
چین کے حریفوں کی ہرممکن کوشش ہے کہ کسی طرح وہ چین کی اقتصادی راہداری (Belt and Road Initiative) کے مقابل کوئی قابل عمل منصوبہ پیش کر سکیں۔حالیہ جی۔۷ ممالک کے اجلاس میں بھی اس حوالے سے انھوں نے غورو خوض کیا لیکن وہ ابھی تک کوئی متبادل پیش نہیں کرسکے۔ Clean Green Initiative کا منصوبہ مغرب اور چین کے درمیان جاری حریفانہ کشاکش کا تسلسل ہے۔ دراصل بیجنگ کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کو روکنے کے لیے دنیا کی بڑی طاقتیں بے چین ہیں۔
۲۰۱۳ء جب سے چین کی اقتصادی راہداری (BRI, Belt and Road Initiative) کا آغاز ہوا،دنیا کی ۱۰۰؍ابھرتی ہوئی معیشتوں نے اس کا حصہ بننا پسند کیا۔اس منصوبے میں ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
(Belt and Road Initiative) کے تحت قرض حاصل کرنے والے ممالک کے لیے چین سے حاصل کیے گئے قرضوں کی واپسی،پروجیکٹ کی کامیابی سے تکمیل،مزدوروں کے حقوق کا خیال اہم چیلنج ہیں۔ صرف ایشیائی ممالک کو اگلی دہائی میں اپنے انفراسٹرکچر کو نئے طرز پر استوار کرنے کے لیے ۷ء۱؍کھرب ڈالر درکار ہوں گے۔ لہٰذا یہ ممالک BRI کے متبادل کسی دوسرے منصوبے میں بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
جی۔۷ ممالک نے صحیح وقت کا انتخاب کیا ہے۔ کیونکہ اس وقت کورونا نے BRI کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی وجہ سے چین کے مزدور پروجیکٹ کے لیے دوسرے ممالک کا سفر نہیں کرسکتے۔معاشی چیلنجز کے پیش نظر چین کی قیادت بھی دوسرے ممالک میں کسی نئے پروجیکٹ کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔
جی۔۷ ممالک اس صورتحال میں کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ اہم ہے۔ تاہم،معلومات کے مطابق Clean Green Initiative کوئی غیر معمولی منصوبہ نہیں اور نہ ہی یہ کسی بھی طور (Belt and Road Initiative) کا متبادل ہوسکتا ہے۔ جی۔۷ ممالک کے پیش نظر محض بیجنگ کو سراسیمہ کرنا ہے۔
ٹرمپ کے دور حکومت میں،امریکا BRI کے خلاف مستقل بیان بازی کرتا رہا ہے۔ ۲۰۱۸ء میں امریکا کے سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے چین کی پیش قدمی روکنے کے لیے ایک مخصوص فنڈ قائم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا،لیکن وہ کوشش کے باوجود اس حوالے سے صرف ۱۱۳؍ملین جمع کرسکا تھا۔
کچھ عرصہ پیشتر امریکا نے آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر “Blue Dot” کے نام سے ایک منصوبے کا آغاز کیا۔لیکن اس منصوبے کو بھی خاطر خواہ پزیر ائی نہیں مل سکی۔
امریکا او ر اس کے اتحادیوں کے لیے مشکل ہے کہ وہ چین کے کم لاگت لیکن اعلیٰ معیار کے منصوبوں کا مقابلہ کرسکے۔چین اپنے مقاصد کے لیے کسی بڑے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری سے دریغ نہیں کرتا،اس طرح کی سرمایہ کاری کسی اور ملک کے لیے ممکن نہیں۔
اس سال کے آغاز میں امریکا کے موجودہ صدر بائیڈن نے بھی بورس جانسن کے ساتھ مل کر BRI کے حوالے سے مشترکہ کوششوں کے لیے بات کی تھی۔اس وقت امریکی صدر چین کے ساتھ ہر محاذ پر بھر پور مسابقت چاہتے ہیں۔امریکا کے لیے دوسرے ممالک کے انفرااسٹرکچر میں مدد اور اس میں سرمایہ کاری کرنا مشکل نہیں۔
اس حوالے سے جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے، جاپان نے ایشیائی ممالک میں بڑی خاموشی سے خطیر رقم کی سرمایہ کاری کی ہے۔معیار کے اعتبار سے جاپان،چین سے بہت آگے ہے۔اگر جی۔۷ ممالک، یورپی یونین اور ترقی یافتہ ایشیائی ممالک :جاپان،آسٹریلیا کے ساتھ شراکت کریں تو نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔امریکا یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ اس نوعیت کی شراکت میں قائدانہ کردار ادا کر سکے۔تاہم،یہ اہم ہے کہ اس نوعیت کے کسی بھی منصوبے کی کامیابی کے لیے وسائل اور سیاسی عزم کا ہونا ضروری ہے۔
(ترجمہ: محمود الحق صدیقی)
“The problem with the G7’s plan to rival China’s Belt and Road Initiative”. (“newstatesman.com”. June 11, 2021)
Leave a Reply