
انیس سو باون کے بعد پہلے تو کوریائی جنگ میں ناکامی اور بعد میں ویتنام کی طویل جنگ میں امریکی افواج کی پسپائی کے بعد اس وقت کے امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان فاسٹر ڈلس نے ایک نئے جنگی پلان کا اعلان کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ’’اب آئندہ مغربی ممالک کو آپس میں جنگ سے گریز کرتے ہوئے ایشیائی ممالک کو آپس میں لڑا دینا چاہیے‘‘۔ اس نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا تھا کہ Let Asian fight Asians۔ آج پاکستان کو F-16 اور ہندوستان کو F-18 طیاروں کی فروخت کا اعلان اسی شکست خوردہ سامراجی پالیسی کا ہی ایک حصہ ہے۔ امریکی سامراجیوں کو ہندوستان و پاکستان کے درمیان دوستی کے رشتوں میں اضافہ دیکھا نہیں جارہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان دونوں ممالک میں اسلحہ کی دوڑ اور فوجی رقابتوں میں اضافہ ہوتا رہے۔ لیکن ہندوستان کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے رسماً ہی سہی کہہ دیا ہے کہ پاکستان کو ایف۔۱۶ طیاروں کی فروخت سے ہندوستان و پاکستان میں خیرسگالی اقدامات کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ پاکستان کو ایف۔۱۶ طیاروں کی پیشکش کے فوراً بعد ہی یعنی ۳۰ مارچ کو ہندوستان کے وزیرِ دفاع شری پرنب مکرجی نے اعلان کر دیا کہ ’’ہندوستان بھی اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کی خاطر ۳۸۰۰ کروڑ روپیہ کے جنگی طیارے اور اسلحہ خرید لے گا‘‘۔
ان حالات میں ایک اور پس منظر اس امریکی اقدام کا یہ ہے کہ اپریل کے اوائل میں ہندوستان کے دوسرے بڑی پڑوسی ملک چین کے وزیراعظم وین جیابائو ہندوستان کے دورے پر آرہے ہیں۔ قوی امکان ہے کہ وزیراعظم چین کے اس اہم دورہ ہند کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان چالیس سال قدیم سرحدی تنازعہ پر ہی نہیں بلکہ دیگر اہم مسائل اور تجارتی تعاون کے معاہدوں پر دستخط ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ ہندوستان اور روس کے درمیان طویل مدتی فوجی تعاون کا معاہدہ بھی ہے۔ ہندوستان ایران سے تیل اور قدرتی گیس کو پاکستان کے راستہ سے ہندوستان برآمد کرنے کا معاہدہ تکمیل کے قریب ہے۔ ان تمام حالات کے پس منظر میں امریکا کی جانب سے پاکستان کو ایف۔۱۶ جیسے ایٹمی ہتھیاروں کو داغنے والے طیارے دینے کا مطلب صاف طور پر یہ ہی کہ نہ صرف ہندوستان اور پاکستان میں تعلقات کو استوار کرنے کی رفتار کو روک دیا جائے بلکہ ایک اور پڑوسی ملک چین کو بھی ہندوستان سے اپنے تعلقات کو سدھارنے کا موقعہ نہ دیا جائے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم چین وین جیابائو کے دورۂ ہند سے چند دن قبل ہی سنگاپور میں ۳۰ مارچ کو چین اور ہندوستان کے سرحدی تنازعہ سے متعلق جائنٹ ورکنگ گروپ کی ایک اہم میٹنگ ہندوستان کے خارجہ امور کے سیکرٹری شیام سرن اور چین کے نائب وزیرِ خارجہ کے درمیان ملاقات ہو چکی ہے۔ ان تمام امور کے علاوہ گذشتہ دو سال سے روس‘ چین اور ہندوستان کے درمیان (ہمہ قطبی دنیا) Multi Polar World کے قیام کے تعلق سے بھی بات شروع ہو چکی ہے جو موجودہ ایک قطبی دنیا کے تسلط کے لیے خطرہ کی زبردست گھنٹی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک اور بظاہر چھوٹی اور غیراہم بات یہ ہے کہ ہندوستان کی ریاست کیرالا میں وہاں کے عوام کی زبردست مخالفت کے نتیجہ میں ملک میں کوکا کولا تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکٹری کو بند کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ آج ہندوستان میں یونائیڈ پیوپلس الائنس کی حکومت مرکز میں برسرِ اقتدار ہے اور امریکی نواز بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی این ڈی اے سرکار کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب این ڈی اے بسترِ مرگ پر پہنچ گئی ہے۔ خود امریکا میں گجرات کے چیف منسٹر ظالم نریندر مودی کے خلاف نہ صرف امریکا میں مقیم ہندوستانیوں کی جانب سے بلکہ امریکیوں کی جانب سے زبردست مخالفت کے نتیجہ میں حکومت امریکا کو مودی کا ویزا منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ اب خود شریمان نریندر مودی کے اقتدار سے چل چلائو کی بات چل رہی ہے۔ اس سلسلہ میں امریکی حکومت کی جانب سے پاکستان کو ایف۔۱۶ اور ہندوستان کو ایف۔۱۸ طیاروں کی فروخت کے مسئلہ پر بھی خود امریکا میں مخالفت شروع ہو چکی ہے۔ امریکا کے سب سے اہم اور بااثر روزنامہ “The New York Times” نے اپنی ۲۹ مارچ کی اشاعت میں واشنگٹن کے اس اقدام کی سخت مخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ان طیاروں کی پاکستان کو فروخت سے اور ہندوستان کو ایف۔۱۶ اور ایف۔۱۸ طیاروں کی فروخت کی پیشکش سے دونوں ملکوں کے درمیان اسلحہ کی دوڑ کو فروغ دیا جارہا ہے‘‘۔ (مگر امریکی صحافت کا زیادہ زور پاکستان کو طیارے دیے جانے کے حوالے سے ہے نہ کہ بھارت کو)۔ اخبار نے ایڈیٹوریل Fuel for South Asia’s Arms Race میں لکھا ہے کہ ’’پاکستان کو ان طیاروں کی فروخت سے ہندوستان کے لیے خطرہ پیدا کیا جارہا ہے‘‘۔ اخبار نے آگے لکھا ہے کہ ’’پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر صدر پرویز مشرف کو اس قسم کے خطرناک اور بیشی قیمت طیاروں کی فروخت سے پاکستان کے عوام کو تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے محروم کیا جارہا ہے‘‘۔ پاکستان کو ایف۔۱۶ طیاروں کی فروخت کے امریکی حکومت کے فیصلہ سے نہ صرف پاکستان کی معیشت کو وہاں کے عوام کی بہتری کے اقدامات سے محروم کرتی ہیں بلکہ خود ہندوستان کے عوام کی اکثریت کے مفادات بے حد متاثر ہو جائیں گے کیونکہ اسلحہ کی اس دوڑ میں ہندوستان کے موجودہ دفاعی بجٹ میں (جو اس وقت ہی بہت زیادہ اور ناموزوں ہے) زبردست اضافہ کرنے کا موجب ہو گا۔ جیسا کہ پرنب مکرجی نے اشارہ دے دیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں اسلحہ کی اس دوڑ میں جو امریکا نے شروع کی ہے۔ دونوں ملکوں کے کروڑوں غریب اور متوسط طبقات کے عوام کی پیدا کردہ دولت کا دفاع کے نام پر جو اسراف ہو گا اس کی وجہ سے ان ملکوں کی عوامی فلاحی اسکیمات پر مضر اثر ناگزیر ہو جائے گا۔ اس لیے آج نہ صرف ہندوستان کے بلکہ پاکستان کے عوام کا بھی یہ اولین فرض ہو جاتا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں امریکا کے جنگ باز سامراجیوں کی جانب سے شروع کی گئی اسلحہ کی دوڑ کو روکنے کے لیے زبردست احتجاجی مہم شروع کر دیں۔ اسی میں ان ملکوں کے عوام کی بھلائی اور بہتری ممکن ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’سیاست‘‘۔ حیدرآباد دکن)ِ
Leave a Reply