
۱۳؍مارچ ۲۰۱۵ء کو بنگلا دیشی اخبار ’’دی ڈیلی سن‘‘ میں صحافی عبدالمنّان کا ایک آرٹیکل شائع ہوا جس کا عنوان ’’ہیو اے گڈ ڈے بیرسٹر ٹوبی کیڈمین‘‘ تھا۔ یہ آرٹیکل بھی عبدالمنّان کے پچھلے آرٹیکل جیسا ہی تھا۔ حقائق کم تھے اور بڑھک زیادہ ماری گئی تھی۔ عبدالمنّان مجھ پر پروپیگنڈے کا الزام عائد کرتے ہیں مگر اِس آرٹیکل میں اُنہوں نے خود بھی پروپیگنڈا ہی کیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی شخص نے خود کو صحافی قرار دیتے ہوئے مجھ پر الزامات عائد کیے ہوں اور میرے کردار پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ہو۔ مجھ پر شیطان کا وکیل، تنخواہ دار لابسٹ، قومی سلامتی کے لیے خطرہ اور جماعت اسلامی کا ’’ماؤتھ پیس‘‘ ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ جنگی جرائم کے ٹربیونلز کے حوالے سے اپنا کردار اور پوزیشن واضح کردوں۔ میں یہ سب کچھ ہوں اور اِس سے کچھ زیادہ بھی ہوں۔ میں ملزمان کا قانونی وکیل ہوں۔ میرا فرض ہے کہ میں اس بات کو یقینی بناؤں کہ میرے کسی بھی موکل کے خلاف غیر شفاف کارروائی نہ ہو، کسی کو غیر قانونی طور پر پھانسی نہ دی جائے اور کسی کو انصاف کے ملنے میں تاخیر بھی نہ ہو۔
میں یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں آزاد یا غیر جانب دار ہوں۔ میں ایسا کر ہی نہیں سکتا کیونکہ مجھے اپنے موکلین کا دفاع کرنا ہے۔ میں اگر تماشائی کی حیثیت سے کھڑا ہوں گا تو وہ لوگ یقینا ناراض ہوں گے جن کے دفاع کے لیے مجھے مقرر کیا گیا ہے۔ بنگلا دیش کے انٹر نیشنل کرائمز ٹربیونل نے انصاف کے نظام سے براہِ راست ٹکر لی ہے۔ اس ٹربیونل کی کارروائی نے انصاف کے نام کو دھبّہ لگایا ہے۔ بنگلا دیشی حکومت چونکہ اس ٹربیونل کی قائم کرنے اور چلانے والی ہے، اِس لیے اُسے بھی اِس پر شرم محسوس ہونی چاہیے۔ اس ٹربیونل کی کارروائی ایسے انداز سے چلائی گئی ہے کہ کسی بھی اعتبار سے اُسے انصاف کے تقاضوں کے مطابق قرار دیا ہی نہیں جاسکتا۔
عبدالمنّان نے لکھا ہے کہ اگر میں بنگلا دیشی شہری ہوتا تو مجھ پر فردِ جرم عائد کردی جاتی۔ جناب عبدالمنّان! میرے اور آپ کے ملک میں یہی فرق ہے۔ میرے ملک میں حقیقی جمہوریت ہے اور میں گرفتاری کا خوف دل میں رکھے بغیر کسی بھی معاملے پر کھل کر تنقید کرسکتا ہوں۔ ہماری عدالتیں جو فیصلے سناتی ہیں اُن پر میں جائز تنقید کرتا ہوں۔ اور ایسا کرتے وقت میرے دل میں ججوں کے لیے احترام بھی ہوتا ہے۔ میں اپنے ملک کے سرکاری وکلاء اور تفتیش کاروں کا بھی احترام کرتا ہوں کیونکہ وہ بھی اُصولوں کا خیال رکھتے ہیں، جبکہ بنگلا دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کی کارروائی کے دوران تمام اُصولوں اور ضابطوں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔
مجھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ جنگی جرائم کے حوالے سے تنازع پیدا کرنے کے لیے مجھے انٹر نیشنل لابسٹ کے طور پر رکھا گیا ہے۔ میں واضح کردوں کہ تنازع تو بنگلا دیشی حکومت اور اُس کے قائم کردہ انٹر نیشنل کرائمز ٹربیونل نے پیدا کیا ہے۔
مجھ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ میں نے بنگلا دیشی فوج کا تاثر خراب کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو تجویز دی ہے کہ امن فوج میں بنگلا دیشی سپاہی بھرتی نہ کیے جائیں۔ میں پھر واضح کرتا چلوں کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ عالمی امن فوج میں بنگلا دیشی سپاہیوں نے بہت عمدہ کردار ادا کیا ہے۔ سابق یوگو سلاویہ اور چند افریقی ممالک میں امن فوج کے حصے کے طور پر کام کرنے والے بنگلا دیشی سپاہیوں سے میرا رابطہ رہا ہے اور میں نے اُنہیں بہت معیاری پایا ہے۔
دی ہیگ (ہالینڈ) میں قائم انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں کارروائی کے دوران بنگلا دیشی آرمڈ فورسز کے چند سینئر افسران کو سنگین جرائم میں ملوث پایا گیا ہے۔ اصول یہ ہے کہ ایسے افسران کے نام ظاہر نہ کیے جائیں کیونکہ ایسا کرنے سے پوری فوج متنازع ٹھہرتی ہے۔ جب تک انٹر نیشنل کرمنل کورٹ باضابطہ طور پر کوئی اعلامیہ جاری نہ کرے، تب تک ہم کسی بھی ملک کے کسی بھی سینئر فوجی افسر کا نام ظاہر نہیں کرسکتے۔ امن فوج میں شامل چند بنگلا دیشی فوجی افسران کے بارے میں جو اطلاعات ملی ہیں، اُن سے متعلق ہم نے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ سے کہا ہے کہ وہ تفتیش مکمل کرکے رپورٹ دیں تاکہ بات آگے بڑھائی جاسکے۔ یہ عمل کسی قوم کی تذلیل سے متعلق نہیں۔ عبدالمنّان کو اندازہ ہونا چاہیے کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کرتی ہے۔ چند افسران کی مجرمانہ سرگرمیوں سے ایک باضابطہ ریاستی ادارے کی ساکھ یقیناً داغ دار نہیں ہونی چاہیے۔
عبدالمنّان نے اپنے آرٹیکل میں یہ بھی لکھا کہ جماعت اسلامی نے جنگی جرائم کے مقدمات میں اپنے دفاع کے لیے یہودی ٹوبی کیڈمین کو وکیل مقرر کیا۔ میں واضح کردوں کہ میں یہودی نہیں ہوں۔ عبدالمنّان نے یہ بھی لکھا کہ وہ یہودیت مخالف نہیں ہیں، مگر پھر بھی وہ مجھے یہودی ہی قرار دیتے رہے۔ مجھے یہودی قرار دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ہاں، انداز توہین آمیز نہیں ہونا چاہیے۔
اگر میں عیسائی، مسلم، ہندو یا بدھسٹ ہوتا، تب بھی عبدالمنّان یہی انداز اختیار کرتے؟ جماعت اسلامی نے میری خدمات حاصل کی ہیں تو عبدالمنّان کو یاد آیا ہے کہ جماعت والوں نے ایک یہودی کی خدمات حاصل کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں تو اصولوں کی بنیاد پر کام کرتا ہوں اور برطانیہ میں ہم وکلاء کی راہیں طے شدہ ہیں، جبکہ بنگلا دیش میں وکلاء بھی سیاسی خطوط پر منقسم ہیں۔ میری ماں کا خاندان کئی نسلوں پہلے مصر سے آیا تھا۔ میرے والد انگریز ہیں۔ میں کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا۔ میری بیوی بوسنیا کی کیتھولک عیسائی ہے۔ میں مذہبی اور سیکولر دونوں طرح کی انتہا پسندی کا سخت مخالف ہوں۔ میں (برطانیہ کی سیاسی جماعت) لبرل ڈیموکریٹس کا رکن ہوں مگر اُن کی پالیسیاں بھی میرے سیاسی کیریئر کے خدوخال متعین نہیں کرتیں۔ میں کسی بھی سیاسی جماعت میں کوئی عہدہ نہیں چاہتا اور میں اپنے کام کے حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت بھی نہیں کرسکتا۔ میرا کام اور میرے سیاسی نظریات بالکل الگ تھلگ معاملات ہیں۔
جناب عبدالمنّان نے وکالت کے شعبے سے میری وابستگی کے بارے میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ میں اپنے موکلین سے ہم آہنگی رکھتا ہوں۔ ایسا نہیں ہے۔ میں ایک وکیل ہوں اور جسے بے قصور سمجھتا ہوں، اُسے سزا سے بچانے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں۔ مجھ سے یہ سوال کئی بار کیا گیا ہے کہ میں نے جماعت اسلامی کی نمائندگی کرنا کیوں قبول کی۔ میں بتا چکا ہوں کہ مجھ سے پہلے رابطہ جماعت اسلامی نے کیا تھا۔ اگر بنگلا دیشی حکومت نے پہلے رابطہ کیا ہوتا اور اگر میں درست سمجھتا تو اِسی جوش و جذبے سے بنگلا دیشی حکومت کی بھی وکالت کرتا۔ میں وہ مشورہ کبھی نہ دیتا جسے میں خود غلط سمجھتا ہوں۔ اگر میں اس ٹربیونل میں بنگلا دیشی حکومت کا وکیل ہوتا تو سب سے زیادہ زور اس بات پر دیتا کہ ٹربیونل کی کارروائی شفاف بنائی جائے اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔ غیر شفاف طریقے سے کی جانے والی کارروائی انصاف کے نام پر آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ اگر بنگلا دیشی حکومت چاہتی تو اس معاملے میں کئی غیر ملکی ماہرین سے معاونت طلب کرسکتی تھی، مگر اُس نے ایسا کرنا مناسب نہ جانا۔
جناب عبدالمنّان نے تسلیم کیا ہے کہ میری اور مجھ جیسے چند دوسرے لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ مقدمات کی کارروائی شفاف ہو۔ ساتھ ہی انہوں نے سابق صدر جنرل ضیاء الرحمن پر بھی الزام عائد کیا ہے کہ وہ بھی ۱۹۷۵ء میں جنگی جرائم کے ٹربیونل کی راہ میں رکاوٹ بنے تھے۔ میں تاریخ دان تو نہیں ہوں، لیکن میرا خیال ہے کہ بنگلا دیش کے قیام کی جدوجہد کے دوران جو کچھ ہوا، اُس کے بارے میں مقدمات اُس وقت روک دیے گئے تھے، جب بنگلا دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمن نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے سب کو معاف کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ اور ویسے بھی جو ہوا وہ اپنی جگہ۔ اب ہم حال کی بات کر رہے ہیں، ماضی کی نہیں۔ بنگلا دیش میں سنگین جرائم کے حوالے سے کارروائی شیخ مجیب نے رکوائی، جنرل ضیاء الرحمن نے یا پھر اقوام متحدہ نے؟ یہ بھیانک غلطی تھی۔ اس بنگلا دیش کے وجود کو ان مقدمات سے خطرہ لاحق ہے۔ اگر چالیس سال پہلے ہی ذمہ داروں کا تعین کرکے سزا دے دی جاتی تو آج یہ بحران پیدا نہ ہوا ہوتا۔
جناب عبدالمنّان کا کہنا ہے کہ چار عشروں کے بعد ٹربیونل قائم کرنا اور شواہد جمع کرنا آسان کام نہیں۔ میں اِس بات سے مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں۔ بوسنیا ہرزیگووینا میں بھی جنگی جرائم کے ارتکاب کے ایک عشرے کے بعد مقدمات کی کارروائی شروع ہوئی تھی اور اس حوالے سے مجھے وہاں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر خیر، اِن مشکلات کو جواز بناکر ایسے مقدمات کے چلائے جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جو تمام تسلیم شدہ عالمی معیارات پر پورے نہ اترتے ہوں۔ ہر ملزم کا حق ہے کہ اُس کے خلاف مقدمہ انصاف کے تمام اصولوں کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے چلایا جائے۔ جرائم کے ارتکاب کو مدت گزر جانے پر ضروری کارروائی پوری کیے بغیر مقدمات چلانا اور قانون کے تقاضے نبھائے بغیر سزا سنا دینا کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں۔ یہ حق ہے جو جنگ کے زمانے میں بھی ساقط نہیں کیا جاسکتا۔ ساتھ ہی ساتھ ریاست کا بھی فرض ہے کہ ایسا نظامِ انصاف قائم کرے جو تمام تسلیم شدہ عالمی معیارات سے مکمل مطابقت رکھتا ہو۔
