معاشرتی زندگی میں مرد و عورت کا تعلق ایک نہایت اہم مسئلہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسانی تمدن کا سنگ بنیاد ہے اور اس میں معمولی سی غلطی بھی پوری اجتماعی عمارت کو بدنما اور داغدار بنا سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں جب ہم تاریخِ انسانی کا مطالعہ کرتے ہیں تو افراط و تفریط کے نہایت بدنما مناظر سامنے آتے ہیں۔ کہیں تو اس عورت کو جو ماں کی حیثیت سے انسان کو جنم دیتی ہے اور بیوی کی حیثیت سے زندگی کے ہر نشیب و فراز میں مرد کی رفیق رہتی ہے، خادمہ یا لونڈی کے مرتبہ میں رکھ دیا گیا ہے، اس کو بیچا اور خریدا جاتا ہے، اس کو ملکیت اور وراثت کے تمام حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے، اس کو گناہ اور ذلت کا مجسمہ سمجھا جاتا ہے، اس کی شخصیت کو ابھرنے کا موقع نہیں دیا جاتا، دوسری طرف ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ عورت اٹھائی اور ابھاری جا رہی ہے اس انداز سے کہ اس کے ساتھ بداخلاقی اور بدنظمی کا طوفان بھی اٹھ رہا ہے، وہ حیوانی خواہشات کا کھلونا بنائی جاتی ہے، اس کو حقیقتاً شیطان کی ایجنٹ بنا کر رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ابھرنے سے انسانیت کا انحطاط و زوال شروع ہو جاتا ہے۔
یونان، روم، مسیحی یورپ اور جدید یورپ میں فکر انسانی کی المناک نارسائی کا عالم یہ ہے کہ افراط و تفریط کی بالکل دو مخالف انتہائیں نظر آتی ہیں، جب ایک قوم وحشت کے دَور سے نکل کر تہذیب و ثقافت کی راہ پر گامزن ہوتی ہے تو اس کی عورتیں لونڈیوں اور خدمت گاروں کی حیثیت سے اس کے مردوں کے شانہ بشانہ ہوتی ہیں۔ ابتدا میں بدویانہ طاقتوں کا زور اسے آگے بڑھائے لیے جاتا ہے مگر تمدنی ترقی کی ایک خاص منزل پر پہنچ کر اسے محسوس ہوتا ہے کہ اپنے پورے نصف ثانی کو پستی کی حالت میں رکھ کر وہ آگے نہیں جا سکتی، اس کو اپنی ترقی کی رفتار رکتی نظر آتی ہے اور ضرورت کا احساس اسے مجبور کرتا ہے کہ اس نصف ثانی کو بھی نصف اول کے ساتھ چلنے کے قابل بنائے، مگر جب وہ اس نقصان کی تلافی شروع کرتی ہے تو صرف تلافی پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ آگے بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ عورت کی آزادی سے خاندانی نظام (جو تمدن کی بنیاد ہے) منہدم ہو جاتا ہے، عورتوں اور مردوں کے اختلاط سے فواحش کا سیلاب پھوٹ پڑتا ہے، شہوانیت اور عیش پرستی پوری قوم کے اخلاق کو تباہ کر دیتی ہے اور اخلاقی تنزل کے ساتھ ذہنی، جسمانی اور مادّی قوتوں کا تنزل بھی لازمی طور پررونما ہوتا ہے جس کا آخری انجام ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
افراط و تفریط کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والی دنیا کو اگر اعتدال، توازن اور عدل و انصاف کا سیدھا، سچا، اطمینان بخش، حقیقی انسانی ترقی کا ضامن صحیح راہ دکھانے والا نظام اس وقت کوئی ہو سکتا ہے تو وہ اسلام ہے، اس کی اجتماعی تعلیمات ہیں اور مرد و عورت کے دائرۂ کار اور ان کی پابندی کرتے ہوئے انجام دینے والا ان کا کردار ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو انسانی شرف و کرامت کے مقام سے نوازا ہے اور اس کو مستقل بالذات حیثیت عطا کی، اپنی ملکیت میں تصرف کی پوری آزادی دی، اسے اپنے حقوق کے مطالبہ اور ان کے دفاع کا حق بھی دیا۔ اسلام نے ولقد کرمنا بنی آدم (اسرا:۲۰) (ہم نے بنی آدم کو معزز بنایا) میں عورت کو شامل کر کے اس کے مقام کو بلند کیا۔ بلاشبہ اسلام نے معاشرے میں عورت کو وہ بلند حیثیت عطا کی جس کی نظیر دنیا کی کسی سوسائٹی میں نہیں ملتی، مسلمان عورت دنیا اور دین میں مادّی، عقلی اور روحانی حیثیت سے عزت و ترقی کے ان بلند سے بلند مدارج تک پہنچ سکتی ہے جہاں تک مرد پہنچ سکتا ہے اور اس کا عورت ہونا کسی مرتبہ میں بھی اس کی راہ میں حائل نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں ان کے اندر سب سے پہلا حق معاشی حق ہے، اسلام عورت کو وراثت کے نہایت وسیع حقوق دیتا ہے۔ باپ سے، شوہر سے ، اولاد سے اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے اسے وراثت ملتی ہے، نیز شوہر سے اسے مہر بھی ملتا ہے۔ ان عام ذرائع سے جو کچھ مال اسے پہنچتا ہے اس میں ملکیت اور قبض و تصرف کے پورے حقوق اسے دیے گئے ہیں جس میں مداخلت کرنے کا اختیار نہ اس کے باپ کو حاصل ہے نہ شوہر کو۔ مزید براں اگر وہ کسی تجارت میں روپیہ لگا کر، یا خود محنت کر کے کچھ کمائے تو اس کی مالک بھی کلیتہً وہی ہے۔ اس طرح اسلام میں عورت کی معاشی حیثیت اتنی مستحکم ہو گئی ہے کہ بسا اوقات وہ مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔
اسی طرح اسے تمدنی حقوق کی دولت سے بھی مالا مال کیا گیا ہے، چنانچہ اسے شوہر کے انتخاب کا پورا پورا حق دیا گیا ہے، اس کی مرضی کے خلاف یا اس کی رضامندی کے بغیر کوئی شخص اس کا نکاح نہیں کر سکتا۔
عورتوں کو دینی و دنیوی تعلیم حاصل کرنے کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کو اسی قدر ضروری قرار دیا گیا ہے جس طرح مردوں کی تعلیم و تربیت ضروری ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسلام میں عورتوں کو بہترین سماجی حقوق سے بھی نوازا گیا ہے اور شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے سماجی ذمہ داریوں میں اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہد رسول اللہؐ میں خواہ ثقافتی سرگرمی ہو یا تفریحی سرگرمی، عمومی تقاریب میں شرکت ہو یا عورتوں کی مخصوص ثقافتی مجلسوں کا انعقاد، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی اجتماعی انجام دہی کی بات ہو یا سماجی خدمت اور خیر و فلاح کے کاموں میں رضاکارانہ خدمات کی انجام دہی کا باب ہو یا معرکۂ جنگ کے بعد زخمیوں کی دیکھ بھال کا معاملہ ہو، ہر جگہ ہمیں مسلم خواتین اپنا اجتماعی کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر ہمیں عہدِ رسالت میں سیاسی میدان میں بھی مسلم خواتین کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ لہٰذا اس مثالی دَور میں سیاسی امور میں مسلم خواتین کی دلچسپی، سیاسی امور میں صحابہ کرام کا خواتین کو مشورہ، سیاست سے متعلق نبوی ہدایات کی اشاعت میں مسلم خواتین کا سرگرم کردار اور حاکم وقت کی مخالفت میں ان کا رول جابجا ملتا ہے۔ اسلام چونکہ ایک فطری دین ہے اور اس میں فطرتِ انسانی اور اس کے مزاج و خصائل کی بھرپور رعایت کی گئی ہے اسی لیے اسلام مسلمان مرد و عورت دونوں سے اس کا متقاضی ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کریں۔ چونکہ عورت کی فطرت میں ماں بننے، بچے کی دیکھ بھال اور پرورش و پرداخت شامل ہے۔ بچے کے مستقبل کو استوار کرنا اور سنوارنا اس کا فریضۂ حیات ہے اس لیے لازمی طور پر معاشرے کے جتنے بھی مسائل ہوں خواہ ان کا تعلق سماجی مسائل سے ہو یا معاشی میدان سے یا سیاسی شعبہ سے ان سب میں عورت کو اپنا فطری کردار ادا کرنے میں اسلام نے کہیں رکاوٹ کھڑی نہیں کی ہے۔ بلکہ ایک عورت جب باشعور ہوجاتی ہے خاص کر جب ۴۵۔ ۴۰ سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے پاس وقت بھی ہوتا ہے، اس کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے اور وہ تجربہ کی نعمت سے بھی مالا مال ہوتی ہے، اسی لیے اس کے اندر بہتر معاشرے کی تعمیر و تشکیل کا داعیہ بھی ہوتا ہے۔ اس داعیہ کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری معاشرے کی ہے۔ عورت معاشرے کے لیے تہذیب و تمدن کو فروغ دینے، سماجی مسائل کا حل نکالنے، سیاسی اتار چڑھائو اور اس کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتی ہے اور یہ کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہو گا کہ اسلام کا بیجا نام لے کر اسے اس کردار سے محروم رکھا جائے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’ملّی اتحاد‘‘ نئی دہلی۔ اپریل ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply