فرانس میں قبولیتِ اسلام کی تیز رفتار لہر

فرانسیسی مرد و عورت جو یورپی اور عیسائی پس منظر کے حامل ہیں، ہر روز آزادی کے ساتھ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ مسجد میں نماز کے لیے جمع ہونے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد میں آپ ایسے لوگوں کا مشاہدہ کریں گے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ فرانسیسی عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد پیرس کی جامع مسجد میں حاضری دیتی ہے اور کلمۂ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کرتی ہے نیز نومسلموں کی ایک بڑی تعداد قرآنی تعلیمات سے آگہی حاصل کرتی ہے۔ قطع نظر اس سے کہ کون شیعہ اسلام قبول کرتا ہے اور کون سُنّی اسلام۔ ظاہر ہے کہ جس ماحول میں وہ اسلام سے متاثر ہوتا ہے، اسلام کے اُسی مکتب سے وہ وابستہ ہوتا ہے۔ جو بات اہم ہے وہ یہ کہ اسلام کی صداقت کے حوالے سے لوگوں کی آگہی اور پھر اس کی جانب میلان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغرب بالخصوص فرانس میں آج تک اسلام کی جانب اس طرح کے میلان کا کبھی مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا۔ نومسلم فرانسیسی خواتین طہارت و پاکیزگی کی تلاش میں مکمل طور سے قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنے کے لیے اور اسلامی اہداف کو پانے کے لیے پوری طرح سرگرم ہیں۔ خواتین نے مغرب میں رائج تمام اخلاقی خرابیوں سے منہ موڑ لیا ہے۔ ہر روز اوسطاً دس اشخاص اسلام قبول کرتے ہیں اور اب تک فرانس میں ۴ لاکھ لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں۔ فرانس کے لوگوں میں اسلام کی جانب کشش کی ایک وجہ مغرب کے اخلاقی زوال کے مقابلے میں اسلامی اخلاقیات کی پاکیزگی ہے۔ اسلام روز مرہ کی زندگی کو ایک پاکیزہ مفہوم عطا کرتا ہے اور راہ کو روشن کرتا ہے۔

اگرچہ مسلمان فرانس میں اقلیت میں ہیں لیکن وہ مقامی لوگوں کے لیے اس حد تک جاذبِ نظر ہیں کہ بہت سارے عیسائیوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ فرانسیسی نوجوانوںکی مسجد میں موجودگی اور یہاں کثرت سے ان کی آمد خاص طور سے وہ فرانسیسی جو نسلاً ہسپانوی، پُرتگالی، چینی اور افریقی ہیں نیز بین المذاہب شادیاں اور مسلمانوں کے ساتھ فرانسیسیوں کا میل جول اسلام کی طرف ان کے میلان کے اہم اسباب ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فرانس میں سب سے اہم اسلامی شخصیت دلیل ابو بکر کی ہے جو اسلامک انسٹی ٹیوشن اور پیرس کی جامع مسجد کے سربراہ ہیں۔ موصوف حمزہ ابو بکر کے صاحبزادے ہیں جو ایک الجزائری عالم ہیں اور فرانسیسی زبان میں قرآن پاک کے ترجمہ کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔ ابو بکر خود ڈاکٹر ہیں اور فرنچ میڈیکل سینٹر کے ایک رکن ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ان کا سیاسی موقف ایک طرح کی مصالحانہ روش اور بے خبری پر مبنی اسلام کا ترجمان جسے فرنچ حکومت پسند اور تسلیم کرتی ہے۔

دوسری اہم اسلامی شخصیت فرانس میں روجر گارودی (Roger Garaudy) کی ہے جو فرانسیسیوں کے درمیان اور عالمِ اسلام میں بھی اپنی علمی سرگرمیوں اور تقریروں کے لیے بہت مشہور ہیں۔ اس فرنچ مفکر نے اسلامی مطالعات کا ایک عظیم ادارہ چند سال پہلے اسپین میں قائم کیا ہے اور اپنے بیشتر کام کو اسی نکتے پر مرکوز کیا ہوا ہے۔ گارودی فرانس کے اشتراکی قائدین میں سے ایک تھے اور اسلام لانے کے بعد اس ملک کے نامور مسلمان کی حیثیت سے جانے جانے لگے۔ انھیں فرنچ کمیونسٹ پارٹی سے اس وقت نکال دیا گیا تھا جب انھوں نے پارٹی کی قیادت پر ۱۹۶۸ء میں روس کی جانب سے چیکوسلواکیا پر جارحیت کی مذمت کی تھی۔ انھیں پہلے ۱۹۷۰ء کی ابتدا میں سینٹرل کمیٹی سے نکالا گیا اور چند مہینوں کے بعد انھیں پارٹی سے ہمیشہ کے لیے نکال دیا گیا۔ Existentialisms (وجودیت) کے ردِعمل میں جس نے فرانس میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد نشوونما پانا شروع کیا، گارودی مارکسی خیالات کے اہم وکیل بن گئے تھے۔

۱۹۵۰ء کی دہائی کے اواخر سے انھوں نے متعدد کتابیں تصنیف کیں جس میں انھوں نے ایک طرح کے Humanistic Marxism کی تجویز پیش کی، خاص طور سے اپنی تصنیف Humanistic Viewpoint (1959) میں۔ یہ کتاب نہ صرف یہ کہ وجودیت سے میل کھاتی ہے بلکہ Phenomenology اور Neonomianistic Individualism سے بھی ہم آہنگ ہے۔ کمیونسٹ پارٹی سے جدائی کے بعد جو تین دہائیوں تک ان کی فکر کی نشوونما میں معاون رہی، گارودی کا رابطہ کچھ دیگر مذاہب کے ساتھ ہوا۔ اپنی بیشتر کتابوں میں مثلاً The Faith Project (1976-77), The Words of Man (1975) جس کا ایک دلچسپ ذیلی عنوان West is an Accident and Summoming the Living (1976) ہے، میں گارودی نے اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ مغربی دنیا ایک ایسی تباہ کن مشین میں تبدیل ہو گئی ہے جو انسانی تمدن کی تشکیل میں دوسری تہذیبوں کی خدمات کو برباد کر رہی ہے۔ پھر ۱۹۸۱ء میں جبکہ وہ صدارتی امیدوار تھے، گارودی نے اسلام قبول کر لیا۔ ان کی زندگی کے اس پہلو کا ذکر تفصیل سے درج ذیل کتابوں میں ملتا ہے۔

[english]1) The Promises of Islam-1981
2) Islam Contains our Future
3) The Biography of the Twenteeth Century[/english]

جس کا ذیلی عنوان Roger Garaudy’s Philosophical Testament اس حوالے سے اہم ہے۔ نئے مذہب کو قبول کرنے کے بعد گارودی کو اسلامی ممالک میں ایک پسندیدہ مہمان کی حیثیت سے خوش آمدید کہا جانے لگا۔ انھیں ۱۹۸۳ء میں الازہر یونیورسٹی کی ہزارویں سالگرہ کے موقع پر خطاب کی دعوت دی گئی۔ وہ فرانسیسی فوج میں ۱۹۳۹ء میں داخل ہوئے تھے اور ۱۹۴۰ء میں انھیں نازی جرمنی کے سپاہیوں نے گرفتار کر لیا تھا اور الجزائر میں قائم نازی قید خانہ میں انھیں قریب سے مانیٹر کیا جاتا رہا۔ انھوں نے الجزائر کے اس جیل میں ۳ سال تک قید کاٹی۔ گارودی ۱۹۴۵ء سے ۱۹۵۸ء تک فرانس کی پارلیمنٹ کے نمائندہ تھے اور ۱۹۵۹ء سے ۱۹۶۲ء تک فرانس سینٹ کونسل میں سینیٹر رہ چکے ہیں۔ ایک طویل عرصے تک گارودی فرنچ کمیونسٹ پارٹی کی منصب قیادت پر فائز رہے۔ اس مدت کے دوران گارودی نے جو کتابیں لکھی تھیں، وہ یہ ہیں:

[english]1) The Problems of Marxism
2) The Theory of Materialism and Lenin’s Survey[/english]

اسلام پر تحقیق کرنے کے بعد اور مارکسزم اور عیسائیت کے ساتھ اپنے تجربات کے بعد انھوں نے ۷۰ سال کی عمر میں اسلام قبول کر لیا۔ مسلمان بہت خوش تھے کہ وہ ان کی صف میں شامل ہو گئے تھے۔ اس لیے کہ گارودی کو بہت ہی اہم مفکروں، مصنفوں اور مقرروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے چند کتابیں اسلام سے متعلق اور مغربی تہذیب کے خلاف لکھیں جن میں Islam the Religion of Tomorrow اور Islam and Future Programming شامل ہیں۔گارودی نے صیہونیت سے متعلق ایک بہت ہی مشہور کتاب لکھی جس کا عنوان تھا The Zionist Files۔ جب یہ کتاب شائع ہوئی تو یورپ کے ثقافتی و سیاسی حلقوں میں مخالفت کا طوفان برپا ہو گیا اور صیہونی حلقوں نے اس کتاب کی تصنیف پر ان کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ فرنچ عدالت جس میں اس فرنچ مسلم فلسفی اور مفکر کے خلاف قانونی چارہ جوئی اس الزام کے ساتھ ہوئی کہ یہودیوں کے خلاف جس غیرانسانی جرائم کا ارتکاب کیا گیا، ان کے حوالے سے انھوں نے شک و شبہ کا اظہار کیا ہے۔ یقینا یہ واقعہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ جب صیہونیوں کے عالمی مفادات دائو پر لگتے ہیں تو پھر آزادیٔ اظہارِ رائے وغیرہ محض ایک جھوٹا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔ گارودی کی ایک دوسری کتاب Palestine-The Land of Prophets ہے۔ گارودی نے اپنے طور سے عالمِ اسلام کے متعدد ممالک کا سفر کیا اور ان ممالک کی جامعات میںخطاب کیا۔ گارودی نے اسلامی انقلاب سے قبل ایران کا سات مرتبہ دورہ کیا اور چند مرتبہ اس کے بعد بھی۔ ایران کے ابھی تازہ سفر میں اس نے لوگوں کو اسلام کی نئی اور بہتر شکل سے متعارف کرانے کی اُمید ظاہر کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ اسلام کے پاس گیا کیونکہ قرآنی آیات کی تحقیق کرتے ہوئے میں نے پایا کہ اسلام کوئی نیا مذہب نہیں ہے۔ اگر یہ نیا ہوتا تو دوسرے مذاہب کے ساتھ اس کے تضادات ہوتے۔ اسلام دوسرے مذاہب کا نچوڑ اور ان کی تکمیل ہے۔ اس لیے مذہب صرف ایک ہے اور اختلاف اس وجہ سے ہے کہ انبیاء نے اسے لوگوں کے سامنے مختلف انداز سے پیش کیا۔ الٰہی اصطلاحی مفہوم میں اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں آیا اور اس نے انھیں پہلا مسلمان قرار دیا۔ جب میں نے اسلام کی جانب رجوع کیا تو میں نے ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے شروعات کی اور کسی چیز کی طرف متوجہ نہیں ہوا بلکہ قرآنی آیات کی جانب توجہ کی‘‘۔ میں اپنے ذاتی تجربے کے طویل سفر کے بعد اسلام کی جانب متوجہ ہوا۔ میں نے بنیادی فلسفے سے ابتدا کی اور مارکسیت اور عیسائیت کو پیچھے چھوڑنے کے بعد میں اسلام کے پاس اپنے فلسفیانہ نظریات کو ترک کیے بغیر آیا۔ اسلام تمام توحیدی مذاہب اور اس کے ماننے والوں کی گویا تفہیم ہے۔

Prof. Wenson Mansur Monty اور عبدالحمید ہربرٹ بھی فرانس میں اسلام قبول کرنے والی اہم شخصیات ہیں۔ موخرالذکر تینوں شخصیات مقامی فرانسیسی ہیں۔ اسلام قبول کرنے والی بہت ساری اہم شخصیات نے مناصب کے چھن جانے کے پیشِ نظر اپنے اس کام کو ظاہر نہیں کیا ہے۔ اسلام قبول کرنے والی ایک اہم شخصیت Moris Berajh کی بھی ہے۔ اس کے علاوہ چند نامور شخصیات جنہوں نے اسلام قبول کیا، اُن میں (۱)Koud Kiuvich ہیں جو “Soue” نامی اشاعتی ادارے کے سربراہ ہیں اور عامر عبدالقدیر کی تصنیفات کے مترجم بھی ہیں۔ (۲)Edwatvitre Mirouich جو تصوف پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور Sorbonne یونیورسٹی میں شعبۂ فلسفہ میں پروفیسر ہیں، ان دونوں کا پس منظر کیتھولک مذہب ہے۔ (۳)Goroborege برسوں فرنچ ٹیلی ویژن کے سربراہ رہے ہیں۔ (۴)Christine Bono جنھوں نے اپنا نیا نام Yahya Borio رکھا ہے۔ موصوف Leon اور Antin یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں اور ان کا موضوع Sociology ہے۔ اس طرح کے نومسلم دانشوروں نے نہ صرف فرانس میں پائے جاتے بلکہ سوئٹزر لینڈ، برطانیہ، بیلجیم اور یورپ کے دیگر ممالک میںبھی پائے جاتے ہیں۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’محجوبہ‘‘ تہران۔ شمارہ: جون ۲۰۰۷ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*