
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روسی فوج کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۴ء کے دوران ماسکونے دور امن میں ایک حیرت انگیز مہم چلائی، جس کے تحت اپنی فوج کی تعداد پانچ ملین سے کم کر کے ایک ملین کر دی ۔ اسٹاک ہوم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ برائے عالمی امن کے مطابق ۱۹۸۸ء میں کریملن کا دفاعی بجٹ ۲۴۶ ارب ڈالر تھا، جو ۱۹۹۴ء میں کم ہو کر ۱۴ ارب ڈالر رہ گیا۔ اس کے علاوہ حکومت نے سات لاکھ اہلکاروں کو افغانستان، جرمنی، منگولیا اور مشرقی یورپ سے واپس بلا لیا۔ نوے کی دہائی میں فوج کے پیشے کا وقار بہت متاثر ہوا۔ صورتحال یہ تھی کی ۲۰۰۰ء میں ایٹمی آبدوز ’’کرسک‘‘ بحیرۂ بیرینٹس میں ڈوبی تو اس کے کپتان کی تنخواہ فقط دو سو ڈالر تھی۔
۱۹۹۱ء سے ۲۰۰۸ء تک یعنی بورس یلسن اور ولادی میر پوٹن کے پہلے دورِ حکومت میں روس نے سابق سوویت ریاستوں میں اپنی فوج نہایت کم کر دی تاکہ ان ممالک سے تنازعات میں کمی کی جاسکے یا تنازعات کا خاتمہ کیا جاسکے۔ لہٰذا نوے کی دہائی میں روسی فوج کی ساری مصروفیت صرف جارجیا اور مالدووا کے نسلی فسادات اور تاجکستان کی خانہ جنگی کنٹرول کرنے تک محدود تھی۔ حتیٰ کہ ۱۹۹۴ء میں جب صدر بورس یلسن نے چیچنیا میں علیحدگی پسند تحریک کو کچلنے کے لیے فوج بھیجنے کا اعلان کیا، تو روسی فوج کے سربراہ جن کے پاس دس لاکھ ہر دم تیار فوج تھی، وہ صرف ۶۵۰۰۰ فوجی چیچنیا بھیجنے کے لیے تیار کر سکے۔
سابقہ سوویت یونین کی حدود سے باہر روس نے ہمیشہ احتیاط سے کام لیا۔ کبھی اسے امریکا کا تعاون درکار رہا تو کبھی اس نے نیٹو کے ساتھ عملی تعاون بھی کیا، جس کی مثال ۱۹۹۶ ء میں بوسنیا میں ہونے والے امن آپریشن میں حصہ لینا ہے۔ لیکن نوے کی دہائی کے وسط میں جب نیٹو کی رکنیت حاصل کرنے کی امیدیں دم توڑ گئیں، تو روس نے اس اتحاد کی مشرق کی طرف ہونے والی وسعت پر خوب احتجاج کیا۔ اس کے علاوہ ۱۹۹۹ء میں یوگوسلاویہ پر ہونے والی بمباری اور ۲۰۰۳ء میں عراق پر قبضے کے خلاف بھی آواز بلند کی، لیکن وہ اس وقت اتنا طاقتور نہیں تھا کہ کسی حملے کو روک سکتا۔ پھر کریملن نے ایٹمی صلاحیت میں اضافے کو اپنا ہدف بنالیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کے صرف ایٹمی صلاحیت میں اضافہ ہی اس کی سلامتی اور خودمختاری کی ضمانت ثابت ہو گا۔
اب زوال اور انحطاط پذیری کے وہ دن گئے۔ ۲۰۰۸ء سے پوٹن نے اس دل شکستہ فوج میں اصلاحاتی پروگرام کا آغاز کیا۔ جس کے تحت دفاعی اخراجات میں بے پناہ اضافہ کیا گیا۔ اس پروگرام کی بدولت اب روسی فوج اس قابل ہو چکی ہے کہ اپنے اہداف حاصل کر سکے۔ ماسکو نے فروری۲۰۱۴ء میں پہلی دفعہ بغیر کسی نشان کی وردیوں میں ملبوس اپنے سپاہی یوکرین کے شہر کریمیا پر قبضے کے حصول کے لیے بھیجے اور ساتھ ہی کیف پر بڑے حملے کی دھمکی بھی دی۔ اس کے بعد یوکرین کے علاقے ’’دنباس‘‘ میں روسی حمایت یافتہ باغیوں کو اسلحہ، خفیہ معلومات اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کی فراہمی بھی جاری رکھی گئی۔ ۲۰۱۵ء میں روس نے تاریخ میں پہلی دفعہ اپنی مسلح افواج کو شام میں بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے باغیوں پر بمباری کرنے کا حکم دے کر مشرق وسطیٰ میں براہ راست مداخلت کا آغاز کر دیا۔
باوجود اس کے کہ یہ مہم جوئی ان مہمات سے کہیں چھوٹی ہے جو کبھی روسی تاریخ کاحصہ رہی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ روس ایک بار پھر اس قابل ہو گیا ہے کہ کسی بھی عالمی طاقت کے مقابلے میں نہ صرف اپنی سرحدوں کا بہتر طریقے سے دفاع کر سکے بلکہ اپنی حدود سے باہر بھی فوج بھیج سکے۔ تقریباً پچیس سال کا عرصہ کمزور فوج کے ساتھ گزارنے کے بعد روس ایک دفعہ پھر یوریشیا میں بڑی فوجی قوت بن کر سامنے آیا ہے۔
جارجیا سے آغاز:
روسی فوج کی جدیدیت کی کہانی ۲۰۰۸ء میں جارجیا کی جنگ سے شروع ہوئی۔ اس سال روسی فوج نے مغرب کے حمایت یافتہ صدر میخائل ساکاش ولی کی فوجوں کو شکست سے دوچار کر کے’’ ابخازیہ‘‘ اور ’’جنوبی اوسیشیا‘‘کی ریاستیں دوبارہ اپنے کنٹرول میں لے لیں۔اس پانچ دن کی مہم میں روس نے واضح فتح حاصل کی۔اس فتح کے نتیجے میں روس نے نہ صرف نیٹو کی سابق سوویت ریاستوں کی جانب پھیلاؤ کے آگے بند باندھ دیا (جس سے مغربی افواج کی خطے میں عمل دخل کی حدود متعین ہو گئیں)، بلکہ اپنے مغربی اور جنوبی پڑوس میں تزویراتی سبقت بھی حاصل کر لی۔ ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا کو زیر نگیں کرنے سے جنوبی قفقاز کے دو اہم علاقوں پر بھی روس کا کنٹرول بڑھ گیا۔ ان علاقوں میں سوچی بھی شامل ہے، جہاں اب روسی صدر کی جنوبی رہائش گاہ ہے اور یہ علاقہ روس کا تیسرا غیر سرکاری دارالحکومت کہلاتا ہے۔
جارجیا کی جنگ سے حاصل ہونے والے فوائد کو اگر ایک طرف رکھ کر جائزہ لیا جائے تو اس وقت روسی فوج میں اصلاحاتی پروگرام کا آغاز نہیں ہواتھا۔ روسی فوج اس بات پر مجبور تھی کہ پرانے اسلحے کو استعمال کرے، اس کے افسران بہت مشکل سے فوج کی کمانڈ کر رہے تھے، حالت یہ تھی کہ انہیں احکامات دینے کے لیے ذاتی موبائل بھی استعمال کرنا پڑے، کیونکہ وائر لیس کا نظام تباہ ہو چکا تھا، سپاہی بھی تربیت یافتہ نہ تھے۔اس جنگ میں روسی فوج کے ۵ طیارے تباہ ہوئے، جس میں بمبار طیارہ بھی شامل تھا۔ ماسکو اپنے سے کہیں کمزور دشمن سے جنگ تو جیت گیا، لیکن اس جنگ نے فوج میں موجود کمزوریوں کو اس حد تک نمایاں کر دیا کہ اب انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔
جارجیا سے جنگ کے دو ماہ بعد ہی کریملن نے فوج کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے اور اس کی تنظیم نو کے ایک اہم پروگرام کا آغاز کر دیا۔ روسی حکام کے مطابق ۲۰۲۰ء تک اس کام کے لیے تقریباً ۷۰۰ ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کے تحت روسی فوج، جسے عالمی جنگیں لڑنے کے لیے بنایا گیا تھا اور اسی حساب سے اس کی عددی قوت تھی، اسے تیزی سے حرکت کرنے والی اور علاقائی تنازعات سے نمٹنے والی فوج میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ ماسکو نے عہد کیا ہے کہ وہ اپنی فوج کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بہتر بنائے گا، اس کے ساتھ اس کی جنگی صلاحیتوں میں بھی اضافہ کرے گا۔ اس کے علاوہ ۱۸۷۰ء سے جاری روایتی طریقہ کار کو ختم کر کے ایسا نظام متعارف کروایا جا رہا ہے جس کے تحت فوج کو سرحدوں پر یا سرحد کے کسی قریبی علاقے میں تعینات کرنے کے لیے بہت پڑے پیمانے پر حرکت میں لانے کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ فوج کو کسی بھی جگہ بہت تیزی سے تعینات کیا جا سکے گا۔
