سوچی (Sochi) میں ۲۰۱۴ء کے سرمائی اولمپکس ہوں گے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ڈیڑھ سو سال قبل ایک پوری قوم کا نام و نشان مٹانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ مارے جانے والوں کی اولاد آج بھی انصاف کے لیے سرگرداں ہے۔
اگر روسی صدر ولادی میر پوٹن یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ہنگامے کافی ہیں اور بیرون ملک کسی بھی نوعیت کے احتجاج سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا بھر میں لوگ سوچی کے انتخاب پر احتجاج کر رہے ہیں۔ اسکیئرز اور دوسرے بہت سے ایتھلیٹس نے سرمائی اولمپکس کے لیے سوچی کے انتخاب کو داد دی ہے مگر استنبول، برسلز اور نیو یارک میں ہونے والے احتجاج میں ہزاروں افراد نے شرکت کرکے پوٹن کی ’’پارٹی خراب‘‘ کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
روس کے خلاف احتجاج کرنے والے چَرکیشینز (Circassians) کے ورثا ہیں۔ ڈیڑھ صدی قبل موجودہ جارجیا اور بحرِ اسود کے درمیان ایک چھوٹا سا ملک آباد تھا۔ روس کی استعماری فوج نے پورے کاکیشیا کو مطیع کرنے کے لیے لشکر کشی کی اور اس ملک کا نام و نشان مٹا ڈالا۔ چَرکیشینز نے چار عشروں تک مزاحمت کی مگر پھر ان کی ہمت جواب دے گئی۔ ۲۱ مئی ۱۸۶۴ء کو سوچی کے مقام پر انہوں نے ہتھیار ڈالے جس کے بعد انہیں اپنے آبا کی زمین سے بے دخل کردیا گیا۔ ان کی اولادیں سب کچھ تقریباً بھول چکی تھیں، مگر ۲۰۰۷ء میں جب انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی نے روس کو سوچی میں ۲۰۱۴ء کے سرمائی اولمپکس منعقد کرنے کی اجازت دی تو چَرکیشینز کے ورثا میدان میں آگئے۔
دانیال مرزا سوال کرتا ہے کہ سرمائی اولمپکس میں حصہ لینے والے ایتھلیٹس کو کیا معلوم کہ ڈیڑھ صدی قبل سوچی سمیت پورے خطے میں کیا ہوا تھا۔ دانیال مرزا کا تعلق چَرکیشینز کے ورثا سے ہے۔ گزشتہ ماہ اس نے اپنے دو ساتھیوں کلارا (Clara) اور ایلن کیڈکوئے (Allan Kadkoy) کے ساتھ نیو جرسی (امریکا) سے ترکی کا سفر کیا۔ روسی استعمار نے جن چَرکیشینز کو بے دخل کیا تھا وہ ترکی میں آباد ہوگئے تھے۔ استنبول میں دانیال مرزا کو ہزاروں چَرکیشینز کے ساتھ مل کر روسی قونصلیٹ پر مظاہرہ کرنا تھا۔ پولیس نے سیکورٹی پہلے ہی سخت کر دی تھی۔ ہزاروں افراد استنبول کی استقلال اسٹریٹ پر جمع ہوئے۔
دانیال مرزا سمیت ہزاروں چَرکیشینز نے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے روس سے مطالبہ کیا کہ جن لوگوں کو ڈیڑھ صدی قبل ان کی زمین سے بے دخل کیا گیا تھا ان کی اولاد کو دوبارہ آبا کی زمین تک جانے کا حق دیا جائے، ڈیڑھ صدی قبل لاکھوں افراد کے قتل کا اعتراف کیا جائے اور سوچی سرمائی اولمپکس منسوخ کیے جائیں۔ ایلن کیڈکوئے اور کلارا کیڈکوئے نے بھی روس کے خلاف احتجاج میں دانیال مرزا کا خوب ساتھ دیا۔ اس نے بعد میں بتایا کہ اس نے پہلی بار ایسی زبان میں نعرے لگائے ہیں جو وہ نہیں جانتا۔ وہ ایک جائز مطالبے کی حمایت کے لیے دوست کے ساتھ امریکا سے آیا تھا۔
چَرکیشینز نے سوچی سرمائی اولمپکس کے حوالے سے یہ کوئی پہلی بار احتجاج نہیں کیا۔ ۲۰۱۰ء میں وینکوور (Vancouver) کے سرمائی اولمپکس میں بھی چَرکیشینز نے احتجاج کرتے ہوئے ۲۰۱۴ء کے سرمائی اولمپکس کا مقام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ تب تجزیہ کار اور مبصرین حیران رہ گئے تھے کہ یہ چَرکیشینز کہاں سے آگئے؟
سرمائی اولمپکس کے لیے سوچی کے منتخب ہونے پر صدر پوٹن بہت خوش ہیں۔ یہ ان کے لیے ذاتی فتح کی مانند ہے۔ وہ دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ سوویت دور میں پیدا ہونے والی تمام مشکلات پر اب روسی حکومت قابو پاچکی ہے، تمام مسائل حل کیے جاچکے ہیں۔
آج دنیا پوچھ رہی ہے کہ چَرکیشینز کون ہیں۔ مگر ڈیڑھ صدی قبل یہ معاملہ نہ تھا۔ تب چَرکیشینز کے مزاحمت کار مغرب کی آنکھ کا تارا تھے کیونکہ وہ روس کی توسیع پسندی کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر جب چَرکیشینز روسی استعمار کے سامنے شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے تب مغرب اور باقی دنیا نے انہیں بھلا دیا۔ ایک مؤرخ کے محتاط اندازے کے مطابق روسیوں کے ہاتھوں چار لاکھ چَرکیشینز موت کے منہ کا نوالہ بنے اور پانچ لاکھ افراد اپنی زمین سے بے دخل کر دیے گئے۔ یہ لوگ شدید بے سر و سامانی کی حالت میں ٹوٹی پھوٹی اور گنجائش سے کہیں زیادہ مسافروں کو لے جانے والی کشتیوں میں سوار ہوکر ترکی اور دیگر ممالک کی طرف گئے۔ کچھ ہی لوگ تھے جنہیں روس میں سکونت پذیر رہنے کی اجازت دی گئی۔
چَرکیشینز کو دنیا نے بہت تیزی سے بھلا دیا۔ ان کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں بھی خال خال ملتا ہے۔ دنیا بھر میں استعماری قوتوں کے مظالم کا ذکر ہوتا ہے تو بات چَرکیشینز تک نہیں پہنچ پاتی۔ انہیں یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اُس خطے اور نسل سے تعلق نہ رکھنے والا واحد فرد ہوں جس نے اس موضوع پر کتاب لکھی ہے اور وہ کتاب بھی ۲۰۱۰ء میں شائع ہوئی۔
فوجی اور سفارتی دستاویزات میں چَرکیشینز پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان کی ناگفتہ بہ حالت کے مفصل تذکرے جا بجا ملتے ہیں۔ ۱۸۶۴ء میں جو چَرکیشینز کسی نہ کسی طرح ترکی پہنچنے میں کامیاب ہو بھی گئے تھے انہیں طرح طرح کی بیماریوں نے آ لیا۔ سلطنتِ عثمانیہ کے ایک ہیلتھ انسپکٹر نے لکھا کہ ’’روزانہ ۲۰۰ سے زائد پناہ گزین موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں اور جو کسی نہ کسی طرح موت کو شکست دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں، اُن میں بہت سے شدید بیمار اور لاغر ہیں‘‘۔ یہ رپورٹ اس وقت کے قونصل جنرل کے بھیجے ہوئے خطوط میں پائی جاتی ہے۔ روسی فوج نے چَرکیشینز کو ان کی زمین سے بے دخل کرتے ہوئے چھوٹی بڑی کشتیوں میں سوار کیا اور ہانک دیا۔
روسی پارلیمنٹ نے سوویت دور میں جوزف اسٹالن کے ہاتھوں چیچن، تاتاروں اور وولگا جرمنز (Volga Germans) کے قتل کو نسل کشی اور قتل عام کے زمرے میں داخل کیا تھا۔ سرد جنگ ختم ہوئی اور انٹرنیٹ عام ہوا تو ۲۰۰۵ء میں ایک چرکیشینز دکاندار اور سیاسی کارکن مراد برزگوف (Murat Berzegov) نے روسی پارلیمنٹ کو خط لکھا کہ چَرکیشینز کے قتل کو بھی ریاستی مشینری کے ہاتھوں انجام پانے والے قتلِ عام سے تعبیر کیا جائے۔ روسی پارلیمنٹ نے اس درخواست کے جواب میں خاموشی اختیار کرلی۔ مراد برزگوف کو دھمکیاں دی گئیں۔
جب سوچی کو ۲۰۱۴ء کے سرمائی اولمپکس کے لیے منتخب کیا گیا تو چَرکیشینز نے احتجاج کرتے ہوئے مقام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی نے یہ مطالبہ مسترد کردیا۔ کمیٹی کے میڈیا ڈائریکٹر نے ’’نیوز ویک‘‘ کو لکھا ’’ہم اولمپکس کے انعقاد کے کسی بھی ملک کا انتخاب اس فلسفے کے ساتھ کرتے ہیں کہ کھیلوں کے انعقاد سے ہم آہنگی فروغ پائے گی اور ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔ کبھی کبھی اولمپکس کا انعقاد ہم آہنگی کو فروغ دینے میں غیر معمولی معاون ثابت ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ہم اولمپکس کے ذریعہ کسی بھی خطے میں ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنے میں ایک خاص حد تک کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ بہت سے ایشو ایسے ہیں جنہیں محض کھیلوں کے انعقاد سے طے نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
’’نو سوچی ۲۰۱۴ء‘‘ ایک مزاحمتی گروپ ہے جس کے سرکردہ ارکان کہتے ہیں کہ سوچی اولمپکس بھی چَرکیشینز کا کیس عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے کا اچھا موقع ہے۔ اس گروپ کے ارکان کا تعلق اسرائیل، ترکی، بلجیم، امریکا، جرمنی، فرانس اور اردن سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کاکیشیا میں حریت پسند پرومیتھیس (Prometheus) نے جو مشعل جلائی تھی، وہ روسی قاتلوں کے ہاتھوں میں نہ دی جائے۔
جب چَرکیشینز نے اپنی مہم تیز کی تو روسی حکومت بھی حرکت میں آئی اور انگریزی زبان کے روسی چینل ’’رشیا ٹوڈے‘‘ کی ایڈیٹر انچیف مارگریٹا سمونیان (Margarita Simonyan) کو ٹاسک سونپا گیا۔ اس نے ایک پروگرام میں صفائی اور نکاسیٔ آب کو سوچی کا بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنگیں تو دنیا کے ہر خطے میں لڑی گئی ہیں تو کیا پوری دنیا میں اولمپکس کا انعقاد روک دیا جائے؟ اس نے سوچی پر اپنے خصوصی پروگرام میں واشنگٹن سے ایک ماہر کو بھی لائن پر لیا مگر بات صرف موسم پر کی۔
مارگریٹا سمونیان نے اپنے آن لائن بلاگ پر بھی سوچی سرمائی اولمپکس کے مخالفین کا پیچھا کیا اور ان کے ارادوں کو روس دشمن قرار دیا۔ اس نے اپنی بلاگ پوسٹنگز میں ان لوگوں پر شدید نکتہ چینی کی ہے جو ڈیڑھ سو سال پہلے کی ایک چھوٹی سی قوم کے غم میں گھلے جارہے ہیں جبکہ اس کا نام بھی انہوں نے دو تین دن پہلے سنا ہے۔ مگر مارگریٹا سمونیان کی باتوں نے تو جلتی پر تیل چھڑک دیا۔ اس کے پروگرام کی وڈیو دنیا بھر میں پھیل گئی اور چَرکیشینز مزید منظم ہوگئے۔ ۲۱ مئی ۲۰۱۲ء کو انہوں نے روسی پارلیمان کے چند نائبین (Deputies) کو اپنے مطالبات کی فہرست سونپ دی جس میں کہا گیا تھا کہ چَرکیشینز کے خلاف لشکرکشی کو قتل عام قرار دیا جائے، چَرکیشینز کے گروپوں میں سرکاری مداخلت بند کی جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چَرکیشینز کو ان کی آبائی زمین پر واپس جانے کی اجازت دی جائے۔
روسی پارلیمنٹ ڈوما (Duma) کے ایک نائب اور تاریخ دان سرگئی مارگوف نے تسلیم کیا کہ چَرکیشینز کو بڑے پیمانے پر قتل کیا گیا مگر ساتھ ہی ساتھ وہ اس نکتے پر بھی بضد ہیں کہ اسے قتل عام، نسل کُشی یا جینوسائڈ قرار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا استدلال ہے کہ روس کے دشمن چَرکیشینز کے کیس کو اچھال رہے ہیں۔ ان کے دکھوں کا مداوا ضرور ہونا چاہیے مگر اس بہانے روس کو بدنام اور کمزور کرنے کی کوئی کوشش برداشت نہیں کیا جاسکتی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ روس ہمیشہ کاکیشیا کے خطے میں لڑتا ہی رہے۔
چَرکیشینز نے ماسکو کے دشمنوں میں اپنے دوست تلاش کر لیے ہیں۔ ایک سال قبل جارجیا کی پارلیمان نے ایک قرارداد کی منظوری دی جس میں چَرکیشینز کے قتل کو سرکاری مشینری کے ہاتھوں قتل عام اور نسل کُشی قرار دیا گیا۔ چَرکیشینز کے قتل کو نسل کُشی قرار دینے والا جارجیا پہلا ملک ہے اور کچھ ہو نہ ہو، سوچی سرمائی اولمپکس کے ذریعے چَرکیشینز کو اپنی بات دنیا تک پہنچانے کا ایک اچھا موقع مل جائے گا۔
(“The Return of the Circassians”.. “Newsweek”. June 8th, 2012)
Leave a Reply