
یہ مقالہ نئی دلی میں قائم تحقیقی ادارے سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈویلپمنٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہلال احمد نے اگست ۲۰۱۹ء میں بھارتی انتخابات سے متعلق ایک سیمینار How India Voted میں پڑھا۔ مقالہ نگار نے اس مقالے میں بھارتی مسلمانوں کے بارے میں لکھا ہے کہ اب بھارت میں مسلمان ووٹ اپنی حیثیت کھو چکا ہے اور مسلمان اپنے ووٹ کو نظریاتی حیثیت سے منوانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔
بھارت میں ۲۰۱۹ء کے انتخابات کے بعد کیا مسلمانوں کا ووٹ اہمیت رکھتا ہے؟ اس پیچیدہ سوال کا جواب دو مختلف طریقوں سے دیا جاتا ہے۔ اول یہ کہ سیاسی مبصرین کا ایک طبقہ لوک سبھا میں مسلمان ارکان پارلیمان کی کم ہوتی تعداد کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ دلیل دیتا ہے کہ پارلیمان میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ موجودہ بھارت میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت خستہ حالی کا شکار ہے۔ بی جے پی کی جانب سے مسلم امیدواروں کو انتخابی ٹکٹ دینے سے انکار، قومیت کے نام پر ہندوتوا کے نظریے پر مبنی جارحانہ سیاسی مہم کے ذریعے ووٹروں کو متحرک کرنا اور اپوزیشن جماعتوں کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم ووٹ اپنی حیثیت کھوچکا ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ انتخابی عمل میں مسلمانوں کی شمولیت کو بالکل مختلف انداز سے دیکھا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ بی جے پی کی مخالف سیاسی جماعتیں طویل عرصے تک مسلمانوں کو اپنے ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی سیاست کی ایسی شکل سامنے آئی جس نے بھارتی مسلمانوں کو متحد ہوکر مرکزی سیاسی دھارے کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دی۔ مسلمان کسی خاص رعایت یا برتاؤ کا مطالبہ نہیں کرتے، اسی لیے ان کے ساتھ مخصوص طبقے کے ووٹر جیسا سلوک بھی نہیں کیا جاتا۔ موجودہ دور میں یہ نعرہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وِشواس‘‘، اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی سب انسانوں کو برابر سمجھتی ہے۔ اس وجہ سے مسلمان خود کو ایک ووٹ بینک نہیں سمجھتے اور بی جے پی کی کامیابی کو ہندوتوا نظریے کی کا میابی نہیں سمجھتے۔
مسلمانوں کے ووٹ کی اس متضاد وضاحت کو تکنیکی بنیادوں پر جزوی طور پر تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن بی جے پی کی انسانیت نوازی کا بھرم اس وقت کھل جاتا ہے جب وہ ہندوتوا کے نظریے کے استحکام کے لیے اپنے سیاسی مشن کو مسلم دشمنی پر استوار کر تی ہے۔ علاوہ ازیں بی جے پی کی حریف سیاسی جماعتوں نے ۲۰۱۹ء کے الیکشن کے لیے انتخابی مہم میں مسلمانوں کے تحفظات اور تشویش دور کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ درحقیقت، اپوزیشن جماعتوں، خاص کر کانگریس نے ہندوازم کے ذریعے ہندو ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے خود کو مسلمانوں سے لاتعلق رکھنے کی کوشش کی۔ یہ دلیل کہ مسلم ووٹ اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے،بظاہر معقول لگتی ہے۔
بی جے پی نے بھی ایک قوم ، ایک سیاسی برادری کا نظریہ پیش کر تے ہو ئے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ مذہب کے بجائے محض سیکولر سوچ رکھتے ہوئے ووٹ دیں۔ اس حقیقت کو کوئی بھی نظرانداز نہیں کرسکتا کہ بھارتی آئین سیاسی عمل کے مکمل طور پر سیکولر تخیل کی تجویز پیش کرنے والے الگ انتخابی حلقوں سے انکار کرتا ہے۔ ایک قوم، ایک سیاسی برادری کا نظریہ بی جے پی کی موجودہ حیثیت کو درست ثابت کرتا ہے جس کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی پر یقین نہیں رکھتی۔
موجودہ بھارت میں مسلمانوں کی سیاسی سرگرمیوں سے متعلق واضح بیانیے کو تین بنیادی تصوراتی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔
اول یہ خیال پایا جاتا ہے کہ مسلمان ایک اکائی کی صورت میں موجود ہیں، انتخابی عمل میں ان کا برتاؤ شک و شبہے سے بالاتر ہے۔
دوم مسلمانوں کے ووٹ ڈالنے کو ایسی خودمختار مشق سمجھا جاتا ہے کہ مسلم سیاست بس مسلمانوں کے ووٹ ڈالنے تک محدود ہے۔
سوم مسلمانوں کے ووٹ ڈالنے کے انداز کو ہمیشہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کا تعلق قانون ساز اداروں میں مسلمان سیاست کی نمائندگی ہے۔ درحقیقت، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مسلمان ووٹر اور مسلم ارکان پارلیمان (ایم پیز اور ایم ایل ایز) کے درمیان تعلق اساسی اور معاونت پر مبنی ہے۔
ان تخیلات پر غیرناقدانہ انحصار ہمیں اُن عمرانی، ثقافتی اور اقتصادی عناصر پر توجہ مرکوز کرنے کی اجازت نہیں دیتا، جو مختلف طریقوں سے مسلمانوں کے سیاسی تصورات کا تعین کرتا ہے۔ اسی لیے آج کے بھارت میں مسلمانوں کی سیاسی سرگرمیوں کو خودمختار مباحثے کے طور پر دیکھنا چاہیے جو ہندوبالادستی پر مبنی سیاست سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کا ہمیشہ جواب نہیں دیتی۔ تجزیاتی مقاصد کے لیے ۲۰۱۹ء کے بعد کے بھارت میں مسلم سیاسی بیانیے کو تین پہلوؤں سے دیکھا جاسکتا ہے، مسلمانوں کی موجودگی، مسلمانوں کی نمائندگی اور مسلمانوں کی شراکت یا شمولیت۔
مسلمانوں کی موجودگی وہ مقبول تصور ہے، جس سے مراد ایک مذہبی سیاسی برادری لی جاسکتی ہے۔ یہ ’’مغل اعظم‘‘ کا ’’اکبر‘‘ ہوسکتا ہے یا خان صاحب، ’’پکا مسلمان‘‘ کی صورت میں کوئی شخصیت، بھارتی میڈیا مسلمانوں کے تشخص پیش کرنے کے لیے ایسی ہی کوئی خاص ثقافتی مثال پیش کرتا رہتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ان خاکوں کو اپنے نظریاتی ڈھانچے میں ڈھال کر پیش کرتی ہیں، جس کا مقصد سیاسی انداز میں اچھے اور بُرے مسلمان میں تمیز کرنا ہے۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران اچھے مسلمان اور بُرے مسلمان کا فرق پہلے سے مختلف انداز میں دوبارہ ایجاد کیاگیا ہے۔ اگرچہ اچھے مسلمان کا خاکہ جو ہندوتوا کے نظریے کا حامی قوم پرست ہو، وہ اب بھی باقی ہے لیکن مسلمانوں کا مجموعی تاثر ایسا بناکر پیش کیا جارہا ہے، جو قوم پرستی کے خلاف ہو۔
مسلمانوں کی زندگی کا ہر پہلو مشکوک بناکر یہ تاثر قائم کیا جارہا ہے کہ مسلم شناخت نہ حل ہونے والا سیاسی عجوبہ ہے۔ مثال کے طور ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ کسی بھی مسلمان بچے کی پیدائش ہندوؤں کی آبادی کے لیے خطرہ ہے، مسلمان بچے کے لیے مدرسے کی تعلیم کو علیحدگی کی علامت کے طور پر پیش کیاجاتا ہے، مسلمانوں کے کھانے کی عادات و اطوار کو ہندو مخالف سمجھا جاتا ہے (مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں )، مسلمانوں کی ازدواجی زندگی (مسلمانوں میں تین طلاق کے استعمال کے باعث) سماجی برائی کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ کسی مسلمان کی موت بھی قوم پرستی کے خلاف تصور کی جاتی ہے (کیوں کہ مسلمان اپنے قبرستانوں کے لیے قیمتی زمین حاصل کررہے ہیں)۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دقیانوسی سوچ ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے بعد رفتہ رفتہ انتخابی مہم کا حصہ بن گئی۔ جیسا کہ، مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی بحث آسام اور مغربی بنگال کی انتخابی سیاست میں واضح طور پر چھائی رہی۔ بھارتی میڈیا نے مسلم مخالف شہریت کے متازع قانون، (Citizenship amendment bill) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (National register of Citizens) پر باضابطہ مباحثے کرائے۔ اسی طرح یوپی میں تین طلاقوں اور مسلمانوں کے قبرستان کی وقف کی حیثیت کو سنجیدہ انتخابی مسائل بناکر پیش کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ بی جے پی ۲۰۱۹ء کے انتخابات سے پہلے ہی مسلمانوں کی موجودگی کو متنازع بنانے کے قابل ہوگئی تھی۔
مسلمانوں کی موجودگی کو منفی انداز میں پیش کرکے یقینی طور پر ہندوبالادستی کی کوششوں کو مدد فراہم کی گئی۔ کئی تحقیقی مقالوں سے یہ بات واضح ہے کہ ۲۰۱۴ء کے بعد کے بھارت میں ہندو سیاسی شناخت کو مستحکم کرنا فیصلہ کن عنصر کے طور پر ابھرا۔ لیکن ہندو بالادستی کی ان کوششوں پر مسلمانوں کا مجموعی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ لو جہاد (Love Jihad) مسلمان لڑکے کی ہندو لڑکی سے محبت کی شادی، گھر واپسی، رام مندر کی تعمیر ہو یا تین طلاقوں پر پابندی کا معاملہ، کسی بھی مسئلے نے مسلمانوں کو اس بات پر نہیں ابھارا کہ وہ بی جے پی کے ہندتوا پر مبنی بیانیے کا براہ راست جواب دے سکیں۔ مسلمانوں کی اس (اسٹریٹجک) تزویراتی ناکامی نے ہندوتوا نظریہ پھیلانے والے گروہوں کو اس بات پر اکسایا کہ وہ گاؤ ماتا کے تحفظ کی جارحانہ سیاست پر توجہ مرکوز کریں، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات کی نئی قسم سامنے آئی، یعنی ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل۔ مسلم کش فسادات کے مقابلے میں ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل ان کے لیے مناسب اقدام رہا۔ اس معاملے میں کسی بھی مسلمان کو ہجوم کے ہاتھوں قتل کرکے زیادہ زوردار تاثر قائم کیا گیا۔
ہجوم کے ہاتھوں قتل ایسی موثر اور فیصلہ کن سیاسی تکنیک بن کر سامنے آئی ہے جس نے بھارت بھر میں مسلمانوں کو حقیقی معنوں میں متاثر کیا ہے۔ اب تک ان واقعات نے مسلمانوں کے مسئلے کے طور پر سیاسی ہلچل پیدا نہیں کی ہے۔ اگر چہ ۲۰۱۹ء کے انتخابات کے لیے کانگریس کے انتخابی منشور میں ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات کی روک تھام کا قانون بنانے کی بات کی گئی تھی، لیکن بی جے پی کی حریف سیاسی جماعتوں نے اس معاملے کو سیاسی ایجنڈے کے طور پر انتخابی عمل میں متحرک نہیں کیا۔ عام زندگی میں مسلمانوں کی موجودگی کی منفی تصویر کشی کے ذریعے (جیسا کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کی نئی قسم سامنے آئی ہے)، میرے خیال میں اس عمل نے مسلمانوں کو قوم پرستی کے مخالف برادری یا ‘‘غیر’’ کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ اس عمل نے ہندوتوا نظریے کی سیاست کرنے والی بی جے پی اور اس کے سیاسی حریفوں کے درمیان اب تک کوئی امتیاز پیدا نہیں کیا۔
مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی پر طویل عرصے سے جاری بحث اس نکتے کے گرد گھوم رہی ہے کہ لوک سبھا میں مسلم ارکان پارلیمان کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ بی جے پی کے عروج نے اس بحث کو نئی سمت دی ہے۔ اب یہ دلیل بھی سامنے آرہی ہے کہ بی جے پی کے علاوہ بھی تمام سیاسی جماعتیں مسلمان امیدواروں کو انتخابی ٹکٹ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ موجودہ لوک سبھا میں مسلم ارکان پارلیمان کی تعداد صرف ۲۷ ہے۔ یہ سیاسی سرد مہری، مسلمانوں کی سیاسی محرومی میں اضافے کا سبب بنے گی۔
اس سادہ سی وضاحت کا دارومدار مسلمان ارکان پارلیمان اور مسلمان ووٹروں کے درمیان تصوراتی تعلق پر ہے۔ یہ فرض کرلیاگیا ہے کہ اگر مسلمان ووٹروں کو موقع دیا جائے تو وہ مسلمان امیدوار کو ہی ووٹ دے گا۔ اسی طرح، انتخابات میں کامیاب ہوکر آنے والے مسلمان نمائندے متوقع طور پر قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کے تحفظات پر مبنی مسائل ہی اٹھائیں گے۔ مسلم نمائندگی کا یہ مثالی تصور قانون سازی کی سیاست کی حقیقت کے خلاف ہے۔
ضروری نہیں کہ مسلمان منتخب نمائندے مسلمانوں کے مفادات کے لیے ہی کام کریں۔ درحقیقت، وہ قانون ساز اداروں (اسمبلیوں) میں کسی سیاست دان جیسا ہی رویہ اختیار کریں گے۔ جس سیاسی جماعت کی وہ پارلیمان میں نمائندگی کرتے ہیں، اسی جماعت کے بیانیے کے مطابق ان کے دلائل، بیانات اور دیگر سیاسی معاملات ہوں گے۔ لہٰذا لوک سبھا میں مسلمان ارکان پارلیمان کی تعداد اور مسلمانوں کی پسماندگی کے درمیان تعلق قائم کرنا تجزیاتی طور پر گمراہ کن ہوگا۔ اس کے برعکس، مسلم سیاسی اشرافیہ، جو مسلم مفادات کے نمائندے ہونے کی دعوے دار ہے اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اساسی تعلق، درحقیقت سیاسی نمائندگی کی مختلف اشکال کو پروان چڑھاتی ہے۔ دورِ حاضر میں بھارت کی سیاست کے دو چیدہ نکات، انتخابی مسابقت کی نوعیت اور سیاسی طور پر کچھ رعایت دینا ہوسکتے ہیں۔
لوک سبھا کے انتخابات میں حالیہ برسوں کے دوران سخت مقابلے کی نوعیت نے سیاسی جماعتوں کو مجبور کیا کہ وہ معاشرتی امور جیسے سیاسی زندگی کے اصولوں سے نمایاں انحراف کردیں۔ کسی پیشہ ور ادارے کی طرح سیاسی جماعتوں نے بھی زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے انتخابی منڈی میں کسی کارپوریٹ فرم کی طرح کا برتاؤ رکھا۔ معاشرے کے محروم طبقوں جیسے خواتین، دلت اور مسلمانوں کی نمائندگی ایک اٹل نظریاتی حقیقت ہے۔ لیکن سیاسی جماعتوں نے زیادہ توجہ انتخابی حلقوں میں کامیابی پر مرکوز رکھی۔ بی جے پی نے انتخابی سیاست میں نئی مثال قائم کی اور سیاسی سرگرمیوں، خاص کر انتخابات کو ادارہ جاتی اور پیشہ ورانہ انداز میں برتا۔ بی جے پی کی حریف سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی بقا کے لیے اس پیشہ ورانہ معیار کو برقرار رکھنا ہوگا، کم سے کم ان ریاستوں میں تو ضرور، جہاں ان کا براہ راست مقابلہ بی جے پی سے ہے۔ ایسے مواقع پر مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دینا، بھارت میں بالادستی پر مبنی ابھرتی سیاست کی بنیادی منطق کے خلاف ہے۔ ایسا بھارت جہاں مسلم مخالف ہندوتوا کے نظریے اور قوم پرستی پر مکمل بھروسا کیا جارہا ہو۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ریاستی نظام کے ایسے مضبوط ڈھانچے میں مسلمان قیادت کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ مسلمان قائدین کو راجیہ سبھا، وقف بورڈ ، اقلیتوں کے لیے قائم قومی کمیشن اور دیگر فورمز پر جگہ دیں۔ ریاستی نظام میں مسلمانوں کی موجودگی کو کسی بھی طرح مسلمانوں کی نمائندگی سے گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ مسلمان سیاست دانوں سے اچھا مسلمان سمجھتے ہوئے رویہ اختیار کریں اور ان سے توقع رکھیں کہ مسلمانوں سے متعلق مسائل پر وہ اپنی پارٹی کا بیانیہ پیش کریں گے۔ بی جے پی میں مسلمانوں کی نمائندگی بالکل ایسے ہی درست ثابت کی جاسکتی ہے۔ یہ مسلمان سیاسی رہنما مسلمانوں کی نمائندگی پر بی جے پی کا موقف درست انداز میں پیش کریں گے۔
بھارت میں ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا کے انتخابات کے بعد مسلمان امیدواروں کی نمائندگی میں دیگر مذہبی گروپوں کی طرح خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مسلمان بتدریج سیاست سے دور ہوئے اور ووٹ کی طاقت پر ان کا عقیدہ کمزور ہوا۔ لیکن اس عمل کو مسلمانوں کے ووٹ دینے کے مزاج سے جوڑا نہیں جاسکتا۔ طبقات، ذات، خطے اور جنس جیسے سماجی اور ثقافتی عناصر مختلف پیرائے میں مسلمانوں کے سیاسی انتخاب کا تعین کرتے ہیں۔ اس طرح، مسلمان ووٹر کئی جہتی سیاسی شناخت رکھتے ہیں اور انتخابی عمل میں ان کی شمولیت کا تعین ان عوامل سے کیا جاسکتا ہے۔
سیاسی فتوؤں اور مذہبی اشرافیہ یا علما کی جانب سے تجاویز کا بڑے پیمانے پر انکار اس نکتے کو سمجھانے کے لیے اچھی مثال ہے۔ انتخابی فتوؤں کے لیے مشہور، جامع مسجد دلی کے امام، احمد بخاری نے فیصلہ کیا کہ حالیہ انتخابات میں کسی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کریں گے۔ لیکن ممبئی کے علما اس سلسلے میں پیش پیش رہے۔ سنی، شیعہ ، بوہری اور وہابی، دیوبندی اور بریلوی مسالک کے سات سو علمائے کرام نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں بی جے پی کے مقابلے میں صرف سیکولر جماعتوں کو ووٹ دیں۔ دلچسپ پہلو یہ رہا کہ ان بیانات کا مسلمان ووٹروں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ انہوں نے صرف بی جے پی کو شکست دینے کی نیت سے ووٹ نہیں ڈالا ، نہ ہی ووٹنگ کے لیے کوئی خاص حکمت عملی اختیار کی۔
اس کے برعکس، ۲۰۱۴ء کے ریاستی انتخابات کے بعد اور ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا کے الیکشن میں مسلمانوں کا ووٹ دینے کا انداز یہ بات واضح کرتا ہے کہ مسلمانوں نے ووٹ بینک بننے میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ در حقیقت، سیاسی نسبت مسلمان ووٹروں کے انتخابی طرزِ عمل کے طے شدہ پہلوؤں کا حصہ رہی ہے۔ مسلمانوں نے ان انتخابات میں بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیے۔ اگرچہ بھارت بھر میں بی جے پی کی سیاسی حریف جماعتیں اور علاقائی اتحاد مسلمان ووٹروں کا پہلا انتخاب رہے۔ راجستھان، مدھیا پردیش اور گجرات جیسی ریاستوں میں بی جے پی کے لیے مسلمانوں کے ووٹ میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوا۔
یہ نکتہ ہمیں اس مقالے کی مرکزی دلیل کی طرف لاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمان ووٹر انتخابی بیانیے اور اس کی حیثیت میں واضح امتیاز کربیٹھے ہیں۔ مسلمانوں نے اس دعوے کو واضح طور پر مسترد کردیا ہے کہ ہندو ووٹ بینک قائم ہوگیا ہے اور اب انتخابات میں کامیابی کے لیے کسی کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں۔ تاہم ہندوتوا کے نظریے سے انکار کے باوجود وہ متحد ہوکر ووٹ بینک میں تبدیل نہیں ہوسکے۔ ذات پات اور خطے جیسے عناصر اب بھی مسلمانوں کے ووٹ دینے سے متعلق رجحان کا تعین کررہے ہیں۔ ہندوتوا کے نظریے نے فرقہ وارانہ تفریق کو ہوا دی، لیکن مباحثے کی حد تک، اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں انتخابی میدان میں ردعمل پیدا نہیں ہوسکا۔
اس لیے میں اس دلیل پر قائم ہوں کہ مسلمانوں کا ووٹ یقینی طور پر معنی رکھتا ہے، کیوں کہ بنیادی طور پر مسلمان اپنی پہچان کسی مذہبی گروہ کی حیثیت سے کرانا نہیں چاہتے۔
Leave a Reply