انتہائی سنگین نوعیت کے جرائم کے حوالے سے مقدمات چلانا کسی بھی ملک کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوا کرتا ہے۔ کمبوڈیا میں بھی یہی ہوا تھا کیونکہ وہاں بھی اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کو سزا دی جانی تھی۔ اقوام متحدہ نے وہاں ایک ہائبرڈ کمیشن مقرر کیا تھا۔ یہی تجربہ بنگلا دیش میں بھی کیا جاسکتا تھا۔ اب بھی وقت گزرا نہیں ہے۔
جناب عبدالمنّان نے لکھا ہے کہ بنگلا دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد پر قیامِ بنگلا دیش کی لڑائی میں مارے جانے والوں کے ورثاء اور سیکٹر کمانڈرز کی طرف سے دباؤ تھا۔ اور پھر سول سوسائٹی نے تحریک بھی چلائی تھی۔ یہی سبب ہے کہ اُنہوں نے ۲۰۱۰ء میں جنگی جرائم کے ٹربیونل کے قیام کا اعلان کیا۔ یہ بیان بہت اہم ہے۔ میں نے بنگلا دیش میں جنگی جرائم کے ٹربیونل کے قیام پر کوئی تنقید نہیں کی۔ میں اس حوالے سے بنگلا دیشی حکومت کو بھی موردِ الزام نہیں ٹھہراتا۔ میرا بنیادی اعتراض اِس بات پر ہے کہ ایک طرف تو ایسے مقدمات کے لیے تسلیم شدہ معیارات کا خیال نہیں رکھا گیا اور دوسری طرف عالمی برادری نے اس معاملے کو چالیس سال تک سرد خانے میں ڈالے رکھا۔ ایسا کرنا سراسر غلط تھا۔ جنگی جرائم کے مقدمات چلانا غلط نہیں۔ غلط اگر ہے تو ایسے مقدمات کے تمام تقاضے نہ نبھانا۔ میں لیگل فریم ورک اور پریکٹس کی خامیوں کی نشاندہی کر رہا ہوں۔
جناب عبدالمنّان نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک وکیل کا فرض اپنے موکل کا دفاع ہے نہ کہ عدالت کے باہر مقدمے کی کارروائی یا طریق کار کے خلاف کچھ کہنا۔ فاضل مصنف شاید بھول گئے ہیں کہ دورِ جدید میں کسی بھی وکیل کے پاس اپنے موکل کے مؤثر دفاع کے لیے کئی طریقے ہیں۔ وہ شاید معاملات کو سیاسی رنگ دے کر کنفیوز کرنا چاہتے ہیں۔
جولائی ۲۰۱۰ء میں آئی بی اے وار کرائمز کمیٹی نے بنگلا دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے لیگل فریم ورک کے حوالے سے مجھے برطانوی دارالامراء سے خطاب کی دعوت دی۔ میں نے ایوان سے خطاب کے دوران طریق کار میں پائی جانے والی بہت سی خامیوں اور پیچیدگیوں کی نشاندہی کی۔ آئی بی اے وار کرائمز کمیٹی نے پہلے کئی تجاویز پیش کی تھیں۔ میں اس بات کی باضابطہ تصدیق کرسکتا ہوں کہ آئی بی اے وار کرائمز کمیٹی نے بنگلا دیش میں انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے لیے جو اصلاحات تجویز کی تھیں، اُن سے میرا کوئی تعلق نہ تھا کیونکہ یہ اصلاحات کمیٹی میں میری رکنیت سے بہت پہلے تیار کرلی گئی تھیں۔
اکتوبر ۲۰۱۰ء میں وکلاء صفائی کی دعوت پر میں پہلی بار بنگلا دیش گیا۔ میں نے ٹربیونل کا دورہ کیا، ججوں سے ملا اور ٹربیونل سے متعلق ایک سیمینار میں اسٹیون کے کیوسی، عبدالرزّاق اور بنگلا دیش سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے کئی ارکان کے ساتھ خطاب کیا۔
جناب عبدالمنّان نے معاملات کو الجھانے کی غرض سے یہ بھی لکھا ہے کہ میں نے صرف پیسوں کے لیے یہ مقدمہ قبول کیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں بنگلا دیش میں اپنے موکلوں کے لیے مفت میں خدمات پیش نہیں کر رہا ہوں مگر اِس سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ میں اپنے کام میں سنجیدہ نہیں ہوں اور اپنے موکلوں کے بچانے کے معاملے میں پورے جوش و جذبے کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔ کیا میں یہ سوچوں کہ جناب عبدالمنّان ’’ڈیلی سن‘‘ کے لیے مفت میں لکھتے ہیں؟ میں جانتا ہوں کہ وہ صحافی ہیں اور اُنہیں خبر دینے یا مضامین لکھنے کے پیسے ملتے ہیں۔ میں وکیل ہوں۔ اگر کیس میں کسی کی نمائندگی کروں تو مجھے بھی ادائیگی کی جاتی ہے۔ میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ جناب عبدالمنّان سیاسی غیر جانبداری کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ جس طور وکیل کو غیر جانبدار رہنا ہے، اُسی طور صحافی کو بھی مکمل غیر جانبدار ہی رہنا ہوتا ہے۔
مجھ پر یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ میں نے لندن اور نیو یارک میں ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے احتساب کی بات کی ہے اور ایک موقع پر مجھ سے یہ بات بھی منسوب کی گئی ہے کہ جب تک عالمی برادری مداخلت نہیں کرے گی، بنگلا دیش میں انٹر نیشنل کرائمز ٹربیونل کی کارروائی شفاف نہ ہوسکے گی اور انصاف کا حصول ممکن نہ ہوسکے گا۔ جو کچھ میرے حوالے سے لکھا گیا ہے، اُس سے میں کسی طور انکار نہیں کرسکتا۔ میں نے برطانیہ، امریکا، اقوام متحدہ اور یورپی یونین میں جو کچھ کہا ہے، وہ یہی تو ہے۔ میں کئی مواقع پر کہہ چکا ہوں کہ بنگلا دیش میں سنگین جرائم کے مقدمات کی کارروائی شفاف نہیں اور اس حوالے سے بین الاقوامی معیارات کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ میں نے یہ بھی کہا ہے کہ بنگلا دیش میں جمہوریت ابھی پختہ نہیں۔ اس میں کیا شک ہے؟ بنگلا دیش میں آج بھی حکومت اپنے مخالفین کا نقطۂ نظر برداشت نہیں کرتی اور سیاسی جماعتیں بھی ایک دوسرے سے اختلاف تو کرتی ہیں مگر مخالفانہ نقطۂ نظر کو ہضم نہیں کر پاتیں۔ مجھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ میں نقیب الرحمن سے ہم آہنگی کا اظہار کرچکا ہوں۔ فاضل مصنف شاید یہ بتانا بھول گئے کہ نقیب الرحمن میرے ایک موکل کے بیٹے ہیں اور میرے اِس موکل کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔
جناب عبدالمنّان نے مجھ پر ایک سنگین الزام یہ بھی عائد کیا ہے کہ میں نے بنگلا دیش کی ریاست پر حملہ کیا ہے جو غداری کے مترادف ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اس امر پر شدید افسوس ظاہر کیا ہے کہ میں بنگلا دیشی شہری نہیں ہوں، اِس لیے قانون کی گرفت سے باہر ہوں۔ شاید فاضل مصنف مجھے بھی بنگلا دیشی پولیس اسٹیٹ کے خلاف بولنے پر پکڑے جانے والے دوسرے بہت سے لوگوں کی طرف لاک اپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھ پر یہ ساری الزام تراشی اس لیے ہے کہ میں نے بنگلا دیش کو خام جمہوریت قرار دیا تھا۔
میں نے جب ٹربیونل میں وکیل کی حیثیت سے حاضر ہونے کی باضابطہ درخواست دی تو بنگلا دیشی بار کونسل نے مسترد کردی حالانکہ ٹربیونل کے لیگل فریم ورک میں اس بات کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی وکیل بار کونسل کی اجازت سے ٹربیونل یا عدالت میں پیش ہوسکتا ہے۔ میرے ایک ساتھی چارلی بلیئر کیو سی موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف مقدمے کی کارروائی میں مشیر کی حیثیت سے پیش ہوچکے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس وقت شیخ حسینہ واجد کے وکیل اور سابق وزیر قانون شفیق احمد نے مجھے ٹربیونل میں حاضر ہونے کی اجازت دینے سے انکار کے لیے بنگلا دیشی بار کونسل پر دباؤ ڈالا۔
مجھ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ میں نے بار بار بنگلا دیش آکر اپنے موکلوں سے ملاقات کی اور یہ کہ میں اب بھی ایسا ہی کر رہا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ میں نے اکتوبر ۲۰۱۰ء سے اگست ۲۰۱۱ء کے دوران پانچ مرتبہ بنگلا دیش کا سفر کیا مگر میری ملاقات موکلوں سے صرف ایک بار ٹربیونل میں ہوئی۔ مگر مجھے اُن سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایک بار مجھے ٹربیونل کی کارروائی دیکھنے کی اجازت دی گئی مگر میں موکلوں سے مل سکتا تھا، نہ وکلاء صفائی سے، بلکہ مجھے تو بین الاقوامی مبصرین کی گیلری میں بیٹھنے کی اجازت ملی۔ میں نے رجسٹرار سے شکایت کی کہ میں مبصر نہیں بلکہ وکیل ہوں، مجھے وکلاء صفائی کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دی جائے مگر رجسٹرار نے ذرا بھی لچک نہ دکھائی۔ یہ سوچ کر کہ بات نہ بگڑے، میں خاموش رہا۔
ٹربیونل کی کارروائی کے دوران میرا موبائل فون بج اٹھا جو وکلاء صفائی نے مجھے دیا تھا۔ میں، ٹربیونل کے قواعد کے تحت، اُسے سوئچ آف کرنا بھول گیا تھا۔ میں نے موبائل کو فوراً سوئچ آف کرتے ہوئے فاضل ججوں سے معذرت چاہی۔ مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ غیر معمولی تھا۔ چیف پراسیکیوٹر نے عدالت سے تحریری درخواست کی کہ مجھے کمرۂ عدالت سے باہر نکال دیا جائے مگر ٹربیونل کے چیئرمین نے، جنہیں بعد میں مستعفی ہونا پڑا، اِس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے مجھے وہاں بیٹھے رہنے کی اجازت دی۔ یہ سیشن ایک گھنٹہ چلا جس کے بعد دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا۔ میں جب کورٹ روم میں پہنچا تو وہاں سرکاری وکلاء یہ چہ مگوئیاں کر رہے تھے کہ میں نے قلم کی مدد سے عدالتی کارروائی ریکارڈ کرلی ہے۔ اِس پر رجسٹرار نے مجھے فوری طور پر کمرۂ عدالت سے نکل جانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں کھانے کے وقفے کے بعد کمرۂ عدالت میں نہ آؤں۔ اس کے بعد میں نے کبھی ٹربیونل کی کوئی کارروائی براہِ راست نہیں دیکھی۔
اس کے بعد مجھے صرف ایک بار بنگلا دیش میں قدم رکھنے کی اجازت دی گئی۔ میں آخری بار بنگلا دیش گیا تو مجھے ایئرپورٹ ہی سے واپس بھیج دیا گیا۔ ۵؍اگست ۲۰۱۱ء کو میں بوسنیا میں گھر والوں کے ساتھ چھٹیاں گزار رہا تھا۔ وہاں سے میں ڈھاکا گیا تاکہ چند میٹنگز کرسکوں اور مقامی وکلاء صفائی کی طرف سے منعقد کیے جانے والے سیمینار میں کچھ بولوں۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ میں نے ویزا کے لیے پہلے سے درخواست نہیں دی۔ میں بوسنیا میں تھا اور وہاں سے براہِ راست آرہا تھا، اِس لیے پہلے سے ویزا لینے کا کوئی امکان نہ تھا۔ اس کے لیے مجھے لندن آنا پڑتا۔ میں نے لندن میں بنگلا دیشی ہائی کمیشن سے رابطہ کرکے اپنی مشکل ظاہر کی تو مجھے بتایا گیا کہ میں براہِ راست ڈھاکا پہنچنے پر بھی ویزا کے لیے درخواست دے سکتا ہوں۔ میں نے چار مرتبہ ایسا ہی کیا تھا۔ میرا پاسپورٹ بھی اِس بات کی گواہی دے سکتا ہے۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ جب ڈھاکا ایئر پورٹ پر مجھے ویزا دینے سے انکار کیا گیا اور میں نے لندن میں بنگلا دیشی ہائی کمیشن کا حوالہ دیا تو ہائی کمیشن نے مجھے ایسا کوئی بھی مشورہ دینے ہی کی تردید کردی۔ خیر، حالات کو دیکھتے ہوئے ہائی کمیشن کا اپنی ہی کہی ہوئی بات سے مُکر جانا کچھ حیرت کی بات نہیں۔
ڈھاکا ایئرپورٹ پر جب میں نے ویزا کے لیے درخواست دی تو امیگریشن افسر نے مجھے وزارت داخلہ کی طرف سے دستاویزات کا پلندہ دکھایا جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ مجھے کسی بھی حال میں ملک میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ میں نے برطانوی قونصل جنرل کو مطلع کیا۔ وہ کچھ ہی دیر میں ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ اس کے بعد میں دس گھنٹے تک ایئر پورٹ پر رہا اور پھر ڈی پورٹ کردیا گیا۔ جب تک میں ایئرپورٹ پر رہا، مجھ سے بہت اچھا سلوک کیا گیا اور کسی طرح کی پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔ مجھے اندازہ نہیں کہ عبدالمنّان نے یہ بات کس بنیاد پر لکھی ہے کہ میں بنگلا دیش آتا جاتا رہتا ہوں۔
میری بنگلادیش بدری کے بعد طے پایا کہ ہماری لیگل ٹیم لندن میں بنگلا دیشی ہائی کمیشن میں ویزا کے لیے باضابطہ درخواست دے گی۔ ۲۰۱۱ء کے موسم خزاں میں ویزا کی جو درخواست دائر کی گئی تھی، اُس کا اب تک جواب نہیں دیا گیا۔
میں ۲۰۱۲ء میں سعودی عرب گیا تھا۔ عبدالمنّان نے اِس سفر کو بھی ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ میرے موکلوں کو زیادہ سے زیادہ بارہ گواہ بلانے کی اجازت دی گئی تھی۔ ٹھیک ہے، ہزاروں گواہوں کو بلایا بھی نہیں جاسکتا۔
کسی بھی گواہ کو عدالت میں بلانے کا بنیادی مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ متعلقہ امور کی تصدیق کرے۔ گواہ مجرم کی شناخت کے لیے بھی ہوسکتا ہے، کردار کی تصدیق کے لیے بھی یا پھر معاملات کی تفہیم کے لیے۔ وکلاء کا فرض ہے کہ وہ گواہ کی پیشی اور اُس کے بیان کا مقدمے سے کوئی جائز تعلق ثابت کریں۔ گواہوں کا بلایا جانا ججوں کا وقت ضائع کرنے یا اُنہیں اُلجھانے کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔
جناب عبدالمنّان نے نیورمبرگ ٹربیونل کے حوالے رائے دی ہے کہ اُس میں کوئی گواہ پیش نہیں ہوا تھا۔ میرا خیال ہے کہ پہلے وہ اِس حوالے سے کچھ پڑھ لیتے۔ جنگی جرائم کے اِس ٹربیونل میں ۹۴ گواہ پیش ہوئے تھے۔ جن میں سے ۶۱ دفاع میں تھے۔ مزید ۱۴۳؍گواہوں نے تحریری بیانات داخل کیے تھے۔ ٹربیونل کے ۴۰۳؍اوپن سیشن ہوئے تھے۔ ۱۹؍ملزمان نے اپنے حق میں شواہد خود فراہم کیے۔ یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ بعض گواہوں کو سزا دی گئی۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اسی طور کسی بھی وکیلِ صفائی کے خلاف کارروائی کا الزام بھی سراسر بے بنیاد ہے۔ نیورمبرگ ٹربیونل کے حوالے سے اپنے مضمون میں جناب عبدالمنّان نے جو کچھ لکھا ہے وہ کسی جواز کے بغیر ہے۔ وکلاء صفائی کو نشانہ بنانے والی بات انتہائی غلط ہے۔ کسی بھی غیر معمولی مقدمے میں سب سے اہم کردار وکلاء صفائی کا ہوا کرتا ہے۔
جناب عبدالمنّان نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کوئی بھی عدالت بنگلا دیشی عدالتوں جیسی شفاف نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس بیان کو صرف مضحکہ خیز قرار دیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹربیونل عوام کے لیے جتنا کھلا ہوا ہے، دوسری عدالتیں نہیں ہوا کرتیں۔ یہ دعویٰ بھی صرف مضحکہ خیز ہی ہے۔ دنیا بھر کے انٹرنیشنل ٹربیونلز عوام کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی قومی اور بین الاقوامی عدالتیں کسی گواہ کی سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے یا پھر قومی سلامتی کی خاطر بند کمرے کی کارروائی کرسکتی ہیں۔ اگر حالات کا واضح دباؤ نہ ہو تو بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کہ ٹربیونلز کی کارروائی سب کے لیے ہو، یعنی کوئی عام آدمی بھی کمرۂ عدالت میں بیٹھ کر کارروائی سُن سکتا ہو۔
جناب عبدالمنّان کا یہ لکھنا بھی غلط ہے کہ کوئی اور عدالت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں اپیل کا حق نہیں دیتی۔ یہ ٹھیک ہے کہ نیورمبرگ اور ٹوکیو ٹربیونلز نے اپیل کا حق نہیں دیا تھا مگر ماہرین ان دونوں ٹربیونلز کو بینچ مارک بھی تسلیم نہیں کرتے۔ دیگر تمام ٹربیونلز اور بین الاقوامی عدالتوں نے اپیل کا حق دیا ہے۔ وکلاء استغاثہ اور وکلاء صفائی دونوں ہی کسی بھی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق رکھتے ہیں۔
بنگلا دیش میں ٹربیونل کے قواعد کے تحت لیگل فریم ورک، جج کے تقرر یا اور کسی معاملے میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔ یہ انصاف کے بنیادی تقاضوں کے خلاف ہے۔ انٹرلوکیوٹری اپیل کا حق دیے بغیر شفاف کارروائی یقینی نہیں بنائی جاسکتی۔ اگر بنگلا دیشی ٹربیونل کے لیگل فریم ورک کو بے داغ بنانا ہے تو انٹر لوکیوٹری اپیل کا حق دینا پڑے گا۔ کسی بھی گواہ یا شواہد کے خلاف اپیل کا حق بھی یقینی بنانا چاہیے۔ کوئی ابتدائی فیصلہ بھی خامیوں بھرا ہوسکتا ہے۔
بنگلا دیشی ٹربیونل اصل فیصلہ جاری کرنے والے ججوں ہی کو اُن پر نظرثانی کی بھی اجازت دیتا ہے۔ عالمی طور پر تسلیم شدہ معیارات کے مطابق لازم ہے کہ جس جج نے کوئی فیصلہ دیا ہو، اُس پر نظرثانی اُس کے علاوہ کوئی دوسرا جج کرے۔ بوسنیا ہرزیگووینا، کروشیا اور سربیا میں جنگی جرائم سے متعلق ٹربیونلز قومی سطح پر قائم کیے گئے ہیں اور اِن ٹربیونلز کے کسی بھی فیصلے کے خلاف ملک کی اعلیٰ ترین عمومی عدالت میں اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ آخرِ کار آئینی عدالت کے علاوہ یورپی یونین کے انسانی حقوق کمیشن میں بھی اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔
جب فاضل مصنف اپیل کے حق کو غیر معمولی مراعات میں شمار کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُنہیں متعلقہ لیگل فریم ورک کے بارے میں کتنا کم معلوم ہے۔ اپیل کوئی رعایت نہیں بلکہ حق ہے جو دیے بغیر کسی بھی مقدمے کے شفاف ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی ضمانت انٹرنیشنل کوویننٹ آن سِول اینڈ پولیٹیکل رائٹس میں بھی دی گئی ہے جس پر دستخط کرنے والوں میں بنگلا دیش بھی شامل ہے۔
جناب عبدالمنّان نے محمد قمرالزماں کے معاملے میں فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے سزائے موت کو محض دو ہفتوں تک موخر کرنے کو بھی عدلیہ کی طرف سے بہت بڑی رعایت شمار کیا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کچھ ہے۔ کسی بھی مقدمے میں شفافیت اِس بات سے نہیں ناپی جاتی کہ فردِ جرم عائد کیے جانے کے کتنے عرصے بعد سزا سنائی جاتی ہے بلکہ شفافیت جانچنے کے کئی معیارات اور پیمانے ہیں۔ اِن تمام معیارات کو اپناکر ہی مقدمے کی کارروائی میں مکمل شفافیت کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مقدمے میں بھی شفافیت دکھائی نہیں دی اور انصاف کے تمام تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
مجھ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ میں عام طور پر جنگی جرائم میں ملوث افراد کے مقدمات لڑ کر کماتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں بنگلا دیش میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ اور برطانیہ میں جن چند مقدمات کی پیروی کر رہا ہوں، اُنہیں ہٹاکر دیکھا جائے تو میں وکیل صفائی کی حیثیت سے کم ہی کام کرتا ہوں۔ میں عام طور پر وکیل استغاثہ کے طور پر کام کرتا آیا ہوں۔ اگر جناب عبدالمنّان میرے بارے میں کچھ تحقیق ہی کرلیتے یا مجھ سے انٹرویو کی زحمت گوارا کرلیتے تو اُنہیں اندازہ ہوجاتا کہ میں کس نوعیت کا کام کرتا رہا ہوں اور کر رہا ہوں۔ کراؤن پراسیکیوشن سروس سیریس کرائمز یونٹ کی طرف سے مجھے اکثر ہدایت ملتی رہتی ہے کہ ایکسٹراڈیشن یونٹ کے لیے کراؤن پراسیکیوٹر کی حیثیت سے کام کروں۔ میں اِس وقت بھارت اور امریکا کی حکومتوں کی طرف سے ایکسٹراڈیشن کی دو درخواستوں کی پیروی کر رہا ہوں۔ شام، مصر، فلسطین، عراق اور لیبیا میں جنگی جرائم کے مقدمات کی تحقیقات سے متعلق بھی میرا وقت صَرف ہو رہا ہے۔
مجھ پر لندن میں جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کی طرف سے بولنے اور اُن کے مقصد کو آگے بڑھانے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ میں اُن کے مقصد کو آگے بڑھانے کا نہیں بلکہ اُن کے ارکان کے مقدمات لڑنے کا کام کر رہا ہوں۔ مجھ پر اُن سے وابستگی اور اُن کے لیے پرچار کرنے کا الزام عائد کرنا انتہائی بددیانتی ہے۔ مجھے تو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کے ارکان کے مقدمات لڑوں اور اِن مقدمات سے جو اہم باتیں عالمی برادری کے سامنے لائی جانی چاہئیں، وہ سامنے لے آؤں۔
فاضل مصنف نے بنگلا دیش کے قانونی نظام کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ کمبوڈیا میں اِس نوعیت کے مقدمات کے لیے کوئی مؤثر نظام تھا ہی نہیں۔ بہتر ہوتا کہ کمبوڈیا والے بنگلا دیش کے نظام سے کچھ سیکھتے!
بنگلا دیشی انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے تناظر میں صرف اتنا کہوں گا کہ اِسے دیکھ کر سیکھا جاسکتا ہے کہ کیا نہیں کرنا ہے اور کبھی نہیں کرنا ہے۔ کمبوڈیا کے عدالتی نظام کو کمزور بتاکر اُسے بنگلا دیشی عدالتی نظام سے مستفید ہونے کا مشورہ دینا کمبوڈین نظام کی توہین کے مترادف ہے۔
مظالم اور مقدمات کی نوعیت دیکھتے ہوئے شفاف کارروائی یقینی بنانے کے لیے کمبوڈیا میں جنگی جرائم کا ٹربیونل کمبوڈیا کی حکومت اور اقوام متحدہ کی مکمل ہم آہنگی سے، معاہدے کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ اِس ٹربیونل کو بین الاقوامی رنگ دینا لازم تھا کہ تاکہ مقدمات کی کارروائی پر عالمی برادری کو کوئی شک نہ رہے اور تفتیش بھی بھرپور انداز سے مکمل ہو اور بہت حد تک ایسا ہی ہوا۔ کمبوڈیا کی شاہی حکومت نے مقدمات کی کارروائی اقوام متحدہ کے طے کردہ فریم ورک کے تحت چلائی۔ معاہدہ ۶ جون ۲۰۰۳ء کو طے پایا تھا۔ کمبوڈیا کی حکومت نے اقوام متحدہ کی ہدایات پر عمل کیا اور مقدمات کو زیادہ سے زیادہ شفاف بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ بنگلا دیشی ٹربیونل کے حوالے سے ایسا کوئی بھی دعویٰ محض مضحکہ خیز ہی کہلائے گا۔
آخر میں مصنف نے لکھا ہے کہ میں اپنے موکلوں کے دفاع کا حق رکھتا ہوں اور اس معاملے میں کچھ بھی کرسکتا ہوں مگر مقدمے کی کارروائی ہی کو متنازع قرار دینا کسی بھی اعتبار سے درست اور قابل قبول نہیں۔ انہوں نے مجھے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ میں یورپی یونین یا برطانیہ میں ہی پریکٹس کرتا رہوں جہاں دہشت گردوں کو شاید ہی کبھی پکڑا جاتا ہے۔ میں فاضل مصنف پر واضح کردوں کہ یورپ بھر میں عدالتی نظام کے عالمی طور پر تسلیم شدہ معیارات کو اپنایا جاتا ہے۔
دوسری طرف بنگلا دیش میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔ بنگلا دیشی ریاست کئی بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کرکے اُن کی رکن بن چکی ہے، مگر آج بھی بنگلا دیش میں لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دستاویزی شواہد کے مطابق اب تک ہزاروں افراد کو محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اِن لوگوں کو مقدمہ چلائے بغیر طویل مدت تک جیلوں میں رکھا گیا ہے اور قید کے دوران اِنہیں شدید زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ تشدد سے متعلق قومی قوانین میں حال ہی میں چند ترامیم کی کوشش کی گئی ہے جن کا بنیادی مقصد قانون نافذ کرنے والوں کو کسی بھی طرح کے احتساب سے مکمل طور پر محفوظ رکھنا ہے۔ اِس کے نتیجے میں بنگلا دیش تاریک زمانوں میں چلا جائے گا۔
۱۹۷۱ء میں نو ماہ کی جو خانہ جنگی بنگلا دیش کے قیام پر منتج ہوئی، اُس میں، ایک اندازے کے مطابق، جو لوگ مارے گئے، اُن کی تعداد سابق یوگو سلاویہ، مشرقی تیمور، سیئرا لیون اور روانڈا میں مجموعی طور پر مارے جانے والوں سے زیادہ تھی۔
میرے خیال میں بنگلا دیش اِس بات کی واضح مثال ہے کہ جب احتساب کا عمل نظر انداز کردیا جائے تو کیا ہوتا ہے۔ بنگلا دیش نے اپنے قیام کے ابتدائی زمانے میں ایک نہایت باہمت قدم اٹھایا تھا۔ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی مدد سے اُس نے نیورمبرگ ٹربیونل کے بعد کا پہلی جنگی جرائم ٹربیونل تشکیل دینے کے لیے انٹرنیشنل کرائمز (ٹربیونل) ایکٹ ۱۹۷۳ء نافذ کیا تھا۔ یہ قانون اب محض کتابوں میں درج ہے مگر اِسی کی بنیاد پر پہلا انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل تشکیل دیا گیا تھا۔ اِس ٹربیونل کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان کے اُن سینئر فوجی افسران کے خلاف کارروائی کرنا تھا، جن کے بارے میں بنگلا دیشی قیادت کو یقین تھا کہ اُنہوں نے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ مگر امن، استحکام اور ہم آہنگی کی خاطر یہ عمل روک دیا گیا۔ ۲۰۱۰ء میں یہ عمل دوبارہ شروع کیا گیا، مگر اب اُن بنگلا دیشیوں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی جن پر ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر لڑنے کا الزام تھا اور چند پھانسیاں بھی دی جاچکی ہیں۔
دعویٰ یہ کیا گیا تھا کہ جن لوگوں نے انتہائی سنگین نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اُنہیں سزا دی جائے گی۔ عالمی برادری نے اِس اعلان یا دعوے کا خیر مقدم کیا تھا، اب تک ایک مقدمہ بھی شفاف طریقے سے نہیں چلایا گیا اور جتنی بھی سزائیں سنائی گئی ہیں، اُن میں سے کسی ایک کو بھی غیر متنازع قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مقدمات کی کارروائی عجلت میں اور خاصی جانبداری کے ساتھ کی گئی ہے۔ جن مقدمات کو دنیا توجہ سے دیکھ رہی تھی، اُنہیں ایسے نمٹایا گیا کہ عدالتی اُصولوں کی دھجیاں اڑادی گئیں۔ یہ مقدمات کچھ اس نوعیت کے ثابت ہوئے ہیں کہ دنیا دیکھ کر کہہ رہی ہے کہ سنگین نوعیت کے جرائم کے مقدمات اِس طور ہرگز نہیں چلائے جانے چاہئیں۔
بنگلا دیش کے موجودہ انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کا فرض ہے کہ وہ سنگین جرائم کے حوالے سے ذمہ داروں کا تعین کرے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مختلف جرائم کے حوالے سے کچھ بھی واضح نہیں اور خود استغاثہ کو بھی معلوم نہیں کہ کس کے کس عمل کو چیلنج کرنا ہے۔ چالیس سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ بہت سے شواہد مٹ گئے۔ ایسے میں کسی بھی شخص کو پکڑ کر محض شک کی بنیاد پر عدالتی کارروائی کا ہدف نہیں بنایا جاسکتا۔ بالکل اِسی طرح کسی بڑے تنازع میں اختیار کی جانے والی سیاسی پوزیشن کی بنیاد پر ہزاروں افراد کو اجتماعی طور پر کسی عدالتی کارروائی کا موضوع نہیں بنایا جاسکتا۔ مدعا علیہان کو محض اس لیے بھی موردِ الزام ٹھہرا کر سزا نہیں سُنائی جاسکتی کہ اُنہوں نے جس فریق کا ساتھ دیا تھا، وہ تنازع میں ہار گیا۔ ہر اعتبار سے مکمل یقین ہوجانے پر ہی کسی شخص کو سنگین جرائم میں ملوث قرار دے کر سزا سنائی جاسکتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ بنگلا دیشی ٹربیونل فاتحین کے لیے اپنی مرضی کا انصاف حاصل کرنے کا سیاسی آلۂ کار ہوکر رہ گیا ہے۔ اِس ٹربیونل میں کسی پاکستانی یا بھارتی فوجی یا سیاسی لیڈر کے خلاف مقدمہ چلائے جانے کا کوئی امکان نہیں۔ بنگلا دیش کے قیام کی جنگ جیتنے والوں کے ساتھ مل کر لڑنے والوں کے خلاف بھی کسی عدالتی کارروائی کا کوئی امکان نہیں۔
بنگلا دیش انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے چارٹر پر دستخط کرنے والوں میں سے ہے۔ بنگلا دیش اقوام متحدہ اور دولت مشترکہ کا بھی رکن ہے۔ اگر بنگلا دیشی سرزمین پر انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے جارہے ہوں تو یقینا عالمی برادری کو تشویش میں مبتلا ہونا ہی چاہیے۔
کیا دہشت گردی کے کسی ملزم کو غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں رکھا جاسکتا ہے؟ اِس موضوع پر برطانوی دارالامراء میں لارڈ ہافمین نے جو کچھ کہا، وہ یہاں پیش کرنا ہی پڑے گا۔ اُنہوں نے کہا: ’’ایسا کوئی بھی قانون ہمارے اُصولوں سے ہم آہنگ نہیں۔ ہماری قوم اور اُس کی تمام اقدار و روایات، قوانین اور سیاسی وراثت کی بقا کو اگر خطرہ لاحق ہے تو دہشت گردی سے نہیں بلکہ ایسے قوانین سے ہے جو امتیازی نوعیت رکھتے ہیں اور کسی بھی شخص کو غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنے کی وکالت کرتے ہیں۔ دہشت گرد یہی تو چاہتے ہیں کہ ہم خصوصی قوانین وضع اور نافذ کرکے شہری آزادیوں کو محدود کردیں۔ پارلیمنٹ کا فرض ہے کہ فیصلہ کرے کہ دہشت گردوں کو فتح یاب ہونے دیا جائے یا نہیں۔‘‘
مجھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ میں مقدمات روک دینا چاہتا ہوں۔ ایسا نہیں ہے۔ میں مقدمات روکنا نہیں چاہتا بلکہ ٹربیونل کی تبدیلی چاہتا ہوں۔ میری کوشش ہے کہ بنگلا دیشی ٹربیونل کی خامیوں کا اچھی طرح اندازہ لگاکر اِس کی تمام خامیاں دور کی جائیں یا پھر کوئی نیا لیگل فریم ورک لایا جائے۔ جن لوگوں پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، اُنہیں دفاع کا بھرپور حق دیا جانا چاہیے۔ موجودہ حالات میں بنگلا دیشی حکومت انصاف کے تمام تقاضے نبھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ موجودہ ٹربیونل کو ہٹاکر ایک ایسا ٹربیونل تشکیل دیا جائے جس میں غیر ملکی ماہرین اور بنگلا دیش کے اعلیٰ ترین قانون دان ساتھ ساتھ کام کریں۔ اِس کام کے لیے اب بھی بہت دیر نہیں ہوئی۔
المیہ یہ ہے کہ عبدالمنّان جیسے لوگ کسی بھی معاملے کو اُس کے سیاسی اور قانونی تناظر میں الگ الگ رکھ کر دیکھنے کے اہل نہیں۔ جس معاشرے میں سیاسی اور قانونی معاملات کو آپس میں الجھا دیا گیا ہو، وہاں کم ہی لوگ اِن دونوں کے درمیان فرق کو سمجھ پاتے ہیں۔
مجھے ہدایت دی گئی ہے کہ میں قانون اور اُس کے اطلاق کے حوالے سے اپنی رائے دوں اور میں ایسا ہی کرتا آیا ہوں۔ عبدالمنّان اور اُن جیسے دوسرے لوگوں کو پہلے سے سوچے ہوئے ایجنڈے کے مطابق پروپیگنڈا کرنے کے بجائے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔
(مترجم: محمد ابراہیم خان)
“The propaganda machine winds on”. (“mwcnews.net”. March 18, 2015)
Leave a Reply