
کسی بھی ملک میں دینی اصلاحات سے پہلے ضروری ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔
مصری صدر عبدالفتح سیسی، اس کے ہمنواؤں اور سابق وزیر ثقافتی امور جابر حمد عصفور کا خیال ہے کہ مصر کی تعمیر و ترقی، معاشی استحکام، مذہبی اصلاحات سے مشروط ہے۔ درحقیقت ۲۰۱۳ء میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی اور فوجی بغاوت اور سیاسی جبر و تشدد کے پیچھے کار فرما یہی مقاصد تھے۔
فوجی بغاوت کے فوری بعد ۲۰۱۴ء میں آئینی ترامیم کے ذریعے منتخب صدر محمد مرسیؒ کو معزول کر دیا گیا تھا۔
الازہر کو اسلامی تعلیمات کے حوالے سے اہم مقام حاصل ہے،تاہم آئینی اور قانونی عمل میں اس کا کوئی کردار نہیں۔جمال عبدالناصر کے زمانے سے اس ادارے کو ادارہ جاتی خود مختاری حاصل ہے۔
نصاب میں تبدیلی
سیسی اور اس کے حواریوں کو الازہر کے عوامی سطح پر اثرورسوخ اور اس کے کردار کے حوالے سے پریشانی رہی ہے۔ لہٰذا انھوں نے اقتدار پر قابض ہونے کے فوراً بعد الازہر کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کی، ان کا خیال ہے کہ ’’الازہر دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق نصاب سازی میں ناکام ہے‘‘۔ مصر کے بڑے اخبارات نے اس پروپیگنڈا مہم میں بھرپور ساتھ دیا اور عجیب و غریب سوالات اٹھانا شروع کر دیے، مثلاً اگر انسان بھوک سے مرنے کے قریب ہو تو کیا وہ اپنا یا کسی اور انسان کا گوشت کھا سکتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ الازہر کا نصاب مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے ،لہٰذا مذہبی انتہا پسندی کو شکست دینے کے لیے ناگزیر ہے کہ اس کے نصاب میں تبدیلی کی جائے، دراصل نصاب کی تبدیلی اہم مسئلہ نہیں ہے بلکہ مقاصد کچھ اور ہیں۔
تاہم یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ فوجی بغاوت کے موقع پر الازہر نے ایک منتخب صدر کی حمایت کرنے یا اس معاملے میں غیر جانبدار رہنے کے بجائے، فوج کی حمایت کی تھی۔اب وقت کے ساتھ ساتھ سیسی حکومت کے الازہر پر اعتماد میں کمی آرہی ہے، سیسی کی حکومت اور اس کے کارندے الازہر کو حاصل بہت سے اختیارات اور مراعات سے محروم کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔حال ہی میں ایک بل کے ذریعے دارالافتا کو مذہبی امور کے ماتحت کر دیا ہے۔
اس بل کے خلاف الازہر کی جانب سے اور عوامی سطح پر شدید ردعمل کے بعد پارلیمان نے اس بل کو واپس لے لیا ہے۔
بامقصد تبدیلی
موجودہ بیانیے اور اقدامات سے محسوس ہوتا ہے کہ اگر ان اقدامات پرعمل ہوتا ہے تو الازہر کو حاصل آئینی اختیارات سے محروم کر دیاجائے گا۔اس طرح مصر میں مسلمانوں کے مذہبی امور میں الازہر کا عمل دخل بھی کم ہوجائے گا۔
مجھے خدشہ ہے اگر یہ بل منظور ہوجاتا ہے تو اس دارالافتا کو زیادہ آئینی اختیارات دے کر مصری سماج میں الازہر کے بامعنی کردار کو ختم کردیا جائے گا۔الازہر کا تعلیمی میدان میں خاصا بڑا نیٹ ورک ہے،یہ کنڈرگارڈن سے ڈاکٹریٹ کی سطح تک دینی اور عصری تعلیم فراہم کر رہا ہے۔مصری معاشرہ کی ثقافت اور تمدن پر اس جامعہ کے گہرے اثرات ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی خیال موجود ہے کہ الازہر کے کردار میں مزید اضافہ کیا جائے،تاکہ روزمرہ کے مذہبی معاملات میں اس سے رہنمائی حاصل کی جا سکے ،خواندگی میں اضافہ ہو،اور دینی کتب کی اشاعت کا کام تیز ہو سکے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے الازہر سے فارغ التحصیل افراد کو دینی تعلیم کے حوالے سے نمایاں مقام حاصل ہے۔
گزشتہ ایک صدی سے مصر میں تعلیمی اصلاحات اور بالخصوص الازہر میں دی جانے والی تعلیم بحث کا موضوع رہی ہے۔ معروف اسکالر محمد عبدہٗ اصلاحات کے پُرزور حامی ہیں، ان کا خیال ہے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ، تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے والا اور طلبہ کو اسلامی وژن کے مطابق جدید مصری معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار اداکرنے کے قابل بنانا چاہیے۔
اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ الازہر کے نصاب میں جوہری تبدیلیوں اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔لیکن یہ اصلاحات مصر کے ہر ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں ہونا چاہییں۔ مصر کا ہر ایک تعلیمی ادارہ ازکار رفتہ تعلیمی و تدریسی نظام، بدانتظامی، کرپشن اور غیر فعالیت کا شکار ہے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا کیونکہ برسوں سے ریاست نے اصلاح احوال کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ایسے کوئی شواہد نہیں کہ سیسی نے اب تک تعلیمی میدان، سماجی اور انسانی وسائل کی بہتری اور انفرااسٹرکچر میں کوئی قابل ذکر کام کیاہو۔لیکن ایک فیصد اشرافیہ کے مفادات کے لیے بہت کام کیا ہے، باقی ۹۹ فیصد عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
الازہر کے خلاف سازشوں کو اسی پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔الازہر بہت ہی اہم تعلیمی ادارہ ہے اس کے گہرے نقوش مصری معاشرہ اور باہر کی دنیا پر ثبت ہیں۔
سیسی اور اس کے سیکولر حلیفوں کی اصلاحات کے حوالوں سے سازشوں پر شیخ طیب کا کہنا تھا ،حال ہی میں الازہر میں مذہبی اصلاحات کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا گیا ، مصری معاشرے کو لادین بنانے کی ایک صدی سے جاری کوششوں کا نتیجہ یہ ہے کہ مصر خود ایک پہیہ بھی نہیں بنا سکتا۔
مصری حکومت اور اس کے لا دین عناصر الازہر کی بچی کھچی علمی میراث کو تباہ تو کر سکتے ہیں ،لیکن بہتری اور خیر کا کوئی عمل ان کے ہاتھوں ممکن نہیں۔
(ترجمہ: محمودالحق صدیقی)
“Egypt: The politics of refoming al-Azhar”. (“middleeasteye.net”. Aug.28, 2020)
Leave a Reply