
مغربی فکر و فلسفہ کا مطالعہ کرنے والا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ مذہب کے معاملہ میں عیسائیت اور یہودیت کس قدر تضادات کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیت نے خاص طور پر گزشتہ پانچ صدیوں میں بے شمار فکری تبدیلیوں کا سامنا کیا ہے اور ان کا بہت زیادہ اثر بھی قبول کیا ہے۔ روایت پسند یا قدامت پسند عیسائی طبقہ اپنی سطح پر داخلی شکوک اور دیگر مادی مسائل میں گِھرتا چلا گیا، جب کہ جدت پسند عیسائی طبقہ اس حد تک آزاد ہو گیا کہ اُس نے مذہب کی ضرورت ہی سے انکار کر دیا، چنانچہ اس وقت دونوں مذاہب کے سارے طبقات اور اُن کے افراد گم گشتہ منزل ہیں۔ ان کے سامنے جدید زمانے کے سماجی مسائل کے حل کے لیے دو متضاد طریقے ہیں۔
۱۔ موجودہ سماجی اداروں کی تشکیل نو اور سماجی اصلاح کا طریقہ اختیار کیا جائے، تاکہ لوگ مذہبی رسوم اور پابندیوں کے بغیر آزادی سے اپنے امور کی تکمیل کریں۔
۲۔ قدیم مذہبی تعلیمات بحیثیتِ قانون نافذ کی جائیں اور افراد کو اس ناپاک دنیا سے وحی کی روشنی میں نجات اور فلاح دلائی جائے۔
مؤخر الذکر طریقہ قدامت پسند (Orthodox) عیسائیوں کا ہے، جن کے پاس مذہبی تعلیمات تو ضرور ہیں، لیکن بے شمار تحریفات سے پُر۔ اس لیے مسائل کے حل کے لیے کوئی عملی منصوبہ بندی اُن کے پاس موجود نہیں ہے، جب کہ اول الذکر طریقے کے حامی جدت پسند (Modernist) ہیں، جن کا موقف یہ ہے کہ سماجی، معاشی اور معاشرتی اداروں کی تشکیل کیلئے مذہب کی کوئی ضرورت نہیں، یا اس کی جدید تعبیر ناگزیر ہے۔ مذہب کے بارے میں ان کا یہ رویہ زندگی کے ہر شعبہ میں دکھائی دیتا ہے، مثلاً ایڈون اے برٹ عائلی زندگی کے مسائل پر بحث کرتے ہوئے جدیدیت پسندوں کا یہ موقف بیان کرتا ہے:
’’عصمت کے روایتی معیار کے مطابق ان مسائل کا کوئی آسان حل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اساسیین اور کیتھولک الہیین کے ساتھ اس امر میں متفق ہیں کہ عائلی تعلقات اس طرح استوار ہونے چاہئیں کہ اس رشتے میں منسلک ہونے والوں کا روحانی ارتقاء ممکن ہو۔ اس تعلق کا مقصد محض انفرادی خوشی یا راحت حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے، لیکن اس مقصد کے لیے ان کے خیال کے مطابق بائبل کے پیش کردہ اصول یا روایتی طریقے کارآمد نہیں۔ حالات کی تبدیلیوں کے باعث شادی شدہ زندگی کے مواقع اور ذمہ داریاں پہلے سے بہت زیادہ مختلف ہیں، ’عورتوں کی آزادی‘ اور ضبط تولید کے قابلِ اعتماد طریقوں، کی دریافت نے پرانے تصورات کو بالکل ختم کر کے رکھ دیا ہے۔‘‘
نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیت کے یہ دونوں بڑے فرقے مذہب سے دور ہو گئے۔ کیتھولک اس وجہ سے کہ ان کے پاس واضح تعلیمات نہ تھیں، گودینی تمسّک کے جذبات ضرور موجود تھے، ساتھ ہی اصولِ اجتہاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ مذہبی جمود کا شکار ہو بیٹھے اور زمانے کی ترقیات کو دیکھتے ہوئے اپنے مذہب کی بے بسی کا مشاہدہ کرنے لگے، جبکہ پروٹسٹنٹ یا جدیدیت پسند طبقہ جو نئی تعبیرات اور عقلی تاویلات کے باعث پہلے ہی مذہب سے بے زار یا اسے ناکافی قرار دے چکا تھا، نئی روایات میں مزید الجھتا چلا گیا اور بالآخر اپنا دامن مذہب سے کلّی طور پر منقطع کر بیٹھا۔ مذہب سے دوری کے بعد مغرب مادی وسائل کے حصول اور اُن کی ترقی میں مشغول ہو گیا اور رفتہ رفتہ پوری دنیا میں مادّی طاقت اور غلبے کا نشان بن گیا۔
مادیت کا میلان ہمیشہ آزاد خیالی اور بے راہ روی کی طرف ہوتا ہے، جب کہ مذہب کے پیشِ نظر روح اور جسم کے پاکیزہ تعلق کی نشوونما اور ترقی ہوتی ہے۔ یہیں سے مغربیت (مادیت) کی اسلامیت (روحانیت) سے کشمکش شروع ہوتی ہے۔ چونکہ اسلامی روایات و افکار اپنے مضبوط مصادر و اساسیات کی بدولت مغربی اثرات کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، اس لیے پوری مغربی مشنری اسلام کی اساسیات میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوشاں ہے۔
مغرب کا ترک مخالف فکری محاذ اور اس کی مختلف جہات
مغرب کا اسلام مخالف رویہ جنگ و جدال اور مسلسل جارحیت کو اپنانے کے باوجود امت کے اسلامی تشخص اور اس کے اندازِ فکر کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے بعد مغربی مفکرین نے اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف فکری محاذ کھولا۔ اس ضمن میں انہوں نے مشرقی علوم کے ذخیرہ کو جس حد تک ممکن ہوا اپنے قبضوں میں لیا، پھر مشرقی زبانوں پر دسترس حاصل کر کے اسلامی افکار کو داغ دار بنا کر پیش کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
مستشرقین اسلامی ممالک میں مسلم اقوام کے مزاج اور رویوں سے شناسائی حاصل کرنے کے لیے پے بہ پے آنا شروع ہوئے اور اپنی پالیسی سازی میں اُن معلوم حقائق کو مدنظر رکھا جو وہاں کے گہرے مطالعے اور غور و خوض کے بعد اُن کو میسر آئے۔ استعماریت کے راستے اسی طرح کھلے۔ ترکی اپنی سطوت و شوکت کے باعث ہمیشہ اہلِ مغرب کو کھٹکتا رہا ہے۔ ان کی نظر میں مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور اسلامی دنیا کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے ترکی کو آلۂ کار بنانا سب سے زیادہ موزوں تھا۔ ترکوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے اسلام کو خدا کے دین کی حیثیت سے اختیار کر لینے کے بعد ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ اسلامی اخلاق و آداب ان کے ضمیر اور خمیر میں رچ بس چکے تھے، حتیٰ کہ انہوں نے اپنے مخصوص قدیم رسم الخط کو بھی تبدیل کر کے عربی رسم الخط اپنا لیا اور پاسبانِ کعبہ کے لقب سے ملقب ہوئے۔
ڈاکٹر اکمل ایوبی اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں:
’’جب خود ان (ترکوں) کی حکومتیں ایشیا اور یورپ میں قائم ہوئیں تو یہ قوم اسلامی شوکت و طاقت کی علم بردار بن گئی اور ان علاقوں میں اسلامی تمدن کے بیج ہی نہیں بوئے، بلکہ ان علاقوں کو پوری طرح اسلامی رنگ میں رنگ دیا، جہاں مسلمان ہزار کوششوں کے باوجود اپنے قدم نہیں جما پائے تھے۔ اس وقت ترک نام ہی ہیبت پیدا کر دینے کے لیے کافی تھا اور انہیں شکست دینا یا ان کی قوت کو تباہ کرنا ایک ناممکن امر سمجھا جاتا تھا۔ اسی ہیبت کی وجہ سے فتح قسطنطنیہ کے تقریباً دو سو سال کے بعد بھی ایک فرانسیسی مصنف (Guillet) نے ۱۶۸۱ء میں اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ ’’ہر عیسائی کو ہمیشہ یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ خدا پھر کوئی سلطان محمد ثانی پیدا نہ کرے۔‘‘
فتح قسطنطنیہ (۱۴۵۳ء) کے بعد یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ عیسائیت نے مسلمانوں سے جارحانہ مزاحمت کا رویہ ترک کر دیا اور جنگ سے زیادہ فکری اور تخریبی سرگرمیوں کی طرف اپنا رخ موڑ لیا۔
تاریخِ ترکی رقم کرنے میں اختیار کردہ استشراقی طرزِ تحقیق
مستشرقین نے ترکی کی اس اہمیت کے باعث اس کی تاریخ اور روایات کو مسخ کر کے اور محرّف صورت میں پیش کرنے کی بھی کوشش کی۔ مقصد یہ تھا کہ ترک قوم اپنے مذہبی تشخص کو پسِ پشت رکھ کر نسلی تفاخر کو اپنی شان و شوکت کا سبب قرار دے۔ اس کے علاوہ قرآن و حدیث کی جدید تعبیر و تشریح اور ان مصادر کے نقائص بیان کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بہت سی کتابیں لکھی گئیں جن میں سے اکثر غیرمعیاری اور غیرمنطقی طرز استدلال سے بھرپور تھیں۔ مستشرقین، تاریخ نگاروں اور نقادوں کی ایک کمزوری یہ ہے کہ جس ماحول اور زمانہ کی وہ خود پیداوار ہوتے ہیں اور جس میں وہ اظہار خیال کرتے ہیں اسی کو معیار مان کر اسلامی مصادر کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح اسلام اور زمانۂ حال کے درمیان اختلافات اور تضادات کی فہرست تیار کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ اسی کو مسلم ممالک کے نام نہاد اسکالر دلیل اور حجت مانتے اور آگے پڑھاتے ہیں۔
گزشتہ تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ ترکی کے سیاسی، سماجی اور مذہبی نظام کو متاثر کرنے میں تین عناصر کا کردار اہم رہا ہے:
۱۔ مغربی اسکالر کی رقم کردہ تاریخِ ترکی۔
۲۔ اسلامی مصادر سے مسلمانوں کا رابطہ منقطع کرنے کی مغربی کوششیں۔
۳۔ مغرب کے پروردہ علماء اور حکمرانوں کے ذریعے مغربی تہذیب کا مسلم ممالک میں تسلط۔
ڈاکٹر اکمل ایوبی نے اپنے مقالہ میں مغربی مؤرخین کی طرف سے ترکی کی تاریخ کو حقیقت کے بالکل برعکس پیش کرنے کے مختلف شواہد پیش کیے ہیں۔ ایک جگہ رقم طراز ہیں:
’’مستشرقین نے اسلامی اتحاد کو ضرب لگانے کی غرض سے ترکوں کو اس اصل قومیت کا احساس دلایا جس کا دار و مدار مادری زبان پر ہے۔ اس کی تکمیل کی غرض سے ایک فرانسیسی مستشرق Joseph De Guigiyes نے آٹھویں صدی کے وسط میں ایک ذہنی خاکہ بنایا اور عملی شکل دینے کے لیے ترکوں کی قدیم تاریخ لکھی اور ان کے ان کارناموں کو شاندار الفاظ میں پیش کیا، جو ترکوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے سرانجام دیے تھے۔ اس نے قدیم غیراسلامی تہذیب کے احیاء کی دعوت اس لیے دی، تاکہ ترکوں کے اسلامی معاشرہ میں انتشار پیدا ہو اور ان کو یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ صرف مسلمان نہیں، بلکہ ترک بھی ہیں، یا یوں کہیے کہ وہ ترک پہلے ہیں اور بعد میں مسلمان۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے یوسف جوسف وان ہمر، ویمبری، راڈلوف اور جاہون نے اپنی تصانیف کے ذریعہ کوشش کی۔ ہوورتھ، سرجیمس ولیم ریڈہائوس اور الیاس جون ولکنس گب کی تصانیف بھی اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ مستشرقین نے یہ کوشش کی کہ ترک اپنی قدیم تاریخ اور اسلام سے پہلے کی داستان سن کر خوش ہوں، تاکہ رفتہ رفتہ مذہبی احساس اور اسلامی اخوت کے بدلے ان میں نسلی تاثرات فروغ پا جائیں۔‘‘
ترکی کی تاریخ رقم کرنے میں اہلِ مغرب نے جس بددیانتی اور غیرمنصفانہ اسلوب کا مظاہرہ کیا ہے اس کا انتہائی جامع تذکرہ ڈاکٹر موصوف نے اپنے مقالہ ’’مستشرقین اور تاریخ ترکی‘‘ میں کیا ہے۔ ان کے بقول ’’یورپی ممالک کو ترکوں سے سخت عداوت تھی، چنانچہ مغربی اہلِ قلم نے ترکوں کی تاریخ لکھتے وقت تعصب سے کام لیا ہے اور ترکوں کے مذہب یعنی اسلام پر طعنہ زنی اور دیوانہ وار اعتراضات کیے ہیں، مثلاً ایورسلی نے اپنی کتاب The Turkish Empire میں عثمانی سلطان بایزید یلدرم (۱۳۸۹ء۔ ۱۴۰۲ء) کے حالاتِ زندگی (ص۴۸) لکھتے وقت ایک ترکی کہاوت یا مقولہ کو قرآن کی آیت قرار دے کر اسلام دشمن ہونے کا ثبوت پیش کیا، اسی طرح ایورسلی ایک اور جگہ لکھتا ہے کہ مغربی ایشیا کے عیسائی ترکوں سے ڈر کر اسلام لائے تھے، اور ان کے اور ترکوں کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات قائم ہو گئے اور دونوں کے میل سے ایک نئی نسل تیار ہونے لگی جو دوسری ریاستوں کے باشندوں سے بہت کچھ مختلف تھی اور اپنے کو ’عثمانی‘ کہتی تھی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شخص، جو عثمانی سلطنت کا باشندہ تھا، عثمانی کہلاتا تھا، اس میں نسل، مذہب اور زبان کی تفریق نہیں تھی۔ اسی طرح سرجارج لارپنٹ نے اپنی کتاب Turkey میں اسلام سے متعلق یہ بیان دیا کہ وہ علم کی روشنی پھیلانے کا مخالف تھا، اور عثمانی ترکوں کی نسبت یہ کہا ہے کہ یہ قوم منظم جہالت کی دل دادہ تھی۔
واضح رہے کہ ترکوں کی تاریخ لکھنے میں استشراقی تعصب اور تنگ نظری کا اعتراف اب چند یورپی اسکالرز بھی کرنے لگے ہیں، جن میں برنارڈ لوئس سرفہرست ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں:
’’یورپی تاریخ کی زیادہ تر کتابیں ان ممالک میں عثمانی حکومت اور اس کے اثرات کو مسخ کر کے پیش کرتی ہیں۔ یہ کتابیں خالصتاً مغربی شواہد پر مبنی ہیں، جو زیادہ تر ناقص، گھڑی ہوئی اور غیرمعتبر ہیں۔ ان کتابوں میں تاریخ یورپ کے ترکوں کے رول کی افسوسناک حد تک گمراہ کن تعبیر ملتی ہے۔‘‘
متاثرینِ یورپ کا ملحدانہ افکار کی اشاعت میں کردار
اہلِ مغرب کی ان کوششوں کے نتیجہ میں ترکی کے اندر ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو استشراقی تحریروں سے انتہائی متاثر ہوا۔ اس طبقہ نے ترکی کی داخلی صورتحال کو مغربی فکر کے زیرِ اثر لانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ اس کردار کے کئی مراحل اور شعبے تھے۔ سیاست اور شریعت سے لے کر سماج تک اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ اس طبقہ کے زعماء میں احمد جودت پاشا، مصطفی جلال پاشا، احمد مدحت، علی توفیق اور نجیب عاصم شامل ہوئے اور تمام مراحل میں ترک مخالف قوتوں کا ساتھ دیا۔ ۱۸۳۹ء سے ۱۸۷۶ء تک کا زمانہ ترکوں میں مغربیت کے استحکام کا زمانہ ہے۔ اسی دوران چند نوجوان عثمانیوں نے ’تنظمیات‘ کی پالیسیوں کو سطحی قرار دینے اور حکومت پر تنقید کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس طرح اسلام، آئین اور قومیت کے مابین کشاکش نے جنم لیا۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے آزادیٔ نسواں کا نعرہ بلند کیا۔ Arranged Marriages پر تنقید کی، نامک کمال نے شادی اور عائلی زندگی کے غیرمنصفانہ پہلوئوں، خصوصاً عورت کی سماج میں مجموعی حیثیت کو ناقدانہ انداز میں پیش کرنے کے لیے ایک اخبار ’عبرت‘ جاری کیا، تاکہ عورتوں سے متعلق جدید اصلاحات کے لیے راہ ہموار کی جائے، S.Mardin نے ضیا پاشا، علی صوآوی اور سناسی وغیرہ کے ناولوں اور کتابوں کا بھی انہی جدت پسند افکار کی اشاعت کے ضمن میں تذکرہ کیا ہے۔
آزاد خیالی اور جدیدیت پسند طبقوں کی یہ آراء زور پکڑتی گئیں اور مغربی سامراج نے ترکی میں قدم جمائے۔ شریعت اسلامیہ کی جامعیت، عمومیت اور ہمہ گیری میں رخنہ اندازی کیلئے انہوں نے دین اور دنیا کی تفریق کا نظریہ پھیلایا۔ ترکوں کو ان کے سیاسی اور مذہبی معاملات میں علیحدگی کا تصور دیا، خصوصاً نوجوان نسل کو متاثر کرنے کے لیے پرسنل لاء میں باریک تبدیلیوں کے لیے راستہ ہموار کیا۔ اگرچہ اسلام کی زبردست مزاحمت کی وجہ سے اس وقت قانوناً اور عملاً تو ایسا نہ ہوا، تاہم ترکی میں علماء کرام کی ایک جماعت نے، جس میں غالباً علامہ شامیؒ بھی شامل تھے، جب ۱۲۸۶ء میں ’مجلۃ الأحکام العدلیۃ‘ کی اشاعت کی تو اس میں بھی عائلی قوانین کا باب شامل نہیں کیا گیا اور اس کے متعدد مباحث بھی محدود کر کے شامل کیے گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ عالمِ اسلامی میں خلافتِ عثمانی کا خاتمہ ایک بہت بڑا المیہ تھا۔ اس عظیم سلطنت کے زوال کا سب سے اہم سبب یہ تھا کہ وہاں مغرب اور مغربی تہذیب سے متاثر ایک طبقہ وجود میں آچکا تھا اور بدقسمتی سے کچھ ایسے حکمران برسر اقتدار آگئے تھے، جنہوں نے نظریاتی اور تہذیبی لحاظ سے ترک قوم کو بہت حد تک مغرب کا مقلد بنانے میں اپنی کوششیں صرف کر دیں۔ مصطفی کمال پاشا (اتاترک) اس صف میں انتہائی اہم نام ہے۔
اتاترک کے خلافِ اسلام اقدامات
مصطفی کمال اتاترک نے جس معاشرہ کی تشکیل کی وہ غیراسلامی تہذیب و معاشرت کا آئینہ دار تھا۔ وہ خود چونکہ مغربی تہذیب سے مرعوب تھا اس لیے زبردستی اس کے نفاذ کے لیے اسلامی اَقدار کے خلاف کھلی مہم چلا کر غیرمسلم اَقوام کی تقلید کا رجحان پیدا کرتا رہا، جس کی وجہ سے ترکوں کا اسلامی تشخص بری طرح مجروح ہوا۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے اپنی کتاب ’مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش‘ میں مصطفی کمال اتاترک کے مزاج اور عادات کا تذکرہ مستند سوانح نگاروں کے حوالے سے کیا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں:
’’اتاترک شراب نوش اور جنسی تسکین حاصل کرنے کا شائق تھا، روحانی تسکین کے لیے اس کے اندر خدا کا اعتقاد نہ تھا، وہ دوسروں کے جذبات کو تسلیم نہیں کرتا تھا، اس نے مذہبی اقتدار سے آزادی حاصل کرنے کی پرزور حمایت کی، اس نے شریعت اور اسلامی قانون کی تشریح کرنے والی عدالتوں کے خاتمے کی وکالت کی، اس کی اصل جنگ مذہب کے خلاف تھی، اس نے اس بات کو نظرانداز کر دیا تھا کہ اسلام ہی کی عطا کی ہوئی وحدت نے وسیع عثمانی سلطنت کی تعمیر کی تھی۔ اس کا عقیدہ تھا کہ خدا کا کہیں وجود نہیں، اس نے ترک قوم کو مذہب کی جگہ مغربی تہذیب کے روپ میں نئے دیوتا سے متعارف کرایا، وہ اسلام اور علماء کی توہین کرتا تھا، وہ اپنی قوم سے کہتا تھا کہ ہم کو ایک مہذب قوم کا سا لباس پہننا چاہیے، دوسری قوم کے لوگوں کو اپنے پرانے فیشن کے لباس پر ہنسنے کا موقع نہیں دینا چاہیے، اس نے ترکی ٹوپی کو خلافِ قانون اور ہیٹ کو لازم قرار دیا۔ ۱۹۲۷ء میں مکہ مکرمہ میں مؤتمر اسلامی کے اجلاس میں اسلامی ممالک میں ترکی وہ واحد ملک تھا جس نے ہیٹ پہن کر ترکی کی نمائندگی کی، ملک کو سیکولر اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا جس میں اسلام کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل نہیں رہی۔۔۔ خلافت کے ادارے کو ختم کر دیا گیا، شرعی اداروں، محکموں اور اسلامی قانونِ فوجداری اور جرمنی کا قانونِ بین الاقوامی تجارت نافذ کیا گیا، اور پرسنل لا کو یورپ کے قانون دیوانی کے مطابق و ماتحت کر دیا، دینی تعلیم ممنوع قرار پائی، پردہ کو خلافِ قانون قرار دیا، مخلوط تعلیم کا نفاذ کیا گیا، عربی حروف کی جگہ لاطینی حروف جاری ہوئے، عربی میں اذان ممنوع قرار پائی، قوم کا لباس تبدیل ہو گیا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ مغربی تاریخ نویس اور ناقدین ترکی کی تاریخ پر جب بھی قلم اٹھاتے ہیں تو عموماً مصطفی کمال اتاترک کے عہد کو ترکی کی تاریخ کا زریں دور قرار دیتے ہیں۔ وہ بسا اوقات یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ ترک تاریخ میں اصلاحات کا جو عمل مصطفی کمال کے دور سے شروع ہوا وہ اس کے ذاتی ذوق اور فکر کا ترجمان ہے، جس میں کسی بیرونی کوشش کا عمل دخل نہیں ہے۔ اہلِ مغرب اسی وجہ سے ترکوں کی تاریخ کا حوصلہ افزا یا خوش کن مرحلہ کمال ازم کو ہی قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ تاثر تاریخی حقائق کے بالکل منافی ہے اور یہ اس لیے پھیلا کیونکہ یورپین مؤرخین نے مصطفی کمال کو مسلمانوں کے لیے قبول صورت بنایا تھا، تاکہ اس کو اہلِ اسلام کی شدید مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مذہبی امور پر ’کمال ازم‘ کے اثرات
کمال اور اس کے اتحادیوں نے انقرہ کے سلطان کا تختہ ۱۹۲۲ء میں گرا دیا گیا اور اس کے ایک دو سال کے اندر استنبول مرکز انتظام و انصرام ٹھہرا۔ ۳ مارچ ۱۹۲۴ء کو خلافت کے خاتمہ کے ساتھ ہی خاندانِ عثمانی کے تمام افراد جلاوطن کر دیے گئے، علماء کے حلقے توڑ دیے گئے، ۳ نومبر کو لاطینی رسم الخط کے نفاذ کا حکم دیا گیا، چالیس سال سے کم عمر ترکوں کو ہدایت کر دی گئی کہ اس رسم الخط کے سیکھنے کے لیے اسکولوں میں جایا کریں، اس طرح عربی اور فارسی کے الفاظ تدریجاً ترکی زبان سے نکال دیے گئے۔ مصطفی کمال نے اپنے مغربی اتحادیوں کے زیر اثر سب سے پہلی اصلاح تعلیم کے میدان میں دینی مدارس کے نظام کے خاتمہ سے کی۔ مذہبی معاملات اور محکمۂ اوقاف کی انتظامیہ کو فی الفور وزیراعظم کے ڈائریکٹریٹ سے منسلک کر دیا، تاکہ ان کی خودمختاری ختم ہو جائے اور تمام مذہبی فیصلے وزیراعظم کی طرف سے ہوں۔ چنانچہ اس حوالے سے سب سے پہلا حکم ۳؍اپریل ۱۹۲۴ء کو شرعی عدالتوں کے خاتمہ کی صورت میں آیا۔ تمام سلسلہ ہائے تصوف و طریقت پر ۱۹۲۵ء میں پابندی لگا دی گئی تھی اور آخرکار ۱۹۲۸ء میں اسلام بحیثیت مذہب قبول کرنے کی آئینی شِق کو ریاست میں منسوخ قرار دیدیا گیا۔
مصطفی کمال نے عورتوں کے پردہ پر براہِ راست قانونی پابندی لگانے کے بجائے سخت ترین پروپیگنڈا کیا اور عورتوں پر زور دیا کہ وہ ماڈرن اسٹائل اور لباس اختیار کریں۔ اگرچہ عورتوں کیلئے برقعہ پہننا اختیاری رکھا گیا، لیکن رجحان یہی تھا کہ اس کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔ اس ضمن میں بی۔کاپورل (B.Caporal) نے یہ ذکر کیا ہے کہ پردہ کو نہ چھوڑنے والوں کا محاسبہ اور مختصر عرصہ کی قید بطور سزا بھی رکھ دی گئی۔
غرض مصطفی کمال نے اپنی مغرب زدگی کی رَو میں بہت سے معاملات میں مداخلت فی الدین کے بے جا اور جسارت آمیز اِقدامات کیے۔ ۱۹۱۷ء میں عثمانی عائلی قانون ظاہر ہوا اور ۱۹۲۱ء میں آئینی اصلاحات کے نام سے اسلامی قانون کی قطع و برید شروع ہو گئی۔۔۔ نئے قانون کی رو سے ترکی میں عیسائی اور یہودی تو اپنے مذہبی امور میں بالکل آزد قرار پائے، جب کہ مسلمانوں کا مذہب حکومت کا دست نگر ہو گیا۔
ترکی میں ’تجدید و اصلاحِ دین‘ کی حالیہ کوششوں کا ناقدانہ تجزیہ
اسلامی ممالک میں عمومی اور ترکی میں خصوصی طور پر جدیدیت کی یہ مہم ابھی تک جاری ہے۔ ۱۹۹۶ء میں ’انسانی کالونیوں‘ کے موضوع پر ترکی میں اقوام متحدہ کے اسٹیج پر ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی زندگی میں مرد و عورت کے درمیان مساوات اور خواتین کی فعال شرکت پر زور دیا گیا، تاکہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی نوع انسانی کی ترقی کی راہ میں مرد و عورت دونوں شانہ بشانہ مل کر کام کریں۔
اسی طرح کچھ عرصہ سے ترکی کا سرکاری ادارہ برائے مذہبی امور (دیانت) جدید اسلام سے شناسائی کے لیے راہیں ہموار کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔ خاص طور پر اس کے نزدیک عورت کو معاملاتِ زندگی طے کرنے میں جن دشواریوں یا عصری تقاضوں کی بنیاد پر جن پیچیدگیوں کا سامنا ہے ان کے حل کے لیے احادیث کی نئے سرے سے تعبیر کرنا، نیز احادیث کے وہ الفاظ جو عورت کی حیثیت اور مرتبہ کو مرد کے مقابلہ میں کم تر کرتے ہیں، ان کو احادیث کے پورے ذخیرہ میں سے حذف کرنا بھی اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔
حدیث و سنت کی جدید تعبیر و تشریح کے مقصد سے شروع کیے جانے والے اس منصوبہ کے لیے ترکی کی ۲۳ یونیورسٹیوں کے تقریباً ۸۰ اسکالرز کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کمیٹی کا ہدف یہ ہے کہ وہ ذخیرۂ حدیث کی ازسرِ نو مراجعت کے بعد اس میں ضروری حذف و اضافہ کو عمل میں لائے، نیز وہ احادیث جو ان کے خیال میں جدید دور میں زمانہ کے تقاضوں اور ضروریات سے متصادم ہیں، ان کی ایسی تعبیر کرے جس سے احادیث اور زمانۂ حال کے درمیان ایک متناسب مطابقت کا احساس ہو۔ منصوبہ سازوں کے خیال میں ایسی احادیث کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس لیے ان کو جلد از جلد جدید اسلوب (Modern Style) میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
اس منصوبہ کے سربراہ پروفیسر مہمٹ گورمیز (Mehmet Gormez) نے وضاحت کرتے ہوئے چند مثالیں بھی دی ہیں۔ مثلاً انہوں نے کہا ہے کہ عورت کو محرم کے ساتھ سفر کرنے کی جو پابندی آں حضرتﷺ نے لگائی تھی وہ اس دور کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشرتی سطح پر لگائی تھی، تاکہ عورت کی حفاظت ممکن ہو، آج کے حالات اس دور سے مختلف ہیں۔ اسی طرح اب وہ علت بھی موجود نہیں جو اس عہد میں موجود تھی، اس لیے یہ حدیث ذخیرۂ حدیث میں سے حذف کر دینی چاہیے۔ یا پھر اس کی ایسی تعبیر کی جائے جس سے یہ قدغن ختم ہو جائے۔ اسی طرح پروفیسر موصوف نے ایک انٹرویو کے دوران اسلامی حدود اور سزائوں کے بارے میں کہا کہ اس طرح کی کسی چیز کا قرآن میں ذکر نہیں ہے۔
اس منصوبہ کے تین اہم مقاصد بیان کیے گئے ہیں:
۱۔ تاریخی مداخلت کی وجہ سے پیدا شدہ غلط فہمیوں کا ازالہ۔
۲۔ احادیث میں معاشرتی، روایتی اور مذہبی عناصر کی توضیح۔
۳۔ حدیث کے صحیح فہم میں لوگوں کی معاونت۔
یہ مقاصد بظاہر نسلِ نو کے لیے انتہائی مثبت طرزِ فکر و عمل کی نشاندہی کر رہے ہیں، لیکن پس منظر میں یہ نصوص اسلامیہ اور بالخصوص حدیث کی تغیر اور تبدیلی کا ایک منصوبہ محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر احادیث اور دیگر مصادرِ اسلامیہ پر اس نہج سے غور کیا جائے کہ ان کی تشریح سے عصرِ حاضر میں اباحیت پسندی کا دروازہ کھل جائے، یا اسلامی حدود و قیود کا سارا نظام بدل جائے تو پھر اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے کوئی ایک جز بھی قابلِ عمل نہیں قرار پائے گا، آخر پھر آں حضرتﷺ کے عطا کردہ احکام و فرامین کی کیا تشریعی حیثیت باقی رہے گی؟
احادیث کی تدوین و تعبیرِ نو کا یہ منصوبہ دراصل عیسائی مصنّفین اور ان کے مسلمان حواریوں کی عرصۂ دراز سے جاری کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس ضمن میں یہاں تین کتابوں کا تذکرہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جو ترکی میں اسلام کو نئی شکل دینے اور ذخیرۂ حدیث کی دوبارہ چھان بین کی دعوت سے پُر ہیں۔ ان کتابوں میں صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے کیونکہ یہ تو ان کے مندرجات کا ایک چھوٹا سا جز ہے، بلکہ ان میں ترکی کو سیکولر ریاست میں تبدیل کرنے کا ہمہ جہت منصوبہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے عیسائی لابی کی اس تحریک کے اثرات ترکی کی مجلسِ امور مذہبی پر بھی پڑے ہیں اور اس وقت تجدید و اصلاحِ دین کے نام پر مصادرِ اسلامی کی عصری ارتقأات کی روشنی میں تشریح و حذف اور اضافہ کا کام زور شور سے جاری ہے۔ اس پس منظر میں کتبِ ذیل کا مختصر جائزہ مفید ہو گا۔
۱) تنقیح تفسیر القرآن فی المفھوم المعاصر لعلوم الدین فی الجامعۃ الترکیۃ
(ترکی جامعات میں دینی علوم کی معاصرانہ تفہیم کے لیے قرآنی تفسیر کی تنقیح)
۲) القانون کوسیلۃ لاصلاح الدین و المجتمع
(قانون دین و معاشرہ کی اصلاح کا ذریعہ)
۳) الحداثۃ والاسلام والعلمانیۃ فی ترکیا
(ترکی میں جدیدیت، اسلام اور سیکولرزم)
دینی امور میں اصلاح کے نام پر ترکی میں جو کشمکش جاری ہے اس کو ہوا دینے میں ان کتب کا بڑا کردار ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی کوششیں پُرکشش اسلوب، بظاہر غیر جانبدارانہ تحقیقی انداز اور مخلص جذبات و احساسات کے دعووں کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ یہی کچھ معاملہ ان کتب کا بھی ہے۔ ان کے ناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں درست سمت میں اِجتہاد کرنے اور عصری تقاضوں کے لحاظ سے پیش آمدہ مسائل کا شرعی اصولوں کی روشنی میں حل تلاش کرنے کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا گیا ہے، لیکن ان کا اصل مقصد اسلامی مصادر کے متون کی ایسی صورت پیش کرنا ہے جن کے لیے ان کی تنزیل نہیں ہوئی تھی۔
پہلی کتاب تنقیح تفسیر القرآن فی المفہوم المعاصر کا مصنف فیلکس کارنر ہے۔ وہ ایک عیسائی پادری ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے انقرہ میں مقیم ہے۔ اس نے اپنی کوششوں سے ترکی کے بلند مرتبہ فقہا کے مابین ایک مناقشہ کی فضا پیدا کر دی ہے۔ کارنر کی ان سرگرمیوں کا محور یہ ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر اور دیگر تشریعی مصادر کی توضیح جدید مغربی تنقیدی اسلوب کے تحت ہونی چاہیے۔
اس ضمن میں اس نے اپنے ہم نوائوں کی ایک جماعت بھی تیار کر لی ہے جو ماڈرن اسلام کے لیے اس کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔ انہی میں پروفیسر محمد باجاجی بھی ہیں، جن کا نظریہ ہے کہ قرآن اپنی عمومیت کی وجہ سے ہر زمانہ کے لیے ایک لچکدار ضابطۂ حیات ہے، لیکن اس کا اسلوب ساتویں صدی عیسوی والا ہونے کی بنا پر اب اس کے مفاہیم پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ گویا قران اُس دور کے لیے تو مناسب تھا، لیکن اب اکیسویں صدی میں کسی دوسرے مناسبِ حال قرآن کی طرف مراجعت لازمی ہے۔ اس کے نزدیک قرآن حقائق کا مجموعہ ہے تو محقق کو بھی چاہیے کہ وہ اس کے واقعی معنی پر دھیان دے، مثلاً چوری پر ہاتھ کاٹنے کی حد سے مراد دراصل ہاتھ کاٹنا نہیں، بلکہ چوری کی سزا بیان کرنا ہے۔
واضح رہے کہ باجاجی نے اپنی تعلیم مغرب میں مکمل کی ہے اور وہ اپنے رفقا کی طرح جدید اسلوبِ تحقیق پر اعتماد کرتا ہے، یہ جدید اسلوب چاہتا ہے کہ جس طرح انجیل کا تاریخ بہ تاریخ ناقدانہ مطالعہ ہوتا چلا آیا ہے، اسی طرح قرآن کا بھی مطالعہ کیا جانا چاہیے۔
اس تفصیل سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح جدید مغربی اسالیبِ تحقیق پہلے سے طے شدہ منصوبہ کی تکمیل پر کاربند ہیں۔ ان کا منتہائے فکر یہی ہے کہ کسی طرح قرآن کو متن کے اعتبار سے نہ سہی، کم از کم معنی کے اعتبار سے ہی انجیل کے ہم پلہ قرار دے دیا جائے۔
فیلکس کارنر کی کتاب کا ایک ذیلی عنوان إعادۃ التأمّل فی الاسلام یعنی اسلام میں نئے سرے سے غور و فکر ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ذیلی عنوان بجا طور پر اس کے مرکزی عنوان کا لب لباب اور خلاصہ ہے۔
تقریباً اسی طرح کے مقاصد کا اظہار دوسری کتاب القانون کوسیلۃ لاصلاح الدین والمجتمع میں ہوا ہے، جس کے مصنف بالنت اوجر ہیں۔ انہوں نے ترکی میں داخلی سطح پر اسلامی مصادر کی جدید تعبیرات کی طرف رغبت دلانے کے لیے کافی مباحثے منعقد کروائے، جن کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ چاروں فقہی مسالک، جن کی مسلمانوں کا غالب اہل سنت طبقہ پیروی کرتا ہے، دراصل نبیﷺ کی وفات کے بعد عصری حالات و ظروف کی بنیاد پر وجود میں آئے تھے، پھر بدقسمتی سے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا گیا، جس کو دوبارہ کھولنا چاہیے۔ اس نے ترکی کے فقہا سے اس بابِ مقفل کے کھولنے کے لیے شدت سے تقاضا کیا۔ اپنی کتاب میں اوجر نے بیسویں صدی عیسوی کے غیرمعروف ترک مسلم مفکرین اور معلمین کی ایک فہرست ان کے کارناموں کے ساتھ شامل کی ہے۔ اس نے اسلام کے متعدد پہلوئوں اور ثقافتی حدود کی نشان دہی کرتے ہوئے فیلکس کارنر کی طرح تجدید و اصلاحِ اسلام کے عنوان سے اس میں نئے تناظر سے غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہ کتاب بھی کارنر ہی کے خیالات کی تکمیل کی جانب ایک اہم پیش رفت کے طور پر سامنے آئی۔
تیسری کتاب الحداثۃ والاسلام و العلمانیۃ فی ترکیا، الیف جینار کی تالیف ہے۔ موصوفہ انقرہ میں سیاسی علوم کی استاد ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ترکی میں اسلام اور سیکولرزم کے مابین موافقت ممکن ہے۔ الیف نے ترک قوم کے نئے نظریاتی (Ideological) تشخص کے لیے انہی دونوں ارکان کو بنیاد قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس پورے تاریخی پس منظر کے بعد یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ قرآن و حدیث کے متون اور اسلامی مصادر کی تعبیر و تشریح میں ان تحریفی کاوشوں کے محرکات کیا ہیں؟ اور وہ کون سے عناصر ہیں جو اس ناپاک جسارت کے مرتکب ہو رہے ہیں؟
ظاہر ہے کہ تما مسلمان علماء اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن اور حدیث کی نصوص میں کسی ذیلی اور فروعی حوالے سے، یا محض اس خیال سے کہ قرآن و حدیث کی کوئی بات بزعمِ خود قرینِ قیاس یا موافقِ زمانہ نہیں ہے، تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ امام غزالیؒ نے اجماع، قیاس اور اجتہاد کے ذریعہ نص میں تبدیلی کے عدم جواز پر بحث کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’ھذا ماقطع بہ الجمہور‘‘ یعنی یہ موقف ہے جس کی قطعیت پر جمہور کا اتفاق ہے۔
باقی رہیں فقہی اصطلاحات، استحسان، استصلاح اور عرف وغیرہ تو ان کے باقاعدہ اصول موجود ہیں، جن کو علماء اصولیین نے منضبط کر رکھا ہے۔ محض آزاد خیالی کو فروغ دینے کے لیے ان اصطلاحات کو کام میں لانا اسلام اور شریعت کے ساتھ بہت بڑا مذاق اور حدود سے تجاوز ہے۔ اس پس منظر میں انکارِ حدیث کے جدید محرکات و عوامل کا تذکرہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے بڑے جاندار انداز سے اس طرح کیا ہے:
’’مغربی تہذیب کی قدروں اور پیمانوں، اور اس کے طرزِ زندگی اور فیشن اور سنتِ نبویﷺ میں کبھی گٹھ جوڑ نہیں ہو سکتا اور اس زندگی کو جو رسولﷺ سے گہری محبت اور آپ کی ذات پر مکمل اعتماد اور سنت کے مراجع اور ماخذ پر پورے یقین اور اطمینان پر مبنی ہو، مغربی تہذیب کی تعظیم و تقدیس اور اس کو علم انسانی کی آخری دریافت سمجھنے کے تصور کے ساتھ جمع نہیں کیا جاسکتا۔ غالباً بعض اسلامی ممالک کے حکام اور سیاسی لیڈران کے سنت پر حملہ اور انکارِ حدیث کا یہی سبب ہے۔
مراجعتِ حدیث پروجیکٹ کے بارے میں علماء اسلام کا موقف
ترکی میں حدیث کی تدوین و تعبیرِ نو کے بارے میں جاری منصوبہ کے مشمولات اس وقت تک جو مؤقف علماء اسلام کی طرف سے منظرِ عام پر آیا ہے، اس میں حدیث کی حرمت و تقدیس کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس کی تشریحی حدود و قیود کی اہمیت و ضرورت کو ملحوظ رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح اس منصوبہ کے نتیجے میں جو اندیشے اور خدشات پیدا ہوئے ہیں ان کے اِزالہ کے لیے تمام علماء نے تقریباً یہ رائے پیش کی ہے کہ اس کام کو کسی ایک ملک یا انفرادی سطح پر ہونے کے بجائے امت کے بہترین علماء کو اکٹھا ہو کر امت کے مجموعی مزاج کو پیشِ نظر رکھ کر سرانجام دینا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ منصوبہ اُمت میں خلفشار اور زندقہ و الحاد کا سبب بنے گا۔
(بحوالہ: سہ ماہی ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘ علیگڑھ، بھارت۔ اکتوبر۔دسمبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply