
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکا کو ایک خاص حد تک سفارتی کامیابی ملی ہے مگر یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی خواہش سے اب تک دستبردار نہیں ہوا۔
برازیل کے صدر لوئز اناسیو لیولا ڈا سلوا نے ۱۷ مئی کو ترکی کے ساتھ مل کر ایران سے ایٹمی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے اور سفارتی کامیابی کا اعلان کیا۔ سفارتی کامیابیاں حقیقی ہیں یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے مگر سچ یہ ہے کہ سفارت کے میدان میں حیرت انگیز باتیں رونما ہو رہی ہیں۔ خوب بڑھ چڑھ کر دعوے کیے جارہے ہیں۔ امریکا نے کہا ہے کہ اس نے روس اور چین کو ایران کے خلاف مزید، سخت تر پابندیاں عائد کرنے کے سلسلے میں تعاون کے لیے رضامند کرلیا ہے۔ مگر کیا اس سے ایران کو روکنا ممکن ہو جائے گا؟ عالمی معیارات کے مطابق یورینیم افزودہ کرنے کی جس قدر اجازت اور گنجائش ایران کو ملی ہوئی ہے، اس سے کہیں آگے جاکر وہ برازیل اور ترکی کی مدد سے یورینیم افزودہ کرکے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے پروگرام کو تقویت بہم پہنچا سکے گا۔ امریکی نائب صدر جوزف بائڈن کا کہنا ہے کہ دونوں معاہدے بڑے ہیں جن سے بین الاقوامی سیاست میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
روس اور چین کا ایران کے خلاف نئی پابندیوں کی حمایت کے لیے رضامند ہو جانا حیرت انگیز امر ہے۔ یہ اوباما انتظامیہ کی بڑی کامیابی ہے مگر دوسری طرف ایرانی سفارت کاری کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے کینتھ پولیک کا کہنا ہے کہ ایرانی دنیا کے بدترین سفارت کار ہیں اور انہوں نے ہر ایک کو ناراض کیا ہے۔
یہ کہانی ایک ایسی ڈیل سے شروع ہوتی ہے جو اکتوبر ۲۰۰۹ء میں کی گئی تھی۔ ایران ۲۶۴۰ پاؤنڈ غیر افزودہ یورینیم روس بھیجنے اور اس سے اس مقدار کا ۲۰ فیصد افزودہ یورینیم لینے پر آمادہ ہوا۔ یہ افزودہ یورینیم تہران ریسرچ ری ایکٹر میں طبی تحقیق جاری رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ ایران نے ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کے محاسبے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔ مگر پھر ایران اپنی زبان سے پھر گیا۔ اس نے سمجھوتے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ روس کے بجائے یورینیم ترکی بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مگر پھر یہ منصوبہ بھی ترک کردیا گیا۔ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے حال ہی میں اقوام متحدہ کو بتایا کہ ان کے ملک نے اصل معاہدے کو تسلیم کرلیا ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔
ایرانیوں کی طرز عمل نے روس کو بھی ناراض کردیا جو طویل مدت سے ان کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔ جب امریکا نے قم میں قائم ایرانی ایٹمی پلانٹ کے بارے میں بتایا تو روس مزید خفا ہوا۔ یورینیم ترکی بھیجنے کے فیصلے سے بھی روسی خوش نہیں تھے۔ روسیوں نے محسوس کیا کہ ایران اور ترکی وسط ایشیا سے یورپ تک تیل اور گیس کی پائپ لائن بچھاکر اس کی اجارہ ختم کرنے کے درپے ہیں۔ اب روس نے ایران کو اسلحے کی فروخت اور میزائل پروگرام میں تعاون ختم کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کردی ہے۔ مگر اس سے اہم یہ بات ہے کہ ایران اور روس کا قدیم تعلق ختم ہو رہا ہے اور ترک ایران تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔
چین بھی ایران سے زیادہ خوش نہیں۔ مگر وہ خفگی کا اظہار بہت پرسکون اور ٹھنڈے انداز سے کرتا ہے۔ چین ہر معاملے میں مستحکم رویہ اپناتا ہے اور ایرانیوں کا مزاج پارہ صفت ہے۔ چین نے تیل اور گیس کے شعبے میں وسیع پیمانے پر تعاون کے لیے بیس ارب ڈالر کے معاہدے کرنے کے لیے ایران سے مذاکرات کیے تھے۔ اب تک چند ایک معاہدوں ہی پر دستخط ہوسکے ہیں۔ اور عملدرآمد ایک آدھ ہی پر ہوا ہے۔ چین نے آئی اے ای اے کے معاملے پر گفت و شنید کے لیے وفد ایران بھیجا مگر ایرانیوں نے وفد کو ناراض کردیا۔ چین کی طرز عمل سے واضح ہے کہ وہ ناراض ہے اور اس سے کشیدگی کا بھی پتا چلتا ہے۔
ترکی اور برازیل نے اگر بہت کچھ داؤ پر لگایا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی لگایا ہوگا۔ برازیل نمایاں معاشی قوت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ مگر عالمی سفارت کاری کے میدان میں اسے نمایاں مقام نہیں دیا جارہا۔ ترکی کو یورپی یونین نے بہت پریشان کیا ہے اور اب تک رکنیت سے بھی نہیں نوازا۔ ایسے میں اسے ایران کے ساتھ مل کر علاقائی سطح پر اہم کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ یہ سب کچھ بہت عجیب ہے، روس اور چین ایران سے دور ہوتے جارہے ہیں جبکہ برازیل اور ترکی اس سے قربت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اب تک اس بات کے آثار نہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے ارادے سے باز آ جائے گا۔
(بشکریہ: ’’ٹائم میگزین‘‘۔ ۳۱ مئی ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply