
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسرائیل سے کی جانے والی ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ پر فلسطین کا جواب مکمل اور واضح نفی میں تھا۔ دو سال قبل امریکی ایوان صدر کی ٹیم کے ساتھ مختصر سی گفت و شنید کے بعد تنظیم آزادیٔ فلسطین کے سربراہ اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم پر فلسطینیوں کی تحریک کو خاک میں ملانے کی کوششوں کا الزام عائد کیا اور یہی الزام انہوں نے اب سلامتی کونسل میں بھی دہرایا ہے۔
امریکا اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے معاملات سے متعلق منصوبہ ۲۸ جنوری کو منظر عام پر آیا۔ اس کے چند ہی روز بعد محمود عباس نے فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ کے خلاف شدید احتجاج کریں، عرب لیگ سے کہا کہ وہ ایک ہنگامی اجلاس طلب کرے اور ساتھ ہی ساتھ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو بھی خط لکھ دیا، جس میں انتباہ کیا گیا کہ سلامتی سمیت تمام اہم امور پر اشتراکِ عمل ختم کردیا جائے گا۔
نئے منصوبے سے متعلق جو تحفظات محمود عباس کے ذہن میں تھے وہ بالکل درست ثابت ہوئے۔ امریکی صدر نے معاہدے کے متن میں وہی کچھ شامل اور قبول کیا، جو اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کے عناصر نے چاہا۔ زبان بھی وہی تھی اور مذہبی و تاریخی حوالے بھی وہی تھی جو ان عناصر کی خواہش کا عکس تھے یعنی انجیل و تورات میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں کے تصرف کا برحق ہونا۔ ایسے میں اگر کوئی فلسطینی ریاست ایک الگ وجود کے طور پر تسلیم کرلی جائے تب بھی وہ ہر طرف سے اسرائیل سے گِھری ہوئی ہوگی اور کسی بھی اعتبار سے آزاد و خود مختار نہ ہوگی۔ اگر کوئی فلسطینی ریاست قائم کر بھی دی جائے تو غرب اردن کے تیس فیصد سے زائد علاقے، تمام اسرائیلی نوآبادیات اور پورے بیت المقدس پر اسرائیل کا کنٹرول ہوگا۔ فلسطینیوں کی سلامتی سے متعلق امور بھی اس کے ہاتھ میں رہیں گے۔ سرحدی امور اور بندر گاہوں وغیرہ کے معاملات بھی اسرائیل کے سپرد ہوں گے۔ ایسے میں فلسطینیوں کو کنواں کھودنے کے لیے بھی اسرائیل سے اجازت نامہ درکار ہوگا کیونکہ زیر زمین پانی نکالنے کے اختیارات اسرائیلی حکومت کے پاس ہیں۔
اسرائیل اور امریکا کے طے پانے والے معاہدے کو بہت حد تک صرف دھوکا یا سراب ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ خیر، ایسا ہے تب بھی فلسطینیوں کی قومی تحریک کے خاتمے کا خطرہ اگر کہیں سے ابھرا ہے تو وہ فلسطینی قیادت کا بحران ہے۔ امریکی صدر نے کم و بیش پچیس برس قبل کیے جانے والے اوسلو معاہدے کے بطن سے پیدا ہونے والے سراب، فلسطینی اداروں کی زبوں حالی اور فلسطینی قائدین کی بے عملی کو بے نقاب کردیا ہے۔
ناکامیوں پر ناکامیاں
برطانوی دور سے یاسر عرفات کی قیادت میں قومی تحریک شروع کیے جانے تک اسرائیل نے فلسطینی کاز کی ہر مرحلے پر مخالفت کی ہے۔ اس معاملے میں امریکا اس کا بھرپور حامی اور مددگار رہا ہے۔ بہت سی غیر معمولی رکاوٹوں کا سامنا کرنے کے باوجود فلسطینیوں کی قومی تحریک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہی ہے۔
اسرائیل نے ۱۹۹۳ء کے اوسلو معاہدے کے تحت تنظیم آزادیٔ فلسطین (پی ایل او) کی نمائندہ حیثیت تو تسلیم کی مگر ایک آزاد ریاست کے قیام کے حوالے سے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم نہیں کیا۔ اس معاہدے کے تحت غرب اردن اور غزہ کی پٹی میں اسرائیلیوں کے ایسے بلدیاتی ادارے قائم ہونا تھے، جن میں قومی تحریک کا عنصر برائے نام ہو اور اس کا بنیادی مقصد اسرائیل کی غاصبانہ حیثیت ختم کرکے اُسے پورے خطے پر واحد متصرف قوت کی حیثیت دینا تھا۔ اس معاہدے کا وہی انجام ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ معاہدے کی ناکامی نے تعطل کی کیفیت پیدا کی اور یوں معاملات غیر یقینیت کی نذر ہوئے۔ صدر ٹرمپ نے حال ہی میں اسرائیل سے جو معاہدہ کیا ہے اُس کی پشت پر بھی، نافذ کیے جانے کی صورت میں، شاید ہی یہ ذہنیت کارفرما رہی ہو۔
جو کچھ امریکی صدر نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے فلسطینیوں کے حوالے سے سوچا اور کیا ہے، اُسے دیکھتے ہوئے بھی کم و بیش دو سال کی مدت میں فلسطینی قیادت نے معاملات کو سلجھانے اور درست سمت میں لے جانے کے حوالے سے کم ہی کوششیں کی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش رہی ہے کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے تصرف کا دائرہ خوب بڑھایا جائے اور دوسری طرف فلسطینی قائدین کی طرف سے مخالف اور مزاحمت کو بھی غیر موثر کیا جائے۔ جو کچھ امریکا اور اسرائیل نے سوچا اور کیا ہے، اُس کے آگے بند باندھنے کی بھرپور کوشش کرنے اور تمام ممکنہ اتحادیوں کی مشاورت اور اشتراکِ عمل کے ذریعے عملاً کچھ کرنے کے بجائے فلسطینی قیادت نے ایک طرف بیٹھ کر محض تماشا دیکھنے اور انتظار کرنے پر اکتفا کیا ہے۔
اسرائیل اچھی طرح جانتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے تعاون ختم کرنے یا فلسطینی اتھارٹی کی تحلیل سے متعلق محمود عباس کی دھمکیاں کسی بھی صورت حقیقی شکل اختیار نہیں کرسکتیں۔ فلسطینی قیادت کو کم از کم پندرہ سال قبل کوئی ایسا انتظام کرنا چاہیے تھا، جس کی مدد سے وہ اوسلو معاہدے کے شدید منفی اثرات کا سامنا کرنے کے قابل ہو پاتی۔ اس معاہدے کی کوکھ سے اسرائیل پر فلسطینیوں کے زیادہ انحصار نے جنم لیا ہے۔ اب چند ایک معاملات میں کچھ کرنے کی ٹھانی گئی ہے۔ مثلاً فلسطینیوں نے اسرائیل کی بعض مصنوعات کو اپنی مارکیٹس کے لیے ممنوع قرار دے دیا ہے۔ یہ قدم کسی حد تک کارگر ہے مگر اس کے نتیجے میں جنم لینے والی تجارتی جنگ کے شدید منفی اثرات سے بچنے کے بارے میں کم ہی سوچا گیا ہے۔ اس نوعیت کے اقدامات سے عام فلسطینی کو جن مشکل تر حالات کا سامنا ہوسکتا ہے اُن کے حوالے سے فلسطینی قیادت نے کچھ زیادہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ایسی کسی بھی صورتِ حال کے شدید منفی اثرات سے بچنے اور فلسطینیوں کو بچانے کی فلسطینی اتھارٹی میں صلاحیت و سکت ہے بھی نہیں۔
اوسلو معاہدے کے ناکام ہو جانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کے منفی اثرات سے بچنے کی بھرپور کوشش کرنے کے بجائے محمود عباس اور اُن کی ٹیم نے فلسطینی ریاست کے معرضِ وجود میں لائے جانے اور معاملات کو حتمی طور پر درست کرنے کے حوالے سے امریکا اور اسرائیل کی نیک نیتی پر زیادہ انحصار کیا ہے۔ حقیقت پسندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ فلسطینی قیادت دنیا بھر میں آباد فلسطینیوں سے رابطے بڑھاکر اُنہیں فلسطینی مسئلے کے حل کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے کہتی یا پھر اپنے طور پر کوششیں کرکے عالمی برادری کو امریکا اور اسرائیل پر اثر انداز ہونے کے لیے کہتی، اُس نے امریکا اور اسرائیل میں قیادت کے اطوار کے حوالے سے کسی حقیقی تبدیلی کا انتظار کرنا مناسب جانا۔ اِس انتظار اور بے عملی ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ آج امریکا اور اسرائیل فلسطینیوں کی قومی تحریک کو شدید نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں ہیں۔
عرب لیگ نے حالیہ پلان کو مسترد کردیا ہے، جو فلسطینی اتھارٹی کے لیے یقینی طور پر غیر معمولی تقویت کا باعث ہوگا۔ عرب لیگ کے فیصلے نے امریکا اور اسرائیل کی یہ امید خاک میں ملادی ہے کہ اُنہیں خطے میں اس پلان کے حامی مل سکیں گے۔ دوسری طرف اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے اپنے ۵۷؍ارکان سے کہا ہے کہ وہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے حالیہ منصوبے کو مسترد کردیں اور امریکا سے کسی بھی سطح پر، کسی بھی اعتبار سے، اِس سلسلے میں تعاون نہ کریں۔
خیر، اس وقت خطے میںجو کچھ ہو رہا ہے وہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور عرب لیگ کی خواہشات کے برعکس ہے۔ خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال نے بہت سے مسلم ممالک کو اسرائیل کے نزدیک کردیا ہے۔ ایک طرف تو امریکا ہے جو پیچھے ہٹ رہا ہے اور دوسری طرف ایران کے توسیع پسندانہ عزائم ہیں۔ یہ تمام حالات مل کر بعض ممالک کو اسرائیل سے اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع کرنے کی تحریک دے رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ عرب ممالک اپنے مفادات کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ کوئی ناموافق تعلق کیوں کر استوار کریں جبکہ فلسطینی اتھارٹی بھی اسرائیل سے تعلقات کو یومیہ بنیاد پر بدلتی رہتی ہے؟ محمود عباس عرب ممالک کو شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار ہونے کا نہیں کہہ سکتے۔
عرب دنیا میں آج بھی فلسطینی کاز کے لیے غیر معمولی حمایت موجود ہے۔ حکومتیں خواہ کچھ سوچیں اور کریں، عرب دنیا کے عوام فلسطینی کاز سے غداری کا کم ہی سوچتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ فلسطینی کاز سے متعلق عرب دنیا کے عوامی جذبات قیادت کے لیے ہمیشہ اسپیڈ بریکر کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ چند برسوں کے دوران عرب دنیا میں عوامی سطح پر فلسطینی کاز کے لیے حمایت میں کچھ کمی دکھائی دی ہے تو اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ چند مسائل اس طور ابھرے ہیں کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر دوسرا اور اہم سبب یہ ہے کہ فلسطینی قیادت نے عرب دنیا میں عوام سے رابطہ کرنے اور حمایت کا حصول یقینی بنانے کے حوالے سے خاطر خواہ کوششیں نہیں کی ہیں۔ (۲۰۱۷ء میں اسرائیلی فوجی سے فلسطینی لڑکی احد تمیمی کا ٹاکرا یہ حقیقت بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے کہ مزاحمتی تحریک سے متعلق واقعات کس طور عالمگیر سطح پر توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔)
بات گھر کی ہو تو یہی معاملہ محمود عباس کے معاملے میں بھی ہے، جن کی مقبولیت سلامتی کے امور میں اسرائیل سے اشتراکِ عمل، جمہوری اصولوں کے مطابق انتخابات نہ کرانے، ناقص حکمرانی اور فلسطینی ریاست کا قیام یقینی بنانے کے حوالے سے کی جانے والی نیم دلانہ کوششوں کے باعث ڈانواڈول ہے۔ ہر اعتبار سے جائز اور درست مینڈیٹ یقینی بنانے کے بجائے محمود عباس نے مخالفین کو کچل کر اقتدار میں رہنے کو ترجیح دی ہے۔ انہوں نے ناقدین کو خاموش اور عوام کو غیر متحرک کردیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تعمیری بحث کی گنجائش بھی کم ہی چھوڑی ہے۔ اس کا نتیجہ اسرائیلی قبضے کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی کمزوری کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پی ایل او کو فلسطینیوں کے نمائندہ ادارے کی حیثیت حاصل تھی، گوکہ وہ جمہوری طریقے سے منتخب بھی نہیں ہوئی تھی۔ اب کیفیت یہ ہے کہ فلسطینیوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ سیاسی عمل کی خرابی نے فلسطینی تارکین وطن اور مہاجرین دونوں کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ اسلامی تنظیموں (مثلاً حماس) کے زیر اثر زندگی بسر کرنے والے فلسطینی پی ایل او کی چھتری تلے نہیں آتے۔ اور دیگر دھڑے اپنی نسبتی اہمیت اور تعلق سے محروم ہوچکے ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The real threat to Palestine is a crisis of leadership”. (“brookings.edu”. February 13, 2020)
Leave a Reply