
برطانوی حکومت اور میڈیا نے خاصے تسلسل اور تواتر سے برطانوی مسلمانوں کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کی مہم چلا رکھی ہے۔ انہیں کسی نہ کسی طور دہشت گردی یا دہشت گردی پسند کرنے والا ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ سارا زور اِس بات پر ہے کہ مسلمانوں میں انتہا پسندی لازمی خصوصیت کی حیثیت سے پائی جاتی ہے۔ یہ افواہ بھی پورے جوش و خروش سے پھیلائی گئی کہ انتہا پسندوں نے ہم خیال افراد تیار کرنے کے لیے ملک کے دوسرے بڑے شہر برمنگھم میں پانچ مسلم اسکولوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ اِس معاملے کو یوں اُچھالا گیا جیسے یہ ملک کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہو۔ برطانوی وزیر تعلیم مائیکل گوو نے لندن پولیس کے اینٹی ٹیررازم چیف پیٹر کلارک کو اس ’’سازش‘‘ سے متعلق تفتیش کی ذمہ داری سونپی۔ تعلیمی اداروں سے متعلق تفتیش کے لیے اس قدر اعلیٰ سطح کے کسی افسر کو متعین کرنا حکومت کے کسی بڑے خفیہ ایجنڈے کا پتا دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے تفتیش سے قبل ہی فیصلہ تیار کرلیا ہے۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ تعلیمی اداروں میں غیر معمولی شدت کا زلزلہ آگیا ہے۔
محکمہ تعلیم کی ایک ٹیم نے متعلقہ اسکولوں کا جائزہ لینے کے بعد بتایا کہ اِن اسکولوں میں صنفی بنیاد پر امتیاز پایا جاتا ہے، جنس سے متعلق تعلیم کا معاملہ غور طلب ہے، فطری علوم کی تعلیم بھی اُس معیار کی نہیں جس معیار کی ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی اِس ٹیم نے چند اقدامات بھی تجویز کیے۔ ان تجاویز کی روشنی میں اقدامات کرنے کے بجائے حکومت نے لندن پولیس کے اینٹی ٹیرر ازم چیف کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اِن اسکولوں میں انتہا پسندی کا سراغ لگائیں۔ اس کے بعد وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور وزیر تعلیم مائیکل گوو نے جو تقاریر کیں اُن سے صاف پتا چلتا ہے کہ حکومت کیا چاہتی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کی تفتیشی ٹیمیں کیتھولک اور الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کے اسکولوں میں بہت سے مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں مگر اُن اسکولوں کے حوالے سے کبھی کوئی تحقیقات نہیں کرائی جاتی۔ مزید یہ کہ برطانوی پریس نے یہ بات (کسی تحقیق کے بغیر) خبر کی حیثیت سے نمایاں طور پر شائع کی کہ مذکورہ مسلم اسکولوں میں سفید فام خواتین کو طوائف کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ دی ٹائم، دی ڈیلی میل اور ایوننگ اسٹینڈرڈ نے اس خبر کو بہت نمایاں طور پر شائع کیا۔ مسلم اسکولوں کی غیر مسلم انتظامیہ اور سفید فام ٹیچرز نے بھی اس پر احتجاج کیا اور اِس نوعیت کی خبروں کو سفید جھوٹ قرار دیا۔ مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟
مسلم کمیونٹی میں انتشار
چند مسلم اسکولوں میں تفتیش کے حوالے سے اینٹی ٹیرر ازم ایکسپرٹ کو ذمہ داری کا سونپا جانا مسلم طلبا اور مسلم کمیونٹی میں انتشار پھیلانے کے لیے کافی تھا۔ معصوم بچوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ اُن کی اس لیے کڑی نگرانی کی جارہی ہے کہ کہیں وہ دہشت گرد ثابت نہ ہوں۔ معصوم بچوں کو تفتیش کے عمل سے گزارا گیا۔ عام طور پر یہ طریق کار مشتبہ دہشت گردوں اور دیگر ملزمان کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ بچوں سے مطلب کی معلومات حاصل کرنے کے لیے اُن پر دباؤ بھی ڈالا گیا۔ تحقیقات کے باوجود حکام کو اِن اسکولوں سے کوئی ایسی بات معلوم نہیں ہوسکی جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ انہیں انتہا پسندی کی طرف مائل کیا جارہا تھا یا دہشت گردی کے بیج اُن کے ذہنوں میں بوئے جارہے تھے۔ تفتیش کاروں کو معلوم ہوا کہ اِن اسکولوں میں ۹۸ فیصد طلبا مسلم تھے۔ ۲ فیصد طلبا رومانیہ کے تارکین وطن کے بچے تھے۔ تفتیش کاروں کو کئی باتوں سے حیرت ہوئی ہوگی۔ اسکولوں میں سفید فام بچے نہیں ہیں۔ تمام لڑکیاں حجاب میں تھیں اور طلبا و طالبات نے ظہر کی نماز اسکول کی حدود میں ادا کی۔ یہ سب کچھ تفتیش کاروں کے لیے بہت عجیب تھا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ انگلینڈ کی سرزمین پر اس طرح کا اسکول بھی ہوسکتا ہے۔ یہ اسلامی اسکول انہیں اپنی روایات اور طریقوں سے مختلف دکھائی دیا کیونکہ لڑکیاں حجاب میں تھیں اور ٹیچرز باریش تھے۔ ایسے میں تفتیش کاروں کو خیال آیا کہ ایسے اسکول کو مقامی انتظامیہ کے کنٹرول میں رہنے دینا اچھی بات نہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ پھر آئے اور اِس عزم کے ساتھ آئے کہ اسلامی اسکولوں کا انتظام و انصرام موجودہ انتظامیہ سے لے لیا جائے۔
اسلامی اسکولوں کے خلاف پروپیگنڈا اور مجموعی طور پر پوری مسلم کمیونٹی کے خلاف زہریلی باتوں سے برطانیہ کے نیوکونز کے ایجنڈے کا پتا چلتا ہے کہ وہ برطانوی مسلمانوں کے بارے میں بے بنیاد باتیں پھیلاکر اُن میں بدحواسی اور ملک کے دیگر باشندوں میں ان کے حوالے سے بدگمانیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ برطانیہ کے مین اسٹریم میڈیا میں بھی یہی سب کچھ ہوتا دکھائی دے رہا ہے گویا کوئی ایجنڈا طے کرلیا گیا ہو۔ اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ برطانوی حکومت میں انتہا پسند رجحانات رکھنے والے کس حد تک سرایت کرگئے ہیں۔ ڈی ڈیلی میل، دی ٹائم اور ایوننگ اسٹینڈرڈ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کے معاملے میں فرنٹ پر ہیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی اب کھل کر سامنے آرہی ہے کہ برطانوی حکومت مسلم باشندوں کے معاملے میں کس قدر امتیازی رجحان کی حامل ہے۔
برطانوی سرزمین پر مذہب کی بنیاد پر قائم اسکول کوئی نئی چیز نہیں۔ رومن کیتھولک، پروٹیسٹنٹ، یہودی اور سکھ اسکول عام ہیں۔ اور ان اسکولوں کو حکومت کی طرف سے فنڈز بھی ملتے ہیں۔ اگر مذہبی سوچ کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے تو صرف اسلامی اسکولوں کے بارے میں۔ یہ خالص امتیازی سلوک ہے جو پوری آزادی سے روا رکھا جارہا ہے۔ تمام مذاہب کے لوگ برطانوی سرزمین پر اپنے اسکول چلاتے ہیں جن میں لباس اور نصاب سبھی کچھ مذہبی معیارات کے مطابق ہوتا ہے۔ کسی اور مذہب کے لوگ اسکول قائم کریں اور اپنی مذہبی روایات کے مطابق تعلیم دیں تو اُس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ مسلم کمیونٹی جب اپنے اسکول قائم کرتی ہے اور ان میں مذہبی اطوار کے مطابق تعلیم دیتی ہے تو سب اعتراض کرنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ میڈیا میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگتا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی اسلامی اسکولوں کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا اور انتہا پسندی کے فروغ کا (بے بنیاد) خدشہ ظاہر کرکے معاملات کو بگاڑنے اور الجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو اعتراضات اسلامی اسکولوں کے بارے میں کیے جاتے ہیں وہ دیگر مذاہب کے اسکولوں کے بارے میں کبھی نہیں کیے گئے۔ اس سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ برطانوی حکومت اسلامی اسکولوں کے معاملے میں کس حد تک جانبداری سے کام لے رہی ہے اور واضح امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔
تعلیم کا حق دینے سے انکار
جس طرح بقا کا حق مقدم ہے، تعلیم کا حق بھی مقدم ہے۔ کسی بھی انسان کو تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ بنیادی حقوق میں سے ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اسی وقت حقیقی ترقی سے ہمکنار ہوتا ہے جب اس کے تمام باشندوں کو اُن کی مرضی اور ضرورت کے مطابق تعلیم کا حق دیا جائے۔ تعلیم ہی اُن میں بہتر زندگی کا شعور پیدا کرتی ہے اور انہیں بہتر زندگی کے لیے تیار بھی کرتی ہے۔ مذہب کا انتخاب بھی انسان کا بنیادی حق ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی مذہب سے وابستگی اختیار کرسکتا ہے۔ اس معاملے میں معاشرہ یا ریاست اگر کوئی دباؤ ڈالے تو یہ ایک بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوگی۔ کسی بھی انسان کو کسی بھی مذہب پر پوری طرح عمل کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ برطانوی سرزمین پر دیگر باشندوں کی طرح مسلمانوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کریں۔ کوئی بھی اعتراض اس وقت کیا جاسکتا ہے جب مسلمان مذہبی تعلیمات پر عمل کے دوران معاشرے یا ریاست کے لیے کوئی الجھن پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہوں۔ محض تحفظات اور خدشات کی بنیاد پر کوئی بھی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ جب محض خدشات کی بنیاد پر کسی اور مذہبی کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنایا جارہا تو صرف مسلمانوں کو کیوں نشانہ بنایا جائے؟ مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ اپنے بچوں کو مذہب کی تمام بنیادی تعلیمات سے ہمکنار کریں تاکہ وہ اپنے مذہب کے بتائے ہوئے راستے پر بہتر طریقے سے چل سکیں اور ثقافتی و ذہنی طور پر سچے مسلم ثابت ہوں۔ یہ ایک ایسا بنیادی حق ہے جس سے انہیں کسی بھی طور محروم نہیں رکھا جاسکتا۔ اگر مسلم کمیونٹی اس معاملے میں اُصولوں پر سودے بازی کرے تو بچوں کی تربیت کے معاملے میں بڑی خامی رونما ہوگی۔ اس صورت میں مسلم بچے اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر اچھی طرح چلنے کے قابل نہ ہوسکیں گے۔ اسلام مخالف اور مسلم مخالف ایجنڈا رکھنے والے لوگ مسلم کمیونٹی کو اس بنیادی حق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے برطانیہ کی تعلیمی پالیسی بھی اب مسلم کمیونٹی کو ایک بنیادی حق سے محروم رکھنے کی راہ پر گامزن دکھائی دیتی ہے۔ یہ سب کچھ تو نوآبادیاتی دور میں ہوا کرتا تھا۔ اب ایسا کرنے کی گنجائش کہاں بچی ہے؟
اسلامیانے کے عمل کی نفی
اسلام کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے قابل ہونے کے لیے لازم ہے کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات کے بنیادی مآخذ یعنی قرآن و سنت اور دور اول کے مسلمانوں کے اطوار سے آگاہ کیا جائے۔ مسلم گھرانوں، معاشرے اور ریاست کا فرض ہے کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات کے بنیادی مآخذ تک آسان رسائی دیں۔ خوراک، رہائش اور صحت عامہ کی سہولتوں کی طرح دینی تعلیم کی سہولت بھی ایک ناگزیر بنیادی ضرورت ہے۔ یہ ایک اسلامی بچے کی کم از کم بنیادی ضرورت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ سہولت بہم نہ پہنچائی جائے تو مسلم بچوں کی بہتر تربیت ممکن نہیں۔ مسلم بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے ہمکنار کرنے کا عمل کسی بھی طور پر انتہا پسندی کو فروغ دینے کے عمل کے زمرے میں نہیں آتا۔ کوئی بھی حکومت اگر اسلام کی بنیادی تعلیمات کے فروغ کو انتہا پسندی کے فروغ سے تعبیر کرتی ہے تو یہ اُس کی سوچ کی غلطی ہے۔ اور یہ کہ اسلام کے بارے میں اس کا تصور واضح نہیں یا غلط ہے۔ اس حقیقت کو کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام نے بنیادی ارکان کی طرح دین کی تعلیم کو بھی فرض کیا ہے۔ کسی بھی مسلم بچے کو دین کی بنیادی تعلیم سے کسی بھی طور بے بہرہ نہیں رکھا جاسکتا۔ ایسا کرنے کی صورت میں اس کی نشو و نما رک جاتی ہے اور اس کی شخصیت تکمیل سے ہمکنار نہیں ہو پاتی۔ مسلم کمیونٹیز کی نئی نسل کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے دور رکھنا نوآبادیاتی دور میں یورپی اقوام کا وتیرہ ہوا کرتا تھا۔ کسی بھی ملک پر قابض قوم کو اچھی طرح اندازہ ہوتا تھا کہ تعلیم کے معاملے میں کوئی قدغن نہ لگانے کی صورت میں محکوم قوم اپنی اصلیت سے واقف ہوگی، اس میں قوت پیدا ہوگی اور پھر ایک دن وہ غلامی کا طوق گردن سے اتار پھینکے گی۔
بچوں کے لیے بہتر دینی تعلیم کا اہتمام کرنا صرف مسلم گھرانوں یا کمیونٹیز ہی کا فرض نہیں بلکہ ان معاشروں یا ریاستوں کا بھی فرض ہے جن میں یہ کمیونٹی رہتی ہے اور ٹیکس ادا کرتی ہے۔ یورپی اقوام نے جب مسلم معاشروں پر قبضہ کیا تو سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دی کہ نئی نسل کو دین کی حقیقی تعلیم نہ دی جاسکے۔ انہیں اندازہ تھا کہ دین کی بنیادی اور حقیقی تعلیمات سے ہمکنار ہونے پر مسلم نئی نسل اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی اور محکومی کو کسی بھی حال میں برداشت کرنے پر راضی نہ ہوگی۔ مسلم معاشروں پر قابض ہونے والے کمیونسٹوں اور فاشسٹوں نے بھی یہی کیا۔ تعلیم پر قدغن لگانے سے مقصود و مطلوب یہ تھا کہ مسلمانوں کی نئی نسل اپنے دین کی روح سے واقف نہ ہوسکے اور کبھی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہ کرے۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
“The poisonous campaign against the British Muslims”.
(“drfirozmahboobkamal.com”. June 14, 2014)
Leave a Reply