آنے والی ان تبدیلیوں کے ساتھ روس کی دفاعی صنعت نے بھی فوج کو جدید اسلحہ اور آلات سے لیس کرنے کے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ تقریباً دو دہائیوں کے بعد اب کریملن نے بڑی جنگی مشقوں کے لیے بجٹ بحال کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب روسی فوج بغیر کسی پیشگی اجازت کے بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں بھی کر رہی ہے تاکہ اس کی جنگی صلاحیتوں میں اضافہ ہو۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب روسی فوج کی تنخواہیں بھی پرکشش کر دی گئی ہیں۔ جارجیا کی جنگ کے صرف پانچ سال بعد جب یوکرین کا تنازعہ کھڑا ہوا تو روسی فوج جارجیا کی جنگ میں حصہ لینے والی کمزور، دل شکستہ اور غیر منظم فوج سے کئی درجے بہتر حالت میں تھی۔
روسی فوج نے جزیرہ نما کریمیا پر نہایت مہارت سے قبضہ کیا اور اس آپریشن کے دوران جانی نقصان بھی نہ ہونے کے برابر رہا۔ اس علاقے پر قبضے کے منصوبے تو اسی وقت سے بننا شروع ہو گئے تھے جب یوکرین نے۲۰۰۸ء میں نیٹو میں شمولیت کے لیے دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے روسی فوج اور ایجنسیوں میں ہم آہنگی درکار تھی اس کے ساتھ ساتھ فوج کے مورال کا بلند ہونا بھی لازم تھا۔
کریمیا میں ہونے والا آپریشن ایک مکمل جنگ نہیں تھی، اصل جنگ تو کچھ ہفتے بعد ’’دنباس‘‘ میں لڑی گئی۔ ماسکو نے اپنی فوج مشرقی یوکرین میں سرحد پار اتارنے کے بجائے ’’کیف‘‘ کو دھمکی دے کر ہی کام چلا لیا اور یورپ کی مشہور اصطلاح ’’ہائبرڈوارفیئر‘‘ کی شاطرانہ چال کا استعمال کرتے ہوئے دنباس میں روس نواز علیحدگی پسندوں کو خفیہ اور لاجسٹک مدد فراہم کی اور اس کے ساتھ ساتھ یوکرین کی سرحد پر فوجی مشقوں کا آغاز کر دیا، تاکہ ’’کیف‘‘ کو پریشانی میں مبتلا رکھا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماسکو نے حاضر سروس فوجی بھی مشرقی یوکرین بھیجے جو کہ ظاہری طور پر رخصت پر تھے۔ لیکن یوکرین میں لڑنے والے زیادہ تر اہلکار رضاکاروں اور باقاعدہ فوج کے اہلکاروں پر مشتمل تھے، جس نے سلسلہ وار آپریشن کیا۔
عین اس وقت جب یوکرین میں روسی کارروائی جاری تھی، ماسکو نے نیٹو ممالک کو خبردار کیا کہ وہ اس تنازعہ سے دور رہیں ورنہ وہ بھی اس کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔ روسی جنگی طیاروں نے (جو کہ ۲۰۰۷ء سے سرد جنگ کے زمانے کی طرز پر گشت شروع کر چکے تھے) امریکا، برطانیہ، چند اسکنڈے نیویا ممالک اور مغربی یورپ میں بحیرہ اسود اور بحیرہ بالٹک کے قرب و جوار میں بھی پروازیں کیں۔ بعد میں پوٹن نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ ہم نے ایک موقع پر یوکرین میں اپنے مفادات کا دفاع کرنے کے لیے ایٹمی فوج کو بھی تیار رہنے کا حکم دینے پر غور کیا تھا ۔
روس نے یوکرین کے اس تنازعہ سے مختلف فوائد سمیٹے۔ یوکرین پر کھیلے جانے والے اس جوئے سے روس نے ایک طرف تو کریمیا پر قبضہ کر لیا، دوسری طرف ’’کیف‘‘ کو کھلی جنگ کی دھمکی دے کر ڈرائے رکھا، جس کی وجہ سے یوکرینی قیادت اپنی مکمل فوج دنباس میں باغیوں کے خلاف استعمال کرنے سے کتراتی رہی۔ اس جنگ نے خطے سے امریکی اجارہ داری کا خاتمہ کر دیا، اور بالٹک ریاستیں اس خوف کا شکار ہوگئیں کہ ماسکوکسی بھی وقت روس نوازاقلیتی گروہوں کی حمایت میں کریمیا طرز کا آپریشن ان کا ہاں بھی کر سکتا ہے۔ یوکرین میں ہونے والے اس آپریشن کی وجہ سے روسی فوج کو کچھ نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔روس کی اس جارحیت کی وجہ سے نہ صرف یوکرین کی اشرافیہ بلکہ عوام میں ماسکو کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا۔
روس کی فوجی مداخلت اور سرحدوں میں تبدیلی کے باوجود اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ یورپ اپنی روایتی سیاست کی طرف لوٹ جائے،لیکن روس نے اس بات کا اشارہ دے دیا ہے کہ وہ نیٹو کا مقابلہ باآسانی کر سکتا ہے۔۲۰۱۴ ء وہ سال تھا جب یورپی سلامتی کو ایک بار پھر سے دو عالمی طاقتوں سے خطرات لاحق ہو گئے۔
پوٹن، روایت شکن صدر:
یوکرین کی اس جنگ میں کامیابی کے باوجود روسی فوج صرف سابقہ سوویت یونین کی حدود میں پیش قدمی والی روایت پر قائم رہی(یعنی وہ سوویت یونین کی حدود سے نکلنے کی ہمت نہ کر سکی) ۔لیکن پچھلے سال شام کی خانہ جنگی میں کود کر روسی فوج اس تاثر کو بدلنے میں بھی کامیاب ہو گئی۔ماسکو نے چند درجن لڑاکا طیاروں کو داعش اور بشارالاسد مخالف قوتوں کے ٹھکانوں پر حملوں کا حکم دیا، شام میں جدید دفاعی نظام قائم کیا،وسطی روس کے فضائی اڈے سے بمبار طیاروں کو شام میں بمباری کی اجازت دی اورسمندری فوج کو حکم دیا کہ وہ بحیرہ خزر(Caspian sea) اور بحیرہ روم سے شامی اہداف پر میزائل برسائے۔اس طرح سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے اب تک دنیا بھر میں کہیں بھی فوج کے استعمال کرنے کے حوالے سے امریکا کی جو اجارہ داری قائم تھی اس کا بھی خاتمہ کر دیا۔
شام کی جنگ میں کودنے کے وقتی مقاصد تو یہ تھے کہ کسی طرح بشار کی فوج کو شکست سے بچایا جائے اور داعش کو دمشق پر قبضے سے روکا جائے ،ان مقاصد کے حصول کے لیے روس نے اپنے اتحادی یعنی شامی فوج،ایرانی فوج اور حزب اللہ کی بھرپور مدد کی۔ اس جنگ کے نمایاں سیاسی مقصد یہ تھے کہ اس تنازعہ کا ایسا تصفیہ کیا جائے، جو شام اور باقی خطے میں روس کے مفادات کو کسی نقصان سے محفوظ رکھے۔اس کے علاوہ بشار کے بعد قائم ہونے والی حکومت بھی ماسکو کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے، روسی فوج کی شام میں موجودگی برقرار رہے، اس جنگ کے موقع پر ایران، عراق اور کرد فوج کے ساتھ جو فوجی اتحاد بنا ہے اس کو جنگ کے بعد سیاسی اور معاشی شراکت داری میں بدل دیا جائے۔
سب سے اہم بات یہ کہ پوٹن اس بات کے خواہش مند تھے کہ وہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والی سفارتی کوششوں میں امریکا کے ساتھ کام کرے اور ہونے والے کسی بھی معاہدے میں ضامن کا کردار ادا کرے، اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں عالمی طاقت کے طور پراپنی حیثیت کو منوائے۔ صدر پوٹن مسلسل ایک تاریخی مشن پر کام کر رہے ہیں ،وہ روس کو مزید بکھرنے سے بچانے کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کے درمیان اپنی حیثیت کا تعین کرنا چا ہتے ہیں۔شام میں روس کی مداخلت نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ان مقا صد میں کامیابی کے لیے طاقت ور فوج کی کتنی اہمیت ہے۔وسائل کی کمی کے باوجود روس نے شام میں طاقت کے توازن کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور خطے میں پچیس سال پہلے زائل ہو جانے والے اثر ورسوخ کوبھر پور طریقے سے بحال کیا ہے۔
شام میں جاری جنگ نے روس کے لیے مسائل بھی کھڑے کیے۔ نومبر ۲۰۱۵ء میں ترک شام سرحد پر ترک فضائیہ کے طیارے نے روسی لڑاکا طیارہ مارگرایا ۔یہ پچھلے پچیس سال میں روس اور نیٹو ملک کے درمیان اپنی طرز کا پہلا واقعہ تھا۔ روس نے اس عمل کا فوجی طاقت سے جواب تو نہ دیا لیکن اپنے خاص اقتصادی شراکت دار ترکی پر بہت سی پابندیاں عائد کر دیں، جس کی وجہ سے ایک طرف تو دونوں ممالک کے تعلقات شدید متاثر ہوئے، دوسری طرف ترکی کو اربوں ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح ایران، عراق اور شام میں شیعہ حکومتوں کا ساتھ دے کر روس نے ایک کروڑ چھ لاکھ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا، جن میں اکثریت سنیوں کی ہے۔ اس کے ازالے کے لیے روس نے مشرق وسطیٰ کے سنی ممالک سے تعلقات میں بہتری لانے کی کوششیں بھی جاری رکھیں، جیسا کہ مصر۔ دریں اثنا روس نے وسطی ایشیا اور اپنے ہاں سے داعش کے ساتھ مل کر لڑنے والے جہادیوں کو شام میں ہی مصروف رکھنے کے لیے شامی فوج کی امداد بھی جاری رکھی تاکہ وہ جہادی واپس آکر ماسکو کے لیے خطرات کا باعث نہ بنیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ شام میں جاری جنگ میں روس کی مداخلت کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ایسے عسکریت پسندوں کا وہیں خاتمہ کر دیا جائے جو مستقبل میں روس کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
مستقبل کے ارادے:
روسی فوج مستقبل کے حوالے سے کیا ارادے رکھتی ہے؟ ماسکو کی نظر ’’آرکٹک‘‘ کی جانب ہے، جہاں تیزی سے برف پگھلنے کی وجہ سے توانائی کے ذخیرے بھی دریافت ہو رہے ہیں اور نقل وحمل بھی آسان ہو رہی ہے۔ آرکٹک کے ساحلی ممالک، جو روس کے علاوہ سب کے سب نیٹو کے رکن ہیں، وسائل تک رسائی کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ روس بھی اپنے اقتصادی زون کو آرکٹک کی جانب وسعت دینے کی خواہش رکھتا ہے، تاکہ وہاں کے قیمتی وسائل پر ملکیت کا دعویٰ کر سکے اور شمالی سمندری راستے کی حفاظت یقینی بناسکے۔ قطب شمالی میں اپنی پوزیشن مستحکم کر نے کے لیے روس نے سوویت یونین دَور کے چند فوجی اڈوں کو قابل عمل بنانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ اسی طرح خطے میں مزید چھ نئے فوجی اڈے بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ابھی تک تو آرکٹک میں کوئی خاص کشیدگی نظر نہیں آتی۔ لیکن مستقبل میں اگر نیٹو اور روس کے درمیان کوئی بڑا تنازعہ سامنے آیا تو یہ کشیدگی بڑھ سکتی ہے، خاص طور پر غیر جانبدار رہنے والے شمالی یورپ کے دو ممالک فن لینڈ اور سویڈن نے نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست دی تو کشیدگی میں اضافہ یقینی ہوگا۔
اس کے علاوہ داعش نے اگر وسط ایشیائی ممالک کی جانب پیش قدمی کی، افغانستان میں تو وہ قدم جما چکی ہے، تو ان کمزور ممالک کے دفاع کے لیے روس کو اپنی جنوبی سرحد پر فوجی آپریشن کرنا پڑے گا۔قازقستان اور ازبکستان جو کہ خطے کی بڑی معیشتیں ہیں بہت جلد قیادت کی تبدیلی کے عمل سے گزرنے والی ہیں کیوں کہ یہاں کے ضعیف صدور یا تو استعفے دے رہے ہیں یا پھر اپنی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ کرغزستان اور تاجکستان، جہاں روس اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے، ان ممالک میں بیروزگاری، بدعنوانی، نسلی تعصب اور مذہبی انتہا پسندی میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے ۔یہ سب عوامل وہی ہیں جو عرب بہار کی وجہ بنے تھے ۔
افغانستان کی جنگ کی یادیں تو ابھی تازہ ہیں، اس لیے وہاں تو داعش کے خاتمے کے لیے ماسکو شاید افغان حکومت اور طالبان کی مدد کرنے کو ترجیح دے گا۔ لیکن وسط ایشیا میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر قازقستان، تاجکستان اور ترکمانستان کی حکومتیں کسی بھی وقت اسلامی عسکریت پسندوں کے حملوں کی زد میں آتی ہیں تو روس بغیر کسی تردد کے اپنی فوج ان ممالک میں اتارد ے گا، کیوں کہ یہ چاروں ممالک تو مشترکہ دفاع کے لیے بننے والے اتحاد کا حصہ بھی ہیں۔
آنے والے سالوں میں روسی فوج یوریشیا پر اپنی توجہ مرکوز رکھے گی،کیوں کہ ماسکواس خطے میں فوج کے استعمال کو اپنے دفاعی حکمت عملی سمجھتا ہے۔اگر روس شام میں سیاسی اور فوجی مقاصد کے حصول میں ناکام ہو جاتا ہے تو شاید وہ آئندہ اپنی سرحد سے دور کسی فوجی مداخلت سے باز رہے ،لیکن اگر وہ شام میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو دنیا بھر میں فوج کے استعمال کے حوالے سے اس کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔اور وہ عالمی طاقتوں کی دوڑ میں امریکا اور چین کے ہم پلہ ہونے کا دعویٰ بھی کرے گا۔
بنیادی سوچ:
اگرچہ روس نے اپنی فوج میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کروائی ہیں اور پالیسیاں تبدیل کی ہیں، لیکن اب بھی وہ بنیادی طور پر امریکا اور یورپ کو اپنا اصل دشمن سمجھتا ہے۔ روس کی قومی سلامتی حکمت عملی برائے ۲۰۱۶ء میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ امریکا کی پالیسیاں اور پینٹاگون کا دنیا بھر میں کہیں بھی اپنے اہداف کو ایک گھنٹے میں روایتی ہتھیاروں سے نشانہ بنانے کی صلاحیت کے حصول کا منصوبہ بھی بنیادی طور پر روس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور نیٹو کا فوجی صلاحیتوں میں اضافہ بھی ہمارے لیے خطرات کا باعث ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے روس اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو جدید بنانے کے منصوبے جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے ساتھ دفاعی نظام کو بھی جدید تر بنا رہا ہے۔ دوسری طرف روس مشرقی یورپ میں اپنی فوجی موجودگی بڑھانے پر غور کر رہا ہے جو کہ کسی بڑے فوجی تنازعہ کا سبب بن سکتا ہے۔ روسی فوج امریکا کی فوج جتنی طاقتور اور جدید تو نہیں ہوسکتی اور نہ ہی وہ مستقبل قریب میں کسی نیٹو ملک پر قبضہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ روسی قیادت عالمی بساط پر اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن اس کو سوویت دور کی آمرانہ سوچ سے باہر نکلنا ہو گا، کیونکہ اسی سوچ نے اس دور میں بھی سوویت یونین کو کمزورہی کیا تھا۔
روس کے پاس نہ تو امریکا جتنے وسائل ہیں اور نہ ہی امریکا جتنی مضبوط معیشت ۔نہ ہی اس کی بوڑھی ہوتی آبادی کا مقابلہ امریکا کی اس سے دگنی آبادی سے کسی طور پر کیا جا سکتا ہے۔ روس کی دفاعی صنعت دو دہائیوں کے مشکل حالات سے حال ہی میں نکلنے میں کامیاب ہوئی ہے ۔لیکن ابھی بھی بہت سے شعبہ جات نہایت کمزور ہیں۔ اگرچہ روس کے دفاعی اخراجات مجموعی ملکی پیداوار کا ۲ء۴ فیصد ہیں، لیکن یہ تناسب زیادہ عرصے تک برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا، خاص کر خراب معاشی حالات کے اس دور میں۔ توانائی کی قیمتوں میں کمی اور یورپی پابندیوں کے باوجود روسی حکام اس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ فوج کو جدید بنانے کے پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔لیکن اس پروگرام پر عمل درآمد کی رفتار نہایت سست ہو چکی ہے۔
روسی صدر اور ان کے ساتھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے مستقبل کا دارومدار اس بات پر ہے کہ عوام کیا احساسات رکھتی ہے۔جیسا کہ کریمیا پر قبضے کو روسی عوام تاریخی بدلے کے طور پر دیکھتی ہے اور غیر معمولی دفاعی اخراجات کو بھی اس لیے قبول کرتی ہے کہ اس سے روس عالمی منظر نامے میں کھوئی ہوئی حیثیت دربارہ بحال کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ابھی تک تو یہی محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اگر فوجی اصلاحات کا یہ پروگرام ان کی سماجی سہولیات میں کمی اور ان کے طرز زندگی کے معیار میں گراوٹ کا باعث بنا تو یہ حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ جیسا کہ روس کے لوگ لچکدار رویوں کی وجہ سے مشہور ہیں، لیکن کریملن کو معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے اورآنے والے چار پانچ سالوں میں بہتر طرز حکمرانی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ورنہ ملک کے سیاسی نظام کی بنیادوں میں موجود سوشلزم کسی بھی وقت سر اٹھا سکتا ہے۔اور اس معاملے میں عوامی جذبات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ روس میں مطلق العنانیت کا دور ہے لیکن اس مطلق العنانیت میں عوام کی رائے بھی شامل ہے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“The Revival of the Russian Military”. (“Foreign Affairs”. May/June, 2016)
Leave a Reply