مقصود و مطلوب یہ تھا کہ مسلمانوں کی نئی نسل اپنے دین کی روح سے واقف نہ ہوسکے اور کبھی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہ کرے۔
نو آبادیاتی قوتوں نے مسلم معاشروں پر قبضے کے بعد صرف صنعتوں کو ختم کرنے، لوگوں کو غیر مسلح کرنے ہی پر توجہ نہیں دی بلکہ ان کا اصل مقصد تو اسلامی تعلیمات سے نئی نسل کو آراستہ کرنے والے تمام اداروں کا جڑ سے صفایا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے ہر وہ طریقہ اختیار کیا جو اختیار کیا جاسکتا تھا۔ سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دی گئی کہ دینی تعلیم عام کرنے والے اداروں اور ان سے وابستہ افراد کو غیر موثر کردیا جائے۔ اس مقصد کے لیے طرح طرح کے خدشات کو عام کیا گیا۔ دینی تعلیم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ لوگ اپنے بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے آراستہ کرنے سے اجتناب برتیں۔ اگر کہیں یہ کام نرمی سے نہ ہوا تو سختی برتی گئی اور وہ بھی انتہائی درجے کی۔ یورپی اقوام نے جن علاقوں پر قبضہ کیا وہاں عیسائیت کی تعلیم عام کرنے کی کوشش کی۔ امریکا، افریقا اور ایشیا میں کسی حد تک فلپائن میں، یہ تجربہ کامیاب رہا مگر کسی بھی مسلم معاشرے میں عیسائیت کے فروغ کی کوئی بھی کوشش بھرپور کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی۔ جہاں جہاں نوآبادیاتی قوتوں نے اپنے پنجے گاڑے وہاں انہوں نے سب سے پہلے تعلیمی نظام کو تباہی سے دوچار کیا تاکہ محکوم قوم اپنی اصلیت نہ جان سکے اور اپنی روایات کو بھول جائے۔ یہ تجربہ مسلم کمیونٹی پر بھی کیا گیا۔ مسلم معاشروں کو محکوم بنانے کے بعد یورپ کی نوآبادیاتی اقوام نے پوری کوشش کی کہ بچوں کو دینی تعلیم دینے کی روایت اور اس سے جڑے ہوئے اداروں کو یکسر ختم کردیا جائے۔ اس مقصد کے حصول پر خاطر خواہ توجہ دی گئی۔ پوری کوشش کی گئی کہ مسلم کمیونٹی اپنے ماضی سے کٹ کر رہ جائیں، اُنہیں اپنی روایات یاد نہ رہیں اور مذہب کا اُن کی زندگی میں وہ مقام نہ رہے جو ہے یا ہونا چاہیے۔ اپنی حکمت عملی میں نو آبادیاتی قوتیں بہت حد تک کامیاب رہیں۔ مسلم معاشروں میں انہوں نے دینی تعلیمات کا فروغ روکنے کی کوششوں میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے مسلم تعلیمی اداروں کو تباہی سے دوچار کیا اور دین کے حوالے سے ابہام اور بدگمانی پیدا کرنے کے حوالے سے اپنے مقاصد کا حصول یقینی بنایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم معاشروں میں عیسائیت کو فروغ نہ دیا جاسکا اور بہت ہی کم تعداد میں مسلمان عیسائیت کی طرف مائل ہوئے۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ نو آبادیاتی اقوام کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمان دین سے دور ہوجائیں۔ سوال اُنہیں عیسائیت سے قریب لانے کا نہیں تھا۔ یہ تو محض ایک طریقہ تھا۔ اصل مقصد تو صرف یہ تھا کہ مسلم معاشرے اسلام سے قریب نہ رہیں۔ محکوم مسلم معاشروں نے عیسائیت کو تو قبول نہیں کیا مگر خیر وہ اسلام کے بھی قریب نہ رہے۔ گویا نو آبادیاتی اقوام اپنا بنیادی مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے تعلیمی ادارے تباہ کردیے۔ دینی تعلیم کے فروغ کی روایت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ مسلمانوں میں باہمی افتراق و انتشار بھی اس حد تک پیدا کردیا گیا کہ پھر ان میں حقیقی اتحاد کی راہ ہموار کرنا ممکن نہ رہا۔ مسلمانوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے دور لے جانا مقصود تھا اور یہ مقصد بخوبی حاصل کرلیا گیا۔ نو آبادیاتی قوتوں کی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی معاشروں ہی میں ایسے لوگ تیار کردیے جو ان کے مقاصد کی بھرپور تکمیل میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد کی جامعہ حفصہ میں یا اسلامی دنیا کے دیگر ممالک میں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے نہ تو عیسائی انتہا پسند ہیں نہ آر ایس ایس کے ہندو شدت پسند بلکہ یہ وہی مسلمان ہیں جنہیں نو آبادیاتی قوتوں نے جامع منصوبہ بندی کے ذریعے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے برگشتہ کرکے اُن کے ذہنوں میں احکام اللہ کا وہ مفہوم ٹھونس دیا ہے جو کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔
برطانیہ کی نو آبادیاتی قوت ختم ہوچکی ہے مگر اسلام مخالف اور مسلم مخالف رویہ ختم نہیں ہوا۔ برطانوی انتہا پسندوں میں یہ رویہ اب بھی ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح زندہ ہے۔ وہ اب بھی مسلم معاشروں میں پرانے ایجنڈے کے ساتھ ہی لڑ رہے ہیں اور اپنی سرزمین پر جہاں جہاں مسلم کمیونٹیز ہیں، وہاں انہیں اسلامی تعلیمات سے برگشتہ کرنے کے مشن پر ہیں۔ برمنگھم کے پانچ اسلامی اسکولوں میں انتہا پسندی کو فروغ دینے کے الزام کے تحت تفتیش تو محض ایک اشارہ ہے، اس بات کا کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہ برطانوی شدت پسند کس حد تک جاسکتے ہیں اور جا رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ پنپتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ اگر اسلامی شدت پسندی کے فروغ کا لیبل بھی استعمال کرنا پڑے تو وہ ایسا کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ برمنگھم کے جن پانچ اسکولوں پر انتہا پسندی کے فروغ کا الزام عائد کیا جارہا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے مکمل مذہبی اسکول بھی نہیں۔ وہ ریاستی کنٹرول کے تحت چلائے جانے والے اسکول ہیں۔ ان میں اسلامی تعلیمات پر خصوصی توجہ بھی نہیں دی جاتی۔ ان کے منتظمین مسلم نہیں۔ محکمہ تعلیم کی انسپکشن ٹیمیں ان اسکولوں کا باقاعدگی سے معائنہ کرتی رہتی ہیں۔ جب اس قدر نظر رکھی جارہی ہو اور معاملات کو اتنی باریکی سے دیکھا جارہا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان اسکولوں میں بنیاد پرستی یا انتہا پسندی کی تعلیم دی جائے؟ صاف محسوس کیا جاسکتا ہے کہ برطانوی انتہا پسند مسلم کمیونٹی کے بارے میں مزید بدگمانیاں پھیلانا چاہتے ہیں تاکہ اُنہیں مرکزی دھارے سے مزید الگ کیا جاسکے اور وہ اپنے لیے ایک خاص دائرہ متعین کرکے اُسی میں رہیں۔ جن ٹیموں نے ان پانچ اسکولوں کا معائنہ کیا اُنہیں اس بات کے ذرا بھی شواہد نہیں ملے کہ ان اسکولوں میں ریاستی نصاب بہتر انداز سے نہیں پڑھایا جارہا تھا یا اسلامی تعلیمات پر کچھ زیادہ ہی زور دیا جارہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ معائنہ ٹیموں نے خود دیکھا کہ ریاست کا طے کردہ نصاب عمدگی سے پڑھایا جارہا ہے اور اس حوالے سے طلبہ و طالبات کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ رکھا جاتا ہے، بیشتر اساتذہ باریش ہیں۔ اسکول میں چونکہ ۹۸ فیصد طلبہ مسلم ہیں، اس لیے کرسمس ٹری نہیں۔ ظہر کی نماز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ چند ایک اسلامی کتب بھی ہیں جن کا مطالعہ بچے کرتے ہیں اور دین سے متعلق بنیادی تعلیمات بھی حاصل کرتے ہیں۔ ان معمولی سی خصوصیات کی بنیاد پر یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ان اسکولوں میں ایسی تعلیم دی جارہی ہے جس کی مدد سے معاشرے کو ٹیک اوور کیا جاسکتا ہے!
برطانیہ میں مسلمانوں اور اسلام کا خوف انتہائی بلندی پر ہے۔ اس میں اصل کردار تو کنزرویٹیو پارٹی کی موجودہ حکومت کے پالیسی میکرز نے ادا کیا ہے۔ جس قدر انتشار کا عالم ہے اور جو بے تکا ماحول ہے اُس میں کوئی کیسے اپنی بقا یقینی بناسکتا ہے؟ پالیسی میکرز نے عام برطانوی شہریوں کو یہ باور کرانا شروع کردیا ہے کہ مسلم نوجوانوں میں اسلام کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ پورے معاشرے اور اس کی بنیادی اقدار کے لیے انتہائی خطرناک ہے، بلکہ اصل خطرہ ہے۔ یہ محض ایک نعرہ ہے کہ برطانیہ کثیر القومی، کثیر الثقافتی اور کثیر النسلی معاشرہ ہے۔ زمینی حقیقت کچھ اور ہے۔ برطانوی سرزمین پر اسلام سے وابستگی رکھنے والوں کو خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون اور مسٹر گروو کا خیال ہے کہ تعلیم کے میدان میں مداخلت سے برطانیہ میں اس خطرے کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔
برطانیہ نے جن جن ممالک پر قبضہ کیا وہاں تعلیمی اداروں کو کنٹرول کرکے بچوں کو اسلامی تعلیمات سے دور کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہی تجربہ اب برطانوی سرزمین پر کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ برطانوی اقدار اور روایات کو بچانے کے نام پر ہوگا۔ حکومت چاہتی ہے کہ مسلمان والدین اپنے بچوں کی تعلیم کے معاملات سے الگ تھلگ رہیں۔ پہلے مرحلے میں مسلمانوں کے پانچ اسکولوں کے گورننگ بورڈز کو ختم کرکے والدین کو الگ تھلگ کردیا گیا ہے۔ برطانوی حکومت اپنی سرزمین پر اسلامائزیشن کے حوالے سے کتنی خوفزدہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بچوں کو دی جانے والی رسمی اسلامی تعلیمات کو بھی انتہا پسندی کی تعلیم دینے کے عمل سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ بچوں کی تعلیم کے لیے استعمال کی جانے والی عمومی اسلامی کتب کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے، نظر رکھی جارہی ہے۔ نگرانی کے نام پر جو کچھ کیا جارہا ہے اس سے مسلم بچوں سے حکومت کی شدید نفرت ہی ظاہر ہوتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے بنیادی اجزا کو بھی انتہا پسندی کی تعلیم سے تعبیر کرکے یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ مسلم اسکولوں میں بچوں کو انتہا پسند بنایا جارہا ہے۔ یہ گویا برطانوی معاشرے میں مسلمانوں کو مزید مشکوک بنانے کا عمل ہے۔
ڈیوڈ کیمرون اور مسٹر گروو نے واضح کردیا ہے کہ وہ اسلام ازم اور انتہا پسندی کو الگ الگ کرکے نہیں دیکھیں گے بلکہ ان کی نظر میں یہ ایک ہی بات ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنے دین کی بنیادی تعلیمات میں گہری دلچسپی لیتا ہے اور ان کی روشنی میں زندگی بسر کرتا ہے یا اپنے بچوں کو بھی اس حوالے سے تیار کرتا ہے تو اسے برطانوی معاشرے کے لیے اجنبی تصور کیا جائے گا، الگ تھلگ کرکے دیکھا جائے گا۔ ان دونوں شخصیات نے اسلام کی بنیادی تعلیمات کو بھی انتہا پسندی کے فروغ کے طریق کار یا نصاب سے تعبیر کرکے یہ پیغام دینے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ اسلام کے بارے میں کچھ بھی جاننا یا جاننے کی کوشش کرنا انتہا پسندی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ برطانوی مسلمانوں کے حوالے سے خدشات کسی عام آدمی کو لاحق نہیں ہیں بلکہ ملک کا وزیر اعظم ہی ایسا سوچ رہا ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب کسی ملک کا وزیر اعظم مسلمانوں کے بارے میں بے بنیاد خدشات پالے گا اور خواہ مخواہ پریشان ہوتا رہے گا تو پالیسیوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا اور برطانوی حکومتی و ریاستی مشینری کیا کرے گی! ڈیوڈ کیمرون کا رویہ پالیسیوں پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں بے بنیاد خدشات پروان چڑھاتے رہنے سے ڈیوڈ کیمرون مسلمانوں کو برطانوی معاشرے کے لیے مزید اجنبی بناکر پیش کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بات بھلادی ہے کہ افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے والی امریکی اور برطانوی فوج نے بھی اس نکتے کو بھلادیا تھا کہ محض مذہبی ہونے اور مذہبی انتہا پسند ہونے میں بہت فرق ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکی فوجیوں نے شادی کی عام تقریبات اور بارات وغیرہ پر حملوں سے بھی گریز نہیں کیا اور ہزاروں بے قصور افغانیوں اور عراقیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اب ڈیوڈ کیمرون اور ان کے ساتھی بھی ثابت کر رہے ہیں کہ وہ بھی اسلام کے حوالے سے ایسی ہی بے بنیاد سوچ کے حامل ہیں۔ یعنی انہیں اندازہ ہی نہیں برطانیہ میں آباد مسلمانوں میں پائی جانے والی مذہبیت کسی بھی اعتبار سے مذہبی انتہا پسندی نہیں بلکہ محض دین سے رغبت ہے۔ برطانیہ میں آباد مسلمان چاہتے ہیں کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اُنہیں ایسا کرنا اپنے ضمیر کے مطابق دکھائی دیتا ہے مگر دوسری طرف حکومت بضد ہے کہ اس رویے کو مذہبی انتہا پسندی سمجھا جائے اور اس کے خاتمے کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں۔
برطانیہ میں اسلام کی تعلیمات کا راستہ روکنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں ان کے نہایت خطرناک نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کل کو برطانوی پولیس اور فوج مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کا محاصرہ بھی کرنے لگیں اور بچوں پر بندوقیں تان کر کھڑی ہوجائیں۔ اگر اسلامی تعلیمات سے لاعلمی کا یہی عالم رہا تو ہوسکتا ہے کہ کل کو برطانوی لڑاکا ہیلی کاپٹرز مسلم اسکولوں پر بم گرائیں۔ اور ہوسکتا ہے کہ جس طرح جرمنی میں نازیوں نے لاکھوں یہودیوں کو نشانہ بنایا تھا اُسی طور برطانوی سرزمین پر آباد مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے۔ جن نازیوں نے یہودیوں پر سنگین مظالم ڈھائے تھے وہ ڈیوڈ کیمرون اور گروو سے کم تعلیم یافتہ اور جدیدیت زدہ نہیں تھے۔
جھوٹ اور جرم
مسلمانوں کے جن پانچ اسکولوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے وہ بریڈ فورڈ میں ہیں جہاں مسلمان زیادہ ترقی یافتہ اور خوش حال نہیں۔ ان اسکولوں کے ۹۰ فیصد سے زائد طلبا مسلم ہیں۔ برطانوی چلن کے مطابق ان اسکولوں کے لیے گورننگ باڈیز بنائی گئی تھیں جن میں مقامی آبادی سے نمائندے لیے گئے تھے۔ یہ علاقہ چونکہ مسلم اکثریت پر مشتمل ہے اس لیے گورننگ باڈیز میں مسلمانوں کی اکثریت کا ہونا حیرت انگیز نہیں تھا۔ مگر خیر، گورننگ باڈیز میں شامل کیے جانے والے مسلمانوں کو اس بات کا اختیار تو حاصل نہیں تھا کہ اسکولوں کا نصاب تبدیل کردیں یا اساتذہ کو بتائیں کہ کیا پڑھانا ہے اور کیا نہیں پڑھانا۔ گورننگ باڈیز میں شامل کیے جانے والے مسلمانوں کا کام تو بس اتنا تھا کہ مسلم کمیونٹی جو کچھ اسکولوں کی کارکردگی کے بارے میں سوچتی ہے وہ اسکول کے ٹیچنگ اسٹاف کو بتائیں تاکہ وہ اپنی کارکردگی کی سطح بلند کرے۔ یہ کوئی پیچیدہ عمل نہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ اسکولوں کی انتظامیہ چاہتی ہے کہ کمیونٹیز کی طرف سے فیڈ بیک ملے اور اس کے مطابق کارکردگی کا دائرہ وسیع اور سطح بلند کی جائے۔ مگر حکومت میں اعلیٰ سطح پر اسلام کے حوالے سے جو بے بنیاد بدگمانیاں پائی جاتی ہیں اُنہوں نے معاملات بگاڑ کر رکھ دیے۔ قدم قدم پر جو بے حواسی اور تنگ نظری دکھائی دیتی ہے، وہ ان پانچ اسکولوں کے معاملے میں بھی دکھائی گئی۔ ان پانچوں اسکولوں کے حوالے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ برطانوی مسلمان اس سرزمین کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور انہیں روکنا لازم ہوگیا ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نوعیت کی مہم چلائے جانے سے برطانوی مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہوگی اور وہ کس قدر اشتعال کے عالم میں ہوں گے۔
مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو ٹریزن ہارس سے تشبیہہ دینے کا مفہوم یہ ہے کہ انہیں غدار قرار دیا جارہا ہے جیسا کہ یونان میں ہوا تھا۔ یہ تو برطانوی معاشرے میں تمام مسلمانوں کو مشکوک بنانے والی بات ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بات کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے کہ برطانوی معاشرے میں لوگ عمومی طور پر مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھیں اور ان کے بارے میں یہ گمان پالیں کہ وہ معاشرے کے خلاف جارہے ہیں، غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس سے نیو کونز کی گھٹیا ذہنیت کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے افغانستان اور عراق میں بے قصور اور نہتے مسلمانوں کو جس بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا، بس کچھ ویسا ہی برطانوی سرزمین پر بھی کرنا چاہتے ہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بھرپور فضا بنائی جائے یعنی کچھ ایسا کیا جائے کہ پورا معاشرہ مسلمانوں کو شک کی نظر دیکھے، تحفظات کا شکار ہو اور کل کو اگر مسلمانوں کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے تو معاشرے میں کوئی توانا آواز اس کارروائی کے خلاف نہ اٹھے اور مجموعی فضا یہ ہو کہ مسلمان تو ہوتے ہی انتہا پسند ہیں، اس لیے ان کے خلاف کارروائی کا کیا جانا غلط ہے نہ حیرت انگیز۔ عیسائی انتہا پسندوں کی اسی سوچ نے پندرہویں صدی کے اواخر میں اسپین میں مسلمانوں اور یہودیوں کا صفایا کیا تھا۔ برطانوی حکومت اور میڈیا نے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا ہے کہ اسپین میں آباد مسلمانوں اور یہودیوں نے سات سو سال سے زائد مدت تک پورے یورپ کو علم و فن سے آشنا کیا تھا، تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنا سکھایا تھا۔ برطانوی میڈیا مسلمانوں کو صرف انتہا پسند کے روپ میں پیش کر رہا ہے۔ وہ مسلمانوں کے بارے میں بے بنیاد تاثر پھیلانے اور انہیں غلط رنگ میں پیش کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ یہ بات بھی نظر انداز کردی جاتی ہے کہ اس عمل سے برطانوی مسلمانوں کی مجموعی نفسیات پر کتنے شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
برطانوی وزیر تعلیم مائیکل گروو کی اسلام اور مسلمانوں سے پرخاش کوئی نئی بات نہیں۔ وہ بہت پہلے سے اس معاملے میں غیر معمولی انتہا پسندانہ رجحان کے حامل ہیں۔ برطانوی اخبار ”گارجین” نے اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے مائیکل گروو کی انتہا پسندانہ سوچ کے حوالے سے ۷ جون ۲۰۱۴ء کو ایک آرٹیکل شائع کیا تھا جس میں گروو کے یہ الفاظ دیے گئے تھے کہ برطانوی سرزمین کے لیے ایک بڑے خطرے میں مسلمانوں کی مذہبی انتہا پسندی موجود ہے، برقرار ہے۔ اسی مضمون میں انہوں نے یہ رونا بھی رویا ہے کہ ایک طرف تو اسلامی تعلیمات کو فروغ دیا جارہا ہے اور انتہا پسندی پھیلائی جارہی ہے مگر دوسری طرف حکومت کو کچھ پروا ہی نہیں اور معاشرے نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ وہ اس بات سے سخت نالاں ہیں کہ برطانوی سرزمین پر آباد مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی روکنے کے لیے عملی سطح پر کچھ نہیں کیا جارہا یعنی کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جارہی، مسلمانوں کے اسکولوں میں مذہبی تعلیمات کو روکنے کے حوالے سے کچھ نہیں کیا جارہا۔
برطانوی وزیر اعظم کو اچانک یاد آگیا ہے کہ برطانوی بچوں کو انتہا پسندی سے بچانا بھی ان کی ذمہ داری ہے اور یہ کہ اس کے لیے حکومت کو بہت آگے جاکر بہت کچھ کرنا ہوگا ورنہ معاشرہ پتا نہیں کہاں جاکر دم لے گا۔
ڈیوڈ کیمرون، مائیکل گروو اور ان کے رفقا صرف یہ چاہتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ کر برطانیہ میں آباد مسلمانوں کے خلاف محاذ کھولیں اور ان کے لیے بہتر زندگی بسر کرنا ناممکن بنادیں۔ افغانستان اور عراق میں برطانوی فوجیوں نے امریکی اور دیگر فوجیوں کے ساتھ مل کر جو کچھ کیا، وہی کچھ یہ لوگ اب برطانوی مسلمانوں کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے بہانے تلاش کیے جارہے ہیں، گھڑے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں ریاستی مشینری اور میڈیا کو بھی چالاکی اور عمدگی سے استعمال کیا جارہا ہے۔ تعلیمی نظام میں بھی سیندھ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ڈیوڈ کیمرون چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو بھی بے داغ نہ رہنے دیا جائے، ان پر سوالیہ نشان لگادیا جائے۔ مائیکل گروو تو اس بات سے بھی سخت ناراض ہیں کہ لیبر پارٹی کی حکومت نے پندرہ برس کے دوران مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی نام نہاد مذہبی انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے کے لیے عملی سطح پر کچھ نہیں کیا۔ اور یہ کہ اس غفلت ہی کے نتیجے میں اب پانی سر سے گزرتا جائے گا۔ انہوں نے مسلمانوں کو برطانوی معاشرے کی بنیادی اقدار کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے انہیں نازی جرمنوں اور کمیونسٹوں کے مماثل قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان کے خیال میں برطانیہ میں آباد مسلمان لبرل ازم کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ ان کا یہ بھی شکوہ تھا کہ لبرل ازم کو برطانوی مسلمانوں کے ہاتھوں لاحق خطرے سے نمٹنے کے لیے مغربی دنیا کو جو کچھ کرنا چاہیے تھا، وہ نہیں کیا گیا۔ جوابی کارروائی برائے نام رہی ہے اور وہ بھی خاصی نیم دلی کے ساتھ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو زیادہ طاقت کے ساتھ جواب دیا جائے۔ اس حوالے سے مائیکل گروو نے تجویز پیش کی ہے کہ ان کے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جائے، ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے تاکہ بچوں کے ذہنوں میں انتہا پسندی ٹھونسے جانے کا عمل روکا جاسکے۔ ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی نئی نسل کو بچانا حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اور اس معاملے میں کوئی بھی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔
استعماری قوتوں نے ہر دور میں تعلیم کے شعبے کو اپنے موثر ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر تعلیم کے شعبے کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو سوئی قوم جاگ اٹھتی ہے اور اپنا حق مانگنے یا چھیننے کھڑی ہوجاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں مسلمانوں میں سبق سکھانے کی غرض سے ان کے تعلیمی نظام کو نشانے پر لیا ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر مسلمانوں کی نئی نسل کو مذہبی اصولوں کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جاتی رہی تو وہ اپنے ماضی سے بخوبی آگاہ رہیں گے اور انہیں گمراہ کرنا ممکن نہ رہے گا۔ مذہب کی بنیادی تعلیمات کو اپناکر مسلمان بہتر اور متوازن زندگی بھی بسر کرتے رہیں گے۔ استعماری قوتیں یہی نہیں چاہتیں۔ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ متنازع بنانا چاہتی ہیں تاکہ ان کی بھرپور ترقی کی راہ مسدود ہوجائے اور وہ ہر شعبے میں عمدگی سے آگے بڑھنے کے قابل نہ ہوسکیں۔ استعماری قوتوں کے عزائم اور طریق ہائے کار اب بھی ڈیوڈ کیمرون اور مائیکل گروو جیسے لوگوں کے اذہان میں زندہ اور متحرک ہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ اس راستے پر چل کر وہ برطانوی معاشرے میں مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ متنازع بناسکیں گے اور ان کے لیے پنپنے کی راہیں مسدود کرکے دم لیں گے۔ ڈیوڈ کیمرون نے برطانوی پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران بھی بارہا کہا ہے کہ برطانوی اقدار کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کی جائے گی۔ ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات برطانوی اقدار کے منافی ہیں۔ ان کے نشانے پر اسلام ہے۔ وہ کسی بھی دوسرے مذہب یا اس سے وابستہ افراد کو برطانوی معاشرے اور اقدار کے لیے خطرہ قرار نہیں دیتے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ برطانوی معاشرے میں بہتر انداز سے ضم بھی نہ ہوسکیں اور ترقی کی دوڑ میں آگے بھی نہ جاسکیں۔ اس کی ایک ہی صورت ہوسکتی ہے اور وہ ہے انہیں زیادہ سے زیادہ متنازع بنانا اور ان کے پورے وجود پر سوالیہ نشان لگانا۔ اس وقت برطانوی ریاستی مشینری اور میڈیا یہی کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بظاہر طے کرلیا ہے کہ مسلمانوں کے گرد سوالیہ نشان لگائے رکھیں گے تاکہ ان کے بارے میں دوسرے لوگ منفی ہی سوچتے رہیں۔ ”گارجین” کے کالم نگار سائمن جینکنز نے مائیکل گروو کو ان لوگوں کا سرخیل قرار دیا ہے جو استعماری ہتھکنڈوں پر کچھ زیادہ ہی یقین رکھتے ہیں اور اسی دور کے طریقوں کے مطابق اب بھی کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں برطانیہ میں مسلمانوں کا ابھرنا استعماری قوتوں کے مقاصد کی راہ میں سب سے بڑی دیوار ہے۔ اب تک مسلمانوں کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا رہا ہے اور جس طور اسلامی تعلیمات کو پیش کیا جاتا رہا ہے، وہ سب پروپیگنڈا ہی تھا۔ برطانوی معاشرے میں مسلمانوں کا متحرک ہونا ایک لحاظ سے تبلیغی مقصد کو بھی پورا کرتا ہے۔ اسی بات سے ڈیوڈ کیمرون، مائیکل گروو اور ان کے ساتھی خوفزدہ ہیں۔
سازش کے تحت برطانوی معاشرے میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کے لیے نفرت اور عدم برداشت پیدا کی جارہی ہے۔ مسلم بچوں کی تعلیمات میں احادیث بھی شامل ہیں۔ وہ قرآن اور سنت کی تعلیم پاکر اسلام کو اس کی روح کے مطابق سمجھتے اور زندگی کی دوڑ میں تیزی سے آگے بڑھتے ہیں۔ یہ بات نیو کونز کو خطرناک لگتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے گرد سوالیہ نشان لگا رہے اور ان کے بارے میں طرح طرح کے شکوک پروان چڑھتے رہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ سب سے پہلے تعلیمی نظام کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ اور اس عمل کا انہوں نے آغاز کر بھی دیا ہے۔
“The poisonous campaign against the British Muslims”.
(“drfirozmahboobkamal.com”. June 14, 2014)
Leave a Reply