حسنی مبارک کا عروج و زوال

مصر کے صدر حسنی مبارک نے مستعفی ہونے سے ایک دن قبل رات کو قوم سے جو خطاب کیا اس میں سب کو بیٹے اور بیٹیاں کہہ کر مخاطب کیا۔ یہ خطاب بھی جھوٹ کا پلندہ تھا۔ ان میں سے چند ایک جھوٹ ایسے تھے جن پر خود حسنی مبارک کو بھی یقین رہا ہوگا۔ اس خطاب میں حسنی مبارک نے کہا کہ وہ ستمبر میں صدارتی انتخاب تک اپنے منصب پر فائز رہیں گے، اس لیے کہ قوم کو ان کی ضرورت ہے۔ اقتدار میں تیس سال گزارنے کے بعد بھی حسنی مبارک کی اقتدار پرستی کا عالم دیکھیے! لوگ تو حسنی مبارک سے صرف دو الفاظ سننا چاہتے تھے۔۔ خدا حافظ! حسنی مبارک کی تقریر کے دوران ایک عورت کو ٹیلی فون پر یہ کہتے سنا گیا کہ اس قسم کے ڈرامے بہت ہوچکے! حسنی مبارک کے استعفے کے ساتھ ہی ان کی یہ خود فریبی بھی ختم ہوگئی کہ وہ ملک کے لیے مکمل طور پر ناگزیر ہیں۔

حسنی مبارک اور زین العابدین بن علی کے درمیان واضح فرق ہے۔ زین العابدین بن علی نے ملک کی دولت کو آخری لمحات تک سمیٹ کر رخصت ہونے کی تیاری کی۔ دوسری طرف حسنی مبارک نے ایسا نہیں کیا تاہم کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تیس برسوں کے اقتدار کے دوران کم و بیش ۴۰ سے ۷۰ ارب ڈالر غیر قانونی طور پر کماکر بیرون ملک منتقل کردیئے۔

ہر آمر یہ سمجھتا ہے کہ وہ ملک کی بھلائی کے لیے جس قدر سوچتا ہے اتنا کوئی نہیں سوچتا۔ حسنی مبارک کا بھی یہی حال تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے آخری لمحات تک قوم کو منانے کی کوشش کی۔ حسنی مبارک اور ان کے اہل خانہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ قوم کو منالیں گے۔ یہ سراسر رعونت کا معاملہ تھا۔ ان کے ذہنوں میں یہ فتور بھی موجود تھا کہ اب تک انہوں نے جو کچھ بھی کیا وہ قوم کے مفاد میں تھا۔ اور قوم کے مفاد سے ہٹ کر انہوں نے کوئی قدم نہیں اٹھایا!

حسنی مبارک کے لیے اقتدار کچھ اس انداز سے آیا کہ خود انہیں بھی یقین نہیں آیا۔ اور گیا بھی کچھ اس طرح کہ ان کے پاس یقین کرنے کا بظاہر کوئی سبب نہ تھا۔ حسنی مبارک نے اسرائیل کے خلاف ۱۹۷۳ء کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ ایئر مارشل تھے۔ قوم کا ہیرو بننے پر جب انور سادات نے انہیں ۱۹۷۵ء میں بلایا تو ان کا خیال تھا کہ قوم کے دفاع کے حوالے سے خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں سفیر بنایا جارہا ہے۔ ان کی بیوی سوزین نے کہا کہ سفارت ملے تو یورپ کے کسی ملک کی لیجیے گا۔ مگر انور سادات نے تو انہیں نائب صدر بنادیا۔ ۶؍اکتوبر ۱۹۸۱ء کو اسلامی شدت پسندوں نے حسنی مبارک کو صدر بنا ڈالا۔ وہ ملک کی طاقتور ترین شخصیت کی حیثیت سے ابھرے۔ اس دور میں مصر خاصا مختلف تھا۔ عوام کو جو بھی حکم دیا جاتا اس پر عمل ہو جاتا تھا۔ حکومت کی ہر پالیسی عوام کے لیے شدید خوف کا باعث تھی۔ ہم اس زمانے کی بات کر رہے ہیں جب مصر میں ایک ٹی وی چینل تھا اور وہ سرکاری تھا۔ ملک بھر میں ٹیلی فونک سروس خال خال تھی۔ بیرون ملک کال کئی دن پہلے بک کرانی پڑتی تھی۔ حسنی مبارک نے مظاہروں پر جو تاثر دیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس بات کو سمجھنے میں ناکام رہے کہ تیس سال میں مصر کتنا بدل چکا ہے اور رابطوں کے کتنے ذرائع موجود ہیں۔

حسنی مبارک کی بیوی سوزین کے والد مصری اور والدہ انگلینڈ کی تھیں۔ حسنی مبارک سے شادی کے وقت ان کی عمر سترہ سال تھی۔ اس وقت حسنی مبارک ایئر فورس میں فلائٹ انسٹرکٹر تھے۔ سوزین نے شوہر کے نائب صدر بننے کے بعد مصر کے سماجی حلقوں میں نام پیدا کرنے کی کوشش کی اور بہبود عامہ کے پروگراموں میں حصہ لیا۔ قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں سینٹر فار سوک انگیجمنٹ کی باربرا ابراہیم کا کہنا ہے کہ ’’سوزین اپنے شوہر سے دس گنا ذہین ہے۔ وہ جدید ترین رجحانات کے مطابق اپنے رویے کو تبدیل کرنے والی خاتون ہیں‘‘۔ صدارتی محل سے باہر کی دنیا کو سوزین اپنے شوہر سے بڑھ کر جانتی تھیں۔

مبارک خاندان کو معاشی اعتبار سے پروان چڑھانے میں سوزین نے مرکزی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنے بیٹوں اور پوتوں پوتیوں کی عمدہ پرورش اور تربیت کا پورا خیال رکھا ہے۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کا خاندان سیاسی اور معاشی اعتبار سے اس قدر مضبوط ہو کہ کئی نسلوں تک اس کا نام چلتا رہے۔ بڑا بیٹا اعلیٰ بزنس مین ہے۔ وہ فٹبال کا دیوانہ ہے۔ قومی فٹبال ٹیم کی حوصلہ افزائی میں وہ پیش پیش رہا ہے۔ چھوٹا بیٹا جمال کئی سال سے اپنے والد کا جانشین چلا آرہا ہے۔ برطانوی اخبارات نے اس کے بارے میں بہت کچھ شائع کیا ہے۔ ٹیبلائڈز جب بھی اس کے بارے میں کچھ شائع کرتے تھے تب قدیم مصر کے فراعنہ کے خانوادوں کا بھی ذکر کرتے تھے۔ جمال اپنے دوستوں میں کبھی صدر بننے کی خواہش کا اظہار کرتا پایا نہیں گیا۔ وہ ہمیشہ کینیڈی، بش اور کلنٹن کی بات کرتا رہا ہے۔

۲۰۰۹ء میں بہت کچھ بدل گیا۔ امریکا میں نیا صدر آگیا۔ حسنی مبارک ۸۰ سال کے ہوئے۔ انہوں نے چار امریکی صدور کو دیکھا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ امریکی صدور آتے اور جاتے رہیں گے مگر مصر میں حسنی مبارک ہی صدر رہیں گے۔ حسنی مبارک کا اقتدار مضبوط دکھائی دے رہا تھا اور وہ خود ابوالہول کی طرح ایستادہ تھے۔

حسنی مبارک کے دل کی دھڑکن بارہ سالہ پوتا محمد تھا۔ وہ اعلیٰ کا بڑا بیٹا تھا۔ ایوان صدر میں لگائی جانے والی تصاویر میں محمد اکثر دکھائی دیتا تھا۔ حسنی مبارک نے سرکاری سطح پر اپنی سوانح شائع کی تو اس کے کور پر وہ دو سالہ محمد کے ساتھ نمودار ہوئے۔ بعد میں ایک تصویر میں محمد کو صدر کی کرسی پر براجمان فون پر بات کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ مئی ۲۰۰۹ء کے وسط میں محمد نے ایک ویک اینڈ اپنے دادا اور دادی کے ساتھ گزارا مگر جب وہ اگلے دن اپنے گھر گیا تو سر میں شدید درد ہوا اور وہ کوما میں چلا گیا۔ چند روز پیرس کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد بارہ سالہ محمد چل بسا۔ میڈیکل رپورٹس کے مطابق اسے دماغ کا فالج ہوگیا تھا۔ اس سانحے نے حسنی مبارک کو توڑ دیا۔ انہوں نے امریکا کا دورہ ملتوی کردیا اور ان کی حالت اس قدر خراب ہوگئی کہ محمد کی تدفین میں بھی شریک نہ ہوسکے۔ چند ہفتوں کے بعد براک اوباما نے مصر کا دورہ کیا اور مغرب و اسلامی دنیا کے بارے میں ایک شاندار تقریر کی تو حسنی مبارک تقریب میں شریک نہ ہوسکے۔ مصر کے عوام نے حسنی مبارک کے دکھ کو محسوس کیا۔ ہر شخص ان سے ہمدردی کا اظہار کر رہا تھا۔

مبارک فیملی کے ایک دوست نے بتایا کہ بارہ سالہ محمد کے انتقال کے وقت حسنی مبارک سے لوگوں کو اس حد تک لگاؤ تھا کہ اگر وہ اس مرحلے پر اقتدار چھوڑنے کی بات بھی کرتے تو کوئی انہیں اقتدار کے ایوان سے نہ جانے دیتا۔ پوتے کی موت کا حسنی مبارک پر گہرا اثر پڑا۔ ان کا ذہن تو توانا رہا تاہم آنکھوں کی چمک ختم ہوگئی۔ منصب، حیثیت اور مستقبل میں ان کی دلچسپی کم ہوتی گئی مگر خیر کسی نہ کسی طرح وہ اقتدار کے ایوان میں رہے۔ اُن کے ذہن میں یہ بات البتہ راسخ تھی کہ ان کا متبادل کوئی نہیں۔

لندن میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپسی پر جمال نے اپنے والد کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں سیاست کے اسرار و وموز سیکھنے پر بارہ سال صرف کیے تھے۔ لندن میں انہوں نے بینک آف امریکا کے لیے کام کرنے کے ساتھ ساتھ Medinvest کے عنوان سے اپنی کمپنی قائم کی تھی۔ جمال مبارک نے کاروبار میں تنظیمی ڈھانچا برطانوی اداروں سے سیکھا۔ لیبر پارٹی کی بہت سی روایات کے ذریعے جمال مبارک نے کاروباری سوجھ بوجھ کو پروان چڑھایا۔

حسنی مبارک جو چاہتے تھے وہ نہ ہوسکا۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ تھا کہ جمال مبارک میں سیاسی سوجھ بوجھ ہے ہی نہیں۔ پارٹی میں بارہ سال گزار کر بھی وہ کچھ نہ کرسکا۔ اسکول اور امریکی یونیورسٹی میں اس کے کلاس فیلو یاد علی کا کہنا ہے کہ جمال مبارک میں سیاسی سوجھ بوجھ کے جراثیم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمال بہت پڑھا لکھا اور سمجھدار ہے مگر خیر، سیاست میں اس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ کاروباری دنیا کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ وہ ملک کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ عوام کو کیا درکار ہے مگر خیر، اس میں قیادت کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ حکومت چلا سکتا ہے نہ کسی کی بھرپور رہنمائی کرسکتا ہے۔

حسنی مبارک کے گرد ان کے معاونین اور مشیروں نے ہمیشہ حصار باندھے رکھا ہے۔ طویل مدت تک وزیر اطلاعات و نشریات کے منصب پر فائز رہنے والے صفوت شریف کی بدکرداری کے بارے میں لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ خفیہ اداروں کے ذریعے لوگوں کے خلوت کے لمحات کی مووی بنوایا کرتے تھے! حسنی مبارک کی حاشیہ برداری میں وہ اس حد تک بڑھ گئے تھے کہ ان کے خلاف کوئی بھی بات نہیں سنتے تھے اور مخالفین کو ختم کرنے کے معاملے میں کسی بھی حد تک جاسکتے تھے۔ ان کا موازنہ امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سابق سربراہ ایڈگر ہوور سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔

حسنی مبارک کے قریبی حلقے میں داخل ہو کر جھانکنے کی ہمت کم ہی لوگ کر پاتے تھے۔ کبھی کبھی سوزین اس حلقے میں جھانکتی تھیں۔ سوزین نے مصر میں خواتین کے ختنے کے خلاف آواز اٹھائی۔ باربرا ابراہیم کا کہنا ہے کہ سوزین سیکورٹی فورسز سے اپنی لڑائی خود چنتی تھیں۔

باربرا ابراہیم کا شوہر سعد الدین ابراہیم ۱۹۸۰ء میں سوزین کے ایم اے کے تھیسز کا نگران تھا۔ بعد میں جب سوزین خاتون اول بنیں تو سعد الدین ابراہیم ان کی تقاریر لکھنے پر مامور ہوا۔ بعد میں وہ حکومت کے لیے درد سر بنتا گیا۔ اس نے حکمران خاندان پر سلطنت بنانے کا الزام عائد کیا۔ یہ الزام ایک مضمون میں عائد کیا گیا۔ اس نے یورپی یونین کی فنڈنگ سے انتخابی مبصرین بھی تیار کیے۔ حسنی مبارک اور ان کے رفقاء نے اسے بھی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج اور ملکی امور میں بیرونی مداخلت سے تعبیر کیا۔ سعدالدین ابراہیم دوستوں میں بیٹھ کر صدر کے بارے میں بے بنیاد اور بے ہودہ باتیں کیا کرتا تھا۔ کسی نے ان باتوں کو ریکارڈ کرکے حسنی مبارک کی خدمت میں پیش کردیا۔ سعدالدین ابراہیم نے اگلے تین سال جیل میں گزارے اور بیماری میں موزوں طبی امداد نہ مل پانے کے باعث معذور ہوکر باہر آیا۔ اب وہ جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ ایک بار سوزین نے جب سعدالدین ابراہیم کے بارے میں کچھ کہنے کی کوشش کی تو حسنی مبارک نے کہہ دیا کہ وہ اس معاملے سے دور رہے۔

ڈیڑھ سال قبل جب حسنی مبارک کی صحت گرنے لگی تب ملک کی بڑی کاروباری شخصیات کو فکر لاحق ہوئی کہ اب ملک کو چلائے گا کون؟ قاہرہ کے فور سیزنز ہوٹل میں انہوں نے ایک اجلاس منعقد کیا اور انٹیلی جنس چیف عمر سلیمان کو نیا لیڈر بنائے جانے کے آپشن پر غور کیا۔ مگر ان کے پاس کوئی پلان سی نہیں تھا۔ مبارک خاندان نے جو اشرافیہ پیدا کی تھی اس کے پاس مستقبل کی تیاری کے حوالے سے بصیرت نہیں تھی۔

مصر میں کروڑوں افراد ایسے تھے جن کے پاس بصیرت کی کمی نہ تھی۔ ان کی آنکھوں میں کچھ خواب تھے جنہیں وہ کسی بھی حالت میں اپنی آنکھوں سے جدا کرنا نہیں چاہتے تھے۔ گزشتہ سال کے آخر میں جب پارلیمانی انتخابات کے موقع پر حکمراں جماعت کے سربراہ اور اسٹیل ٹائکون احمد عز نے کسی نہ کسی طرح اپوزیشن کے تمام امیدواروں کو راستے سے ہٹادیا تو عوام کا پارہ چڑھ گیا۔ اور جب تیونس کے عوام نے صدر زین العابدین بن علی کے خلاف آواز بلند کی تو مصر میں بھی لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ حسنی مبارک نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے فوج کا سہارا لینے کی کوشش کی مگر فوج نے حالات کے مطابق وہ طرزِ عمل اپنایا جس کی حسنی مبارک کو توقع نہ تھی۔ کابینہ سے ان تمام کاروباری شخصیات کو نکال دیا گیا جو جمال مبارک کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے تھے۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب مبارک فیملی کے رخصت ہونے کا وقت آگیا ہے۔

(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۲۱فروری ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*