
مصر میں ۹ سال قبل ’’قانون خلع‘‘ کے نام سے مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کی گئی تھی۔ اس کے بعد ۲۰۰۴ء میں خاندانی عدالتوں کے نام سے کچھ اور تبدیلیاں کی گئیں۔ اس طرح مسلم پرسنل لاء میں تبدیلیوں کا سلسلہ وقفہ وقفہ سے جاری ہے۔ گزشتہ دنوں وزارتِ انصاف، حکمراں پارٹی کی کمیشن برائے سیاسیات، قومی خواتین کونسل اور بعض خواتین تنظیموں کے اشتراک سے مسلم پرسنل لاء میں نئی تبدیلیاں کی گئیں۔ حکومت کے اس حالیہ اقدام نے مصر کے مذہبی حلقوں میں ناراضی کی لہر پیدا کر دی ہے۔ گزشتہ دو ہائیوں کے درمیان ہوئی تبدیلیوں سے واضح ہوتا ہے کہ بیرون ملک اور اندرون ملک مسلم پرسنل لاء کے تعلق سے مسلسل سازشیں جاری ہیں جن کا مقصد عائلی زندگی سے بتدریج شرعی قوانین کی علیحدگی ہے۔ مختلف عنوانات کے سہارے غیر محسوس طریقہ سے یہ کام انجام دیا جا رہا ہے۔ اگرچہ حالیہ نئی تبدیلیوں کا حکومت نے باقاعدہ اعلان نہیں کیا اور ان تبدیلیوں پر ایک طرح سے راز کے پردے پڑے ہوئے ہیں، لیکن مجمع الجوث الاسلامیہ کے ارکان کو پیش کیے گئے نئی تبدیلیوں کے مسودے سے واضح ہوتا ہے کہ حالیہ نئی تبدیلیاں شریعتِ اسلامی سے سراسر متصادم ہیں اور ان تبدیلیوں سے شریعت کی صریح مخالفت لازم آتی ہے۔ اس صورتحال نے مصر کے علماء کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے چنانچہ مصر کے علما اور مذہبی تنظیموں کی جانب سے حکومت کے اس اقدام کے خلاف ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں حکومت کو انتباہ دیا گیا کہ حالیہ تبدیلیاں دراصل پرسنل لاء سے شرعی قوانین کو الگ کرنے کی سازش ہے۔ علماء نے اپنے بیان میں ہر اس تبدیلی کو سختی کے ساتھ مسترد کر دیا جس میں قانونِ شریعت کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہو۔ علماء نے نئی تبدیلیوں کو اللہ کی طرف سے حلال کردہ چیزوں میں تنگی پیدا کرنے کے مترادف قرار دیا۔ حالیہ نئے مسودہ میںخفیہ نکاح جسے عرفی نکاح بھی کہا جاتا ہے کی راہ ہموار کرنے کے لیے نکاح کی تعریف پر نظرثانی اور تعدد ازواج کے لیے شرائط کا اضافہ کیا گیا ہے۔ تعدد ازواج کو مشروط کرتے ہوئے دوسرے نکاح کے لیے پہلی بیوی سے اجازت یا عدالت کی اجازت ضروری قرار دی گئی ہے۔ دوسرے نکاح کا خواہش مند پہلے عدالت میں درخواست داخل کرے گا جس میں دوسرے نکاح کی ضرورت کے اسباب بیان کرے گا پھر عدالت اس کی درخواست پر غور و خوض کر کے معقول وجہ کی صورت میں نکاح کی اجازت دے گی۔ اسی طرح حالیہ تبدیلیوں میں طلاق کے واقع ہونے کے لیے دو گواہوں کی موجودگی ضروری قرار دی گئی ہے۔ غائبانہ طلاق یا بغیر گواہوں کے صرف بیوی کے سامنے دی جانے والی طلاق کو نامعتبر قرار دیا گیا ہے۔ نیز حضانت اور نفقہ وغیرہ سے متعلق مسائل میں بھی تبدیلی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس قسم کی تبدیلیوں سے عورت کے لیے انصاف رسانی آسان ہو گی۔
حکومتِ مصر کے حالیہ اقدام پر علما مصر نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ازہری علما کے محاذ کے سابق صدر ڈاکٹر عبدالمنعم بری نے کہا کہ حکومت کی پرسنل لاء میں کی گئی حالیہ تبدیلیاں قرآن کریم کو مطعون کرنے کی ایک شکل ہے۔ یہ تبدیلیاں ان احکام و قوانین سے بالکل مختلف ہیں جنہیں اللہ نے بندوں کے لیے لاگو کیا ہے۔ علاوہ ازیں شرعی احکام جن میں عائلی مسائل بھی شامل ہیں امور تعبد یہ ہیں جن میں قانون سازی کا حق صرف اللہ اور اس کے رسول کو حاصل ہے۔ کسی فرد یا ادارہ کو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرنے کی اجازت نہیں۔ کوئی ادارہ اللہ کے احکام میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ نئے پیش آمدہ مسائل میں علماء اور مفتیان کرام دلائل شرعیہ کی روشنی میں احکام کا استخراج کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمنعم بری نے کہا کہ حالیہ تبدیلیاں انتہائی نامعقول ہیں۔ جنہیں عقل کسی ًطرح قبول نہیں کرتی۔ مثلاً طلاق کے لیے دو گواہوں کی شرط انتہائی نامعقول ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا میاں بیوی کے درمیان ہوئی طلاق کے بعد شوہر فوراً باہر جا کر بازاروں سے دو گواہوں کو لائے گا؟ یہ ایسی بات ہے جسے نہ شریعت تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی آدمی کی عقل تسلیم کرتی ہے۔ چاہے اس قسم کی شرط لگانے والے شیعی مذہب سے استدلال کیوں نہ کرتے ہوں مگر ہمارے لیے ناقابل قبول ہیں۔ اس کے لیے اہل سنت کے لیے شیعی مذہب کسی طرح قابل عمل نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر عبدالمنعم بری نے کہاکہ اس طرح کے اقدامات کے ذریعہ حکومت اپنے آقائوں کی خوشامد کرنا چاہتی ہے۔ امریکا اور یورپی یونین کی رضا اصل مقصود ہے لیکن یہ اقدامات دستورِ خداوندی کی صریح خلاف ورزی ہے۔
مجمع الجوث الاسلامیہ کے رکن اور جامعہ عین شمس کے استاذ ڈاکٹر مصطفی شکعد نے کہا کہ جو لوگ مصر میں مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کی وکالت کر رہے ہیں وہ یا تو اسلام سے بالکلیہ ناواقف ہیں یا پھر وہ اسلام، شریعت اسلام کے خلاف منصوبہ بند سازش رچانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء میں کی گئی حالیہ تبدیلیاں شریعت کے صریح خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس قسم کی بعض تبدیلیاں مجمع الجوث الاسلامیہ کو پیش کی گئیں تو اس نے بالکلیہ مسترد کر دیا۔ اس موقع پر مجمع الجوث الاسلامیہ نے حکومتی عہدیداروں کو اس بات کا مشورہ دیا تھا کہ نکاح اور شادی کی وہی تعریف باقی رہنے دی جائے جس کی صراحت شریعت میں پائی جاتی ہے۔ کتب فقہ میں نکاح کے لیے جن ارکان کی شرط لگائی گئی ہے اس کے بغیر نکاح کو درست قرار نہ دیا جائے۔ بالخصوص یہ شرط کہ نکاح علانیہ ہو اس میں اخفاء نہ رکھا گیا ہو۔ جو نکاح اس شرعی تعریف کے دائرہ میں نہ آئے اسے غیر شرعی اور غیر قانونی قرار دیا جائے۔ ڈاکٹر مصطفی شکعہ نے کہا کہ حالیہ تبدیلیوں میں وقوع طلاق کے لیے گواہوں کی موجودگی کی جو شرط لگائی گئی ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس ترمیم شدہ دفعہ سے مرد کو حاصل حق تحفظ ختم ہو جاتا ہے اس سے بے ضمیر خواتین کے لیے کھلواڑ کے مواقع ہاتھ آئیں گے اور شوہر سے چھٹکارا پانے کی خواہش مند ہر خاتون کرایہ کے گواہ حاصل کر کے اقدام کر بیٹھے گی۔ کرایہ کے گواہوں کا حصول بہت آسان ہے اس طرح انہیں کسی بھی وقت استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ملک سعود یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جنہوں نے مسلم پرسنل لاء میں کی گئی حالیہ تبدیلیوں پر علماء کرام کی جانب سے اجتماعی بیان شائع کروانے میں پہل کی تھی کہا کہ حالیہ تبدیلیوں کی دفعات شریعت کے مسلمہ قواعد سے کھلے طور پر ٹکراتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان تبدیلیوں کے پسِ پردہ مغربی لبرل عناصر کار فرما ہیں جن کی داخلی سطح پر عرب عناصر تائید کر رہے ہیں۔ ان عرب عناصر کی کوشش یہ ہے کہ کسی طرح عرب معاشروں کو مغربی سانچے میں ڈھال دیا جائے۔ عرب مسلمانوں کی معاشرتی و عائلی زندگی جو خالص اسلامی بنیادوں پر قائم ہے یہ مغرب زدہ عناصر اسے اقوام متحدہ کی مختلف تنظیموں اور حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی مغربی تنظیموں کے سہارے مغربیانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ ایک طرح کی سماجی و معاشرتی گلوبلائزیشن کی شکل ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں پر لادینی خاندانی نظام تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسی خطرناک سازش ہے جس کا مقصد مسلم و مشرقی معاشرہ کی تہذیبی خصوصیات کا خاتمہ کرنا ہے۔ اس طرح کی کوششوں کا اولین نشانہ اسلام اور مسلمان ہیں اس لیے کہ دیگر مذاہب کا اپنا کوئی مستقل عائلی نظام نہیں ہے جبکہ اسلام ایک مضبوط و مستحکم عائلی نظام رکھتا ہے۔ طلاق و نکاح دیگر عائلی قوانین میں مسلمان شریعتِ اسلامی کے پابند ہیں اور شریعت قوانین ناقابلِ تبدیل ہیں۔ ان میں کسی قسم کے شرائط و قیود کا اضافہ سنگین جرم ہے۔ اس وقت مغرب کے اشارہ پر بہت سے عرب ملکوں میں اسلام کے عائلی نظام کو متاثر کرنے کی ناکام کوششیں ہو رہی ہیں۔ بالخصوص مصر، جزائر بحرین، یمن، عراق، موریطانیہ اور اردن میں اس قسم کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالعزیز کامل کا کہنا ہے کہ مصر میں کی گئی حالیہ تبدیلیاں جو عورت سے ظلم ختم کرنے کے دعویٰ کے ساتھ کی گئیں مرد کے لیے ظلم کا باعث بن رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں سے موجودہ لبرل تصور کو تقویت ملتی ہے جو اندرون خاندان مرد و عورت کے درمیان کشمکش کو حتمی قرار دیتا ہے اور عورت کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ جبراً مرد سے اپنے حقوق حاصل کرے۔ یہ تصور اخلاقی بحران کے دور کی پیداوار ہے جس سے مغرب دوچار تھا۔ مغربی ملکوں میں عورتوں کے ساتھ روا رکھے گئے ظلم کے سبب اس قسم کے تصور کو فروغ ملا۔ لیکن مسلم معاشرہ میں رائج اسلامی عائلی قوانین میں مرد و عورت کے درمیان کشمکش کا تصور نہیں بلکہ ہر ایک کو دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا پابند بنا دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالعزیز کامل نے مزید کہاکہ اس قسم کی تبدیلیوں سے خاندان اور میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے جذبات پروان چڑھیں گے۔ خواتین مردوں کی قوامیت کو چیلنج کریں گی اور مرد ہمیشہ عورتوں سے انتقام لینے کے درپے رہیں گے۔ میاں بیوی کی ناچاقیاں بچوں پر اثر انداز ہوں گی جس سے پورا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گا۔
مصر کے مشہور داعی ڈاکٹر عبدا لصبور شاہین نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بعض حلقوں کی جانب سے شریعت اسلامی سے مستنبط احکام میں تبدیلی کی جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ دراصل ان شیطانی منصوبوں کا تسلسل ہے جن کا مقصد مسلمانوں کے دلوں سے دین و شریعت اور اسلامی اقدار کی اہمیت ختم کرنا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قسم کے اقدامات اسلامی اداروں اور مذہبی تنظیموں کو اعتماد میں لیے بغیر کیے جا رہے ہیں۔ بالخصوص مجمع الجوث الاسلامیہ اور جامع ازہر سے مشاورت کے بغیر سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عبدا لصبور شاہین کا کہنا ہے کہ مسلم پرسنل لاء انسان کا بنایا ہوا نہیں ہے وہ سراسر شریعت اسلامی سے ماخوذ ہے اس لیے اس سلسلہ میں کیے جانے والے کسی بھی اقدام سے قبل حد درجہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘ ممبئی۔ ۱۴ جون ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply