
یہ واقعی ایک نازیبا عمل ہے کہ سائنس کے مضمون میںراتوں رات شہر ت واہمیت کی بلندیاںچھو لینے کے خواہشمند بعض نوجوان انتہائی مختصر راستوں (شارٹ کٹس) کی تلاش میں کچھ ایسے مضامین تصنیف کر ڈالتے، یا کسی بین الاقوامی مذاکرے میں ایسے مقالہ جات پیش کر دیتے ہیں جو ڈارونیت (ڈارون ازم) یا ارتقاء اور اسلام کے حساس موضوع پر ہوتے ہیں ان مذاکروں میں وہ نہ صرف ارتقاء پر بے بنیاد تنقیدیں کرتے ہیں بلکہ اپنے اسلامی عقائد کی توہین کے مرتکب کر کے یہ باور کراتے ہیں کہ جیسے ان کے اسلامی عقائد، سائنسی حقائق کے خلاف ہوں۔ سائنسی حقائق نہ صرف بالعموم مختلف تجربات کے نتیجے میں منظر عام پر آتے ہیں بلکہ بہت سے دوسرے محققین ان تجربات کو بار بار دوہرا کر انہیں مزید آشکار کرتے ہیں اور اس طرح یہ سائنسی حقائق روزمرہ کی حقیقتوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہ سائنسی حقائق نہ صرف دنیا بھر کے بہت سے سائنس دانوں کے اپنی اپنی تجربہ گاہوں میں تجربات کے دوران منظر عام پر آتے ہیں بلکہ کسی بھی تجربے میں کسی کو بھی حاصل شدہ نتائج سے ذرا سی بھی اختلاف کی جرأت نہیں ہوتی۔ مثلاً اگر آج کوئی اس حقیقت کا انکار کر دے کہ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن گیسوں کا دو اور ایک نسبت سے مرکب ہے نیز یہ کہ اگر پانی کے سالمے کو برقی رو کے ذریعے توڑنے کی کوشش کی جائے تو ہائیڈروجن اور آکسیجن گیسیں دو اور ایک نسبت سے حاصل نہیں ہوں گی، تو شاید ایسے شخص کو سائنسی حقیقتوں سے لا علم یا بیگانہ کہا جائے گا یا پھر یہ کہ لوگ اس کی صحیح الدماغی پر شک کا اظہار کرنے لگیں گے۔ میں ہر گز یہاں اس خیال کے داعی کا روپ نہیں اختیار کرنا چاہتا کہ ڈارون کے تمام نظریات آفاقی حقیقتوں کے مصداق ہیں۔ ہر ماہر حیاتیات اس حقیقت سے واقف ہو گا کہ ۱۸۶۵ء میں گریگر مینڈل نے برن کے مقام پر ایک مذاکرے میں اپنے مشہور زمانہ قوانین وراثت پیش کیے اور ایک سال بعد اس مذاکرے کی تمام کارگزاریاں کتابی شکل میں شائع کروا کر تمام یورپی ممالک اور شمالی امریکہ کے کتب خانوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ لیکن اس واقعے کے پانچ سال بعد یعنی ۱۸۷۱ء میں جناب ڈارون نے اپنا ابتدائی نوعیت کا نظریہ وراثت جسمی خلیات کے عکس (gemmules) کی بنیاد پر پیش کیا۔ شاید ڈارون کو خود بھی اپنے نظریے پر کلی اعتماد نہ تھا۔ شاید اسی لیے انہوں نے اپنے اس نظریے کو ابتدائی نظریہ (Tentative theory) قرار دیا۔ صرف ایک سال کے اندر اندر ڈارون کے ایک مداح، ڈالٹن نے ڈارون کے نظریے کو خرگوشوں پر تجربات کے دوران پر کھا اور اس نظریے میں کسی بھی صداقت کی تلاش میں نا کام رہے۔ آج دنیا بھر کے تمام سائنسدان ڈارون کے اس نظریے کو کوئی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ڈارون کی شہرہ آفاق تصنیف فطری انتخاب کے ذریعے انواع کی ابتداء(المعروف’’اصل انواع‘‘) کے عنوان پر بھی بہت اعتراضات کیے گئے ہیں۔ اکثر ماہرین حیاتیات اس حقیقت سے واقف ہیں کہ زیادہ تر صورتوں میں فطری انتخاب کے ذریعے صرف نئے تطابقات جنم لیتے ہیں یا نئے نئے تغیرات پروان چڑھتے ہیں جن کے نتیجے میں انواع کی نئی نئی قسمیں تو معرض وجود میں آتی ہیں لیکن نئی نئی انواع معرض وجود میں نہیں آتی۔ لیکن آج تک کسی نے بھی فطری انتخاب کی حقیقت کا انکار نہیں کیا۔ اس کے بر خلاف ہزاروں تجربات میںفطری انتخاب کی حقیقتوں کو تجربات کی بھٹی پر آنکا اور پر کھا گیا اور ہمیشہ اس کی صداقتوں کا اعتراف ہی بن پڑا۔
ہر نوع میں ایسی کئی خصوصیات موجود ہوتی ہیں جن میں سے کئی اس نوع کے لیے اس خاص ماحول میں مفید ہوتی ہیں وہ افراد جن میں یہ مفید خصوصیات موجود ہوتی ہیں وہ آپس میں باہم اختلاط کے دوران اپنی آئندہ نسلوں میں ان مفید خصوصیات کو منتقل کر دیتے ہیں اس طرح زیادہ سے زیادہ نئی نسلوں میں یہ مفید خصوصیات موجود ہوتی ہیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اس نوع کے تقریباً تمام افراد میں یہ مفید خصوصیات کے حامل افراد کو منتخب کیا ہو، تاکہ وہ جہد للبقا (struggle for survival) کی جنگ میں کامیاب و کامران ہو سکیں۔ چوں کہ سائنس کسی فرد کا نام نہیں اور دین یا فلسفہ اس کا موضوع بھی نہیں اور نہ ہی کسی تجربے میں ان خیالات کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تبارک تعالیٰ کے نام نامی کی بجائے اسے فطرت یانیچر کے کارناموں کے طورپر یاد کیا جا تا ہے۔ آخر کون اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ فطرت مفید خصوصیات کے حامل افراد کی یقینا پذیرائی کرتی ہے تاکہ وہ جہد للبقا کی جنگ میں کامیاب و کامران ہو سکیں اور اس طرح ان کی نسلیں بھی ان مفید خصوصیات کے تسلسل کو ظاہر کر سکیں۔
ارتقاء میںفطری انتخاب کے علاوہ دیگر اور یقینا بہت ہی زیادہ اہمیت کے حامل اور ہمہ جہت اسباب مثلاً جغرافیائی علیحدگی یا جینی تغیرات کی دریافت یقینا نہ صرف یہ کہ ڈارون نے نہیں کیں بلکہ شاید ڈارون یا ان کے زمانہ کے لوگوں کو ان کا قطعاً ادراک بھی نہ ہوگا۔ لیکن ڈارون کی عزت افزائی اور ان کے کارناموں کے اعتراف میں ان اسباب کے لیے بھی جدید ڈارونیت (Neo Darwinism) کی اصطلاح اکثر استعمال کی جات ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہو گا کہ یہ دریافتیں بھی ڈارون نے کی ہوں گی۔ بالکل اسی طرح کی جرمن زبان میں ارتقاء کے لیے جو اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اسے ہم ڈاروی نسمس (Darwinismus) سے تعبیر کرتے ہیں۔ (شاید یہ اصطلاح ڈارون کے احترام میں وضع کی گئی ہے۔
فطری انتخاب کے عمل کے ذریعے کسی بھی نوع کے افراد اپنے اپنے ماحول میں نہ صرف یہ کہ رچ بس جاتے ہیں بلکہ اپنے اپنے ماحول میں حاصل کردہ مفید خصوصیات انہیں اپنے ماحول میں موزوں ترین بنا دیتی ہیں۔ فطری انتخاب کے علاوہ انواع کی آبادیوں کو اپنے ماحول میں موزوں ترین بنانے کے اور کسی دوسرے عمل سے ماہرین حیاتیات واقف بھی نہیں۔ ان میں وہ صلاحیت پیدا کر دیتی ہے۔ جو انہیں جہد للبقا میںکامرانی و کامیابی عطا کرتی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک عام فہم مثال ماہرین سمیات (زہر کے ماہرین) کے نزدیک سمیات کے خلاف مدافعت کا حصول ہے۔ شروع شروع میں تو نوع کے صرف چند افراد ہی ان سمیات کے خلاف قوت مدافعت ظاہر کرتے ہیں۔ اس کی عام فہم مثال ڈی ڈی ٹی کے خلاف وہ قوت مدافعت ہے جو اکثر حشرات ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں ایک مخصوص جین موجود ہوتا ہے جس کی موجودگی میں ڈی ڈی ٹی جسم میں داخل ہوتے ہی ایک خامرے کے عمل سے دو چار ہو جاتی ہے۔ یہ خامرہ ان افراد میں جن میں ڈی ڈی ٹی کے خلاف قوت مدافعت نہیں ہوتی، موجود نہیں ہوتا۔ لہذا جیسے ہی ڈی ڈی ٹی کا چھڑکائو کیا جا تا ہے ایسے افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور صرف تھوڑے سے افراد (جن میں یہ خامرہ موجود ہوتا ہے ) اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں اپنی ہی طرح کی مخالف صنف کے افراد کے ساتھ اختلاطی عمل میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی یہ خصوصیت (خامرے کی موجودگی اپنی آنے والی نسلوں میں بھی منتقل کر دیتے ہیں۔
اس طرح ایک قلیل عرصے میں وہ افراد جن میں خامرہ موجود نہیں ہوتا نظر سے غائب ہو نا شروع ہو جاتے ہیں خامرے کے حامل افراد پھلنے پھولنے لگتے ہیں اور اپنی یہ خصوصیت نئی نسلوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ اور تھوڑے ہی عرصہ میں اگر یہ زہر بار بار اسی جگہ استعمال کیا جا تا رہے تو اس نوع کے زیادہ تر افراد اس زہر کے خلاف قوت مدافعت ظاہر کرتے ہیں۔ ایسا کون ماہر سمیات ہو گا جو ان حقیقتوں سے نظریں چرا سکتا ہے یا جو فطری انتخاب کی حقیقت سے انکار کر سکے۔ لیکن جب انتہائی بلندیوں کے خواب دیکھنے والا کوئی نوجوان محض اس بناء پر ان آفاقی حقیقتوں سے انکار کرتا ہے کہ وہ ڈارون کو لا دین سمجھتا ہے اور ڈارون کے ہاتھوں بزعم خود اپنے اسلامی عقیدے کو محفوظ بنانا چاہتا ہے تو بات واقعی قاب تشویش ہو جاتی ہے کاش اسے ادراک ہو سکے کہ اللہ تعالیٰ ا س کون و مکان کے اصلی خالق ہیں اور جو کچھ اس کون و مکان میں ہو رہا ہے وہ انہی کے قانون قدرت کے مطابق ہو رہا ہے، جسے ماہرین علوم اپنی کاوشوں سے فقط دریافت کر رہے ہیں۔ ایجاد نہیں کر رہے۔ شاید اسی لیے اللہ نے مسلمانوں کو غلط بیانیوں سے احترازکرنے کا حکم فرمایا ہے چنانچہ قرآن حکیم میں ارشاد فرمایاگیاہے: قولو قولا سدیدا یا یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ’’کیا تم زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھتے یعنی اسلام کو آفاقی سائنسی حقیقتوں سے کوئی خطرہ نہیں۔ اس سلسلے میں کیٹل دل نے انگلستان میں فطری انتخاب کے عمل کی حمایت میں فیکٹریوں سے حاصل شدہ کلونس کے حشرات پر اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے بیان فرمایا کہ انیسویں صدی کے اوائل میں مرکزی اور مشرقی انگلستان میں خاص طور پر مانچسٹر اور بر منگھم کے علاقوں میں جب فیکٹریوں کا جال بنا جا رہا تھا۔ تو ان کی چمنیاں کاربن مونو آکسائیڈ پر مشتمل کلونس والے دھوئیں اگل رہی تھیں، جس سے نہ صرف درو دیوار بلکہ جنگلات میں بڑے بڑے درختوں کے تنوں پر جو رو پہلی گنگس اگی ہوئی تھی اور جن پر دن کے وقت راتوں میں روبہ عمل بوتریاں آرام کرتی تھیں وہ تنوں فنگس کے رنگ سے ہم آہنگ نظر آتی تھیں۔ اس طرح ان پرندوں کے قدم قدم پر اس جال نے اس قدر کلونس والے دھوئیں اگلنا شروع کیے کہ درختوں کے تنوں پر رو پہلی گنگس (Lichen) معدوم ہو گئی اور رو پہلی رنگت والے حشرات اب اپنے دشمن پرندوں کو واضح نظر آنے لگیں۔ اور ان کی نسل معدومیت کے خطرے سے دو چار ہونے لگی۔ شاید اسی وقت وہ چند بوتریاں (Moths) جنہیں ہم biston betularia یا پیپر ڈبو تریوں کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اس طرح کی دوسری ۷۰ انواع میں سے کچھ جن کے رنگ میں کلونس جیسی خصوصیات موجود تھیں وہ ان رو پہلی فنگس کی معدومیت کے بعد کلونس والے تنوں کے ساتھ ہم آہنگی ظاہر کرنے لگیں اور اپنے خورندے پرندوں سے محفوظ ومامون ہونے لگیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ اختلاطی عمل کا انہیں زیادہ موقع میسر آنے لگا اور وہ اپنی کلونس رنگت اپنی نسلوں میں منتقل کرنے لگیں۔ لیکن اورتھوڑے سے ہی عرصہ میں ان علاقوں میں پائی جانے والی بوتریاں سیاہی مائل نظر آنے لگیں بر خلاف ان علاقوں کی بو تریوں کے جہاں فیکٹریاں موجود نہ تھی اور ہنوز درختوں پر رو پہلی لائی چن موجود ہوتی تھی، رو پہلی رنگ والی بوتریاں اب بھی ان پر آرام کرتی تھیں اور اپنے خورندہ پرندوں سے ہم رنگت کی وجہ سے محفوظ رہتی تھیں۔
۱۸۴۸ء میں مانچسٹر کے علاقے سے پہلی سیاہی مائل بوتری حاصل کی گئی لیکن ۱۹۰۰ تک یہ سیاہی مائل بوتریاں فیکٹریوں کے علاقے میں عام نظر آنے لگیں اور بعض علاقوں میں تو یہ ۸۳ سے ۸۵ فی صد تک پہنچ گئیں۔ آج کل جہاں جہاں یہ فیکٹریاں عام نظر آتی ہیں ان سیاہی مائل بوتریوں کی کم از کم ۸۵ یا بعض علاقوں میں تو ۹۸ فی صد تک یہ آبادی کا حصہ نظر آتی ہیں۔ ان سیاہی مائل بوتریوں میں سیاہی مائل لون دانے پیدا کرنے والا ایک غالب جین موجود ہوتا ہے جو رو پہلی رنگت والی بوتریوں میں موجود نہیں ہوتا میں نے ایک بین الاقوامی مذاکرے میں اسی طرح کے خواب دیکھنے والے اور اپنی سائنسی شہرت و حیثیت کے لیے مختصر راستہ اختیار کرنے والے ایک نوجوان محقق کا مقالہ سنتے ہوئے ان کی ایک پیش کردہ تصور پردہ سمییں پر دیکھی۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ فرما رہے تھے کہ کیٹل ویل نے ان تنوں پر جن پررو پہلی فنگس معدوم ہو چکی تھی۔سیاہی مائل بوتریاں چپکا دی تھیں۔ یعنی کیٹل ویل نے لوگوں کو فریب دیا تھا اور آلودگی کے علاقے میں ان سیاہی مائل بوتریوں کا وجود ہی نہیں تھا۔ یہ سن کر میں حیران و ششدر رہ گیا جیسے کسی کو سانپ سونگھ جاتا ہے کیا فطری انتخاب کا انکار صرف اس لیے ضروری ہے کہ مقالہ نگار کے بقولہ ڈارون ایک لادین تھے اوراگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو ہمارا اسلام خطرے میں پڑ جائے گا؟
(بحوالہ ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply