
پچھلے دنوں ایک تحریر نظر سے گزری جس میں پاکستان کے حوالے سے ایک بڑی ستم ظریفی کا ذکر تھا۔ مصنف کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جس کے لیے اس کی سرحدوں سے پار رہنے والے بنگلادیش اور مقبوضہ کشمیر میں اپنی جانوں سے جا رہے ہیں جبکہ خود اس کے اندر سے اس کے لیے مردہ باد کی صدائیں بلند ہوتی ہیں.
اوّل الذکر روایت کو آج سابق مشرقی پاکستان کے فرزند میر قاسم نے اور آگے بڑھایا اور جان اپنے خالق حقیقی کے حوالے کر دی۔ جرم وہی، پاکستان کو سلامت رکھنے کی کوشش۔
حسب روایت، ہمارا ردعمل… شدید خاموشی !
اپوزیشن کے اپنے قضیے ختم ہونے میں نہیں آتے، یا وہ دانستہ خود کو الجھائے رکھتے ہیں کہ خدا سے تعلق اپنی جگہ، صنم کدہ سے بھی کیوں بگاڑیں؟ حکومت کو کچھ کہیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ہے ہی کیا، جس کا حساب مانگنے چلے آتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ فوج کے ہاں بھی اس دن پریس ریلیز اور ٹوئٹر کی شٹرڈاؤن ہڑتال ہوتی ہے۔ عوام کا تو ذکر ہی کیا، وہ بھی حال مست ہیں یا مال مست۔
گھوم پھر کر یہ جماعت اسلامی کی ذمہ داری رہ جاتی ہے کہ وہ ان کا نوحہ کرے۔ دریں حالیکہ یہ میرے اور آپ کے لیے بھی اسی قدر صدمہ اور تشویش کی بات ہونی چاہیے۔ ان لوگوں کو پھانسیاں جماعت اسلامی کے رکن ہونے کی وجہ سے نہیں مل رہیں۔ ان کا قصور پاکستان سے محبت ہے۔ صلاح الدین قادر چودھری کا تعلق تو جماعت اسلامی سے نہیں تھا، بلکہ وہ تو ان دنوں مشرقی پاکستان میں موجود ہی نہیں تھے۔ وہ تعلیم کے سلسلہ میں مغربی پاکستان میں موجود تھے لیکن، پاکستان سے محبت ہی کافی جرم ٹھہرا، اور اس کا صلہ جماعتی وابستگی سے قطع نظر دیا جا رہا ہے۔
ہمارے ہاں سکون سے بیٹھنے والوں کو کبھی یہ بھی سوچنا چاہیے کہ خطہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا مقصد کیا ہے اور ہمارے ہاں اس کا ہدف کون ہے۔ برسبیل تذکرہ، جن لوگوں کو ’’معاونت جرم‘‘ میں تختہ دار پر لٹکایا جا رہا ہے اور جن مہاشوں کے آشیرباد سے یہ سب ہو رہا ہے، اگر ان ہی کی شہ پر اگلے مرحلہ میں بنگلادیشی حکومت ’’اصل مجرموں‘‘ کی دہائی دینے لگی تو پھر کیا ہوگا۔
یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ موجودہ عالمی معاملات کیسے چلائے جاتے ہیں، ہم سب ہی کو معلوم ہے۔ بات نکلتی ہے (یا نکالی جاتی ہے)، پھر مغربی میڈیا اس کو آہستہ آہستہ ہوا دینا شروع کرتا ہے۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر چند ایسی سنسنی خیز فوٹیج اَپ لوڈ ہو جاتی ہیں جن میں مظالم کی داستانیں ہوتی ہیں اور ملک سے برگشتہ افراد کے انٹرویو دنیا کے بڑے نیٹ ورکس پر پرائم ٹائم نشریات کی زینت بننے لگتے ہیں۔ یوں عالمی رائے عامہ کو ایک خاص ڈھب پر تیار کیا جاتا ہے.
کس کو معلوم نہیں کہ پاکستانی فوج آج دشمنوں کا اصل ہدف ہے اور اسی کے حوالے سے آنے والے دنوں میں یہ کیس تیار کیا جائے گا۔ ہم نے ماضی میں دیکھا کہ سوات آپریشن کے دوران ایسی ویڈیو اَپ لوڈ کی گئیں جن میں وردی والے لوگ ’’نہتے‘‘ شہریوں کو گولیاں مارتے نظر آتے ہیں.
یہ نہایت قابل تشویش صورتحال ہے جس سے بظاہر ہم بالکل لاتعلق ہیں۔ یہ پہلی بار ہوگا کہ آنکھیں بند کرنے سے بلی بھاگ جائے گی، وہ بلی جو پوری تیاری کے ساتھ میدان میں ہے اور اس نے جنگل کے بادشاہ کے ساتھ بھی سانٹھ گانٹھ کر رکھی ہے۔ چیکوسلواکیہ اور سربیا کی مثال سے یہ یاد رہنا چاہیے کہ کس طرح ایک وقت کے ’’اتحادی‘‘ منظر بدلنے پر جنگی جرائم کے مجرم بنا دیے جاتے ہیں.
پاکستان کو بھرپور بھاگ دوڑ کر کے ان کے کیسز اور ان پر عملدرآمد کو رکوانا چاہیے تھا۔ سعودی عرب، ترکی، چین جس کو بھی کہنا پڑتا اس سے دباؤ ڈلوانا نہایت ضروری تھا۔ اس سے ان بدنصیب ’’سابق‘‘ پاکستانیوں کی جانیں تو بچتیں یا نہیں، مگر پاکستان اپنے اور اپنی فوج کے خلاف ایک نہایت خطرناک چال کے خلاف مؤثر پیش بندی کر پاتا۔ حسینہ واجد اور ان کے پشت پناہوں کو بھی کان ہو جاتے کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ ہر مصیبت میں لتھڑ جانے کے بعد کارروائی کرنا وقت، افرادی قوت اور مالی وسائل کی عیاشی کے مترادف ہے۔ ضربِ عضب سے کم از کم یہ سبق ضرور سیکھا جانا چاہیے.
خون ناحق ہے جو بنگلادیش میں بے دریغ بہایا جا رہا ہے۔ اس کا خمیازہ بنگلادیشی قیادت کو تو بھگتنا ہی پڑے گا، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم محفوظ و مامون رہ پائیں گے؟؟؟
(بحوالہ: ’’daleel.pk‘‘۔ ۳ ستمبر ۲۰۱۶ء)
keya keh saktay hain. aik mudat say Pakistan kay nam par, islam kay nam par, dehshat gardi kay khalaf karrwiaeon kak nam par, aur sab say badh kar awam kay nam par ayasheayyn ho rahee hain. Pakistan ka noha kon likhay ga, waqt jld btaey ga. Mushtri hoshiyar baash!